تعزیت کالغوی معنی ہے مصیبت زدہ کو صبر دلانا غمخواری کرنا۔ اصطلاحی معنی ہے صبر کا حکم دینا،گناہ سے ڈرانے،میت کے لیے مغفرت اور مصیبت زدہ کے لیے مصیبت کی تلافی کی دعا کرنا[1] عام طور پرکسی کا کوئی عزیز رشتہ دار فوت ہو جائے تو اس کے گھر جا کر اس کی ہمت بندھانا اور فوت شدہ کے لیے دعا کرنا تعزیت کہلاتا ہے۔

احادیث مبارکہ ترمیم

  • ام سلمہ سے روایت ہے کہ ر سول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ہمارے گھر) تشریف لائے۔ اس وقت ابو سلمہ کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو سلمہ کی آنکھیں بند کرکے فرمایا: ’’جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کے تعاقب میں جاتی ہے۔‘‘ گھر والے اس بات پر رونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اپنے مرنے والوں کے حق میں اچھی بات کہو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ابوسلمہ کے حق میں) یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ! ابوسلمہ کو بخش دیجیئے، اسے ہدایت یافتہ لو گوں میں بلندمرتبہ عنایت فرمائیے اور اس کے ورثاء کی حفاظت فرمائیے، اے ربّ العالمین، ہم سب کو اور مرنے والے کو معاف فرما دیجئے، میت کی قبر کشادہ اور اسے نورسے بھر دیجیئے۔‘‘(مسلم،عن ام سلمہ ا )
  • ام عطیہ ا کا بیٹافوت ہو گیا۔ تیسرے دن انھوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگواکر استعمال کی اور کہا: ’’ہمیں (مسلمان عورتوں کو) شوہر کے علاوہ کسی اور پر 3 دن سے زیادہ سوگ کا اظہار کرنے سے منع کیا گیاہے۔‘‘[2]
  • ’’جب جعفر کی وفات کی خبر آئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اہل و عیال کے لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ ان لوگوں کو ایسی پریشانی آئی ہے جس میں وہ کھانا نہیں پکا سکیں گے۔‘‘[3]
  • ’’میری امت میں سے (جاہل) لوگ زمانہ جاہلیت کے 4 کام نہیں چھوڑیں گے: (1) اپنے حسب (خاندان) پر فخر کرنا، (2) دوسروں کے حسب پرطعنہ زنی کرنا، (3) ستاروں سے بار ش طلب کرنا اور (4) (مرنے والوں پر) بین (نوحہ) کرنا۔‘‘ پھرآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’اگر نوحہ کرنے والی عورت توبہ کرنے سے پہلے فوت ہو گئی تو اسے قیامت کے دن گندھک اور خارش والا کرتا پہناکر اٹھایا جائے گا۔‘‘(مسلم۔ عن ابی مالک )
  • ’’مسلمان عورتوں سے بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی عہد لیاتھاکہ وہ نوحہ (ماتم) نہیں کریں گی۔‘‘ (بخاری۔ عن ام عطیہ ا )
  • میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی کی تدفین کے وقت موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (بخاری،عن انس )

مخصوص دنوں کا تعین ترمیم

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے تین دن سوگ کرنے کا ثبوت تو واضح ہے لیکن تیسرا، دسواں، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کیے جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد مرنے والے کے ایسے عزیز، رشتہ دار اور دوست احباب جو بوجوہ جنازے میں شریک نہیں ہو سکتے کو میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کا موقع فراہم کرنا ہے۔ بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لیے مخصوص کر دیے تاکہ دونوں کو سہولت رہے، یہی دن بعد میں تیسرا یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہو گئے۔ یعنی جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے اور جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسویں میں شریک ہو جائے۔

مقررکردہ دنوں میں اعزاء و اقارب کے جمع ہونے کے بعد گپ شپ کی بجائے تلاوت قرآن پاک، کلمہ طیبہ اور درود و سلام وغیرہ کا ورد کرنا یا حسب توفیق صدقہ و خیرات کرنا چاہیے تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کر دیا جائے اور دعائے مغفرت کی جائے، تو یہ باعث ثواب ہے اور میت کے لیے کارآمد ہے۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. موسوعۃ الفقہیہ،وزارت اوقاف کویت جلد12، صفحہ329
  2. بخاري، الصحیح، 5: 2042، رقم: 5024، دار ابن کثیر الیمامة بیروت مسلم، الصحیح، 2: 1123، رقم: 1486، دار احیاء التراث العربي بیروت
  3. احمد بن حنبل، 1: 205، رقم: 1751 ابن ماجہ، السنن، 1: 514، رقم: 1610
  4. تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ از مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی