محمد بن عبد اللہ

عرب سیاسی رہنما اور بانی اسلام

کام جاری صارف: Tahir697

محمد ﷺ بن عبد اللہ
اسم محمدی خط ثلث میں
احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی، خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفٰی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش 9 ربیع الاول 53 ق.ھ ، 1 عام الفیل/ 22 اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات 12 ربیع الاول 11ھ / 8 جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در اسلام
بعثت رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)
مہر

ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔[2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2

یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتدا کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔

حلیہ

ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ یوں بیان کیا: ڈیل ڈول، قد و قامت دونوں معتدل اور درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا، ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل، آنکھیں سرمگیں، خندہ دہن، خوبصوورت ماہ تابی چہرہ، داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔[3]

مقالات بسلسلۂ
محمد
محمد
 
باب محمد


صبح سعادت

تاریخ ادیان و ملل شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گزر چکی ہیں اور معمورہ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقت حق کو فراموش کر چکا ہے تمام کائنات انسانی خدا پرستی کے بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور ہر ملک میں نوع انسانی سے لے کر نوع جمادات تک کی پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی خدا کا بیٹا۔ ایک اگر مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے سورج کی پوجا ہے چاند تاروں کی پرستش ہے حیوانوں ‘ درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے ‘ آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے اور نہیں ہے تو صرف ذات واحد قابل پرستش نہیں ہے نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اس کو اگر مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعہ وہ اگر خالق موجودات ہے تو دوسروں کے واسطہ اور احتیاج کے ساتھ مادہ ‘ روح اور ترکیب سب ہی باتوں کا محتاج ہے وہ اگر مالک موجودات ہے بھی تو انسان ‘ حیوان ‘ درخت ‘ پتھر کے بل بوتہ پر ‘ غرض ساری دنیا میں اصل کار فرمائی مظاہر کی تھی اور ” ذات حق “ صرف نام کے لیے ‘ حقیقت سے چشم پوشی تھی مگر مجاز کے ساتھ ذوق عشق ‘ ذات حق سے بعد تھا مگر مظاہر سے قربت ‘ سرمایہ سعادت حق سے بیگانگی تھی۔ مگر مخلوقات کی عبادت گزاری شعار عام تھا اور ہر طرف
{ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } [4]
” ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں “
کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں ” سنت اللہ “ یعنی خدا کے قانون ہدایت و ضلالت نے ماضی کی تاریخ کو پھر دہرایا اور غیرت حق نے فطرت کے قانون رد عمل (REACTION ) کو حرکت دی یعنی آفتاب ہدایت برج سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالم ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کردیا۔

9 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کی صبح ‘ وہ صبح سعادت تھی۔جب مدنیت و حضارت سے محروم ‘ بن کھیتی کی سر زمین مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبد المطلب کے یہاں آمنہ بنت وہب کے مشکوئے معلی سے آفتاب رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہور کیا۔خدایا ! وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدہ جانفزا سنایا اور وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی ‘ عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو ‘ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک ہو اور آفتاب ہدایت روشن و تابناک ہو ‘ مظاہر پرستی باطل ٹھہرے اور خدائے واحد کی توحید مقصد حیات قرار پائے۔
دنیا تو کیا ملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبد المطلب کے گھرانے سے جلوہ گر ہوگا کہ اس کی ولادت باسعادت کو خاص اہمیت دیتے اور تاریخ ولادت کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کے نوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی بنانے کا فیصلہ کیا اسی کے ید قدرت نے ولادت باسعادت کے لیے ایک معجزانہ تاریخی نشان بھی ظاہر کردیا اور وہ اصحاب الفیل کا واقعہ تھا۔ معتبر اور مستند روایات شاہد ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس واقعہ سے چند ماہ بعد ہوئی۔
یہ واقعہ جن خصوصیات کا حامل ہے ان کے پیش نظریہ عرب کے لیے عموماً اور اہل حجاز کے لیے خصوصاً نہایت عجیب اور حیرت زا تھا اور اس لیے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا نام ہی عام الفیل (یعنی ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک ” نشان “ ہے اس جلیل القدر ہستی کے ظہور کا جو ایک روز تمام معمورہ انسانی کو مرکز توحید اور قبلہ ابراہیمی پر جمع کر دے گی اور اس کو غیر اللہ (بتوں) کی آلودگیوں سے پاک کرکے توحید الٰہی کے نغموں کے لیے مخصوص کرائے گی۔ کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا گیا۔
یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے ‘ یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے مجسّموں کے سامنے سر جھکایا جائے ‘ نہ یہ آتش کدہ تھا کہ آگ کو نور کا مظہر قرار دے کر اس کی پرستش کی جائے اور نہ یہ صلوات یہود تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بیٹا بنا کر اس کی تقدیس کے نغمے گائے جائیں بلکہ یہ تو خدا اور صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } [5]
غرض بعثت کے بعد قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا راز سر بستہ آشکارا کردیا تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرہۃ الاشرم اور اس کے لشکر سے کعبۃ اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی کہ وہ وقت قریب آپہنچا جب دوبارہ یہ مقدس مقام خدائے واحد کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمیٰ سے متصادم ہوگی خود ہی پاش پاس ہو کر رہ جائے گی۔
ابرہہ عیسائی تھا اور اہل عرب (قریش) مشرک ‘ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کی بربادی قریش کی نصرت و حمایت کے لیے تھی ‘ نہیں ! بلکہ اس لیے سب کچھ ہوا کہ مشیت الٰہی کے خلاف ابرہہ کی خواہش تھی کہ یمن (صنعا) میں جو خوبصورت گرجا (القلیس) باپ ‘ بیٹا اور روح القدس (تثلیث) کے فروغ دینے کو بنایا گیا تھا۔
مرکز توحید ” کعبۃ اللہ “ کی جگہ وہ مرجع خلائق بنے اور اس مقصد کی خاطر اس نے انہدام کعبہ کے لیے لشکر کشی کی ادھر قریش یعنی سارا عرب اس کی مقاومت سے عاجز و درماندہ تھا ابرہہ وقت کے تمام جنگی اسلحہ اور سر و سامان کا مالک اور قریش ان سب سے یکسر محروم ‘تب غیرت حق حرکت میں آئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الٰہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا اور محور توحید ” کعبہ “ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا۔
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } [6]
” بلاشبہ اس بات میں بڑی ہی عبرت ہے اس شخص کے لیے جو خوف خدا رکھتا ہے “
قرآن عزیز نے سورة الفیل میں اسی حقیقت کو معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ نقل کیا ہے :
{ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ ۔ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ ۔ } [7]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھے نہیں معلوم کہ تیرے پروردگار نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ کیا ان کے فریب کو ناکام نہیں بنادیا ؟ اور ان پر فوج در فوج پرند بھیج دیئے وہ پرند ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پھر (خدا نے) ان (ہاتھیوں والوں) کو کھائے ہوئے بھس کے مانند کردیا۔ “
بہرحال عام الفیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کا سال ہے اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور قدسی کا سب سے بڑا قریبی نشان ہے اور یہ حقیقت اس شخص پر بخوبی عیاں ہے۔
{ لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ} [8]
” جس کے پاس قبول حق کے لیے دل ہے یا وہ حاضر دماغی کے ساتھ امر حق کی جانب کان لگائے ہوئے ہے۔ “

تاریخ ولادت کی تحقیق

تمام ارباب تاریخ و سیر کا تین باتوں پر کلی اتفاق ہے ایک یہ کہ ولادت کا سال ” عام الفیل “ تھا۔چنانچہ سیرت و مغازی کے مشہور امام محمد بن اسحاق اور جلیل القدر محدث و مورخ حافظ ابن کثیر ; جمہور کی یہی رائے نقل کرتے ہیں :
( (وَکَانَ مَوْلَدُہٗ (علیہ السلام) ُ عَامَ الْفِیْلِ وَھَذَا ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عَنِ الْجُمْھُوْرِ وَ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ بْنُ مُنْذِرٍ اَلْخَزَامِیُّ وَ ھُوَ الَّذِیْ لَا یَشُکُّ فِیْہِ اَحَدُ عُلَمَائِنَا اَنَّہٗ وُلِدَ عَامَ الْفِیْلِ ) ) [9]
” جمہور کے نزدیک یہی قول مشہور ہے کہ نبی کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور ابراہیم بن منذر کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی عالم کو بھی شک و شبہ نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
( (وَالْمُجْتَمَعُ عَلَیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ عَامُ الْفِیْلِ )) [10]
” اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
اور دوسری اور تیسری بات یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں شنبہ (پیر) کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی :
( (وَھَذا مَا لَا خِلَافَ فِیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ ثُمَّ الْجَمْھُوْرُ عَلَی اَنَّ ذَالِکَ کَانَ فِیْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْاَوَّلَ )) [11]
” اور اس پر کلی اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شنبہ (پیر) کے دن پیدا ہوئے پھر جمہور کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ “
( (قَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ (رض) اَنَّ اَعْرَابِیًّا قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا تَقُوْلُ فِیْ صَوْمٍ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ ‘ ذَالِکَ یَوْمُ وُلِدَتُ فِیْہِ وَ اُنْزِلَ عَلَّی فِیْہِ )) [12]
” ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں گاؤں کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ پیر کے دن کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور جس میں مجھ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ “
لیکن اہل سیر و تاریخ اس باب میں مختلف الرائے ہیں کہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ تھی عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول تھی اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں اور اکثر علماء 8 ربیع الاول کہتے ہیں لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ 9 ربیع الاول تاریخ ولادت ہے اور مشاہیر علمائے تاریخ و حدیث اور جلیل المرتبہ ائمہ دین اسی تاریخ کو ” صحیح “ اور ” اثبت “ کہتے ہیں چنانچہ حمیدی ‘ عقیلی ‘ یونس بن یزید ‘ ابن عبداللہ ‘ ابن حزممحمد بن موسیٰ خوارزمی ‘ ابوالخطاب ابن دحیہ ‘ ابن تیمیہابن قیمابن کثیرحافظ ابن حجر عسقلانیشیخ بدر الدین عینی جیسے مقتدر علماء کی یہی رائے ہے۔
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گزرا ہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اپنے زمانہ تک کسوف و خسوف (سورج گرہن و چاند گرہن) کا صحیح حساب معلوم کرے پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ سن ولادت با سعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ (پیر) کا دن 12 ربیع الاول کو نہیں آتا بلکہ 9 ربیع الاول ہی کو آتا ہے اس لیے بلحاظ قوت و صحت روایات اور باعتبار حساب ہیئت و نجوم ولادت مبارک کی مستند تاریخ 9 ربیع الاول ہے۔
8 اور 9 کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ مہینے کے 29 اور 30 کے حساب پر مبنی ہے اور جبکہ حساب سے ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ 21 اپریل تھی تو 8 کے متعلق تمام اقوال دراصل 9 کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔ اصحاب فیل کے واقعہ سے کس قدر عرصہ بعد ولادت ہوئی ؟ متعدد اقوال میں سے مشہور قول یہ ہے کہ پچاس دن بعد ظہور قدسی ہوا ہے :
( (وَقِیْلَ بِخَمْسِیْنَ یَوْمًا وَھُوَ اَشْھَر)) [13]
” ایک قول یہ ہے کہ اصحاب فیل کے واقعہ سے پچاس دن بعد ولادت باسعادت ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ “

نسب مبارک

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی النسل ہیں اور عرب کے معزز قبیلہ قریش کی سب سے زیادہ مقتدر شاخ بنی ہاشم سے ہیں ‘ قرآن عزیز نے اہل عرب کو خطاب کرتے ہوئے متعدد مقامات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عربی نژاد ہونے کا ذکر کیا ہے :
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ } [14]
” (خدا) وہ ذات ہے جس نے امیین (ان پڑھ لوگوں) میں سے ہی ایک رسول بھیج دیا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو الکتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتا ہے۔ “
{ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ } [15]
” بلاشبہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ “
{ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ } [16]
” جب کہ بھیج دیا اللہ نے ان میں ایک رسول جو بلحاظ نسب ان ہی میں سے ہے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [17]
” اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کو بزبان عربی اتارا ہے تاکہ (اے محمد ) تم مکہ والوں اور ان کے گرد و پیش کے بسنے والوں کو (برائیوں سے) ڈراؤ۔ “
{ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ} [18]
” کیا (اس قرآن کو) سکھا دیتا ہے کوئی عجمی اور حالت یہ ہے کہ یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ “
ماہرین انساب عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی نسل سے ہیں اس لیے کہ قریش بغیر کسی اختلاف رائے کے عدنانی ہیں اور عدنان کے اسماعیلی ہونے میں دو رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
عرب کے علم الانساب کے مشہور عالم محدث ابن عبد البر (رحمہ اللہ علیہ) تحریر فرماتے ہیں :
( (وَاَجْمَعُوْا اَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ وُلْدِ عَدْنَانَ وَاَنَّ عَدْنَانَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَاَنَّ رَبِیْعَۃَ وَ مُضَرَ مِنْ وُلْدِ اِسْمٰعِیْلَ )) [19]
” اور علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدنان کی نسل سے ہیں اور عدنان اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور ربیعہ اور مضر بھی اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ “
علمائے انساب نے نسب نامہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے :
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں :محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان)
اور والدہ کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب نامہ کلاب پر جا کر پدری سلسلہ نسب کے ساتھ مل جاتا ہے یعنی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔ کلاب کو حکیم بھی کہتے ہیں۔
البتہ عدنان اور حضرت اسماعیل کے درمیان سلسلہ کے ناموں سے متعلق ماہرین انساب کی آرا مختلف ہیں۔ [20] اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرما کر ” کَذِبَ النَّسَّابُوْنَ “ (نسب بیان کرنے والوں نے غلط بیانی کی ہے) کسی رائے کی توثیق نہیں فرمائی اور اپنے سلسلہ نسب کے متعلق صرف اس قدر ارشاد فرمایا ہے :
( (اَنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی کَنَانَۃَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اَصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ )) [21]
” اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں سے کنانہ کو ممتاز بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو عزت و عظمت بخشی اور قریش میں سے بنی ہاشم کو امتیاز عطا فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا۔ “
گویا اس طرح سلسلہ نسب کے صرف ان حصوں کی تصدیق فرمائی جو ماہرین انساب کے درمیان بلا خلاف مسلم تھے۔
اسلام نے نسبی تفاخر اور اس پر مبنی سماجی رسم و رواج کو بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا ہے وہ کہتا ہے خدا کے یہاں فضیلت کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اور وہاں حسب و نسب کی کوئی پرسش نہیں ہے نیز نسبی تفاخر اسلام کے بنیادی قانون ” اخوت اسلامی “ کے قطعاً منافی ہے اس لیے اسلام کے اجتماعی دستور میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تاہم واقعاتی طور پر تاریخ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمیشہ انبیاء و رسل علیہم السلام اپنی قوم اور اپنے ملک کے معزز خاندان میں سے ہوتے رہے ہیں حکمت خداوندی کا یہ فیصلہ غالباً اس لیے ہوا کہ قوموں اور ملکوں کے رسم و رواج اور نسبی تفاخر کے خلاف ان کی دعوت حق اور ان کا پیغام صداقت کہیں ذاتی مفاد کے لیے نہ سمجھ لیا جائے اور اس طرح اس کا اخلاقی پہلو کمزور نہ ہوجائے مثلاً کسی سماجی زندگی میں ذات پات کی تقسیم اور کا سٹ سسٹم اس طرح موجود ہے کہ اس کی وجہ سے بعض انسان بعض کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے ہیں تو اگر اس قوم یا ملک میں کوئی پیغمبر اس خاندان سے تعلق رکھتا ہو جس کو قومی اور ملکی رواج نے نیچ اور پست اقوام کا لقب دے رکھا ہے ایسی حالت میں اس ظلم صریح اور باطل کوشی کے خلاف اس پیغمبر کی صدائے حق اتنی سرعت کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی جس قدر اس حالت میں ہوسکتی ہے جب کہ وہ خود اس قوم و ملک کے اونچے خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور صرف ایک اسی خاص مسئلہ میں نہیں بلکہ اس کے پیغام حق کی تمام اصلاحات میں یہ فرق ضرور نظر آئے گا۔
بہرحال یہ حکمت ہر مقام اور ہر موقع پر مفید ہو یا نہ ہو عرب کے حالات و واقعات کے لیے از بس مناسب اور مفید ثابت ہوئی چنانچہ صدائے اسلام نے جب اپنی انقلابی اور اصلاحی گرج سے روحانیت کی خفتہ کائنات میں تہلکہ ڈال دیا تو ایک جانب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرب کو یہ سنایا کہ جہاں تک خاندانی امتیاز کا تعلق ہے تو میں قریشی بھی ہوں اور ہاشمی بھی اور یہ امتیاز تمہارے نقطہ نظر سے بہت بلند ہے مگر میری نگاہ میں اس کی حیثیت صرف یہ ہے : ” وَلَا فَخَرَ “ ” یہ کوئی فخر کرنے کی چیز نہیں ہے۔ “ اور دوسری جانب نسبی تفاخر کی بنیادوں کے انہدام اور مساوات انسانی کی دعوت عام کے لیے اس خدائی فرمان کا اعلان کرکے کائنات انسانی کی تمام تاریک ذہنیت کے خلاف انقلاب عظیم برپا کردیا :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [22]
” لوگو ! میں نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (یعنی انسان کی ابتدا آدم اور اس کی بیوی حوا (علیہما السلام) سے ہوئی ہے) اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں صرف اس لیے بانٹ دیا ہے کہ آپس میں (صلہ رحمی کے لئے) پہچان اور معرفت کا طریقہ قائم کرلو (اور اصل یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جو تم میں سے پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے والا ہے۔ “
اور حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ ہزارہا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کی موجودگی میں وداعی پیغام سنا رہے اور اسلام کے بنیادی اصول کے استحکام کے لیے اہم وصایا پیش فرما رہے تھے اس حکم خداوندی کی تائید میں یہ انقلاب آفریں پیغام بھی ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [23]
فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ فَضْلٌ وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔ یَا مَعْشَرَ الْقُرَیْشِ لَا تَجِیْئُوْا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَھَا عَلٰی رِقَابِکُمْ وَیَحِییُٔ النَّاسُ بِالْآخَرِۃ فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔۔ الخ)) [24]
” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہارے درمیان خاندان اور قبائل بنا دیئے ہیں تاکہ (صلہ رحمی کے لئے) تعارف پیدا کرو بلاشبہ تم میں اللہ کے نزدیک وہی برگزیدہ ہے جو زیادہ متقی (نیک کردار) ہے پس (خوب یاد رکھو کہ) نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر کوئی بزرگی بلکہ ان سب کے لیے فضیلت کا معیار صرف تقویٰ (نیک عملی) ہے اے گروہ قریش ایسا نہ ہو کہ تم (خاندانی فخر کے زعم باطل کی وجہ سے قیامت میں) دنیا کو کاندھے پر لاد کر لاؤ اور دوسرے لوگ (نیک عملی کی بدولت) آخرت کا سامان لے کر آئیں ‘ واضح رہے کہ (تمہارے محض قریشی ہونے کی وجہ سے) میں تم کو خدا کے فیصلے سے قطعاً بےپرواہ نہیں بنا سکتا (خدا کے یہاں تو صرف عمل ہی کام آئے گا) “
اور ایک مرتبہ نسبی فخر کے خلاف تبلیغ حق کرتے ہوئے اس کو جاہلی تعصب فرمایا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کے لیے سخت تاکید فرمائی۔ ارشاد فرمایا :
( (اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عَصَبِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِالْاٰبَائِ وَاِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیُّ اَوْ فَاجِرٌ شَقَی النَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ )) [25]
” اللہ تعالیٰ نے (دعوت اسلام کے ذریعہ) تمہارے درمیان سے جاہلیت کے تعصب اور نسبی فخر کو مٹا دیا ہے اور اب انسان یا نیکوکار مومن ہے اور یا بدکار (پاپی) ۔ سب انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے (پھر فخر کرنے کا کیا موقع ہے ؟ )“
اسی مقدس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دور اولین میں نہ ذات پات کا کوئی سوال باقی رہ گیا تھا اور نہ خاندانی تفاخر کی کوئی حیثیت سمجھی جاتی تھی اور اس صدائے حق نے غلاموں تک کو سروری بخش دی تھی ‘ چنانچہ اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کی سالاری لشکر اور امامت جہاد ‘ بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) کے لیے صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد ” سید ھذہ الامۃ “ ” اس امت کا سردار “ قریش اور ہاشمی صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے درمیان ایک عجمی انسان ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی جلالت و عظمت ‘ صہیب رومی اور سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی رفعت و بلندی مرتبت اور اسی قسم کے ہزاروں واقعات تھے جو چشم فلک نے آنکھوں سے دیکھے اور تاریخ نے آغوش صفحات میں محفوظ رکھے ہیں مگر وائے بدبختی کہ بیرونی اثرات اور عرب سے باہر عجمی ماحول نے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کو پھر اسی لعنت سے دو چار کردیا جس کا مرثیہ علامہ اقبال مرحوم (رحمہ اللہ علیہ) کو اس طرح کرنا پڑا :

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما کر ” اِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ“ اس مسئلہ کو اس درجہ صاف کر دیا تھا کہ مسلمان کی زندگی میں کبھی اس کے برعکس زندگی کا کوئی اثر پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا ‘ ذات پات تو صرف اس لیے تھیں کہ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں باہمی تعارف ‘ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ بآسانی ہو سکے ورنہ کیسی ذات ؟ کہاں کا خاندان ؟ کون برادری ؟ یہاں تو صرف دو ہی فطری اور نیچرل تقسیمیں ہیں یا نیکوکار یا بدکار کسی قوم کسی خاندان اور کسی ملک کا انسان ہو اگر سچی خدا پرستی اور نیکوکاری رکھتا ہے تو وہ سب ایک برادری اور ایک قوم ہیں اور اگر مشرک و کافر اور بدکار پاپی تو یہ سب ایک گروہ اور ایک ٹولی ہیں۔

ولادت با سعادت اور یتیمی

خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ ماجدہ کا آمنہ تھا۔ابھی آفتاب ہدایت نے کائنات ہست و بود میں طلوع نہیں کیا تھا اور حضرت آمنہ کی مشکوئے معلی اس ودیعت کی امین ہی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور ارباب سیرت کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ایک قافلہ کے ساتھ شام تشریف لے گئے تھے ‘ واپسی میں جب قافلہ مدینہ (یثرب) پہنچا تو وہ بیمار ہوگئے اور اس لیے اپنے ننہال بنی نجار میں قیام پذیر رہے قافلہ جب مکہ پہنچا تو عبد المطلب نے بیٹے کے متعلق دریافت کیا قافلہ نے ان کی بیماری اور مدینہ میں قیام کا واقعہ کہہ سنایا۔ تب عبدالمطلب نے اپنے بڑے لڑکے حارث کو دریافت حال کے لیے مدینہ بھیجا حارث جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ نے ایک ماہ چند روز بیمار رہ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ واپس آ کر جب حارث نے باپ کو حادثہ کی اطلاع دی تو عبد المطلب اور تمام خاندان کو اس صدمہ جانکاہ نے بےحال کردیا کیونکہ عبداللہ اپنے باپ اور بھائیوں کے بہت چہیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاوّل، اکیاون (53) قبل ہجرت (واقعہ فیل کے پچاس دن بعد) بمطابق بیس بحساب دیگر بائیس اپریل، پانچ سو اکہتر عیسوی، اٹھارویں سن چالیس نوشیروانی، یکم جیٹھ چھ سو اٹھائیس بکرمی شمسی، بیس ماہِ ہفتم سن دو ہزار پانچ سو پچاسی ابراہیمی، گیارہ ماہِ ہشتم سن تین ہزار چھ سو پچھتر طوفانی، بروز پیر صبح صادق کے وقت۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'۔[26][27]
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔[28]
پیدائش سے چند ماہ قبل والد ماجد جناب حضرت عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ گویا حضرت محمدﷺ دنیا میں دُرِّیتیم بن کر آئے۔ محمدﷺ نام رکھا گیا اور ساتویں دن عقیقہ ہوا۔
غرض جب ولادت باسعادت ہوئی تو اس سے قبل ہی آپ کو یہ یتیمی کا شرف حاصل ہوچکا تھا۔ چنانچہ قرآن نے آپ کی یتیمی و دنیوی وسائل سے محرومی کے باوجود آغوش رحمت کردگار میں نشوونما پا کر ” ہادی عالم “ بننے کا معجزانہ اختصار کے ساتھ سورة والضحیٰ میں تذکرہ کیا ہے۔
{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی ۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی۔ } [29]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھ کو خدا نے یتیم نہیں پایا پھر اپنی آغوش (رحمت) میں جگہ دی اور کیا تجھ کو ناواقف نہیں پایا پھر تجھ کو (کائنات کی ہدایت کے لئے) ہدایت مآب بنایا اور کیا تجھ کو (ہر قسم کے وسائل سے محروم) و محتاج نہیں پایا پھر تجھ کو (ہر قسم کی سروری دے کر) غنی بنادیا۔ “
بقول حضرت ابوقتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ان آیات میں عجیب و غریب اعجاز اور اسلوب بیان کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے تمام ارتقائی مدارج کا تذکرہ ہے تم سمجھتے ہو کہ ” فَاٰوٰی “ کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہنے سہنے کی صورت پیدا کردی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مددگار نہیں رہنے دیا یہ بھی صحیح ہے مگر اس کلام ربانی کی اصل روح یہ ہے کہ اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کے مادی اسباب و وسائل سے بےپرواہ رکھ کر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نشو وارتقاء کو خالص اپنی تربیت میں کامل و مکمل کیا۔ [30]
{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی } [31]
کی تفسیر کو خود قرآن ہی نے دوسری جگہ روشن کردیا مثلاً سورة شورٰی میں ہے :
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا } [32]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے امر کی روح کا القاء کیا (حالانکہ اس سے پہلے) نہ تو کتاب (قرآن) سے واقف تھا اور نہ ایمان کی حقیقت سے لیکن ہم نے اس کو نور (روشنی) بنادیا اور ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں (اس کی صلاحیت و استعداد کے پیش نظر) اس کے ذریعہ ہدایت دیتے ہیں۔ “
اور آیت عَآئِـلًا فَاَغْنٰی میں دنیوی احتیاج و غنا کا ذکر روح کلام نہیں ہے بلکہ اس جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قربت و کمال کا وہ مرتبہ عظمیٰ عطا فرمایا ہے کہ مادی اور روحانی ہر قسم کی احتیاج سے بالاتر بنا کر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مثل اعلیٰ ” غنا “ سے بہرہ ور بنادیا ‘ یہی وہ غنا ہے جس کا خود ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ذکر فرمایا ہے :
( (لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنٰی عَنِ النَّفْسِ )) [33]
” غنی مالداری کی بہتات کا نام نہیں ہے حقیقی غنی نفس کا ماسویٰ اللہ سے مستغنی ہوجانا ہے۔ “

ایامِ رضاعت و طفولت

رسول اللّٰہ کی ولادت باسعادت کے بعد سب سے پہلے آپؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے لختِ جگر کو چند روز تک خود دودھ پلایا ، اس کے بعد کچھ مدت کیلئے ابولہب کی کنیز ثویبہ نے یہ خدمت انجام دی، اور اس کے بعد یہ شرف قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھنے والی بی بی حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آیا۔ [34] [35]

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی گود میں

در اصل مکہ مکرمہ کے شرفاء میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں کو کچھ عرصہ کیلئے ’’بادیہ‘‘ (گاؤں)میں رکھنا پسند کرتے تھے، تاکہ شہر کے آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری اور خالص آب وہوا میں بچے کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور اس کی نشوونما بھی اچھی ہو۔نیز یہ کہ شہر میں چونکہ بیرونی لوگوں کی بکثرت آمدورفت رہا کرتی ہے ،لہٰذا ان کے ساتھ مسلسل اختلاط اور میل جول کی وجہ سے زبان بھی خالص نہیں رہتی اور لب ولہجہ بھی متأثر ہوتا ہے، جبکہ گاؤں والوں کی زبان خالص ہوا کرتی ہے اور اس میں دوسری کسی زبان کی ملاوٹ کا احتمال نہیں ہوتا۔
چنانچہ جن دنوں رسول اللہﷺکی ولادت ہوئی آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی حسبِ دستور اپنے لختِ جگر کو گاؤں بھیجنے کا ارادہ کیا،اتفاق سے انہی دنوں بادیۂ بنی سعد سے تعلق رکھنے والی کچھ عورتیں بچے گود لینے کی غرض سے شہر مکہ کی جانب روانہ ہوئیں، جن میں حلیمہ سعدیہ بھی تھیں، مکہ پہنچنے کے بعد شہر میں گھوم پھر کر سب ہی عورتوں نے کوئی نہ کوئی شیر خوار بچہ گود لے لیا، جبکہ حلیمہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا، البتہ ایک یتیم بچہ تھا جسے کسی عورت نے محض اس وجہ سے اپنانا قبول نہیں کیا تھا کہ اس یتیم بچے کو گود لے کر شاید کوئی معقول معاوضہ اور مالی فائدہ نہ مل سکے… اور پھر یتیم بھی ایسا کہ جس نے باپ کا نام تو سنا ہو… مگر آنکھیں باپ کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں… جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکا…!
حلیمہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں مل سکا تھا اس لئے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جانے سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو ہی قبول کر لیا جائے، چنانچہ بادلِ ناخواستہ اسے گود لے لیا…جس یتیم بچے کو گود لینے پر حلیمہ رنجیدہ و دلبرداشتہ تھیں اور اس چیز کو اپنی ناکامی تصور کررہی تھیں… انہیں کیا خبر تھی کہ بظاہر تو یہ ناکامی تھی… لیکن ایسی ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں قربان ہو جائیں… ! حلیمہ خود بھی لاغر وفاقہ زدہ تھیں … لہٰذ ابقول ان کے خود ان کے اپنے شیر خوار بیٹے کو کبھی پیٹ بھرکر دودھ پینا نصیب نہیں ہوا تھا،لیکن اُس وقت جب انہوں نے بنوہاشم کے اس ’’دُرِّیتیم‘‘کو گود لیا اور پہلی بار اسے اپنا دودھ پلایا تو اس نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور اس کے بعد دیر تک سوتا رہا، اور تب حلیمہ نے اپنے حقیقی بیٹے کوبھی دودھ پلایا تو پہلی بار اس نے بھی خوب پیٹ بھرکر دودھ پیا اور اس کے بعدوہ بھی دیرتک سوتا رہا… یہ بات حلیمہ اور ان کے شوہر(حارث بن عبدالعزیٰ)کیلئے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ان کی ایک بکری اور ایک اونٹنی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی، وہ دونوں بھی فاقہ زدہ تھیں اور ان کا دودھ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اس روز ان دونوں نے بھی خوب زیادہ دودھ دیا، حلیمہ اور ان کے شوہر نے اس روز خوب جی بھرکر دودھ پیا۔ گاؤں سے مکہ شہر کی طرف آتے وقت کیفیت یہ تھی کہ حلیمہ کی گدھی کمزوری کی وجہ سے سب سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور حلیمہ کی سہیلیاں بار بار راستے میں رک کر اس کا انتظار کرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کا وقت آیا تو کیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی اس قدر چست اور تیزرفتار ہوگئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی ،جس پر حلیمہ کی سہیلیاں بار بار انہیں پیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ رک جاؤ… کچھ ہمارا بھی توخیال کرلو… اور باربار پوچھتیں کہ حلیمہ کیا یہ تمہاری وہی گدھی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی توہے… اس پروہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی’’بخدا آج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘ اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعدان کی کھیتی باڑی اور غلہ و خوراک وغیرہ … غرضیکہ ہر چیز میں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بہترین اور برکت کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے، خود حلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی …جس پروہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اور بہت زیادہ خوش بھی،حتیٰ کہ ایک روز حلیمہ کے شوہر نے انہیں کہا:(تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی:’’حلیمہ! یقین کرو، بخدا مجھے تویوں لگتا ہے کہ تم یہ جو بچہ لائی ہویہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پر حلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی:’’بخدا مجھے بھی ایساہی محسوس ہوتا ہے…‘‘۔ اور یوں حلیمہ سعدیہ اور ان کے افرادِ خانہ کو اس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدروقیمت کا مکمل ادراک و احساس ہوا اور وہ اس کی بدولت فیوض وبرکات کااپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اور خوب مستفید و مستفیض بھی ہوتے رہے…! دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے… حلیمہ کا دل بالکل نہیں چاہتا تھاکہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلا جائے،لیکن مدتِ رضاعت پوری ہوچکی تھی،لہٰذا بادلِ ناخواستہ وہ اسے اس کی والدہ کے پاس مکہ شہر لے گئیں، بچے کی والدہ نے اپنے لختِ جگرکی اتنی اچھی صحت دیکھی تو انتہائی خوش ہوئیں، ماں کی یہ خوشی دیکھ کر حلیمہ نے موقع مناسب سمجھا اور ڈرتے ڈرتے کہاکہ ’’آپ دیکھ رہی ہیں کہ گاؤں کی صاف ستھری فضاء میں بچے کی صحت کتنی عمدہ ہے،لیکن اب مجھے یہ فکر ستا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب یہاں شہر میں اس کی صحت خراب ہو جائے…اس لئے میں چاہتی ہوں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بچے کو مزید کچھ عرصہ کیلئے واپس اپنے ہمراہ لے جاؤں…بی بی آمنہ دیکھ ہی چکی تھیں کہ بادیۂ بنی سعد میں رہتے ہوئے بچے کی صحت خوب عمدہ ہے اور وہاں کی آب وہوا اس کو خوب موافق آئی ہے، نیز انہوں نے اپنے لختِ جگر کیلئے حلیمہ کا جب یہ جذبہ اور پیار بھی دیکھا تو وہ مسکرائیں اور مزید کچھ عرصہ کیلئے بچے کولے جانے کی اجازت دے دی۔ [36] حضرت حلیمہ کا یہ تمام واقعہ سیرۃ ابن ہشام میں مذکور ہے صرف خط کشیدہ الفاظ ایک دوسری روایت کے الفاظ کا ترجمہ ہے جسکو علامہ سیوطی نے [37] خصائص الکبریٰ میں تذکرہ کیا ہے۔[38]

حادثۂ شقِ صدر

حلیمہ سعدیہ اس بچے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی واپسی پر بہت خوش تھیں ،اور یو ں بادیۂ بنی سعد میں مزید تین سال(یعنی کل پانچ سال) گذر گئے ،لیکن ایک روز نہایت عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو گئیں۔ہوا یہ کہ یہ بچہ ایک روز جب گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مشغول تھاکہ اچانک وہاں کوئی اجنبی نمودار ہوا،اور اس نے بچے کو زمین پر لٹا کر اس کا سینہ چاک کردیا…دوسرے بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً دوڑتے ہوئے حلیمہ کے گھر پہنچے اور بتایا کہ کسی نے محمد() کو قتل کر دیا ہے۔حلیمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپؐ کے چہرے کا رنگ قدرے بدلا ہوا ہے۔ درحقیقت وہ اجنبی شخص جبریل امین علیہ السلام تھے جواللہ کے حکم سے وہاں آئے تھے، انہوں نے رسول اللہ کا سینہ چاک کرکے قلبِ مبارک باہر نکالا ،اور اس میں سی سیاہ نقطے کی مانند جمے ہوئے خون کاایک چھوٹا سا ٹکڑا کال کریہ کہتے ہوئے پھینک دیاکہ ’’یہ شیطان کاحصہ ہے‘‘(یعنی اس حصے کو دل سے نکال کر پھینک دیا تاکہ شیطان کبھی آپؐپر غالب نہ آسکے) پھر آپؐ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کرآبِ زمزم سے دھویا،اس میں ایمان وحکمت کا جوہر بھرا، اور پھر اسے اسی طرح جوڑ کر سینے میں اس کے مقام پر رکھ دیا۔

(۱)دراصل یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک قسم کا روحانی آپریشن اور سامانِ عصمت تھا۔ اس حادثہ کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ بہت زیادہ گھبرا گئیں ،اور آپؐ کی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند روز بعد آپؐ کو مکہ شہر میں آپؐ کی والدہ ماجدہ کے پاس چھوڑ آئیں۔ [39][40]

والدہ کی کفالت میں

بادیۂ بنی سعد میں تقریباً پانچ سال گذارنے کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت میں واپس پہنچ گئے ۔جب چھ سال کے ہوئے تو والدہ نے اپنے شوہرِ نامدار یعنی عبداللہ بن عبدالمطلب سے خلوص و وفاء کے اظہار کے طور پر مدینہ کا سفر کیا، اس سفر میں کمسن بیٹے (یعنی آپﷺ) کو بھی یہ سوچ کر ہمراہ لیا کہ بیٹے کو باپ کی شکل دیکھنا تو نصیب نہ ہو سکا… کم ازکم اب اسے باپ کی قبر کی زیارت ہی نصیب ہو جائے۔اس سفر میں کنیز ام ایمن بھی ہمراہ تھیں ، یہ کمسن بچہ اس طویل اور کٹھن سفر میں مناظرِ فطرت کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہا، اس مختصر قافلے نے مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔
حاشیہ آپ ﷺ جب بعد میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں مستقل قیام کیا تب ایک روز آپؐ جب بنو جار کے ایک محلے سے گذر رہے تھے آپؐ کی نگاہ اس مکان پر پڑی جہاں آپؐ نے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ سفرِ مدینہ کے موقع پر قیام کیا تھا، اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود آپؐ نے اس مکان کو پہچان لیا، اور پھر سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی جانب سفرکے دوران راستے میں ابواء نامی مقام پر آپ اپنی والدہ کی قبر پر بھی گئے ،اور وہاں خوب روئے، جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں زارَ النّبِيّﷺ قبرَ أمِّہٖ فَبَکَیٰ وَ أبکَیٰ مَن حَولَہٗ …’’یعنی آپؐ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اور تب آپؐ خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا…‘‘ [41]

والدہ کی وفات

آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد جب مکہ کی طرف واپس روانہ ہوئیں تو راستے میں انتہائی تند و تیز اور گرم صحرائی ہواؤں نے آلیا، جس کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئیں ، راستے میں علاج کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی راحت و آرام کا کوئی بندو بست چند روز کی اس علالت کے بعد آخر مدینہ اور مکہ درمیان ’’اَبواء‘‘ نامی مقام پر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں …! اور انہیں اسی مقام پرہی دفن کر دیاگیا۔ کمسن بچے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو یوں پر دیس میں نزع اور موت کی کشمکش سے گذرتے دیکھا… جس سے اس کا گدازِ قلب مزید بڑھ گیا۔ [42] [43]

دادا کی کفالت میں

اُمِ ایمن جو اس سفر میں ہمراہ تھیں ٗپردیس میں بی بی آمنہ کی علالت اور پھر وفات کے بعد اس کمسن بچے کو ہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچیں اور وہاں اسے اس کے دادا عبد المطلب کے حوالے کر دیا یہ بچہ اس سفر کے لیے ماں کی انگلی تھامے ہوئے جب گھر سے روانہ ہوا تھا تب سرپر آپ کا سایہ نہ تھا اور اب اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب واپس مکہ میں اپنے گھر پہنچا تو کیفیت یہ تھی کہ ماں کی ممتا سے بھی محروم ہو چکا تھا…! یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ اپنی پیاری ماں کی وفات کے بعد اب اپنے دادا محترم یعنی جناب عبدالمطلب کی کفالت میں آگئے،اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک چھ سال تین ماہ اور دس دن تھی۔ دادا نے جب اپنے اس یتیم پوتے کواپنے دامنِ کفالت و تربیت میں لیا تو جی بھرکر اسے پیار دیا،اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا،اور اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ ہمیشہ لاڈ اور پیار کیا، وہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے دن بھر آپ ﷺ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے، اور رات کو جب آپ ﷺ سو جاتے تو وہ باربار اٹھ کر آپ ﷺ کی خبرگیری کیا کرتے۔ عبدالمطلب چونکہ اپنے قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے اس لئے کعبۃ اللہ کے قریب ان کیلئے خاص مسند بچھائی جاتی تھی جس پر کبھی کسی کو بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیٹے بھی جب وہاں آتے تو اس مسند کے آس پاس بیٹھ جاتے مگر آپ ﷺ کو عبدالمطلب ہمیشہ اس مسندِ خاص پر اپنے ساتھ ہی بٹھاتے، اگر کبھی کوئی آپ ﷺ کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو عبدالمطلب یوں کہتے: دَعُوا اِبنِي ! فَوَاللّہِ اِنَّ لَہٗ لَشَأناً… یعنی : ’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھا رہنے دو،کیونکہ اللہ کی قسم اس کی تو شان بڑی ہی نرالی ہے…‘‘،اور ساتھ ہی فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺ کے اس اندازِ شاہانہ اور استغناء کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔ [44] لیکن آپؐ دادا کی اس شفقت سے بھی جلد ہی محروم ہو گئے جب بیاسی سال کی عمر پا کر یہ شفیق و مہربان دادا بھی راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے، اور مکہ مکرمہ میں محلہ حجون میں دفن ہوئے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپ ﷺ بھی ساتھ تھے، شدتِ غم اور فرطِ محبت سے اُس وقت آپؐ جنازے کے ہمراہ روتے جارہے تھے…! اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک صرف 8 سال 2 ماہ اور 10 دن تھی۔ [45]

ابوطالب کی کفالت میں

رسول اللہ کے دادا محترم عبدالمطلب نے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ ان کے بعد آپؐ کی کفالت و تربیت آپؐ کے چچا ابوطالب کے ذمہ ہو گی،چنانچہ ابوطالب نے اس عظیم ذمہ داری کو بہت ہی احسن طریقے سے تادمِ آخر نبھایا، آپؐ سے وہ اس قدرمحبت رکھتے تھے کہ آپؐ کو ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا اور اپنے بچوں پر مقدم رکھا، جب سوتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر سوتے،اور جب باہر جاتے تو آپؐ کو ساتھ لے کر جاتے۔ یوں زندگی کے دن گذرتے رہے… وقت کا پہیہ چلتا رہا اور آپؐ ابوطالب کی زیرِ سرپرستی بچپن اور کم سنی کی حدود سے گذرنے کے بعد اب لڑکپن کی عمر میں داخل ہو گئے اور اب کچھ ہوش سنبھالا تو محسوس کیاکہ چونکہ آپؐ کے مشفق ومحسن چچا قلیل المال اور کثیر العیال ہیں ٗ لہٰذا تلاشِ معاش کے سلسلہ میں ان کا ہاتھ بٹاناچاہئے۔چنانچہ اس جذبے کے تحت آپؐ نے اس دورمیں بکریاں بھی چرائیں اور محنت ومشقت بھی کی رسول اللہ ﷺ نے بچپن اور پھر لڑکپن کی منزلیں طے کرنے کے بعد نوجوانی کے مرحلے میں جب قدم رکھا تو آپ ؐ نے بھی تجارت کوہی اپنا ذریعۂ معاش بنایا،اور اس دور میں اپنے سرپرست اور مشفق چچا ابوطالب کے ہمراہ آپؐ نے متعدد تجارتی سفر بھی کئے۔ان دنوں تجارت کے حوالے سے چہار سو آپؐ کے حسنِ معاملہ ٗ راست بازی اور امانت و دیانت کے چرچے ہونے لگے،اپنے اور پرائے ٗ دوست ودشمن سبھی آپؐ کو ’’صادق و امین ‘‘کے لقب سے پکارنے لگے…!!حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔۔۔[46] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گزرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔[47][48]

شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً 25 سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔خدیجہ بنت خویلد انتہائی شریف النفس اور صاحبِ حیثیت خاتون تھیں، مکہ میں ان کا خاص مقام و رتبہ تھا اور قریش کے عوام وخواص سبھی انہیں نہایت عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ کے خاندان سے جا ملتا ہے، وہ بیوہ تھیں، اپنی شرافتِ نفس ٗپاکیزگیٔ اخلاق اور عفت و عصمت کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ انہیں ’’طاہرہ‘‘کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کاروبار اس قدر وسیع پیمانے پر تھا کہ اہلِ مکہ کا جب کوئی تجارتی قافلہ روانہ ہوتا تو اس میں اکثریت حضرت خدیجہؓ کے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی ہوتی،اپنے کاروباری امور کی انجام دہی و نگرانی کی غرض سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مختلف اشخاص کی خدمات حاصل کیاکرتی تھیں۔ انہی دنوں حضرت خدیجہؓ کو جب رسول اللہ ﷺ کی راست بازی اور امانت و دیانت کی خبریں ملیں تو انہوں نے آپؐ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آئندہ جو تجارتی قافلہ مکہ سے ملکِ شام کیلئے روانہ ہوگا اس کی نگرانی آپؐ کریں، ساتھ ہی معقول معاوضے کابھی وعدہ کیا۔ آپ ﷺ نے اپنے سرپرست ومشفق چچا ابوطالب سے مشورے کے بعد اس پیشکش کو قبول فرمایا اور سفرِ شام کیلئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مالِ تجارت لے کر ملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے،توفیقِ الٰہی سے اس سفر میں بہت زیادہ منافع ہوا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ’’میسرہ‘‘نامی اپنا ایک غلام بھی اس سفر میں آپؐ کے ہمراہ روانہ کیا تھا، اس نے واپس مکہ پہنچنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، آپؐ کی راست بازی، معاملہ فہمی، پرہیزگاری ،امانت و دیانت، فہم و فراست ،حسنِ تعامل و دیگر صفاتِ حمیدہ کا تذکرہ کیا،یہ سب کچھ حضرت خدیجہ کیلئے انتہائی فرحت ومسرت اور اطمینان کا باعث بنا۔ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں،ان کا پہلا نکاح عتیق مخزومی سے ٗ اور پھر اس کی موت کے بعد دوسرا نکاح ہند تمیمی سے ہوا تھا۔ دوسری بار بھی جب وہ بیوہ ہوگئیں توان کے مقام ورتبے اور مال ودولت کی وجہ سے بڑے بڑے سردارانِ قریش متعدد بار انہیں پیغامِ نکاح بھجوا چکے تھے، لیکن حضرت خدیجہؓ اپنی ذہانت و فہم و فراست کی وجہ سے اس حقیقت کو خوب جان چکی تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے،یہ سبھی لوگ لالچی اور محض مال وجمال کے بھوکے ہیں… اسی لئے وہ ایسے تمام پیغامات کو رد کر چکی تھیں۔ ایسے میں رسول اللہ ﷺ جب حضرت خدیجہ ؓکا مالِ تجارت لے کرگئے اور اس سفر میں منافع بہت زیادہ ہوا… اور پھر یہ کہ سفر سے واپسی پر آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کواس تجارت کا حساب و کتاب پیش کیا… اور چپ چاپ چل دئیے…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بس سوچتی ہی رہ گئیں کہ کس قدر عجیب وغریب ہے یہ نوجوان … کس قدر سچا اور مخلص ہے یہ انسان… کس قدر سچی اور صاف ستھری ہے اس کی تجارت… کتنی معصومیت ہے اس کی ہر ادا میں… دوسروں کی بنسبت منافع کس قدر زیادہ لایا ہے لیکن معاوضہ کے معاملے میں کوئی تقاضا نہیں کوئی مطالبہ نہیں کوئی بحث و تکرار نہیں معاوضہ جو ملا بس چپ چاپ قبول کرلیا…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کیلئے یہ سب کچھ انتہائی باعثِ حیرت تھا… ایک طرف مسلسل پیغامات بھیجنے والے بڑے بڑے سردارانِ قریش جو کہ دراصل حرص وطمع کے مارے ہوئے اور مال و زر کے پجاری تھا اور دوسری طرف سیدھا سادھا ٗسچا ٗمخلص اور اس قدر قناعت پسند ٗ متوکل وقانع قسم کا یہ نوجوان…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپ ﷺ کی یہی ادا بھا گئی اور وہ سمجھ گئیں کہ یہی توان کی وہ متاعِ گمشدہ ہے جس کی وہ مدت سے متلاشی تھیں…! تب حضرت خدیجہ ؓنے اپنے دل کی بات اپنی ایک خاص راز دار سہیلی نفیسہ بنت مُنَبِّہ سے کہی، اور انہیں آپﷺ کی طرف پیغامِ نکاح لے کرجانے کو کہا۔نفیسہ نے یہ پیغام آپؐ تک پہنچایا،جس پر آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں خصوصاً جناب ابوطالب اور حضرت حمزہ ؓسے مشورہ کیا، ان دونوں نے اس رشتے کی تائید کی ،اور پھر یہ دونوں آپ ﷺ کی طرف سے اظہارِ رضا مندی کے طور پر حضرت خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس پہنچے اور آپؐ کی طرف سے رضامندی کی انہیں اطلاع دی ،اور یوں آپ ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے،اور یہ مبارک ترین رشتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ٗ یعنی مسلسل پچیس برس قائم رہا۔ رسول اللہﷺ کی یہ پہلی شادی تھی،جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوبار بیوہ ہو چکی تھیں،اس شادی کے وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال ٗ جبکہ حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ ۔[49] حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کی بھانجیاں تھیں۔

بعثت (پہلی وحی)

اب زندگی میں ایک اور انقلاب ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت گزینی کی طرف رغبت ہوئی اور غار حرا میں روز وشب بسر ہونے لگے بت پرستی سے شروع ہی سے نفرت تھی اس لیے کبھی نہ کسی صنم کے آگے سر جھکایا اور نہ کسی ایسی مجلس میں شرکت فرمائی جو صنم پرستی کے میلے کہلاتے تھے ‘ اب خلوت میں فطرت سلیم جس طرح رہنمائی کرتی خدائے واحد کی عبادت کرتے مگر ایک خلش سینے میں ایسی تھی جو اس حالت میں بھی بےچین ہی رکھتی ‘ اکثر یہ سوچ کر تڑپ جاتے تھے کہ میری قوم خصوصاً اور دنیائے انسانی عموماً کس طرح خدائے واحد کو چھوڑ کر صنم پرستی اور مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور یہ کہ اخلاق کی دنیا کس طرح الٹ گئی ہے آخر وہ کونسا نسخہ کیمیا ہے جو اس حالت میں انقلاب پیدا کر دے اور سچی خدا پرستی اور نیک عملی پھر ایک مرتبہ اپنی نمود دکھلائے۔
یہی جذبات و تاثرات تھے جو قلب مضطرب میں موجزن تھے اور خلوت کدہ حرا میں انہی کیفیات کے ساتھ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصروف یاد الٰہی رہتے اور جب کئی کئی دن اس طرح گزر جاتے تو کبھی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) حاضر ہو کر آزوقہ حیات دے جاتیں اور کبھی خود بنفس نفیس جا کر چند روز کا سامان خوردو نوش لے آتے اور حرا میں پھر مشغول عبادت ہوجاتے چنانچہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی حرا زبان سے اس کیف آگیں منظر کا شاہد ہے جس کا لطف اس نے برسوں اٹھایا ہے مشہور محدث و مؤرخ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اس واقعہ کو ان مختصر الفاظ میں حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے :
( (وَاِنَّمَا کَانَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحِبُّ الْخَلَائَ وَالْاِنْفِرَادَ عَلٰی قَوْمِہٖ لِمَا یَرَأَھُمْ عَلَیْہِ مِنَ الضَّلَالِ الْمُبِیْنِ مِنْ عِبَادَۃِ الْاَوْثَانِ وَالسُّجُوْدِ لِلْاَصْنَامِ وَ قَوِیَتْ مُحَبَّتُہٗ لِلْخَلْوَۃِ عِنْدَ مُقَارَبَۃِ اِیْحَائِ اللّٰہِ اِلَیْہِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ )) [50]
” اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دور شباب میں) خلوت پسند ہوگئے تھے اور قوم سے الگ تنہائی میں وقت گزارتے تھے کیونکہ وہ قوم کی اس کھلی گمراہی کو دیکھ کر کہ ” وہ بت پرستی میں مبتلا اور بتوں کے سامنے سجدہ گزار ہے “ کڑھتے تھے اور جوں جوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی الٰہی کے نزول کا زمانہ قریب ہوتا جاتا تھا (مشیت الٰہی سے) اسی قدر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلوت پسندی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ ”
صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْہِ “ (اس ذات اقدس پر خدا کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو) ۔ “
بہرحال یہی وہ خلوت کدہ عبادت تھا جہاں ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے وحی الٰہی کا نزول ہوا اور بالترتیب سورة اقراء اور سورة مدثر کی چند آیات سنانے کے لیے بشیر و نذیر بنادیا۔

حقیقت وحی

یہ ” وحی “ و ” تنزیل “ کیا ہے جس کو نبوت و رسالت کے خصائص میں سے کہا جاتا ہے اور یہ منصب نبوت و رسالت کیا شئے ہے جس کا وحی وتنزیل کے ساتھ اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہے کہ منطقی اصطلاح میں لازم و ملزوم کہا جاسکتا ہے اور اس اصطلاحی گفتگو سے قطع نظر سادہ الفاظ میں اس سوال کو کیوں نہ اس طرح پیش کردیا جائے کہ کائنات انسانی کے ہر معاملہ میں جبکہ حسن و قبح کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے فطرت نے ہم کو جوہر عقل عطا کردیا ہے اور انسان کے اندر کی یہ سرچ لائٹ (SEARCH LIGHT ) ہر ایک مادی شعبہ حیات میں رہنمائی کرتی ہے تو پھر رسول و نبی کے ذریعہ پیغام الٰہی کی حاجت کیا ہے ؟ اور عالم روحانیات کے مسائل اور معرفت الٰہی کے حصول میں تنہا عقل ہی کیوں کافی نہیں سمجھی جاتی ؟ یہی وہ سوال ہے جس کے حل ہوجانے پر وحی اور نبوت دونوں کی حقیقت بھی خود بخود واضح ہوسکتی ہے۔
اس سوال کو حل کرنے کے لیے پہلے ایک تمہید قابل توجہ ہے اور دراصل وہی اس مسئلہ کی کلید ہے۔تم جب کائنات کے وجود و خلق کو عمیق فکر و نظر سے مشاہدہ کرتے ہو تو یہ حقیقت ہر جگہ ابھری ہوئی نظر آتی ہے کہ خالق کائنات نے اپنی ربوبیت کاملہ کے فیض وعطاء سے ہر شئے کو جس طرح وجود بخشا اور خلق کیا اس کو ” ہدایت “ (راہنمائی) سے بھی سرفراز کیا ہے اور اگر یہ نہ ہوتی تو کائنات کا وجود و خلق مہمل اور بیکار ہوجاتا ‘ کیونکہ یہی ” ہدایت “ ہر ایک جاندار پر زندگی اور معیشت کی راہ کھولتی ‘ ان کی حیات کو مفید بناتی اور ضروریات حیات کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتی ہے اور یہی ناموس فطرت کا وہ فیض عام ہے جس کے بغیر کوئی مخلوق بھی سامان حیات اور وسائل تربیت سے استفادہ نہیں کرسکتی اور نہ وجود حیات کی یہ گرمجوشیاں ہی ظہور پذیر ہوسکتیں۔
” مچھلی کے جائے کن تیرا ئے “ اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے وہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو خود بخود پانی میں تیرنے لگتے اور اپنی غذا کی جستجو میں مصروف ہوجاتے ہیں ‘ پرندوں کے بچے انڈے سے باہر آتے ہی ہوا میں اڑنے کی کیوں کوشش کرتے نظر آتے ہیں حیوان اور انسان کا بچہ جب اس کارگاہ ہستی میں قدم رکھتا ہے تو بھوک و پیاس دور کرنے کے لیے ماں باپ سے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ خود بخود ماں کے سینہ پر منہ رکھ کر غذا کے خزانہ سے دودھ کیوں چوسنے لگتا ہے۔
آخر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ؟ تم کہتے ہو کہ یہ فطرت کا قانون ہے جو ان سب کو فیض ہدایت سے فیضیاب کرکے مخلوق کی نشوونما کا سامان مہیا کرتا ہے یہ ہدایت ہے جوہر حرکت حیات میں اپنا کام کر رہی ہے اور یہ فیض ہدایت ہے جو خالق کائنات کی جانب سے مخلوقات کی نشوونما کے لیے فیض عام ہوا ہے۔ لیکن ابھی وسعت نظر کو آگے بڑھنے دیجئے اور قدرت حق کے مشاہدہ کے لیے تیز گام ہوجائیے توکارگاہ قدرت اور نوامیس فطرت کی کرم فرمائیاں اور زیادہ جلوہ آرا نظر آئیں گی ‘ اور تم دیکھو گے کہ یہ ” ہدایت “ بھی دوسری موجودات کی طرح ارتقائی درجات رکھتی ہے اور ہر ایک درجہ اپنی افادیت کی نمو جدا رکھتا ہے چنانچہ اس راہ میں سب سے پہلے وجدان کی ہدایت سامنے آتی ہے اور یہ طبیعت حیوانی کے فطری اور باطنی الہام کا نام ہے یہی وہ ابتدائی درجہ ہے جو بچہ کو قید ہستی میں آنے کے فوراً بعد ہی کسی خارجی تعلیم و تربیت کے بغیر اس کی غذا کا پتہ دیتا اور اسباب حیات کے لیے معلم بنتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو انسان کی ارتقائی منزل پر پہنچ کر اور ” ضمیر کی آواز ‘ اندر کی صدا “ بن کر حقائق کی معرفت کے لیے خارجی دلائل وبراہین سے زیادہ قوی حجت ثابت ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہدایت حواس کا درجہ ہے یہ پہلے درجہ سے بلند ہے اور اس کی عطا و بخشش سے ہر ایک ذی روح دیکھنے ‘ سننے ‘ سونگھنے ‘ چکھنے کی قوتیں حاصل کرتا ہے اور ان کے ذریعہ کائنات عالم میں اپنی افادیت اور استفادہ دونوں کو ترقی دیتا ہے۔ قدرت حق کی جانب سے یہ دونوں درجے انسان اور حیوان دونوں کو عطا ہوئے ہیں اور دونوں کی یکساں طور پر راہنمائی کرتے ہیں ‘ مگر ان دونوں سے بلند ایک درجہ اور ہے جو ہدایت عقل کہلاتا ہے اور صرف انسان ہی کے لیے مخصوص ہے اور یہ بھی پہلے دو درجوں کی طرح بدیہی اور فطرت کے قوانین و نوامیس میں نمایاں جگہ رکھتا ہے یہی وہ ہدایت ہے جو انسان کو بقیہ تمام حیوانات سے امتیاز بخشتی اور اس کے سامنے فکر و نظر اور ترقیوں کی راہیں کھولتی ہے۔
اور اسی کی بدولت وہ اشرف المخلوقات کہلانے کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ عطیہ الٰہی ” ہدایت “ کے یہ تینوں درجے اپنے اپنے حلقہ اثر میں حضرت انسان کی رہنمائی کا حق ادا کرتے رہتے ہیں چنانچہ وجدان اس میں سعی پیہم کا جوش و ولولہ پیدا کرتا ہے ” حواس “ اس کے لیے معلومات فراہم کرتے ہیں اور ” عقل “ اس کو جزئیات و کلیات کا علم بخشتی اور ان سے متعلق احکام و نتائج ترتیب دیتی ہے۔ غرض یہی وہ ” ہدایت “ ہے قرآن عزیز نے جس کا ذکر انسانی تخلیق و تربیت کے سلسلہ میں کیا ہے مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے باہمی مکالمہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائے برحق کی ربوبیت کاملہ کا جس طرح اظہار فرمایا ہے اس کا ذکر یوں کیا ہے :
سورة طہ میں ہے :
{ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی } [51]
” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اور سورة اعلٰی میں ہے :
{ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ۔ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی۔ } [52]
” وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی پھر اس کو درست کیا پھر ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ‘ پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔ “
اس آیت میں وجود کائنات کے چار مراتب بیان کرکے قرآن نے ایک عظیم الشان ” حقائق علمیہ “ کا باب کھول دیا ہے۔ یہ چار مراتب بالترتیب ” خلق ‘ تسویہ ‘ تقدیر ‘ ہدایت “ ہیں اور یہی چار مراتب خلاصہ حقائق ہیں ‘ خلق یہ کہ وجود بخشا ‘ تسویہ یہ کہ اس کی استعداد کے مطابق اس کی درست کاری کی ‘ تقدیر یہ کہ ہر شئے سے متعلق اس کے بدء خلق سے اس کے نتیجہ حیات تک کے لیے پہلے سے ایک مقررہ اندازہ طے کردیا اور ہدایت یہ کہ اس پر ہر قسم کی راہ عمل کھول دی۔ اور سورة بلد میں ہے :
{ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـہٗ عَیْنَیْنِ ۔ وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ ۔ وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ ۔ } [53]
” کیا ہم نے اس کو (دیکھنے کے لئے) دو آنکھیں نہیں دیں اور کیا (بولنے کے لئے) زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے اور ہم نے اس کو اچھی اور بری دونوں راہیں دکھا دیں۔ “
اور سورة دہر میں ہے :
{ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ۔ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۔ } [54]
” ہم نے انسان کو (مرد و عورت کے) ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا جس کو (ہم) مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی اب یہ اس کا کام ہے کہ شکرگزار بنے یا ناشکرگزار ۔ “
مگر یہ بات بھی بہت صاف ہے کہ ہدایت کے ان ہر سہ مراتب وجدان ‘ حواس ‘ عقل کی راہ عمل اپنے اپنے دائرہ عمل ہی تک محدود ہے یعنی وجدان ایک جاندار کے اندر زندگی کے لیے جوش عمل اور سعی مسلسل ولولہ تو پیدا کرسکتی ہے مگر حیوان یا انسان سے باہر محسوسات خارجیہ کا ادراک اور علم اس کے دائرہ عمل سے خارج ہے ‘ اسی طرح ہدایت حواس محسوسات کا ادراک ضرور پیدا کردیتی ہے لیکن یہ اس کے احاطہ عمل سے باہر ہے کہ وہ محسوسات کے نتائج و احکام اور جزئیات سے کلیات کا اور کلیات سے جزئیات کا استنباط کرسکے کیونکہ یہ کار فرمائی ” ہدایت عقل “ سے متعلق ہے جو عام حیوانات کے لیے نہیں بلکہ صرف انسان کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔
تو ہدایت عقل اگرچہ پہلی دونوں ہدایات کے مقابلہ میں بلند مرتبہ رکھتی اور کائنات کی بلند ترین ہستی ( حضرت انسان) کی رہنمائی کرتی ہے تاہم اس سے بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ ” عقل کا دائرہ “ وسیع تر ہونے کے باوجود پھر محدود ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ عقل جو کچھ اور جس قدر بھی نتائج و احکام کا استنباط و استخراج کرتی ہے اس کا دائرہ محسوسات ہی تک محدود رہتا ہے اور حواس خمسہ (قوت باصرہ ‘ سامعہ ‘ لامسہ ‘ شامہ ‘ ذائقہ) نے اپنی اپنی خدمات انجام دے کر جو کچھ ہمارے لیے فراہم کیا ہے عقل اسی پر اپنا تصرف کرتی اور کرسکتی ہے لیکن یہ بات کہ محسوسات کی سرحد سے پرے کیا کچھ ہے اور اس پردے کے پیچھے کیا ہے ؟ اس مقام پر پہنچ کر عقل بھی درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ درجہ ہدایت بھی اس سلسلہ میں ہم کو کسی قسم کی روشنی پہنچانے سے معذور نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں اگر وجدان کی تکمیل کے لیے حواس اور حواس کی تکمیل کے لیے عقل کی ہدایت موجود نہ ہوتی تو انسان ہرگز ان مدارج ارتقاء اور مراتب رفیع پر نہ پہنچ پاتا جن تک آج پہنچا ہوا ہے اور آئندہ جن تک پہنچنے کے لیے میدان عمل میں گامزن ہے اگر انسان میں وجدان کی قوت نہ ہوتی تو کس طرح حواس کی دنیا تک اپنی حیات کو پہنچا سکتا اور اگر محسوسات کے ادراک کے لیے حواس کی قوتیں نہ ہوتیں تو انسان کس طرح اپنی ذات سے خارج اشیاء کا ادراک کرسکتا اور ترقی کے لیے کوئی قدم اٹھاسکتا اور جبکہ حواس کے وسائل ادراک محدود ہیں ‘ اور نہ صرف محدود بلکہ بسا اوقات گمراہی اور غلطی میں مبتلا کردیتے ہیں مثلاً ہم کو طویل فاصلہ کی بڑی سے بڑی چیز چھوٹی نظر آتی ہے یا خلط صفراء کے بڑھ جانے سے شیریں سے شیریں چیز ذائقہ میں تلخ معلوم ہوتی ہے یا فاصلہ ہونے کی وجہ سے ہم رنگوں کے امتیاز میں اکثر غلطی کر جاتے ہیں تو ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت کام آتی اور صحیح رہنمائی کرتی ہے اور اصل حقیقت کو پیش نظر لاتی ہے وہ کہتی ہے کہ اگر طویل فاصلہ کی بنا پر تم کو جہاز ایک چھوٹی سی چیز نظر آتا ہے تو یہ نگاہ اور قوت باصرہ کا قصور ہے ورنہ جہاز ایک لمبی چوڑی اور بڑی شے کا نام ہے اسی طرح شیریں اور تلخ کا فیصلہ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی شیریں ہر حالت میں شیریں ہے اس لیے ذائقہ کی یہ تلخی مرض کی وجہ سے ہے غرض حواس کی غلطیوں سے محفوظ رکھ کر اصل حقیقت کو واضح کرنا عقل کی ہدایت کا فریضہ ہے اس لیے ہم ایک قدم اور آگے بڑھا کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس سے قطع نظر کہ عقل محسوسات کی حدود سے آگے کچھ نہیں جانتی ‘ انسان کی عملی زندگی کے تمام حالات میں عقل کی ہدایت بھی کافی اور موثر ثابت نہیں ہوتی اس لیے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نفس انسانی جذبات ‘ رجحانات اور قسم قسم کی خواہشات سے متاثر و مغلوب ہے بلکہ اکثر یہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ جب عقل اور جذبات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے تو فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے اور عقل درماندہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
تو ان حالات میں عقل ہی تقاضا کرتی ہے کہ یہاں عقل سے بھی بلند اور کوئی درجہ ہونا چاہیے جو عقل سے زیادہ موثر رہنما اور ہر قسم کی کوتاہیوں سے پاک اور بےلوث ثابت ہو۔
اس تمہید کا حاصل یہ نکلا کہ انسان محسوسات کے دائرہ میں محدود رہ کر بھی اور ماورائے محسوسات کے ادراک کے لیے بھی ہدایت عقل سے بلند (ایک چوتھے) درجہ ہدایت کا محتاج ہے تو اب لائق غور و فکر ہے یہ بات کہ جس رب العٰلمین نے اپنی ربوبیت کاملہ سے انسان کے ارتقائی کمالات کی حاجات و ضروریات کے پیش نظر ہدایت وجدان سے بلند ہدایت حواس اور ہدایت حواس سے رفیع ہدایت عقل عطا فرمائی تو جبکہ عقل کی ہدایت بھی خالص حدود سے آگے نہیں جاسکتی اور حصول کمالات اور اعمال کے صحیح ضبط و نظم کے لیے ہی کافی نہیں ہے نیز ماورائے محسوسات کے عدم علم کے باوجود اس کے انکار پر کوئی مثبت علمی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس وجدانی جذبات و احساسات اور شعور نفس اس کے حقیقت ہونے کا پتہ دیتے ہیں تو کیا اس خدائے برحق کی ربوبیت اور فیض رحمت کے لیے یہ منافی نہ تھا کہ وہ انسان کو ہدایت عقل سے بلند کوئی مرتبہ ہدایت عطا نہ کرے ؟ ضرور منافی تھا اور اس لیے ایسا نہیں ہوا بلکہ اس نے اس کو ایک اور بلند تر مرتبہ ہدایت وحی بخشا یہ مرتبہ ہدایت اپنی رہنمائی میں ہر قسم کی کوتاہیوں اور خطا و قصور سے مامون و محفوظ ہے کیونکہ یہ خدا کی جانب سے ہر شے کی حقیقت کا علم و یقین عطا کرتا ہے اور ہدایت وحی کے افاضہ کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی مقدس ہستی کو جو ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے ” معصوم “ ہوتی ہے اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کہ وہ اس کی جانب لوازم بشریت کے ساتھ مقید رہ کر دوسرے انسانوں کی طرح انسان اور بشر کہلاتی ہے اور دوسری جانب سے کائنات انسانی تک ” ہدایت وحی “ کو پہنچا دے ‘ اس لیے یہ مقدس ہستی ایک جانب عیوب و مآثم سے معصوم رہ کر خدا کے ساتھ وہ تعلق رکھتی ہے جو دوسرے مقدس انسانوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح خدا اور اس کے بندوں کے درمیان افاضہ ہدایت وحی کے لیے ایلچی اور واسطہ بنتی ہے ایسی حقیقت کا نام مذہب کی اصطلاح میں نبوت و رسالت ہے۔
قرآن حکیم نے ہدایت کے اس مرتبہ عالی کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے حسب ذیل چند شواہد ملاحظہ ہوں :
{ وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی } [55]
” لیکن قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ حق و ہدایت دکھلائی تھی لیکن اس نے اندھے پن کو پسند کیا اور ہدایت کی راہ نہ چلی۔ “
{ قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [56]
” (اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے یقیناً اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ تمام کائنات عالم کے پروردگار کے آگے سر عبودیت جھکا دیں۔ “
{ وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ } [57]
” اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں سعی وجانفشانی کی تو ضرور ہے کہ ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دیں اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی اور مددگار ہے جو نیک کردار ہیں۔ “
{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی ۔ وَاِنَّ لَنَا لَـلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی ۔ } [58]
” بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رہنمائی کریں (ہدایت وحی عطا کریں) اور یقیناً آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔ “
ارتقائی نقطہ نظر سے ہدایت وحی اور مسئلہ نبوت و رسالت کی وضاحت کے لیے اشہب فکر کو یوں بھی مہمیز کیا جاسکتا ہے کہ جب کہ یہ عقلی اور عملی نظریہ مسلمات میں سے ہے کہ بقائے انفع یا بقائے اصلح کے فطری قانون کے مطابق کائنات کی گونا گوں موجودات میں ہر ایک شئے اپنے موجود رہنے کے لیے کوئی حکمت و مصلحت ضرور رکھتی ہے اور حکیم مطلق کا قانون فطرت کسی شئے کو اسی وقت تک باقی رکھتا ہے جب تک اس کا وجود نافع اور مفید ہونے کی صلاحیت رکھتا اور جس غرض وغایت کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے اس کو پورا کرتا ہے اور اسی قانون بقائے انفع و اصلح سے یہ بات بھی بہت واضح اور نمایاں طور پر ثابت ہوتی ہے کہ نفع اور افادیت کا سب سے اہم جز یہ ہے کہ ہر شے اپنے سے بلند مخلوق اور سلسلہ مخلوقات میں سے ہر نوع اپنے سے بلند نوع کی بقاء کے لیے مفید و معاون ثابت ہو پس جبکہ حضرت انسان کو عقل بھی موجودات عالم کی سب سے بلند مخلوق اور مدارج ارتقاء کی بلند ترین کڑی تسلیم کرتی ہے اور اسی قانون کی رو سے موجودات عالم کی ہر شئے اس کی خدمت ‘ اس کے نفع اور اس کی افادیت میں مصروف عمل نظر آتی ہے تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اشرف المخلوقات (انسان) کا وجدان ‘ اس کے جذبات عالیہ اور اس کے افکار و خیالات کی پرواز جبکہ عالم مادیات سے کہیں زیادہ بلند اور رفیع ہیں اور اس کی عقل یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ماورائے مادہ سے ناواقف ہے پھر بھی اس پردہ کے پیچھے کچھ ہونے کا احساس رکھتی اور اس کی معرفت کے لیے چسک محسوس کرتی ہے فطرت الٰہی کا فیضان اور بقائے انفع کا ناموس اس کو عالم مادیات و محسوسات ہی کے اندر محصور رکھتا ‘ اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ فطرت بخیل ٹھہرتی بلکہ یہ فطرت کا بہت بڑا ظلم ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ تنہا عقل اس کو اس منزل تک پہنچانے کے لیے قاصر و ناکام ہے لہٰذا از بس ضروری تھا کہ فطرت الٰہی اس کی رہنمائی کے لیے مزید کوئی سامان مہیا کرتی اور انسان کی ذہنی و فکری ترقیوں کو درجہ تکمیل تک پہنچاتی۔ پس ماورائے مادہ علوم و معارف اور کائنات انسانی کی فلاح و نجات کے مقصد عظمیٰ کے لیے عقل کی رہنمائی کا یہی وہ فیضان الٰہی ہے جس کو قرآن کی اصطلاح اور مذہبی بول چال میں وحی و نبوت کہا جاتا ہے اور آیت ذیل اسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے :
{ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْم بَلَغَ } [59]
” اس نے (خدا نے) مجھ پر اس قرآن کی وحی کی تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں (اہل عرب کو) اور انھیں جن تک اس کی تعلیم پہنچ جائے (ربع مسکون کو) انکار اور بدعملی کے نتیجہ سے ڈراؤں۔ “
{ اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۔ وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ۔ } [60]
” (اے پیغمبر ! ) ہم نے تمہاری جانب اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح پر اور ان نبیوں پر جو نوح کے بعد ہوئے بھیجی تھی اور جس طرح ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ اور اولاد یعقوب ‘ عیسیٰ ‘ ایوب ‘ یونس ‘ ہارون ‘ سلیمان پر بھیجی اور داؤد کو زبور عطا فرمائی ‘ نیز خدا کے وہ رسول جن کا حال ہم (قرآن میں) پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا اور (اسی طرح) اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طور پر کلام کرنا ہوتا ہے یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی پر) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق پر) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کی طرف کسی نے دعوت نہیں دی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ وَلَمَّا جَائَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ۔ } [61]
” اور جب عیسیٰ (خدا کی) نشانیاں لے کر آیا ‘ کہا میں تمہارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ بعض ان باتوں کو جن کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف ہے صاف صاف بیان کر دوں پس اللہ کے متقی بندے بن جاؤ اور میری پیروی کرو (اس بات میں کہ) بیشک اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا ۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ۔ } [62]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمہاری طرف واضح اور آشکارا روشنی بھیج دی پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور انھوں نے اس کا سہارا مضبوط پکڑ لیا تو وہ انھیں عنقریب اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر دے گا اور ان پر اپنا فضل کرے گا اور انھیں اپنے تک پہنچنے کی راہ دکھائیگا ‘ ایسی راہ جو بالکل سیدھی راہ ہے۔ “
قرآن نے ان آیات میں ہدایت وحی کو حکمت ‘ برہان (حجت و دلیل) اور نور مبین (آشکارا روشنی) کہا ہے تاکہ یہ بخوبی واضح ہوجائے کہ جس طرح محسوسات و مادیات کے لیے عقل کو روشنی اور دلیل راہ کہا جاتا ہے اسی طرح عقل کے دائرہ حدود سے آگے کے لیے ہدایت وحی یہی حیثیت رکھتی اور یہی خدمات انجام دیتی ہے۔ ہدایت وحی کی ضرورت پر اب تک جو کچھ کہا گیا اگر اس کے علاوہ مزید اضافہ مطلوب ہو تو مبدء فیاض کے اس لطیف و حسین فیضان کے متعلق اس روشن پہلو سے بھی نظر کی جاسکتی ہے کہ جب ہم حواس کی قوتوں کا فکر عمیق سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت صاف نمایاں نظر آتی ہے کہ ناموس فطرت نے یہاں ایک قوت کے عملی نظام کو اس طرح سانچہ میں ڈھالا ہے کہ انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی قوت حواس اس وقت تک اپنا صحیح عمل نہیں کر پاتی ‘ جب تک خارج سے اس کی مدد نہ کی جائے مثلاً قوت باصرہ دیکھنے کی قوت کا نام ہے اور تم اس سے اپنی زندگی میں برابر کام لیتے رہتے ہو اور اس بحث سے قطع نظر کہ جو شئے باہر موجود ہے وہ آنکھ کے باریک پردوں پر اپنا عکس ڈال رہی ہے یا آنکھ کے پردوں میں جو روشنی ہے وہ اندر سے بشکل شعاع نکل کر موجود خارجی کو متاثر کر رہی ہے اور اس کو ہم دیکھنا کہتے ہیں تم نے کبھی اس پر ضرور غور کیا ہوگا کہ جب تم کسی قسم کی بھی روشنی میں ہوتے ہو تو اپنی قوت باصرہ کی استعداد کے مطابق جس شئے کو دیکھنا چاہتے ہو دیکھتے ہو لیکن جوں ہی تاریکی کا شکار ہوجاتے ہو اور شب دیجور کے ساتھ ابر سیاہ کے پردے روشنی پرچھا جاتے ہیں اس وقت حلقہ چشم میں قوت باصرہ کی موجودگی کے باوجود تم یہ کہا کرتے ہو کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تو آخر بینا ہوتے ہوئے ایسا کیوں کہتے ہو ؟ تمہارا جواب اس وقت یہ ہوتا ہے کہ قانون قدرت نے یہی مقرر کردیا ہے کہ باطنی قوائے عمل اس وقت تک اپنا صحیح کام نہیں کرتے جب تک خارج سے اسی سلسلہ کی مدد نہ پہنچے۔ اس لیے قوت باصرہ کی باطنی قوت بھی محتاج ہے کہ دیئے (چراغ) کی روشنی سے لے کر ماہتاب و آفتاب تک جس حیثیت کی بھی روشنی ہو اس کی مدد کرے تو وہ اپنا عملی مظاہرہ کرسکے گی اور یہی حال دوسرے حواس کا بھی ہے۔ پس اگر یہ صحیح ہے اور بلاشبہ صحیح ہے کہ خدائے واحد کا قانون قدرت اور ناموس فطرت اپنی وحدت کی جلوہ نمائی کا مظاہرہ کائنات مادی اور عالم روحانی میں یکساں طور پر کرتا رہتا ہے تو بےتامل یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عقل حضرت انسان کے اندر کی وہ روشنی ہے جس کو ید قدرت نے انسانیت کے ارتقائی منازل پر گامزن ہو کر انسانیت کی مثل اعلیٰ اور مقصد عظمیٰ کو پانے کے لیے ودیعت کیا ہے مگر مسطورہ بالا قانون یہاں بھی اسی طرح کار فرما ہے جیسا کہ قوائے حواس میں کارفرما نظر آتا ہے یعنی اگر عقل عالم محسوسات و مادیات کے دائرے میں اپنا عملی مظاہرہ کرنا چاہتی ہے تو وہ محسوسات خارجی کی مدد کی ضرور محتاج رہتی ہے مثلاً اس کا یہ فریضہ ہے کہ جزئیات کے ذریعہ کلی کا استخراج کرے لیکن وہ ایسا جب ہی کرسکے گی کہ خارج میں اس سلسلہ کی جزئیات کا ایک بڑا ذخیرہ اپنے حقائق اصلیہ کو اس کے سامنے پیش کرے پس اگر عقل کی روشنی اور ان حقائق کے درمیان وہم ‘ خیال اور ظن کے تاریک پردے حائل ہوجائیں تو عقل کی روشنی ہرگز اپنا صحیح کام نہیں کرسکتی۔ اسی طرح جب وہ ماورائے محسوسات (روحانیات) کی جانب اپنی روشنی کو متوجہ کرتی ہے تو یہی اوہام ‘ ظنون ‘ خیالات اور جذبات فاسدہ کے تاریک پردے اس کے اور عالم روحانیات کے درمیان عموماً حائل ہوجاتے ہیں اور وہ اکثر و بیشتر ان سے مغلوب ہو کر گم کردہ راہ ہوجاتی اور معرفت حق اور معرفت باطل کے درمیان فرق و امتیاز سے عاجز نظر آتی ہے۔ ایسی حالت میں خالق کائنات کی رحمت کاملہ اور ربوبیت تامہ اس کو خاسر و ناکام نہیں چھوڑتی اور خارج سے اس کی پوری مدد کرتی ہے اور یہی وہ خارج کی روشنی ہے جو نبی اور پیغمبر کے ذریعے کائنات انسانی تک پہنچی اور دین و مذہب کی زبان میں وحی (روشنی) کہی جاتی ہے چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے جگہ جگہ وحی کو نور (روشنی) سے تعبیر کیا ہے :
{ یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا } [63]
” (اے افراد نسل انسانی ! ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی جانب سے برہان (دلیل و حجت) آگئی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور آشکارا روشنی (وحی الٰہی بشکل قرآن) بھیج دی۔ “
{ قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ} [64]
” اللہ کی جانب سے تمہارے پاس (حق کی) روشنی آچکی اور ایسی کتاب آگئی جو (اپنی ہدایتوں میں نہایت) روشن کتاب ہے۔ “
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ } [65]
” یہ لوگ (مشرکین ‘ یہود ‘ نصاریٰ ) چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کئے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو پسند نہ آئے۔ “
{ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } [66]
” اور (دیکھو واقعہ یہ ہے کہ) ہم نے اپنی نشانیوں کے ساتھ موسیٰ کو بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ } [67]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے ” امر “ میں سے ” روح امر “ کی وحی بھیجی حالانکہ اس سے قبل تو نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب ؟ اور نہیں جانتا تھا کہ کیا ہے ایمان ؟ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ان کو اس کے ذریعہ راہ دکھاتے ہیں اور اے پیغمبر ! بلاشبہ تو (لوگوں کو) سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ “
پھر اس مسئلہ کی اہمیت پر ایک دوسرے پہلو سے بھی فکر و نظر کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اس عالم ہست و بود میں روز و شب کے مشاہدات و تجربات سے یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ یہاں ہر شئے کی کیفیت و کمیت یا اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک ترازو یا پیمانہ ضرور ہے اور یہ کہ ہر ایک پیمانہ اور ہر ایک ترازو اپنے اندر ایک خاص صلاحیت رکھتا اور اپنی صلاحیت کے مطابق ہی اشیاء کے ناپ تول میں کام دے سکتا ہے مثلاً موتی اور جواہرات کے تولنے کے لیے ایک خاص ترازو (کانٹا) ہے ‘ اب اگر ہم یہ چاہیں کہ اس میں شکر ‘ روئی ‘ غلہ جیسی چیزوں کو تولیں تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسری قسم کا ترازو کام دے گا یا مثلاً کپڑا ‘ زمین وغیرہ جیسی اشیاء کی پیمائش کے لیے ہم ایک خاص قسم کا پیمانہ (گز) استعمال کرتے ہیں پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس سے حرارت و برودت کی بھی پیمائش کرلیں تو اس کے لیے یہ نہیں بلکہ دوسرا پیمانہ تھرمامیٹر (THERMOMETER ) کام میں لانا ہوگا اور اسی طرح ہوا کے دباؤ اور سطح کی اونچائی معلوم کرنے کے لیے بیرو میٹر (BARO METER ) اور زلزلوں اور بھونچالوں کی حالت دریافت کرنے کے لیے سیزموگراف (SEISMO GRAPH ) اور آواز کی مقدار و قوت کی پیمائش کے لیے فونو گراف (PHONO GRAPH ) جدا جدا قسم کے پیمانے استعمال کرنے ہوں گے کیونکہ ان کی اپنی صلاحیت و استعداد کار کا یہی فطری تقاضا ہے کہ اگر اس کے خلاف ان کا استعمال کیا جائے گا تو یا تو قطعاً بیکار ثابت ہوں گے اور یا صحیح حقیقت نہ بتلا سکیں گے حالانکہ ان سب کا ایک ہی کام ہے یعنی ناپ تول اور ایک ہی نام ہے ترازو اور پیمانہ مگر ہر شئے کی حقیقت اور اس کی کیفیت و کمیت کے پیش نظر چونکہ ان سب کی صلاحیت کار کی حدود متعین ہیں لہٰذا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی حدود سے متجاوز ہو کر کار آمد ثابت نہیں۔
قانون قدرت کی کارفرمائی کو رہنما بناکر اگر ہم اسی نقطہ نظر سے آگے قدم بڑھائیں اور خالص مادیات سے گزر کر معنویات کی حدود پر جا پہنچیں تو یہاں بھی وہی کرشمہ قدرت نظر آتا ہے یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی حیات کے لیے رحمت کردگار نے جو پیمانے مقرر کئے ہیں اور جن کو وجدان ‘ حواس اور عقل کہا جاتا ہے ان میں بھی جدا جدا صلاحیتوں کے اعتبار سے حدود منقسم ہیں مثلاً پیمانہ وجدان انسان کی صرف اسی کیفیت و حالت سے متعلق ہے جو قدرت کے ہاتھوں نے اس کے وجود کے ساتھ ساتھ اس میں ودیعت کردی ہے اور حواس کا پیمانہ ان ہی اشیاء سے تعلق رکھتا ہے جو دیکھنے ‘ سننے ‘ چکھنے ‘ چھونے اور سونگھنے میں آسکتی ہیں اور پیمانہ عقل ان دونوں سے آگے عالم مشاہدات و محسوسات کے حقائق اور ان کی کیفیات کے جانچنے ‘ ان کے درمیان امتیاز پیدا کرنے ‘ ان سے نتائج اخذ کرنے اور ان پر احکام صادر کرنے کی خدمت انجام دیتا ہے۔
پس اگر ہم چاہیں کہ وجدان سے حواس اور حواس سے عقل کا کام لیں تو خود عقل ہی کے نزدیک ایسا کرنا غلط ہوگا کیونکہ یہ قانون فطرت کی مقررہ حدود کی خلاف ورزی کے مرادف ہے جس کے اقدام پر ناکامی کے ماسوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ لیکن عقل انسانی اس کے آگے نہ جاننے کے باوجود پھر جاننے کی جو جستجو رکھتی اور اپنی ترقی کو اس کے اندر محدود نہیں سمجھتی ‘ نیز تمام خارجی دلائل سے بڑھ کر انسان کے اندر کی قوی تر حجت وبرہان ” وجدان “ ان ہر دو عالم سے بھی بلند تر عالم کے وجود کا جو پتہ دیتی ہے اس کے پیش نظر ہم وسعت نظر کا قدم اور آگے بڑھاتے اور مسطورہ بالا عالم معنویات سے لطیف تر معنوی عالم کا کھوج لگانا چاہتے اور اس کائنات سے اپنا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں جہاں حسن ‘ صداقت اور محبت حاشیہ1 (ذات حق کی صفات ربوبیت ‘ عدالت اور رحمت) اپنی جلوہ آرائیوں سے اس کائنات کو بھی منور کر رہی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پہنچ کر پیمانہ عقل بھی کوتاہ ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی رفعت پرواز وہاں تک رسائی نہیں کر پاتی ‘ خصوصاً ایسی حالت میں کہ انسانوں کے درمیان عقل کا اس درجہ تفاوت موجود ہے کہ ایک شخص کی عقل اس کو نہ صرف ممکن الوقوع سمجھتی ہے بلکہ اس کو وجود پذیر کر دکھاتی ہے بلکہ تفاوت عقلی کی بوالعجبیوں کا تو یہ حال ہے کہ ایک ہی شخص کی عقل ایک وقت جس بات پر ناممکن کا فتویٰ صادر کردیتی ہے دوسرے وقت میں اسی بات کو ممکن سمجھنے لگتی ہے تو جب پیمانہ عقل کا عالم محسوسات میں یہ حال ہے تو عالم غیب تک اس کی رسائی معلوم ؟ اور پھر جس پیمانہ کے توازن کو غیر متوازن بنانے کے لیے وہم و خیال اور جذبات کا سیل رواں موجیں مارتا رہتا ہو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ خارج سے مدد و یاوری کے بغیر عقل معرفت الٰہی اور علوم غیب تک رسائی حاصل کرسکتی ہے ؟
حاشیہ1آج کل علمائے جدید میں یہ بحث جاری ہے کہ سائنس نے اپنی حدود کو اس طرح محدود رکھا کہ اس کے دائرہ میں حسن ‘ صداقت اور محبت کی کوئی قدر و قیمت نظر نہیں آتی اور اس لیے وہ خدا کی ہستی کی معرفت ضروری نہیں سمجھتی مگر یہ سائنس کا کمال نہیں ہے بلکہ نقص ہے جو آج نہیں تو کل ضرور پورا ہو کر رہے گا۔
پس انسان کی بیچارگی و درماندگی کے اس مقام پر بھی رحمت کردگار اپنے فیضان سے اس کو محروم نہیں رکھتی اور معنوی و روحانی حقائق کی معرفت کے لیے ایک مقدس ہستی (پیغمبر) کے ذریعہ اس کو عقل سے بھی رفیع و لطیف پیمانہ ہدایت وحی عطا کردیتی ہے تاکہ انسان سعادت و شقاوت میں امتیاز کرنے کے بعد حیات سرمدی اور نجات ابدی کو پا سکے۔
قرآن عزیز نے وحی الٰہی کو یہی حیثیت دیتے ہوئے سورة شورٰی میں ارشاد فرمایا ہے :
{ اَللّٰہُ الَّذِیْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیزَانَ } [68]
” اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب (قرآن) کو نازل کیا اور اتارا میزان (ترازو) کو (یعنی دین حق کو جو حق و باطل کے لیے ترازو اور پیمانہ ہے) “
چنانچہ شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) موضح القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
” ترازو فرمایا دین حق کو جس میں بات پوری ہے نہ کم نہ زیادہ “

صاحب وحی کی معرفت کی وجدانی دلیل

” ہدایت وحی “ یا ” نبوت و رسالت “ کی حقیقت و اہمیت پر گزشتہ سطور میں کوتاہ قلمی کے باوجود جو کچھ سپرد قرطاس کیا گیا اس کی تکمیل کے لیے اس سوال کو بھی حل کرنا از بس ضروری ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ حامل وحی ہے اور خدا کا پیغمبر اور ایلچی تو اس کے دعویٰ صدق و کذب کی معرفت کا کونسا طریقہ ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ علم الکلام کے ماہرین (متکلمین) نے اس معرفت کے لیے بہت سے دلائل وبراہین پیش کئے ہیں اور اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس پر معرکہ الآراء بحثیں کی ہیں تاہم وہ اپنے طرز استدلال میں اصطلاحی فلسفیانہ اسلوب رکھتی ہیں جس کو ہم مذہبیات و روحانیات میں خاص اہمیت دینے کو آمادہ نہیں ہیں کیونکہ اس راہ میں وہی اسلوب بیان مفید ‘ دل نشیں اور جاذب قلوب ہوسکتا ہے جس کی بنیاد و نہاد وجدانی طرز استدلال پر رکھی گئی ہو اور عقلیت کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے اصطلاحی فلسفہ و منطق کی قیود میں اس کو پابہ زنجیر نہ کردیا گیا ہو اور یہ اس لیے کہ معرفت الٰہی اور معرفت علوم غیبیہ کے لیے دلیل ” وجدان “ سے زیادہ دوسری کوئی دلیل وبرہان موثر نہیں ہے اسی حکمت بالغہ کے پیش نظر قرآن عزیز کے تمام عقلی استدلالات۔۔ جن پر غور کرنے کے لیے ” قرآن “ عقل و فکر اور تدبر کو مخاطب بناتا ہے۔ کی بنیاد بھی ” وجدان “ پر قائم کی گئی ہے البتہ یہ قرآن حکیم کا اعجاز بلاغت ہے کہ ان وجدانی دلائل کو اگر کوئی فلسفی دقیق فلسفیانہ طریق استدلال کے سانچہ میں ڈھال کر زیر بحث لانا چاہے تو یہ وجدان پر مبنی استدلالات اسی اہمیت و قوت کے ساتھ اپنی صداقت اور ثمرہ و نتیجہ کو اس رنگ میں بھی تسلیم کرا لیتے ہیں۔
غرض ” وجدان “ اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ تم مدعیٔ نبوت کی زندگی کو صداقت کی کسوٹی پر خوب کسو اور اگر آج وہ ہستی تمہارے سامنے نہیں ہے تو تعصب اور نسلی و جماعتی حسد سے پاک اور بےلوث ہو کر بےلاگ تاریخی حقائق سے دریافت کرو ‘ پس اگر تم پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ اس کی قبل از دعویٰ نبوت زندگی کا ہر شعبہ حیات صداقت و حقانیت کا مظہر ہے اور ہر ایک شعبہ زندگی بےداغ صداقت کا پیکر اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس کا وجود ہر قسم کی بداخلاقیوں ‘ گناہوں اور آلودگیوں سے پاک اور معصوم ہے اور اخلاقی بلندیوں کا مخزن اور ان ہی کیفیات و حالات کے ساتھ اس نے جانے بوجھے لوگوں میں زندگی کا بڑا حصہ گزارا ہے تو پھر اس کے دعویٰ صداقت میں شک و شبہ کرنا عقل سلیم کے خلاف ہوگا کیونکہ عقل بآسانی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس ہستی نے اپنی مدت حیات کے طویل عرصہ میں نازک سے نازک موقعوں پر بھی کبھی ایک لمحہ کے لیے انسانی دنیا پر جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر دماغی و قلبی انقلابات کی وہ کونسی تاریخ ہے جس کی بنا پر ایسی با ہوش و حواس ہستی کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ خالق کائنات خدائے برحق پر کذب بیانی اور افترا پردازی کے لیے یک بیک آمادہ ہوجائے ‘ چنانچہ قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو سورة یونس میں اس طرح بیان فرمایا ہے :
{ قُلْ لَّوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَ لَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۔ } [69]
” اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا (مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو ! یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملے سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں۔ کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں ؟ پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو باندھے اللہ پر بہتان یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو بیشک بھلا نہیں ہوتا گنہگاروں کا۔ “
صاحب وحی کی صداقت کی یہ ایسی بہترین کسوٹی اور دلیل ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے 6ھ میں بادشاہان عالم کے نام اسلام کی دعوت و پیغام کے سلسلہ میں والانامے بھیجے تو وقت کی سب سے بڑی طاقت (رومن امپائر) کے بادشاہ ہر کلیوس (ہرقل) کے پاس حضرت دحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) نامہ مبارک لے کر پہنچے تب اس نے بھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو پرکھنا چاہا تو سب سے پہلے اسی وجدانی دلیل کو معیار صداقت ٹھہرایا اور صورت حال یہ پیش آئی کہ اس نے سرکاری حکام سے دریافت کیا یہاں کوئی حجازی قافلہ موجود ہے جس سے اس ہستی کے متعلق معلومات حاصل ہو سکیں ؟ اتفاق سے ابو سفیان (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ مقیم تھا۔ چنانچہ ان لوگوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا اور ہر کلیوس نے رئیس التجارۃ (ابوسفیان) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق چند سوالات کئے جن میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ تمہارے اندر ہی پلا بڑھا ‘ رہا سہا ہے تو کیا تم نے اس کی زندگی کے اس طویل دور میں کبھی جھوٹ کا شائبہ پایا ہے ؟ ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا :
کبھی نہیں ‘ بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی قوم میں ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر ہر کلیوس نے یہ کہا :
( (وَسَأَلْتُکَ ھَلْ کُنْتُمْ تَتَّھِمُوْنَہٗ بِالْکِذْبِ قَبْلَ اَنْ یَّقُوْلَ مَا قَالَ فَذَکَرْتَ اَنْ لَا فَقَدْ اَعْرِفُ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِیَذَرُ الْکَذِبَ عَلٰی النَّاسِ وَیَکْذِبُ عَلٰی اللّٰہِ )) [70]
” میں نے تجھ سے یہ بھی دریافت کیا : کیا کبھی اس کے اس دعویٰ سے قبل تم نے اس کو جھوٹا پایا ہے ؟ تونے کہا ” کبھی نہیں “ تب میں نے یقین کرلیا کہ جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “
” جو ہستی انسانوں پر جھوٹ کہنے کو آمادہ نہ ہو وہ کبھی خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتی۔ “ دیکھئے یہ جملہ اس سلسلہ میں وجدان انسانی کا کس درجہ صحیح ترجمان ہے کہ ہر کلیوس نے بھی تمام عقلی و نقلی دلائل سے الگ ہو کر وجدان کے تقاضے سے پہلی دلیل جو پیش کی وہ وہی تھی جس کو وجدان کے خالق (خدائے برتر) نے اپنے پیغمبر سے (صداقت دعویٰ کے لئے) پیش کرائی۔ چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان آیات کی تفسیر اسی حقیقت کی روشنی میں اس طرح کی ہے :
” پھر آیت (16) میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے۔ فرمایا ‘ ساری باتیں چھوڑ دو ‘ صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات کی تمہیں خبر نہ ہو ‘ تم ہی میں سے ہوں اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں ‘ یعنی چالیس برس تک کی عمر کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے اس تمام مدت میں میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے رہی ‘ بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی ؟ پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہو جاؤں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بھی تم نہیں پاسکتے ؟
تمام علمائے اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصلی زمانہ ہوتا ہے جو سانچہ اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا ‘ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب و مفتری بن جائے کہ انسانوں پر ہی نہیں بلکہ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ( آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے خدا) پر افترا کرنے لگے ؟ چنانچہ اس کے بعد فرمایا : دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے جو شخص اللہ پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے اور شریر ومفتری انسان کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اب صورت حال نے یہاں دونوں فریق پیدا کردیئے ہیں۔ اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامراد ہونا پڑے گا اگر تم سچائی کے مکذب ہو تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے ‘ فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کا قانون ہے کہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔ چنانچہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوگیا ‘ جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ‘ جو صادق تھا اس کا کلمہ صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا۔ “ [71] بہرحال ” صاحب وحی “ کے دعویٰ صداقت کی یہ وجدانی دلیل عقل سلیم اور فکر مستقیم کی نگاہ میں علم الیقین پیدا کرنے کے لیے کافی ووافی ہے تاہم بقیہ شرائط یعنی صداقت تعلیم ‘ نزول وحی کا ادعاء اور مخالفین کے مقابلہ میں تحدی (چیلنج) اور تحدی کا ایفائے ‘ مدعی نبوت و رسالت کے لیے یہ تمام امور بھی از بس ضروری ہیں اور اپنی جگہ تفصیل طلب اور قابل لحاظ ہیں اس لیے کہ ان شرائط کے پیش نظر ہی نبی اور مصلح کے درمیان امتیاز ‘ نبی اور ساحر و شعبدہ باز کے مابین فرقِ بَیِّن اور نبی اور متنبی میں تضاد قائم کیا جاسکتا ہے۔

بعثت

غرض خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کا یہ حال تھا کہ ایک جانب خلو تہائے راز میں معرفت الٰہی کے لیے استغراق ‘ صراط مستقیم کی جستجو ‘ نوع انسانی کے اصلاح حال کی تڑپ اور طلب تھی اور دوسری جانب افراد قوم و ملک کے ساتھ راست گفتاری ‘ صداقت شعاری ‘ حسن معاملت اور اصابت فکر جیسے اخلاق کریمانہ وصفات حمیدہ سے متصف معاشرتی زندگی کا مظاہرہ تھا اور ان امتیازات کی وجہ سے ہر فرد کی نگاہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ قدر و منزلت تھی کہ باتفاق رائے ” الصادق الامین “ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے اور کل جو دشمنی ان کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعویٰ نبوت کی بنا پر ہوئی وہ آج محمد بن عبداللہ کے ساتھ قطعاً نہیں تھی اور سب ہی ان کی تقدیس و تطہیر کے قائل تھے۔
یہی حالات و واقعات تھے جبکہ عمر مبارک چالیس منزلیں طے کرچکی تھی رمضان کا مہینہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ اچانک آپ کے سامنے جبرائیل (علیہ السلام) فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ثقلین کی رشد و ہدایت کے لیے چن لیا اور رسالت و پیغمبری کے منصب کبریٰ پر فائز کیا۔ یہ واقعہ چونکہ نوع انسانی کی تاریخ میں حیرت زا انقلاب کا باعث ثابت ہوا اور اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج رفعت کی اس حد پر پہنچا دیا جہاں عالم ادیان و ملل کی تمام اصلاحات و انقلابات اس ہستی کا فیض رحمت نظر آتے ہیں اس لیے تاریخ و حدیث کے روشن صفحات نے اس واقعہ کی تمام تفصیلات کو بسند صحیح اپنے سینہ میں محفوظ رکھا ہے۔ چنانچہ فن حدیث و تاریخ اسلام کے امام بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور و مقبول کتاب اَلْجَامِعُ الصَّحِیْح میں صدیقہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی سند سے اس واقعہ کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں :
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شروع میں سچے خوابوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ کوئی خواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں دیکھتے تھے مگر وہ اپنی تعبیر میں اس درجہ روشن اور صحیح ثابت ہوتا تھا جیسا کہ طلوع صبح کے لیے سپیدہ صبح کا ظہور ہوتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلوت محبوب ہوگئی اور حرا میں مشغول عبادت رہنے لگے۔ گاہے گاہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل و عیال کے پاس بھی تشریف لے آتے تھے حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کچھ توشہ تیار کرتیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو لے کر پھر غار میں واپس تشریف لے جاتے اسی طرح حرا میں مشغول استغراق و عبادت تھے کہ اچانک ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خدا کا فرشتہ نمودار ہوا اور کہنے لگا : اِقْرَاْ ” پڑھئے “ نبی امی نے کہا مَا اَنَا بِقَارِیْ ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں نے فرشتہ سے یہ کہا تو اس نے مجھ کو گرفت میں لے لیا جس کی شدت سے مجھ کو تکلیف محسوس ہونے لگی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے دوبارہ کہا ” پڑھئے “ اور میں نے وہی جواب پھر دیا ” میں پڑھنا نہیں جانتا “ تب اس نے پھر وہی عمل کیا ‘ اور گرفت چھوڑ کر تیسری مرتبہ پھر پہلا جملہ دہرایا اور میں نے بھی وہی سابق جواب دیا غرض تین مرتبہ یہی گفتگو اور یہی عمل ہوتے رہنے کے بعد چوتھی مرتبہ فرشتہ نے (سورة اقراء کی) یہ چند آیتیں تلاوت کیں :
{ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ } [72]
” پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا ‘ اس نے انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا ‘ پڑھ اور تیرا پروردگار بہت کرم کرنے والا ہے جس نے قلم (تحریر) کے ذریعہ (انسان کو) علم سکھایا ‘ انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جس سے وہ ناواقف تھا۔ “
حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) اس آیت کی تفسیر میں بہت ہی لطیف بات ارشاد فرماتے ہیں ‘ موضح القرآن میں لکھتے ہیں : اول جبرائیل (علیہ السلام) وحی لائے تو یہی پانچ آیتیں ‘ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی لکھا پڑھا نہ تھا (اس لیے اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی دیتا ہے یوں بھی (یعنی بغیر وسائل کے وہبی طور پر) وہی دے گا۔
غرض نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کو دہرایا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن نشین ہوگئیں اس کے بعد جب حراء سے فارغ ہوئے تو یہ حالت کہ قلب (شدت وحی سے) کانپ رہا تھا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکان میں داخل ہوتے ہی فرمایا : مجھ کو کپڑا اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ نے فوراً کپڑا اڑھا دیا۔ جب کچھ سکون ہوا تو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو تمام واقعہ سنایا اور پھر فرمایا :

خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ ” مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ “

یعنی مجھے یہ خوف ہے کہ شاید میں وحی کے بار کو برداشت نہ کرسکوں۔حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سن کر عرض کیا ” قسم بخدا ! خدا آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا ‘ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ‘ مہمانوں کی مہمانداری ‘ بیچاروں کی چارہ گری فرماتے اور مفلس کے لیے ذریعہ معاش مہیا کرتے ہیں اور حق رسی کی کڑی سے کڑی مصیبت میں مددگار بنتے ہیں۔ “ اس گفتگو کے بعد حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ‘ ورقہ زمانہ جاہلیت کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سچی عیسائیت کو قبول کرلیا تھا۔ عبرانی زبان سے واقف اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے اور بہت ضعیف العمر اور نابینا تھے (حضرت) خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے ورقہ سے کہا : برادر من آپ اپنے بھتیجے کا واقعہ تو سنئے ورقہ نے دریافت حال کیا ‘ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گزرا ہوا واقعہ سنایا ‘ ورقہ نے سنا تو کہا ھَذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ کَانَ یَنْزِلُ عَلٰی مُوْسٰی ” یہ وہ فرشتہ (جبرئیل (علیہ السلام)) ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی الٰہی لے کر آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھ کو تیرے وطن (مکہ) سے نکالے گی۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا : ” کیا میری قوم مجھ کو وطن سے بےوطن کرے گی “ ورقہ نے کہا : ” بیشک ایسا ہوگا اور جس پیغام کے لیے خدا نے آپ کو پیغمبر بنایا ہے اس خدمت پر جو بھی مامور ہوا اس کے ساتھ یہی صورت پیش آئی ہے پس اگر وہ وقت میری زندگی میں آیا تو میں پوری قوت کے ساتھ تیری حمایت کروں گا “ مگر ورقہ کو یہ وقت نہیں آیا اس سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ [73]

حدیث بخاری اور بعض مستشرقین کی کوتاہ اندیشی

حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا ) کی حدیث میں نزول وحی سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو فوری تاثر ہوا اس کو خود زبان مبارک سے اس طرح ظاہر کیا گیا ہے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور پھر اس کے متصل ہی حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا ) کے تسکین دہ الفاظ منقول ہیں تو یہ واقعہ کا ایسا پہلو ہے جس کی فطری صداقت اور غیر مصنوعی سادگی خود بخود دل میں اتر جاتی ہے اور واقعہ کا نقشہ اس طرح سامنے آجاتا ہے کہ ایک صادق و امین ہستی اپنی پاک اور بے لوث زندگی کے ساتھ ایک غار میں محو استغراق ہے اس کے قلب میں خدائے برتر کے لیے عشق سے سرشارجذبہ عبودیت موجزن ہے ‘ وہ شرک اور گناہوں کی آلودگیوں سے نفور و بیزار گوشہ تنہائی کو پسند کرکے پہاڑ کے ایک غار میں سرگرم عبادت ہے یہ سلسلہ اگرچہ عرصہ سے جاری ہے مگر اچانک ایک روز خدا کا فرشتہ (جبرئیل) جو ہمیشہ سے خدا کے پیغمبروں کے پاس وحی لے کر آتا رہا ہے ‘ اس پر ظاہر ہوتا ہے اور وحی الٰہی کی پیغام رسانی کرتے ہوئے اس کو نبوت و رسالت کی بشارت دیتا ہے یہ ہستی چونکہ اس سے قبل اس منصب جلیل کی حقیقت سے ناآشنا تھی اس لیے اس حیرت زا خبر اور وحی الٰہی کی عظیم ترین روحانی قوت کے زبردست اثر نے جو فوری انقلاب ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پیدا کیا اس کی وجہ سے تشویش اور گھبراہٹ کا رونما ہونا ایک فطری بات تھی ” خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ کی مراد یہ نہیں تھی کہ جان کا خوف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کئے ہوئے تھا ایک عربی نژاد ‘ قریشی الاصل اور شخصی شجاعت کے مالک سے اس قسم کی توقع کیسے ہوسکتی ہے ؟ بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ اس بار عظیم کو برداشت بھی کرسکے گا یا نہیں چنانچہ اس اعلیٰ تاثر کو اس مقدس انسان کی رفیقہ حیات خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا ) نے محسوس کرتے ہوئے اس کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی ہستی ناکام زندگی کے لیے نہیں ہوتی اور خدا کبھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا اور پھر اس مقدس پیغمبر کو ورقہ کے پاس لے گئیں تاکہ ایک ایسے شخص سے جو عرصہ سے خدا کی وحی اور خدا کی کتاب کا ذکر کرتا رہتا ہے اس اجمال کی تفصیل معلوم کریں۔
اس صاف اور سادہ بات کو دیکھئے اور پھر بعض مستشرقین یورپ کی اس مضحکہ خیز نکتہ چینی پر نظر ڈالئے جو تعصب اور کوتاہ نظری کی عینک لگا کر کی گئی ہے :
” اگر پیغمبر اسلام پر حرا میں وحی الٰہی کا نزول اور فرشتہ کا ظہور ہوا ہوتا تو پھر آپ وحی الٰہی سے فیضیاب ہو کر اور منصب رسالت کی بشارت سن کر یہ کیوں فرماتے اِنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ اور خدیجہ کو تسکین دینے کی ضرورت پیش نہ آتی کیا آپ کو خدا پر بھروسہ نہیں تھا ؟ “
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا ‘ حقیقت حال کیا تھی اور اس کو رنگ و روغن دے کر کیا بنادیا ؟
یہاں نہ خدا پر عدم اعتماد کی کوئی جھلک ہے اور نہ فرشتہ کے ظہور اور وحی کے نزول پر ریب و شک کا معاملہ ہے بلکہ اس حقیقت کے اعتراف ہی کی وجہ سے جو صورت حال پیدا ہوگئی تھی اس کا ایک فطری تاثر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا مزید ثبوت فراہم کرتا ہے ‘ کیونکہ اگر اس کے برعکس کہیں آپ اس واقعہ کو اس طمطراق کے ساتھ پیش فرماتے کہ گویا ذات اقدس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جانی بوجھی بات ہے تب البتہ اس کی گنجائش ہوسکتی تھی کہ اس شخص نے (دعویٰ نبوت کے لئے) پہلے سے ایک منصوبہ قائم کر رکھا تھا ‘ اور حرا کی خلوتیں بھی اسی مقصد کے لیے تھیں چنانچہ اب موقع دیکھ کر اس نے یہ اعلان کردیا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے۔
بہرحال اس مسئلہ پر ہم نے مختصر طور پر جو کچھ لکھا ہے علمائے اسلام نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اسی حقیقت کا اظہار فرمایا ہے مثلاً مشہور محدث و مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :
( (ثُمَّ قَالَ ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ وَذٰلِکَ لِاَنَّہٗ شَاھَدٌ اَمْرًا لَمْ یَعْھَدْہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ وَلَا کَانَ فِیْ خَلَدِہٖ )) [74]
” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : ” لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ “ یہ اس لیے فرمایا کہ آپ نے ایک ایسی حقیقت کا آج مشاہدہ کیا کہ اس سے قبل اس سے واقف نہیں تھے اور نہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ ایسا کچھ پیش آئے گا “
اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی (رحمہ اللہ علیہ) کی لطیف توجیہ کا حاصل یہ ہے :
” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غار حرا میں حق (وحی) کا نزول ہوا جب فرشتہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان سلسلہ کلام ختم ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی جس کو ہم اپنی زبان میں تشویش و اضطراب سے تعبیر کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی کیفیت تھی جس کا پیش آنا فطری تھا اس لیے کہ جب نزول وحی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشری قویٰ پر ملکوتی صفات نے اثر کیا تو دو متضاد قوتوں کے درمیان تصادم اور پھر ملکوتی قوت کے غلبہ کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر تشویش پیدا ہوجانا یقینی تھا یہی وجہ ہے کہ ابتدائے نزول وحی کے بعد کچھ مدت تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا کیونکہ انسان بشریت اور ملکیت دو جہات کے درمیان محصور ہے پس جس ہستی کی بشریت پر ملکوتی صفات غالب آ کر اس کو ظلمتوں سے نور کی جانب لے جاتی ہیں تو جس قوت کے ساتھ یہ غلبہ اپنا اثر کرتا ہے انسان اپنے اندر اسی شدت کے ساتھ بشریت و ملکیت کے درمیان تصادم اور تزاحم محسوس کرتا ہے اور شدت تصادم کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ملکوتی قوت و استعداد کو اس درجہ کامل و مکمل کر دے جو منصب نبوت و رسالت کے لیے ضروری ہے حتیٰ کہ اس کی قوت بشری (قوت بہیمی و حیوانی) قوت ملکوتی کے ہاتھ میں پوری طرح تابع اور منقاد ہوجاتی ہے اور اب وہ ہستی جس کو فیضان نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے مطمئن اور تصادم کی کشمکش سے بالاتر ہو کر اس منصب جلیل (نبوت و رسالت) کی خدمت کے قابل ہوجاتی ہے۔ “ [75]

بشریت اور نبوت کا باہمی تعلق

” نبوت “ اور ” بشریت “ کے درمیان اس درجہ نازک رشتہ ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم سے قبل پیروان مذاہب و ادیان نے اس راہ میں بھی اعتدال کو ترک کرکے افراط اور تفریط کو اسوہ بنا لیا تھا اور اس بارے میں ان کو سخت ٹھوکر لگی تھی چنانچہ بعض پیروان مذاہب نے یہ دیکھ کر کہ نبی اور رسول باوجود اس امر کے کہ وہ انسان اور بشر کی شکل و صورت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی افراد انسانی سے جدا ایسی خصوصیات کا حامل نظر آتا ہے جو مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے بھی دوسروں کو حاصل نہیں ہوتیں ‘ اس لیے دراصل وہ بشر نہیں بلکہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے جس نے انسانوں کی نجات کے لیے جامہ بشریت اختیار کرلیا ہے۔
اوتار اور ابن اللہ کا عقیدہ دراصل ایک ہی سلسلہ کی دو کڑیاں ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جماعت نے یہ کہا کہ نبوت و رسالت کوئی منصب نہیں ہے کہ خدا کی جانب سے عطیہ مناصب کی طرح دیا جاتا ہو بلکہ اخلاق کریمانہ اور صفات حمیدہ کا وہ اعلیٰ درجہ ہے جو ہر ایک انسان اپنی روحانی جدوجہد سے حاصل کرسکتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ عطا و بخشش ہر شئے کے لیے اسی کی جانب (خدا کی جانب) سے ہے لیکن کسی شے کا بطور منصب عطا ہونے کی حدود میں محدود رہنا اور روحانی جدوجہد سے ہر شخص کے حاصل کرلینے کے لیے اس کا دروازہ کھلا رہنا ان دونوں باتوں کے درمیان جو فرق ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ نبوت بھی اور درجات روحانیت کی ہی طرح ہے اور عطاء منصب کی شکل میں خاص امتیاز نہیں رکھتی۔
قرآن حکیم نے اس افراط وتفریط کو ختم کرنے کے لیے نبوت و رسالت کی حقیقت کو بہت عمدہ طریقوں سے آشکارا کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو مختلف درجات ہدایت کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کا اعلیٰ درجہ ” ہدایت وحی “ کا ہے اور یہ انسان کی روحانیت اور مقصد حیات کی کامرانی کا کفیل وضامن ہے اور جبکہ ہدایت کا یہ سلسلہ انسانی راہنمائی کے لیے ہے تو عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ یہ درجہ انسان ہی کو بخشا جائے لیکن کیا ہر شخص کو جدا جدا بخش دیا جائے ؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ یہاں درجات عقل مختلف ہیں اور درجات استعداد میں بھی تنوع موجود ہے اس لیے از بس ضروری ہے کہ کسی خاص ہستی کو اس کے لیے چن لیا جائے تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس انتخاب کی نوعیت کیا ہونی چاہیے یہ کہ جو عمدہ صلاحیتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجاہدات اور ریاضات کے ذریعہ نفس پر قابو پائے یا یہ کہ خدائے تعالیٰ جس کو یہ درجہ عطا فرمائے اس کی صلاحیتوں اور اس کی استعدادات کی تخلیق ہی اس طرح کر دے کہ صدق و امانت اس کا مایہ خمیر بنا ہوا ہو اور خارجی مجاہدہ اور ریاضت کا محتاج نہ ہو۔ یہ جدا امر ہے کہ خدائے برتر کے سامنے اظہار عبودیت اور تقرب الی اللہ کے لامتناہی فیض سے فیضیاب ہونے کے لیے اس سلسلہ کو بھی کلیتاً ترک نہ کرے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عقل و بصیرت اس فیصلہ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ یہاں دوسری شکل عمل میں آنی چاہیے اس لیے کہ جس طرح خدائے برتر کے مقررہ قانون قدرت نے ہدایت وحی سے پہلے کے مختلف درجات ہدایت کو انسان کے مجاہدہ و ریاضت پر موقوف نہیں رکھا اور اس بخشش و فیض کو حسب حال عطیہ الٰہی کی حیثیت میں رکھا ہے یعنی وجدان ‘ حواس اور عقل ان سب درجات ہدایات کا جب یہی حال ہے کہ وہ جدوجہد سے نہیں بلکہ عطیہ الٰہی سے ملتے ہیں تو ہدایت وحی بھی جس کو بخشا جائے وہ بطور منصب و عطیہ کے ہی عطا ہو البتہ یہ از بس ضروری ہے کہ جس کو بھی بخشا جائے اس کی روحانی صلاحیتیں اور استعدادات ہر طرح اس منصب کی اہل ہوں اور ایسی ہستی کو عطا نہ ہو کہ اس کی صلاحیت و استعداد عطا کرنے والے کی بے سلیقگی پر چشمک زن ہو۔
غرض نبی اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جو لوازم بشریت کے ساتھ اپنے تقدس و طہارت اور اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ کے اس بلند مقام پر فائز ہو اور اس کے صفات صدق و امانت اس درجہ مسلم ہوں کہ اس کو بشر معصوم کہہ سکیں وہ نہ خدا ہوتا ہے اور نہ ابن خدا بلکہ خدا کی جانب سے ہدایت وحی کا حامل ‘مخلوق خدا کے لیے خدا کا ایلچی اور ان کی ہر قسم کی رشد و ہدایت کا کفیل ہو چونکہ وہ بشر ہے اس لیے افراد نسل انسانی سے تعلق رکھتا ہے ‘اور چونکہ ہر قسم کی آلودگیوں اور گناہوں سے پاک اور معصوم ہے اس لیے اس کو اللہ سبحانہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل ہے پس نبوت و رسالت کا بشریت کے ساتھی یہی وہ تعلق ہے جو ہر قسم کی افراط وتفریط سے بری اور حقیقت حال کے لیے آئینہ دار ہے اور اسی حقیقت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود زبان وحی ترجمان سے ظاہر فرمایا ہے۔
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمُ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ ” خدا دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ “
یعنی ایک جانب خدا سے وحی ہدایت حاصل کرتا ہوں اور دوسری جانب خدا کے بندوں تک اس کو پہنچا دیتا ہوں یہی میرا فریضہ رسالت و نبوت ہے اور اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے مختلف اسالیب بیان کے ساتھ اس سلسلہ کے غلط کار لوگوں کی ہدایت کے لیے اس طرح بیان کیا ہے :
{ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا } [76]
” کہہ دیجئے ‘ پاکی ہے میرے پروردگار کے لیے ‘ میں نہیں ہوں مگر انسان اور خدا کا ایلچی (رسول) “
{ قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ } [77]
” وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا ‘ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے (گناہوں کی پاداش عمل سے) خبردار کرنے والا اور نیک عمل پر بشارت دینے والا ہوں۔ “
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا ۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ ۔ } [78]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے ) کہا : میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھ کو (ہدایت انسانی کے لئے) کتاب دی اور مجھ کو نبی بنایا اور اس نے مجھ کو بابرکت کیا خواہ میں کسی جگہ ہوں۔ “
{ فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جِئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی } [79]
” تم (موسیٰ و ہارون) اس (فرعون) کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ رخصت کر دے اور ان پر سختی نہ کر۔ ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ “
{ رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } [80]
” یہ تمام رسول (خدا پرستی و نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے ) ڈرانے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں اور وہ خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب ہے اور (تمام کاموں میں) حکمت والا ہے۔ “
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [81]
” اے نبی ! بلاشبہ ہم نے تجھ کو بھیجا ہے (حق پر) گواہی دینے والا اور (نیکی کے انجام پر) بشارت دینے والا اور (بدی کے انجام سے ) ڈرانے والا اور بلانے والا اللہ کی راہ کی طرف اس کے حکم سے اور بھیجا روشن چراغ بنا کر۔ “
{ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَـلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ۔ لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْئٍ عَدَدًا ۔ } [82]
” وہ (خدا) غیب کی تمام باتوں کا جاننے والا ہے پس وہ اپنے غیب (کے معاملات) پر کسی کو خبردار نہیں کرتا مگر جس کو پیغمبر بنا کر چن لے ‘ پس بلاشبہ وہ (خدا) اس رسول کے آگے اور پیچھے نگہبان چلاتا ہے (یعنی اس کو اس بات سے محفوظ رکھتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی خبر میں شیطان یا اس کا نفس کوئی ملاوٹ کرسکے اور اس کو شبہ پڑجائے کہ یہ خدا کی وحی ہے یا کچھ اور) تاکہ خدا یہ ظاہر کر دے کہ انھوں نے (رسولوں نے ) بلاشبہ اپنے پروردگار کے پیغام (ٹھیک ٹھیک) پہنچا دیے۔ “
ان آیات کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) یہ تحریر فرماتے ہیں :
” یعنی رسول کو خبر دیتا ہے غیب کی پھر چوکیدار (فرشتے) رکھتا ہے اس کے ساتھ کہ اس میں شیطان دخل نہ کرنے پاوے اور اپنا (رسول کا) نفس غلط نہ سمجھے یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو عصمت ہے اوروں کو نہیں اور ان کا معلوم ” بیشک “ ہے اوروں کے معلوم میں شبہ ہے۔ “
” نبی “ اور ” رسول “ سے متعلق مسطورہ بالا افراط وتفریط کے ساتھ ساتھ مشرکین عرب ایک نئی گمراہی میں مبتلا تھے وہ کہتے تھے کہ اول تو ” پیغمبر “ کا وجود ہی ہمارے لیے اچنبھے کی بات ہے ‘ اور اگر یہ اچنبھا ہونا ہی تھا تو اس کے لیے ہماری طرح کا ایک انسان ہی کیوں چنا گیا ‘ کیوں ایک فرشتہ نہ بھیجا گیا اور اگر انسان ہی بھیجنا تھا تو مکہ اور طائف کی کسی متمول سرمایہ دار ہستی کو پیغمبر بنایا جاتا ورنہ اس کو ہی غیب سے خزانے اور بےنظیر باغات عطا کئے جاتے تب ہم سمجھتے کہ بیشک یہ خدا کا فرستادہ ہے :
{ وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ۔ اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ۔ } [83]
” اور وہ (مشرکین) کہتے ہیں ‘ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ آسمان سے فرشتہ اترتا اور وہ خدا کے پیغام سے خبردار کرتا یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ (ہماری آنکھوں دیکھتے) اس پر آسمان سے خزانہ اتر آتا یا قدرتی باغ ہوتا کہ وہ (ہر وقت مرضی کے مطابق) اس سے (پھل) کھاتا۔ “
{ وَما اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا } [84]
” اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی ایسے ہی پیغمبر بھیجے تھے جو کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے (یعنی پیغمبری کے لیے بشریت منافی نہیں ہے بلکہ انسانوں کے لیے انسان ہی کو پیغمبر ہونا چاہیے) اور ہم نے (انسانوں میں سے انسان ہی کو پیغمبر بنا کر) ایک دوسرے کی آزمائش کا سامان کردیا کہ آیا تم صبر و استقامت کا ثبوت دیتے ہو یا نہیں اور تیرا پروردگار بلاشبہ (انسانوں کے کردار کا) دیکھنے والا ہے۔ “
{ وَ قَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌط وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ ۔ وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ۔ } [85]
” اور وہ کہتے ہیں اس پر (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) کیوں فرشتہ نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تو البتہ (نتائج اعمال کا) فیصلہ کردیا جاتا اور پھر وہ مہلت نہ دیئے جاتے اور اگر ہم اس کو فرشتہ کردیتے تو بھی (انسانوں کی ہدایت کے لئے) اس کو بصورت انسان ہی ظاہر کرتے اور (اس طرح) ہم پھر ان لوگوں کو اس شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب مبتلا ہیں۔ “
اس جگہ ان کی گمراہی کو دو دلائل سے واضح کیا ہے ایک یہ کہ ایمان و اعتقاد کی زندگی سر تا سر غیب سے متعلق ہے پس اگر انسان کو اسی عالم میں عالم غیب کے معاملات کا مشاہدہ کرا دیا جائے اور پھر بھی وہ انکار پر جما رہے تو خدا کا قانون امہال (مہلت کا قانون) نافذ نہیں ہوگا بلکہ نتائج اعمال کا فوراً ہی ظہور ہو کر رہے گا اور یہ ان کے لیے بھی مضر ہے اور خدا کی حکمت رحمت و ربوبیت کے بھی خلاف ہے دوسری دلیل یہ کہ انسانی دنیا میں اگر فرشتہ کے ذریعہ ہدایت وحی کو بھیجا جائے تو انسان کس طرح اس سے مانوس ہوسکتے ہیں ‘ پھر اگر اسے بھی انسان ہی کی شکل میں بھیجیں تو شبہ کرنے والوں کا شبہ اسی طرح قائم رہے گا۔ اس لیے عقل و نقل دونوں کا فیصلہ یہی ہے کہ ہدایت کے لیے انسان ہی کو مبعوث ہونا چاہیے :
{ وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَھُمُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا ۔ } [86]
” اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آپہنچی تو ان کو ایمان لانے سے کسی بات نے نہیں روکا مگر اس نے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا خدا کسی بشر کو پیغمبر بنا کر بھیجے گا ‘ اے پیغمبر ! کہہ دیجئے اگر زمین پر انسانوں کی جگہ فرشتوں کی آبادی ہوتی اور وہ اس پر چلتے پھرتے تو ہم ضرور ان کے لیے آسمان سے فرشتہ کو ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ “
{ وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رٍجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَ مَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ ۔ } [87]
” اور (اے پیغمبر ! ) ہم نے تجھ سے پہلے بھی جن پر وحی نازل کی ہے وہ انسانوں کے سوا اور کچھ نہیں تھے پس (معترضین) اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرلو اور نہ ہم نے ان کو بےجان (دھڑ) بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ (خدا کی طرح) ہمیشہ رہنے والے تھے۔ “
بہرحال ان آیات میں قرآن عزیز نے علمی اور تاریخی دونوں قسم کے دلائل سے یہ صاف کردیا کہ کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے انسان کا نبی اور ہادی ہونا فطری بات ہے اور اس لیے اقوام ماضیہ میں ایساہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس مسئلہ کی جانب بھی توجہ کی ہے کہ نبوت و رسالت کا تعلق سرداری ‘ سرمایہ داری اور جتھ بندی سے کچھ نہیں ہے اور اس کے لیے جن فطری اعلیٰ ملکات و استعدادات کی ضرورت ہے ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی خوب واقف ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے :
{ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۔ اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ } [88]
” اور وہ کہتے ہیں یہ قرآن کیوں ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) کے کسی سردار پر نازل نہیں ہوا (تو ) کیا تیرے پروردگار کی رحمت کو یہ تقسیم کرنے والے ہیں ؟ نہیں بلکہ ہم نے ہی ان کے درمیان ان کی دنیوی معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ہم نے ہی بعض انسانوں کو بعض پر بلندی درجات عطا کی ہے تاکہ بعض بعض کے مسخر رہیں (یعنی بعض مقتدیٰ ہوں اور بعض مقتدی ‘ بعض پیغمبر ہوں اور بعض امتی) اور تیرے پروردگار کی رحمت (نبوت) اس (دولت و ثروت) سے (کہیں زیادہ) بہتر ہے جو وہ خزانہ کئے ہوئے ہیں۔ “
{ وَ اِذَا جَآئَْتھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } [89]
” اور جب ان کے پاس خدا کی جانب سے کوئی آیت آتی ہے تو یہ (مشرکین) کہتے ہیں ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی چیز (وحی) نہ دی جائے جو خدا کے رسولوں کو دی گئی (لیکن ایسا نہیں ہوسکتا اس لیے کہ) اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنے منصب رسالت کو کس کے سپرد کرے۔ “
اور یہ بات تو بہت واضح اور صاف ہے کہ جس شخص کو کوئی منصب عطا کیا جائے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر طرح اس کے لیے جوہر قابل اور اہل ہونا چاہیے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک جوہر قابل کو وہ منصب ملے کیونکہ معطی کی مصلحت ہی خوب فیصلہ کرسکتی ہے کہ کس کو ملے اور کس کو نہ ملے چہ جائیکہ جوہر قابل بھی نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہوا کہ جو نبی اور رسول ہو وہ ہر حیثیت سے انسان کامل اور گناہوں سے معصوم ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو شخص بھی اخلاق حمیدہ اور روحانی مجاہدات کے ذریعہ تقدیس کا درجہ حاصل کرسکا ہو وہ منصب نبوت پر بھی ضرور فائز ہو۔ بہرحال نبوت منصب ہے ڈگری نہیں ہے اور اس لیے جن کو بھی دیا جاتا ہے ان کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ یہ تم پر فضل خداوندی ہے ورنہ اگر وہ تم سے اس کو سلب کر لیناچا ہے تو تمہاری طاقت بلکہ کائنات کی طاقت سے باہر ہے کہ پھر یہ تم کو مل سکے :
{ وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلًا ۔ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا ۔ } [90]
” اور (اے پیغمبر ! ) اگر ہم چاہیں تو جو تجھ پر ہم نے وحی کی ہے اس کو چھین لیں اور پھر تجھ کو کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے ‘ لیکن یہ (جو سلسلہ وحی جاری ہے تو) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے اور یقین کر کہ تجھ پر تیرے پروردگار کا بڑا ہی فضل ہے۔ “

نبی اور مصلح

مسطورہ بالا تفصیلات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ چونکہ نبی اور رسول کو براہ راست خدائے برتر سے شرف مکالمت حاصل ہوتا ہے یا خدا کا معصوم فرشتہ خدا کی وحی لا کر سناتا ہے اس لیے اس کا ذریعہ علم ” علم یقین “ کا وہ درجہ رکھتا ہے جس میں شک و شبہ کی مطلق گنجائش نہیں رہتی اور اس کے علاوہ تمام ذرائع علم یقین کے اس درجہ سے نیچے ہیں بلکہ ان کی افادیت ” ظن “ سے آگے نہیں بڑھتی اس لیے اگر ایک مرد صالح اپنی قوم یا نوع انسانی کی اصلاح حال کے لیے کوئی قدم اٹھائے تو مقدس سے مقدس تر ہونے کے باوجود اس کے اپنے طریقہ اصلاح میں غلطی کا وقوع اور امکان دونوں موجود رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ ایسی فاش غلطی کر گزرتا ہے کہ اس سے فائدہ پہنچنے کے بجائے قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس لیے ایک نیکوکار مصلح یہ کبھی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ اصلاح حال کے لیے جو کچھ اپنی جانب سے کہتا ہے غلطی سے پاک ہے مگر ایک نبی اور رسول کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ یہ بھی اعلان کرے کہ میں خدا کی جانب سے اصلاح حال کے لیے خدا کا پیغام رساں ہوں اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ وہ جو تعلیم و اصلاح پیش کر رہا ہے خدا کا فرمودہ ہے اور اس لیے ہر قسم کی غلطی اور لغزش سے پاک اور محفوظ ہے ‘ وہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ میرے دل کی آواز ہے یا اندر سے جو آواز آتی ہے اس کا نتیجہ اور ثمرہ ہے بلکہ صاف صاف یہ کہے گا کہ اس میں میرا اپنا کچھ نہیں میں تو صرف ایلچی اور پیغامبرہوں یہ جو کچھ بھی ہے خدا کا فرمان اور اس کی وحی ہے۔ چنانچہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ ان دونوں باتوں کو واضح کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اعلان کردیں کہ خدا نے ان کو اپنی ہدایت وحی کے لیے چن لیا ہے اور وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ ان پر وحی کیا جاتا ہے اس کو حرف بہ حرف امت تک پہنچائیں۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ } [91]
” (نوح (علیہ السلام) نے) کہا اے میری قوم ! مجھ کو گمراہی سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ میں تو تمام کائنات کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں تم تک اپنے پروردگار کی جانب سے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی باتوں میں سے وہ باتیں جانتا ہوں جن سے تم بیخبر ہو۔ “
اور حضرت ہود (علیہ السلام) اور قوم کے درمیان مکالمہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے یہ اعلان فرمایا :
{ قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاھَۃٌ وَّ لٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ ۔ } [92]
” (ہود (علیہ السلام) نے) کہا : اے میری قوم ! میں بیوقوف نہیں ہوں لیکن میں جہانوں کے پروردگار کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں ‘ میں اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور (پیغام الٰہی اور خیر خواہی میں) صاحب امانت ہوں۔ “
اور صالح (علیہ السلام) نے فرمایا : { قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ } [93]
” (صالح (علیہ السلام) نے ) کہا اے قوم ! بلاشبہ میں نے تم کو اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم خیر خواہی کرنے والوں کو ناپسند کرتے ہو۔ “
اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے یہ ارشاد فرمایا :
{ وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓــاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَلَایُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا ۔ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتِّبَعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ۔ } [94]
” اور یاد کرو کتاب (قرآن) میں ابراہیم کا حال ‘ بلاشبہ تھا وہ بہت ہی صادق اور نبی جب اس نے اپنے باپ سے کہا : اے باپ ! ایسی چیز کی پوجا کیوں کرتا ہے جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ تجھ کو کسی (نقصان) سے بےپرواہ کرتی ہے (یعنی بت پرستی کیوں کرتا ہے ؟ ) اے باپ ! بلاشبہ مجھ کو علم (وحی) سے وہ حصہ ملا ہے جو تجھ کو حاصل نہیں ہے پس میری پیروی کر میں تجھ کو سیدھی راہ دکھلاؤں گا۔ “
اور لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے مکالمہ کرتے ہوئے یہ فرمایا :
{ اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ } [95]
” جب کہا ان سے ان کے بھائی (لوط) نے کیا تم پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے بلاشبہ میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا ہوں (اور اس پیغامبری میں) صاحب امانت ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت یعقوب و یوسف (علیہما السلام) کے ایک طویل حیرت زا واقعہ کے ضمن میں یعقوب (علیہ السلام) کا وہ مقولہ بھی منقول ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے یوسف (علیہ السلام) کو وحی الٰہی کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ جس طرح خدا نے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق اور یعقوبعلیہم السلام کو پیغمبری عطا فرمائی اسی طرح تجھ کو بھی اس منصب جلیل سے سرفراز کرے گا :
{ وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [96]
” اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھ کو چن لے گا اور تجھ کو تعبیر رویا کا علم بخشے گا اور تجھ پر اپنی نعمت (نبوت) کی تکمیل کرے گا اور اولاد یعقوب پر (جو اس کے اہل ہوں گے) جیسا اس نے اس سے پہلے تیرے باپ دادا ‘ ابراہیم و اسحاق پر اس (نبوت) کو پورا کیا بیشک تیرا پروردگار جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔ “
اور پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت اس طرح قرآن میں مذکور ہے :
{ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۔ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ } [97]
” اے میرے قید کے رفیقو ! کیا بہت سے آقا اور خداوند بہتر ہیں یا یکتا خدا کی ذات جو ہر شئے پر غالب ہے تم اس کے سوا جن کو پوجتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے گھڑ گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری اور حکم تو خدا کے سوا کسی کا نافذ نہیں اس نے یہی حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو دین کی سیدھی راہ یہی ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔ “
اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب ایکہ کے سامنے یہ اعلان کیا :
{ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ اَ لَا تَتَّقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ۔ } [98]
” اصحاب ایکہ نے پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے بلاشبہ میں تمہارے لیے (خدا کی جانب سے) صاحب امانت پیغامبر ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو۔ “
اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں بےدھڑک یہ اعلان فرمایا :
{ وَ قَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ۔ } [99]
” اور موسیٰ نے کہا : اے فرعون ! بلاشبہ میں جہانوں کے پروردگار کا پیغمبر ہوں ‘ میرے لیے یہی لائق ہے کہ میں خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہوں۔ میں تمہارے پروردگار کی طرف سے ” دلیل “ لے کر آیا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو (آزاد کرکے) بھیج دے (جن کو صدیوں سے غلام بنا رکھا تھا) “
اور حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو دعوت اسلام کے لیے جو نامہ مبارک تحریر فرمایا تھا اس کا اسلوب بیان یہ ہے :
{ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ } [100]
” یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور یہ شروع ہے اللہ کے نام سے جو رحمن ہے رحیم ہے بات یہ ہے کہ مجھ پر اپنی بلندی و برتری کا اظہار نہ کر (کیونکہ میں بادشاہ نہیں بلکہ پیغمبر ہوں) اور میرے پاس خدا کی فرمان بردار بندی بن کر حاضر ہو۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ایک علاقہ میں خدا کے چند نبی دعوت و تبلیغ اسلام کے لیے مامور کئے گئے تھے انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا :
{ قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّآ اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ ۔ وَ مَاعَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۔ } [101]
” انھوں نے کہا ہمارا پروردگار (خوب) جانتا ہے کہ بلاشبہ ہم تمہاری جانب اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور ہمارے اوپر اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں کہ امر حق کا صاف اور کھلا پیغام پہنچا دیں۔ “
اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بار بار بنی اسرائیل کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ کے سوا کوئی راہ مستقیم نہیں کیونکہ میں جو کچھ بھی پیش کر رہا ہوں خدا کا فرمودہ ہے :
{ قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا } [102]
” (عیسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھ کو ” کتاب “ عطا کی ہے اور اس نے مجھ کو نبی بنایا ہے۔ “
{ وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ } [103]
” جب کہا عیسیٰ بن مریم نے اے بنی اسرائیل ! بلاشبہ میں تمہاری جانب خدا کی جانب سے بھیجا ہوا ہوں (رسول ہوں) “
اور خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ میں تو جگہ جگہ یہ حقیقت بہت نمایاں نظر آتی ہے :
{ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ } [104]
” اے نبی بلاشبہ ہم نے تجھ کو (حق کے لئے) گواہ اور نیک عملی کے لیے بشارت دینے والا اور (بد عملی کے نتائج سے) ڈرانے والا اور خدا کے حکم سے اس کی جانب بلانے والا اور (ہدایت و صراط مستقیم کے لئے) روشن چراغ بنایا ہے۔ “
{ قُلْ یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ } [105]
” (اے محمد) کہہ دیجئے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی جانب اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی ‘ کوئی خدا نہیں ہے مگر صرف وہی یکتا ذات ‘ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر جو خود اللہ پر اور اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔ “
{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ } [106]
” بلاشبہ اللہ کے نزدیک (ہمیشہ سے) دین (حق) اسلام ہی ہے۔ “
{ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ } [107]
” جو شخص اسلام کے ماسوا کو دین بنانا چاہے تو خدا کے یہاں وہ مقبول نہیں ہے۔ “
غرض پیغمبر اور نبی کے لیے از بس ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح اور تعلیم حق پر خود بھی ایمان لائے اور کائنات کے سامنے بھی یہ اعلان کرے کہ یہ پیغام ہدایت اور یہ تعلیم حق میری جانب سے نہیں بلکہ خدا کی جانب سے ہے اور اسی نے مجھ کو اپنا ایلچی بنا کر اس کی دعوت کے لیے بھیجا ہے یہ جو کچھ ہے سب خدا کا اپنا ہے میں تو صرف اس کی جانب پکارنے والا ہوں اور اس میں شک و شبہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے اور یہ ہر قسم کی لغزش و خطا سے پاک علم یقین اور وحی الٰہی ہے جس کے متعلق خدا کا یہ فیصلہ ہے ۔
{ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } [108]
اور { وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ } [109]
لیکن ” مصلح غیر نبی “ کو یہ مجاز حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی دعوت اصلاح کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کیونکہ اس کی یہ دعوت اصلاح یا کسی پیغمبر اور نبی کی ہدایت وحی کی پیروی میں ہوگی تب تو اس کی حیثیت ایک یاد دہانی کرنے والے کی ہے اور یا ہدایت وحی کے اتباع کے ساتھ اس کے اپنے اجتہاد اور ضمیر کی آواز کا بھی دخل ہوگا تو اس کے اس حصہ اصلاح کا لغزش ‘ خطا بلکہ بعض اوقات غلط روی سے بھی محفوظ رہنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔

کیفیت وحی

وحی سے متعلق جو حقائق سپرد قلم ہوچکے ہیں ان میں ایک یہ اضافہ بھی قابل توجہ ہے : عربی میں وحی کے معنی مخفی اشارہ کے ہیں گویا یہ فطرت الٰہی کی وہ سرگوشی ہے جو ہر ایک مخلوق پر اس کی راہ عمل کھولتی ہے چنانچہ قرآن نے شہد کی مکھی کے نظام بیت کے متعلق فطری ہدایت کو لفظ وحی سے ہی تعبیر کیا ہے :
{ وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ } [110]
” اور تیرے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اسی غرض سے بلند کی جاتی ہیں اپنے لیے چھتے بنائے۔ “
اور مذہب و دین کی اصطلاح میں اس الہام کو کہتے ہیں جو خدائے برتر کی جانب سے نبی اور پیغمبر پر اس طرح القا یا فرشتہ کے ذریعہ نازل کیا جاتا ہے کہ اس مقدس ہستی کو اس کے منجانب اللہ ہونے کا روز روشن سے بھی زیادہ یقین حاصل ہوجاتا ہے اور کسی قسم کے بھی شک و شبہ اور تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور اسی لیے وہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ خدا کی وحی اور اس کا بخشا ہوا علم یقین ہے نزول وحی کی یہ صورت کس طرح پیش آتی ہے اور کون سے وہ طریقے ہیں جن کے ذریعہ نبی معصوم کو خدا کی وحی کا علم ہوتا ہے ؟ قرآن عزیز اس کے متعلق یہ کہتا ہے :
{ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} [111]
” اور کسی انسان کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (اس دنیا میں بالمواجہہ) گفتگو کرے مگر یا وحی (کے القاء) کے ذریعہ یا پس پردہ یا بھیج دے فرشتہ کو پس وہ اس کی (خدا کی) اجازت سے اس پر وحی لا اتارے جو اس کی (خدا کی) مرضی ہو بلاشبہ وہ (خدا) بلند وبالا حکمت والا ہے۔ “
غرض وحی ایک خاص ذریعہ علم کا نام ہے جو خدا کی جانب سے اس کے نبیوں اور رسولوں کے لیے مخصوص ہے اور اس کا تعلق براہ راست عالم قدس اور عالم غیب سے ہے اسی بنا پر اگرچہ انبیاء و رسل کو اس کی معرفت اور اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین کامل آفتاب عالم تاب سے زیادہ بدیہی ہوتا ہے لیکن وہ اس کی حقیقی کیفیت کو دوسروں پر تشبیہ و تمثیل ہی کے ذریعہ واضح کرسکتے ہیں۔
چنانچہ جب بعض صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) عنم و رضوا عنہ نے حضرت اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نزول وحی کی کیفیت کے متعلق سوالات کئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جوابات ارشاد فرمائے :
( (اَحْیَانَا یَاتِیْنِیْ کَصَلْصَلَۃِ الْجَرَسِ ))
” کبھی یوں معلوم ہوتا ہے گویا گھنٹہ کی مسلسل گونج ہے۔ “
( (دَوَیٌّ کَدَوِیٍّ النَّحْلِ ))
” (کبھی) جس طرح شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے گونج پیدا ہوتی ہے اس طرح کی گونج محسوس کرتا ہوں۔ “
( (وَاَحْیَانَا یَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًا فَاَعِیْ مَا یَقُوْل))
” اور (کبھی) ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل میں ظاہر ہو کر مجھ کو خدا کی وحی سناتا ہے اور میں اس کو محفوظ کرلیتا ہوں۔ “
ان جوابات میں کیفیت وحی کو اگرچہ قریب الفہم بنانے کی کافی کوشش کی گئی ہے پھر بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حقیقی کیفیت کو خدا اور خدا کے پیغمبر کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں پاسکتا اور پیغمبر اس حقیقت کا اذعان اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر غیر متبدل یقین تو رکھتا ہے لیکن غیر نبی پر حقیقی کیفیت کو واضح کرنے سے معذور ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لیے کہ یہ صورت حال تو دنیا کی بن دیکھی اشیاء کے بارے میں بھی صبح سے شام تک ہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً جس شخص نے سیب کو نہیں دیکھا اور نہیں چکھا اس کے سامنے دیکھنے اور چکھ لینے والا اگرچہ سیب کی حقیقت کا بہتر سے بہتر نقشہ بھی پیش کر دے اور اس کے رنگ ‘ مزہ ‘ خوشبو ‘ لطافت وغیرہ کی تعبیر بحد کمال بھی پہنچا دے تب بھی وہ شخص سیب کو آنکھ سے دیکھنے اور زبان سے چکھ لینے والے کے مقابلہ میں کسی طرح اس کی حقیقی کیفیت سے آگاہ نہیں ہوسکتا وہ بلاشبہ سیب کے متعلق صحیح علم تو حاصل کرسکتا ہے لیکن حقیقی ذوق کو ہرگز نہیں پاسکتا ‘ اسی طرح نبی کی تعلیم و تلقین سے ہم وحی کے متعلق ایک اجمالی علم ضرور حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس کی حقیقی کیفیت کو نہیں پاسکتے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن میں مسطور ہر سہ اقسام وحی میں سے پہلی قسم ” اِلَّا وَحْیًا “ کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
وَھُوَ اَشَدُّہٗ عَلَیَّ فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعِیْتُ مَا قَالَ ” اور وحی کی یہ صورت مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے پھر جب یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے تو وحی الٰہی نے جو کچھ کہا ہوتا ہے وہ سب مجھے محفوظ ہوتا ہے۔
“ یعنی جب فرشتہ بشکل انسان تمثل اختیار کرکے وحی الٰہی لاتا ہے یا مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ براہ راست خدائے برتر سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو یہ دونوں صورتیں آپ پر آسان ہوتی ہیں مگر ”
القائے وحی “ کی پہلی شکل سخت گزرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے متعلق علمائے حق یہ ارشاد فرماتے ہیں :
خالق کائنات نے انسان کو لوازم بشریت کی قیود و شروط کے ساتھ اس درجہ پابند بنادیا ہے کہ انبیاء و رسل جیسی مقدس اور معصوم ہستیوں کو بھی اپنی تطہیر و تقدیس کے باوجود ان اثرات سے متاثر ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اس لیے جب ان پر خدا کی وحی کا نزول ہوتا اور ایسی حالت میں ان پر عالم قدس کے تمام اثرات چھا جاتے اور انوار و تجلیات کی آغوش میں وہ حضرت حق سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس حالت میں ان پر دو قسم کی کیفیتوں میں سے ایک کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے ‘ ایک یہ کہ اس کے بشری خواص کو مغلوب کرکے اس کی روحانی کیفیات کو عالم قدس کی جانب اس درجہ بلند اور رفیع کیا جائے کہ وہ حضرت حق کی وحی کے اثرات قبول کرنے اور محفوظ رکھنے کے قابل ہو سکے اور چونکہ جذب و انجذاب کی اس خاص حالت اور عالم آب و گل سے عالم قدس کی جانب اس مخصوص رفعت میں بشری خصوصیات اور روحانی موثرات کے درمیان سخت قسم کا تصادم پیدا ہوجاتا ہے اس لیے اس تصادم اور تزاحم سے نبی پر ابتدائً ایک اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ جب یہ تصادم ختم ہو کر عالم قدس کے تمام پاک اور لطیف اثرات اس ہستی پر چھا جاتے ہیں اور وہ ان میں محو اور مستغرق ہو کر لذت وحی کو پا جاتی ہے تو پھر یہ اذیت و تکلیف یکلخت جاتی رہتی ہے اور اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور یہ سب کچھ چند دقیقوں میں ہو گزرتا ہے۔ یہی وہ صورت وحی ہے جس کی کیفیات کو ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صَلْصَلَۃَ الْجَرَسِ اور دَوَیُّ النَّحْلِ کی تمثیلات میں سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے تمثیلات میں اس پہلو کے اختیار کرنے کی وجہ بھی مسطورہ بالا حقیقت ہے اس لیے کہ اس صورت خاص میں جب بشری حواس و ادراکات پر عالم قدس کے روحانی اثرات کا غلبہ ہوتا ہے تو اول حواس و ادراکات میں اضطراب و بےچینی پیدا ہوجاتی ہے اور حاسہ سمع کہ جس کا تعلق سماعت وحی سے ہے وہ شروع میں ایک خاص قسم کی گونج محسوس کرتا ہے جو اس عالم پست سے دور کا بھی تعلق نہیں رکھتی اور اس کے بعد وہ وحی الٰہی کی اصل کیفیت سے لذت اندوز ہوتا اور اس کو علم یقین اور اذعان حق کے ساتھ لیتا ہے کیونکہ عالم قدس کے قوی موثرات اس پر غالب آ کر وحی الٰہی کے حصول کا ہر طرح اہل بنا دیتے ہیں مگر دوسروں پر اس حقیقت کے تمام و کمال سمجھانے میں ان علامات و اثرات کے اظہار سے آگے نہیں جاتا جن کو ابھی صَلْصَلَۃُ الْجَرَسُ اور دَوِیُّ النَّحْلِ کی تعبیرات میں سن چکے ہو وحی الٰہی کی اس نوع کے علاوہ دوسری ہر دو انواع یعنی و رائے حجاب کلام الٰہی کی سماعت یا فرشتہ کے ذریعہ وحی کے نزول میں صورت حال برعکس ہوتی ہے اور اس وقت نبی کے بشری خواص کو عالم قدس کی جانب رفعت دینے اور عالم خاک وگل سے عالم نور کی جانب جذب انجذاب سے متاثر کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی بلکہ عالم قدس کی تمام کیفیات خود ہبوط و نزول کرتی اور نبی کی روحانیت کو متاثر بناتی ہیں اور یا فرشتہ بحکم حضرت حق اپنے ملکوتی جسد کو جامہ انسانیت کے ساتھ متمثل کرلیتا اور عالم قدس کے اثرات اور بشری خواص میں امتزاج پیدا کرکے نبی کے حضور حاضر ہوتا اور وحی الٰہی کی تلاوت کرتا ہے اور اس لیے ان دونوں صورتوں میں نبی اور رسول کو پہلی قسم کے تصادم سے دو چار ہونا نہیں پڑتا۔

کیفیت وحی اور بعض مستشرقین کی گمراہی

چونکہ یورپ کے دور علمی کی بنیاد خالص مادیات پر قائم ہے اور روحانی علوم اور ماورائے مادیات کے ناقابل انکار حقائق کے لیے وہ کوئی جگہ دینے کو آمادہ نہیں ہے اس لیے بعض مستشرقین نے جب وحی الٰہی کی پہلی قسم کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ اقوال سنے جن کا ذکر ابھی ہوچکا ہے اور وہ حالات پڑھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نزول وحی کی اس خاص صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرب اور اضطراب محسوس فرماتے اور سردی کے ایام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی پر پسینہ آجاتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بےخودی کے سے آثار نظر آنے لگتے تو انھوں نے یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی کہ یہ نزول وحی کی کیفیت نہیں ہوتی تھی بلکہ (العیاذ باللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہسٹیریا کا دورہ ہوجاتا تھا۔ یہ مستشرقین پر زور الفاظ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و امانت کو تسلیم کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات حق کو سراہتے اور کائنات انسانی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کو تعلیم کامل مانتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ الہام و وحی الٰہی کا انکار کرتے اور کیفیت وحی کو مرض سے تعبیر کرتے ہیں { سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ} [112]
درحقیقت یہ حضرات یا تو ازراہ تعصب ناقابل انکار تعلیم حق کے تسلیم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بات کہنا چاہتے ہیں جس سے تعلیم حق (اسلام) پر کاری ضرب لگ سکے اور تعصب کے الزام سے بھی بچ جائیں اور یا پھر اس علمی حقیقت سے بےبہرہ ہیں جس کو تفصیل کے ساتھ ہم ابھی ظاہر کرچکے ہیں کہ نزول وحی کی یہ کیفیت مرض نہیں تھا بلکہ اپنے اثرات اور محرکات کی بنا پر ایک فطری صورت حال تھی جس کا پیش آنا از بس ضروری تھا اور دراصل یہ کیفیت دماغ ‘ حواس اور اعضائے انسانی کو مفلوج نہیں بناتی تھی جیسا کہ ہسٹیریا وغیرہ میں ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس تمام مادی قویٰ میں روحانی کوائف کی ایسی برقی رو دوڑا دیتی ہے جس سے چند لمحات کے بعد ان کے اندر ایسی زبردست اور ما فوق المادہ قوت پیدا ہوجاتی تھی جس کے ذریعہ اس ہستی (نبی) میں عالم قدس سے پوری طرح وابستہ ہو کر خدا کی وحی اور اس کے کلام کو سننے اور قلب و دماغ میں بخوبی محفوظ رکھنے کی صلاحیت رونما ہوجائے چنانچہ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا :
( (فَیَفْصِمُ عَنِّیْ وَقَدْ وَعَیِتُ مَا قَالَ ))
” شدت و کرب کی یہ کیفیت جلد ہی مجھ سے زائل ہوجاتی ہے اور میں وحی الٰہی کو تمام و کمال محفوظ کرلیتا ہوں۔ “
کیا ہسٹیریا کے دوروں کا کوئی مریض ایسا پیش کیا جاسکتا ہے جس پر ایک جانب مرض کا مسلسل حملہ ہو رہا ہو اور دوسری جانب وہ علمی و عملی صلاحیتوں ‘ معاشی و معادی حکمتوں اور دینی و دنیوی رفعتوں کے لیے ایسا کامل و مکمل دستور و آئین اور اعمال و افکار پیش کررہا ہو ‘ کائنات جس کا جواب نہ رکھتی ہو اور دوست و دشمن دونوں اس کی رفعت و بلندی کا اعتراف کرتے ہوں ؟ کیا دماغی فتور جو کہ ہسٹیریا کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور دماغی رفعت و بلندی جس کے ثمرات حیرت زا اور عملی دنیا میں وقیع سے وقیع تر ہوں دونوں یکجا جمع ہوسکتے ہیں ؟ اور اگر نہیں ہوسکتے اور بلاشبہ نہیں ہوسکتے تو حقیقت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے وحی الٰہی سے متعلق مستشرقین کا یہ دعویٰ کس درجہ حقیر اور بےوقعت ہوجاتا ہے صاحب عقل و بصیرت اس کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں ؟

نزول وحی کا پہلا دور

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے سورة علق کی یہ آیات نازل ہوئیں : { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ } [113]
” پڑھو ! اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ‘ پیدا کیا انسان کو خون بستہ سے ‘ پڑھو ! اور تیرا پروردگار جو سب سے زیادہ برگزیدہ ہے وہ ہستی ہے جس نے سکھایا لکھنا ‘ سکھایا انسان کو وہ سب کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “
ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت انسان جو خدا کی سب سے بہتر اور سلسلہ کائنات کی سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے اور اسی وجہ سے وہ کائنات ہست و بود میں ” خلیفۃ اللہ “ کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہے اس کی خلقی کمزوریوں کا یہ حال ہے کہ اس کی نمود کی ابتداء آب نجس اور خون بستہ سے ہوئی ہے لیکن قدرت حق نے جب اس کو مقام رفیع بخشنے کا ارادہ کیا اور ” اسفل سافلین “ کے لائق مخلوق کو ” درجات علیا “ پر فائز کرنا چاہا تو اس کو وہ صفت اعلیٰ عطا فرمائی جو صفات الٰہی میں مبدء الصفات ہے یعنی اس کو صفت علم کا مظہر بنایا اس کو قلم کے ذریعہ لکھنا سکھایا اور علوم و عرفان کا مہبط و محور ٹھہرایا پھر اس جانب بھی اشارہ کیا کہ بسلسلہ اسباب و مسببات حصول علم کے تین ہی طریقے ہیں ” ذہنی ‘ لسانی ‘ رسمی “ اور علم ذہنی الفاظ اور رسوم و نقوش کا محتاج نہیں ہوتا ‘ اور علم لسانی ‘ علم ذہنی کا محتاج ہے مگر رسوم و نقوش کتابت سے بےنیاز اور علم رسمی رسم الخط اور نقوش کا بھی محتاج ہے پس اگر ” علم رسمی “ کا کسی جگہ ذکر ہو تو لسانی اور ذہنی علوم کا ذکر خود بخود ہوجاتا ہے کیونکہ یہ اپنے سے بلند ہر دو علوم کے لیے بہترین معبر ہے اور ظاہر ہے کہ علم رسمی ” قلم “ کا محتاج ہے لہٰذا قرآن عزیز نے عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کہہ کر لطیف پیرایہ بیان میں اس پوری حقیقت کو واضح کردیا اس کی مزید تشریح { عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ } [114] سے کردی اور اس معجزانہ اسلوب کی غرض وغایت یہ ہے کہ ایک جانب علم اور نبوت کے درمیان کیا علاقہ ہے اس کا اظہار ہوجائے اور دوسری جانب انسان کو اپنے مقصد حیات کا صحیح علم ہوجائے۔

نزول وحی کا دوسرا دور

غار حرا میں منصب نبوت سے سرفرازی کے وقت سورة علق کی یہ چند آیات نازل ہو کر وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہوگیا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہوا کہ حرا میں فرشتہ کے ظہور اور وحی کے نزول سے فوری طور پر نبوت و رسالت کے جو خصائص و اثرات ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وارد ہوئے ہیں وہ اچھی طرح راسخ ہوجائیں اور صلاحیت و استعداد نبوت و رسالت کی تکمیل ہوجائے تاکہ آئندہ سلسلہ وحی کے قوی مؤثرات و محرکات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشری خواص کے لیے اجنبی نہ رہیں ‘ اس لیے کچھ عرصہ کے لیے نزول وحی کا سلسلہ بند رہا۔ اسی کو مذہب کی اصطلاح میں ” فترۃ وحی “ کہتے ہیں۔ لیکن ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حرا میں پیش آمدہ کیفیت و صورت حال سے جو فطری تشویش پیدا ہوئی تھی جب اس نے سکون و طمانیت کی شکل اختیار کرلی تو نزول وحی کی روحانی کیفیات نے اس درجہ لطف اندوز کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فترت کو برداشت نہ کرسکے اور لطیف و عمیق جذبات نے اس حد تک اضطراب و بےچینی کی شکل اختیار کرلی کہ گاہ گاہ ناموس اکبر (جبرئیل امین (علیہ السلام)) ظاہر ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و تسکین کی دعوت دیتے اور یقین دلاتے تھے کہ اپنی تمام لطافتوں اور حسن و کمال کے ساتھ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہے اور فترت کا یہ دور محض عارضی ہے اس لیے آپ اندوہگیں نہ ہوں تب آپ تسکین پاتے اور وقت موعود کے منتظر رہتے کہ کچھ عرصہ بعد 1 نزول وحی کا دوسرا دور شروع ہوا اور سب سے اول سورة مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں :
{ یٰٓـاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ۔ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ۔ } [115]
” اے کملی پوش اٹھ (اور لوگوں کو گمراہی کے انجام سے) ڈرا اور اپنے پروردگار کی عظمت و جلال کو بیان کر اور لباس کو پاک کر اور بتوں سے جدا رہ اور زیادہ حاصل کرنے کی نیت سے حسن سلوک نہ کر اور اپنے پروردگار کے معاملہ میں (اذیت و مصیبت پر) صبر اختیار کر۔ “
حاشیہ 1فترۃ کا زمانہ کس قدر رہا ہے اس سلسلہ میں چھ ماہ سے ڈھائی سال تک کے متعلق روایات پائی جاتی ہیں اور محدثین کا رجحان چھ ماہ کی جانب زیادہ ہے۔
ان آیات نے گویا انسانی مقصد حیات کی تکمیل کردی کیونکہ سورة علق میں کہا گیا تھا کہ انسانیت کبریٰ کے لیے صحیح علم شرط ہے یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ علم صحیح کی رفعت و بلندی کے اعتراف کے باوجود انسانیت کی تکمیل اس وقت تک ناممکن ہے کہ علم صحیح کے ساتھ عمل صحیح بھی موجود ہو اس لیے کہ اگر علم صحیح ہے اور عمل صحیح مفقود تو اس کی افادیت معطل اور بیکار ہے اور اگر عمل ہے اور علم صحیح ندارد تو وہ عمل موجب زیاں و نقصان ہے۔ رشد و ہدایت اور صراط مستقیم کے لیے دونوں ہی کا وجود ضروری ہے اور تب ہی انسان ‘ انسانیت کبریٰ حاصل کرسکتا ہے۔
غرض جس طرح سورة علق کی آیات نے علم نافع کی جانب اشارات کئے اسی طرح سورة مدثر نے ” عمل نافع “ کی اساسی تفاصیل ظاہر کی ہیں۔ خدا کی ہستی اور اس کی ربوبیت کاملہ کا عملی اعتراف ‘ باطنی طہارت و پاکیزگی کا کمال ‘ ظاہری طہارت و پاکی کالزوم ‘بےغرض اور بےلوث اخلاق حمیدہ کی اساس ” احسان “ پر استقامت اور قبول حق اور نیک عملی کے نتائج پر صبر ان آیات کا حاصل ہیں اور یہی وہ بنیادی امور ہیں جن میں علم حق اور عمل صحیح کی تمام کائنات سمو دی گئی ہے۔ نیز ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سورة علق اور سورة مدثر کا یہ خطاب اور پیغام حق اشارہ ہے اس جانب کہ یہ نظام عمل منصب رسالت کے لیے تکمیل نفس اور دعوت رشد و ہدایت کے لیے مرتبہ اولین کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی مستقبل قریب میں بعثت عامہ کا باعث ثابت ہوگا۔

اعلان دعوت و ارشاد کی پہلی منزل

کلام الٰہی کے اس حکم کے بعد جو کہ تبلیغ و دعوت حق کا پہلا پیغام تھا دعوت و ارشاد نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور اب ذات حق نے سورة شعراء کی آیات نازل فرما کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فیصلہ سنایا کہ سب سے پہلے اہل قرابت اور رشتہ داروں کو دعوت حق دیجئے تاکہ دوسروں پر بھی اس کا اثر پڑے اور یوں بھی قریش اور بنی ہاشم کے قبول حق کا اثر تمام عرب قبائل پر پڑنا لازم ہے اس لیے کہ وہ سب قبائل کے سرخیل اور سر گروہ ہیں اور ساکنان حرم ہونے کی وجہ سے تمام عرب پر ان کا دینی اور دنیوی اثر ہے سورة شعراء میں ہے :
{ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ ۔ الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ } [116]
” اور (اے پیغمبر ! ) اپنے قریبی ناتے والوں کو (گمراہی سے) ڈرا اور جو مسلمان تیرے پیرو ہیں ان کے لیے اپنے بازو وں کو پست رکھ (یعنی نرمی اور تواضع سے پیش آ) اگر وہ نافرمانی کریں تب تو ان سے کہہ دے کہ میں تمہارے ان اعمال (بد) سے بری ہوں اور غالب رحم کرنے والی ذات پر بھروسہ کر جو تجھ کو اس وقت بھی دیکھتی ہے جب تو اس کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت بھی جب کہ تو سجدہ کرنے والوں میں مل کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے بلاشبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “
گویا یہ ” تکمیل علم و عمل “ اور ” منصب رشد و ہدایت کے فیضان “ کے بعد دوسرا درجہ تھا ‘ جس میں اعلان حق اور دعوت اسلام کی عملی صورت اختیار کرنے کے لیے تحریک کی گئی چنانچہ صحیح روایات شاہد ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر اس زمانہ کے طریق اعلان کے مطابق ” یَا صَبَاحَا “ ” یَا صَبَاحَا “ کہہ کر خانوادہ قریش کو پکارا اور جب سب جمع ہوگئے تو ایک مثال دے کر سمجھایا کہ بلاشبہ میں خدا کا پیغمبر اور رسول اور صراط مستقیم کے لیے ہادی برحق ہوں اور ارشاد فرمایا :
” لوگو ! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک لشکر جرار جمع ہے اور تم پر حملے کے لیے آمادہ تو کیا تم مجھ کو صادق سمجھو گے ؟ اَوْ مُصَدِّقِیْ ؟ لوگوں نے کہا : ہم نے تجھ کو ” الصادق الامین “ پایا ہے تو جو کچھ کہے گا حق اور صداقت پر مبنی ہوگا۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! تو لوگو ! میں تم کو خدائے واحد کی جانب بلاتا ہوں اور اصنام پرستی کی نجاست سے بچانا چاہتا ہوں تم اس دن سے ڈرو ‘ جب خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال و کردار کا حساب دینا ہے۔ “ [117]
یہ صدائے حق جب قریش کے کانوں میں پہنچی تو وہ حیران رہ گئے اور باپ دادا کے دین ” بت پرستی “ کے خلاف آواز سن کر برافروختہ ہونے لگے گویا سب میں ایک آگ سی دوڑ گئی اور سب سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب کو طیش آیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا :
( (تَبَّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَمَّا دَعَوْتَنَا اِلَّا لِھَذَا))
” تو ہمیشہ ہلاکت و رسوائی کا منہ دیکھے کیا تونے اس غرض سے ہم کو بلایا تھا۔ “
سورة لہب کا نزول ابولہب کی اسی گستاخانہ جرأت کے انجام بد کا اظہار کرتا ہے۔ { وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } [118]
” اور ہم نے تم کو کائنات انسانی کے لیے پیغام دے کر بھیجا ہے (اعمال نیک پر) خوش خبری سنانے اور (اعمال بد پر) لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور اکثر (جاہل) لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ “
عجب منظر ہے چند گھڑیاں پہلے جس محمد بن عبداللہ کی صداقت و امانت اور خصائل حمیدہ سے ساری قوم متاثر رہ کر اس کی عظمت و عزت کرتی اور اس کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کرتی تھی وہی آج اس اعلان پر کہ میں محمد رسول اللہ ہوں یکلخت بیگانہ ونفور اور خون کی پیاسی بن گئی۔

دعوت و ارشاد کی دوسری منزل

سیرت کی کتابوں میں پڑھ آئے ہو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاندان اور برادری کے لوگوں کو راہ حق دکھانے اور ان کی ایمانی اور اخلاقی حالت درست کرنے کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا مگر قریش کے چند اصحاب کے سوائے کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک نہ کہا اور عداوت و بغض کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ تب دعوت و ارشاد نے ترقی کے دوسرے زینہ پر قدم رکھا اور ذات حق کی جانب سے حکم ہوا : اے داعیٔ حق ! خاندان اور برادری کے انکار و جحود سے متاثر و غمگین نہ ہو اور اپنی مفوضہ خدمت پر استقامت کے ساتھ قائم رہو کیونکہ سعادت و شقاوت تمہارے قبضہ میں نہیں ہے تمہارا کام تو صرف ابلاغ (پہنچانا) ہے البتہ اب خاندان کے دائرہ سے آگے بڑھ کر مکہ اور اطراف مکہ کے قبائل و اقوام کو بھی یہ پیغام حق سناؤ اور دعوت و ارشاد کا تحفہ ان کے سامنے بھی رکھو تاکہ جو سعید روحیں پیغام حق کے لیے مضطرب اور بےچین ہیں وہ اس پر لبیک کہہ کر تسکین پائیں اور روح تشنہ کو آب حیات سے سیراب کریں۔
{ وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَ مَنْ حَوْلَھَا } [119]
” اور (دیکھو) یہ کتاب (قرآن) ہے جسے ہم نے ( توراۃ کی طرح) نازل کیا ‘ برکت والی اور جو کتاب اس سے پہلے نازل ہوچکی ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس لیے نازل کی تاکہ تم ام القریٰ (یعنی شہر مکہ) کے باشندوں کو اور ان کو جو اس کے چاروں طرف ہیں (گمراہیوں کے نتائج سے ) ڈراؤ۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [120]
” اور اسی طرح ہم نے تم پر قرآن نازل کیا زبان عربی میں تاکہ (گمراہیوں کے نتائج سے) ڈراؤ شہر مکہ کے باشندوں کو اور ان کو جو اس کے آس پاس ہیں۔ “
چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ حق کو مکہ کی تحدید سے آزاد کرکے اطراف مکہ کے لیے عام کردیا اور طائف ‘ حنین اور یثرب (مدینہ) تک اپنی صدائے حق کو پہنچایا بلکہ مہاجرین کے ذریعہ حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصحمہ تک کو کلمہ حق سنایا۔

بعثتِ عامہ

اس کے بعد دعوت و ارشاد کی وہ تیسری منزل پیش آئی جو بعثت محمدی کا نصب العین اور مقصد وحید ‘ اور تمام انبیاء و رسلعلیہم السلام کے مقابلہ میں ذات اقدس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لیے طغرائے امتیاز تھی یعنی خدائے برتر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو بعثت عام قرار دیا اور حکم ہوا کہ آپ نہ صرف قریش کے لیے ‘ نہ صرف ام القریٰ (مکہ) اور اطراف مکہ کے لیے ‘ نہ صرف عرب کے لیے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں بلکہ آپ کی بعثت تمام کائنات انسانی کے لیے ہوئی ہے اور آپ عرب و عجم اور اسود و احمر سب کے لیے پیغامبر اور خدا کے ایلچی ہیں ارشاد ہوتا ہے :
{ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ } [121]
” اور ہم نے تم کو کائنات انسانی کے لیے پیغام دے کر بھیجا ہے (اعمال نیک پر) خوش خبری سنانے اور (اعمال بد پر) لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور اکثر (جاہل) لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ “
{ تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا } [122]
” پاک اور برتر ہے وہ ذات جس نے حق و باطل کے درمیان تمیز دینے والی کتاب نازل فرمائی اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تاکہ وہ تمام جہان والوں کو (انجام بد سے) ڈرائے۔ “

دعوت اسلام کا مجمل خاکہ اور حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) کی تقریر

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر زمین عرب میں مبعوث ہوئے اس لیے فطری طریق کار کے پیش نظر سب سے اول قوم عرب ہی ان کی دعوت و ارشاد کا مخاطب قرار پائی تاکہ جو قوم کل چوپایوں کی گلہ بان تھی نور نبوت سے مستفیز ہو کر کائنات انسانی کی گلہ بان بن جائے اور خدائے برتر کے سب سے بزرگ تر پیغمبر و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سایہ رحمت میں تربیت پا کر کائنات ہدایت کے لیے خیر امت کا لقب پائے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ عرب جیسی سرکش ‘ جاہل ‘ تمدن و حضارت سے یکسر محروم اور اخلاقی و ملی جذبات و احساسات سے قطعاً منحرف قوم پر اسلام کی دعوت نے فوری طور پر کیا اثر کیا تاکہ ہم بآسانی یہ اندازہ کرسکیں کہ جس مذہب کے بنیادی اصول و عقائد اور افکار و اعمال نے ایسی قوم کے تمام شعبہ ہائے حیات میں حیرت زا اور عظیم الشان انقلاب پیدا کرکے اس کو روحانی دنیا کا انسان بنادیا اس مذہب کی صداقت کے لیے تنہا یہ ایک کارنامہ ہی روشن دلیل بن سکتا ہے۔
مشرکین مکہ کی پیہم مخالفت ‘ ایذا رسانی اور ہول ناک طریق ہائے عذاب نے جب مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت کو افریقہ کے مشہور ملک حبشہ کی جانب ہجرت پر مجبور کردیا اور وہ عیسائی حکمران اصحمہ کی حکومت میں پناہ گزین ہوگئے تو سرداران قریش اس کو بھی برداشت نہ کرسکے اور اصحمہ کے دربار میں مشاہیر کا ایک وفد بھیج کر یہ مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو اس لیے ان کے حوالہ کر دے کہ یہ بد دین ہو کر اور باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنے اور یہاں رہ کر بھی حکمراں کے دین کے مخالف ہیں۔ اصحمہ نے وفد کا مطالبہ سن کر مسلمانوں کو جواب دہی کے لیے دربار میں طلب اور اسلام کے متعلق دریافت حال کیا ‘ تب حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام سے متعلق تقریر فرمائی اور اس کی مقدس تعلیم کا مختصر اور جامع نقشہ کھینچ کر اصحمہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا یہی وہ تقریر ہے جو دراصل عرب کے دور جاہلیت اور قبول اسلام کے دور کی انقلابی کیفیت کا مجمل مگر بہترین خاکہ ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے بادشاہ اور درباریوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :
” بادشاہا ! ہم پر ایک طویل تاریک زمانہ گزرا ہے ‘ اس وقت ہماری جہالت کا یہ عالم تھا کہ ایک خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خود ساختہ پتھروں کی پوجا ہمارا شعار تھا ‘ مردار خوری ‘ زنا کاری ‘ لوٹ مار ‘ قطع رحمی صبح و شام کا ہمارا مشغلہ ‘ ہمسایوں کے حقوق سے بیگانہ ‘ رحم و انصاف سے ہم ناآشنا اور حق و باطل کے امتیاز سے ناواقف ‘ غرض ہماری زندگی سرتا سر درندوں کی طرح تھی کہ قوی ضعیف کو کچلنے اور توانا ناتواں کو ہضم کرلینے کو اپنے لیے فخر اور طغرائے امتیاز سمجھتا تھا۔ رحمت خدا کا کرشمہ دیکھئے کہ اس نے ہمارے اندر ایک بزرگ پیغمبر مبعوث کیا جس کے نسب سے ہم واقف ‘ جس کی صداقت ‘ امانت و عصمت پر دوست و دشمن دونوں گواہ ‘ جس کی قوم نے اس کو محمد الامین کا لقب دیا ‘ وہ آیا اور اس نے ہم کو خدا کی توحید کا سبق دیا خدائے واحد کی جانب بلایا اس نے بتلایا کہ خدا کا کوئی سہیم و شریک نہیں ‘ وہ شرک سے پاک ہے بت پرستی جہالت کا شیوہ ہے اس لیے قابل ترک ہے اور صرف خدائے واحد ہی کی عبادت حق عبدیت ہے۔ اس نے ہم کو حق گوئی اور صداقت شعاری کی تلقین کی اور صلہ رحمی کا حکم فرمایا ‘ ہمسایوں اور کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک سکھایا ‘ قتل و غارت کی رسم بد کو مٹایا ‘ زنا کاری کو حرام اور فحش کہہ کر اس ننگ انسانیت عمل سے ہم کو نجات دلائی ‘ نکاح میں محارم اور غیرمحارم کا فرق بتایا ‘ جھوٹ بولنے ‘ ناحق مال یتیم کھانے کو حرام فرمایا ‘ نماز اور خیرات و صدقات کی تعلیم دی اور ہر حیثیت سے ہم کو حیوانیت کے قعر مذلت سے نکال کر انسانیت کبریٰ کے مرتبہ پر پہنچایا۔ بادشاہا ! ہم نے اس مقدس تعلیم کو قبول کیا اور اس پر صدق دل سے ایمان لائے یہ ہے ہمارا وہ قصور جس کی بدولت یہ مشرکین کا وفد تجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو ہم کو ان کے حوالے کر دے۔ “ [123]
حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام کے صاف اور سادہ مگر روشن اصول کو جب اصحمہ کے سامنے جرأت حق کے ساتھ پیش کیا تو حبشہ کے حکمراں نے مسلمانوں کو اپنی پناہ سے نکال کر وفد کے حوالہ کرنے سے انکار کردیا اور پھر حضرت جعفر (رض) نے خوش الحانی کے ساتھ سورة مریم کی چند آیات تلاوت کیں تو نجاشی حبشہ بےحد متاثر ہوا اور آبدیدہ ہو کر اسلام کی صداقت پر ایمان لے آیا اور حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) کے دست حق پرست پر مشرف باسلام ہوگیا۔ یہ ہے دعوت اسلام کا مختصر خاکہ جس نے دنیا کے شب رنگ اور تاریک ترین خطہ انسانی کو ایک بہت ہی قلیل عرصہ میں مثل آفتاب تابناک اور روشن ترین بنادیا۔ اس خاکہ میں اعتقادات ‘ اخلاق اور اعمال حسنہ کا وہ تمام عطر موجود ہے جس کو قرآن عزیز نے مختلف سورتوں میں حسب حال اور مناسب مقام پر بکثرت بیان کیا بلکہ پورا قرآن انہی روشن حقائق کا ہادی و مرشد ہے۔

قرآن اور تجدید دعوت

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت جبکہ بعثت عام ہے تو از بس ضروری ہوا کہ کائنات انسانی کی رشد و ہدایت کے لیے خدا کا جو پیغام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ آئے وہ آخری پیغام اور کامل و مکمل پیغام ہو اور فطرت کے ایسے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم تمام کائنات انسانی کے لیے اس کو ابدی اور سرمدی پیغام یقین کرے اسی پیغام الٰہی کا نام ” القرآن “ یا ” الکتاب “ ہے۔
قرآن کی تعلیم اور اس کی دعوت و اصلاح کی حقیقت معلوم کرنے سے قبل چند لمحات کے لیے مذاہب عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ قرآن کے نزول سے قبل کائنات انسانی پر چار مذہبی تصور حاوی اور فکر و نظر ذہنی پر اثر انداز تھے : ہندومت ‘ مجوسی ‘ یہودی اور مسیحی۔
ہندو مت تصور الٰہی کے متعلق خواص اور عوام کے لیے دو جدا جدا تخیلات رکھتا تھا خواص کے لیے وحدۃ الوجود (یہاں وہ وحدۃ الوجود مراد ہے جو یوگیانہ تصور کا نچوڑ ہے۔) اور عوام کے لیے اصنام پرستی ‘ وحدۃ الوجود کا تصور اس درجہ فلسفیانہ تھا کہ خدا کا صحیح تصور کسی طرح اس راہ سے ممکن نہ تھا اس لیے کہ اگر ایک جانب وہ ہر وجود کو خدا یا خدا کا جزء مانتا ہے تو دوسری جانب خدا کے لیے کوئی محدود و متعین تخیل بتانے سے عاجز تھا یہی وجہ ہے کہ ہندومت کے تمام اسکولوں (مذاہب) میں اصنام پرستی ہی کو مذہبی امتیاز رہا اور وہ توحید خالص کو مقبول خواص و عوام نہ بنا سکا۔ چنانچہ ویدک دھرم ‘ بدھ مت ‘ جین مت وغیرہ بلکہ جدید اصلاحی اسکول (مذہب) آریہ سماج سب کے سب توحید خالص کے تصور سے خالی ہیں۔ مجوسی مذہب کا اعتقادی تصور تو صاف صاف ” ثنویت “ کی بنیادوں پر قائم ہے یعنی وہ خدا کے تصور و تخیل کو خیر و شر کی جدا جدا دو متقابل قوتوں میں تقسیم کردیتا ہے ‘ وہ کہتا ہے کہ نور اور خیر کا خدا ” یزداں “ اور ظلمت و شر کا ” اہرمن “ ہے اور اس طرح خدائے خیر اور خدائے شر دو خدا کائنات ہست و بود پر متصرف اور باہم متقابل ہیں۔ یہودی مذہب اگرچہ خدا کے تصور میں مدعی توحید رہا ہے لیکن موجودہ توراۃ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس کی نگاہ میں خدا کی ہستی تجسم سے پاک نہیں ہے اسی لیے توراۃ کا تخئیلی خدا کہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کشتی لڑتا نظر آتا ہے اور یعقوب (علیہ السلام) اس کو پچھاڑ دیتے ہیں اور کہیں اس کی انتڑیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے چیختا نظر آتا ہے کبھی وہ بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لیتا ہے تو کبھی مصر سے خروج کے وقت بادل اور آگ کا ستون بن کر بنی اسرائیل کی رہنمائی کرتا نظر آتا ہے اور کبھی اس کی آنکھیں دکھنے آجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور اس تصور کا آخری مظاہرہ حضرت عزیر (عزرا) (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے پر مثمر ہوجاتا ہے۔
اسی طرح مسیحی تصور بھی تجسم و تشبہ کے چکر میں آ کر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مان لیتا اور اس طرح مشرکانہ عقیدہ اوتار کا تخیل اپنا لیتا ہے اور اقانیم ثلثہ (تثلیث) اور مریم پرستی میں حقیقی خدا پرستی کو گم کر بیٹھتا ہے۔ خدا کی ہستی سے متعلق یہ وہ تصورات تھے جن میں دنیا کے بڑے بنیادی مذاہب نزول قرآن کے وقت مبتلا نظر آتے ہیں۔ ان سب مذاہب میں توحید حقیقی سے غفلت نے رسالت یعنی دعوت حق کے داعی کی شخصیت کے متعلق بھی غلط تصورات پیدا کردیئے تھے چنانچہ ہندوستان کے مذہبی تصور میں تو رسالت و نبوت اپنے صحیح معنی میں نظر ہی نہیں آتی اور وہ نبی و رسول کے مفہوم سے ہی یکسر ناآشنا نظر آتا ہے اور مجوسی ‘ یہودی اور مسیحی مذاہب کے معتقدات میں اگر یہ تصور پایا بھی جاتا ہے تو افراط وتفریط کی شکل میں ‘ کبھی ابن اللہ ہو کر اور کبھی بد اخلاق و بداعمال انسان کا پیکر بن کر جیسا کہ توراۃ میں حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیوں کا ان کے ساتھ اختلاط کا واقعہ مذکور ہے۔ 1(اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْخَرَافَاتِ وَالْاِفْتِرَائَاتِ )
حاشیہ 1 دیکھئے کتاب پیدائش باب 19 آیات 30 تا 38۔ ۔
گویا ان کے نزدیک یا تو رسول اور داعیٔ حق کی شخصیت کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی اور یا پھر خدا ‘ خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا بن کر سامنے آتی ہے اور اس لیے جس طرح وہ حقیقی توحید سے بیگانہ نظر آتے ہیں اسی طرح رسالت و نبوت کے صحیح تصور سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ اسی طرح عالم آخرت کے متعلق بھی ان مذاہب کے تصور کی دنیا افراط وتفریط سے خالی نہیں تھی ‘ بعض مذاہب میں تو کائنات انسانی مختلف چولوں کے چکر میں گرفتار نظر آتی اور آواگون (تناسخ) کے ناقص فلسفیانہ نقطہ نگاہ کی رہین منت بنی ہوئی ہے اور ایک حد پر پہنچ کر ” برہم “ یعنی خدا میں جذب ہوجانا نجات کا آخری نقطہ متعین کیا جاتا ہے نیز خیر و شر کی جزا و سزا کے بارے میں ایک قادر مطلق خدا نہیں بلکہ ایک جبری قانون میں جکڑی ہوئی مجبور ہستی کا تصور پیش کرتا ہے اور بعض اگرچہ تناسخ کے غلط عقیدہ سے جدا یوم معاد اور یوم حساب کے تصور سے آشنا بھی ہیں لیکن ان کے نزدیک بھی عالم آخرت کا معاملہ اعمال صالحہ و سیہ یا افعال و کردار کے حق و باطل کی جزا و سزا سے وابستہ نہیں ہے بلکہ نسلی امتیازات اور جماعتی فرقہ بندی اور یا پھر کفارہ کے ساتھ مربوط ہے۔ان چار بنیادی مذاہب عالم کے علاوہ مشرکین اور فلاسفہ کی بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں جو نہ خدا کی ہستی کی قائل تھیں اور نہ عالم آخرت کی اور خدا کی ہستی پر اگر ایمان بھی رکھتی تھیں تو سیکڑوں ہزاروں بلکہ بےتعدادبتوں کی باطل پرستی کے ساتھ ملوث و مجروح۔ غرض یہ تھے مذاہب عالم کے وہ ذہنی تصورات اور فکری معتقدات جن پر کائنات انسانی کی روحانی اور سرمدی سعادت کا مدار سمجھا جاتا تھا اور جو بلاشبہ اپنے نتائج وثمرات کے لحاظ سے کائنات انسانی کو مشعل ہدایت دکھا کر انسانیت کبریٰ کے درجہ تک پہنچانے اور انسانوں کا خدا کے ساتھ حقیقی معبود و عبد ہونے کا رشتہ قائم کرکے دین و دنیا کی خیر و فلاح تک پہنچانے میں قطعی تہی دامن تھے۔
انہی حالات میں ” اسلام “ کی دعوت و تبلیغ یا ” تعلیم حق “ نے رونمائی کی اور کائنات انسانی کے ہر شعبہ حیات میں گونا گوں انقلاب پیدا کرکے نیا عالم پیدا کردیا اور آفتاب ہدایت کی روشنی سے منور بنا کر اس کو معراج کمال تک پہنچا دیا۔

توحید

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے کلام (قرآن) کے ذریعہ سب سے پہلے اسی عقیدہ توحید پر روشنی ڈالی اور توحید خالص کی حقیقت واضح کرکے تمام کائنات انسانی کو اس کی جانب دعوت دی۔
قرآن عزیز کی دعوت توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو اپنی ذات وصفات میں ہر قسم کے شرک سے پاک اور وراء الوراء ہے نہ اس کا کوئی سہیم و شریک ہے اور نہ اس کا ہمتا و ہمسر ‘ اس لیے ابنیت کا عقیدہ ہو یا اوتار کا ‘ صنم پرستی ہو یا وثنیت و تثلیث یہ سب باطل ہیں وہ یکتا و بےہمتا ہے ‘ باپ ‘ بیٹا اور اس قسم کی نسبتوں سے پاک ہے پرستش کے قابل وہ خود ہے نہ کہ اس کے مظاہر اور اس کی مخلوقات وہ جس طرح تجسم و تشبہ سے بالاتر ہے اسی طرح اس کا نہ کوئی مقابل ہے اور نہ کوئی حریفانہ سہیم۔
{ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ } [124]
” اللہ اس ہستی کا نام ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود اور خدا نہیں ہے وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور زندگی کا بخشنے والا۔ “
{ وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا } [125]
” پس تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ “
{ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} [126] ” اللہ کا کسی کو شریک نہ بنا ‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
{ وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ} [127]
” اور خدا تمہارا ایک ہی خدا ہے۔ “
یہ اور اسی مضمون کی بیشمار آیات ہیں جو قرآن عزیز میں توحید خالص کی داعی اور مناد ہیں لیکن سورة اخلاص یا سورة توحید میں جس معجزانہ اختصار کے ساتھ توحید سے متعلق موجودہ مذاہب کے ناقص اور غلط تصورات کو باطل کرتے ہوئے توحید خالص کی تعلیم دی گئی ہے وہ خود اپنی نظیر ہے :
{ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ یَلِدْ ٥ وَلَمْ یُوْلَدْ ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔ } [128]
” (اے محمد) کہہ دیجئے اللہ یکتا ذات ہے اللہ بےنیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہمسر اور سہیم و شریک ہے۔ “
ایک مرتبہ توحید سے متعلق مذاہب عالم کی تعلیم پر اور نظر کیجئے اور پھر ان چند مختصر آیات کو غور و فکر کے ساتھ ملاحظہ فرمایئے تو آپ اندازہ کرسکیں گے کہ پہلی دو آیات میں توحید خالص کا صحیح اور حق تصور پیش کردیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ ایسی ہستی کا نام ہے جو یکتا و بےہمتا ہے ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ ہر قسم کے احتیاج سے پاک اور بےنیاز ہے وہ صمد ہے یعنی مجموعہ کمالات صرف صمدیت کا حصہ ہے اور بس۔ اس کے بعد وہ نصاریٰ اور یہود سے مخاطب ہو کر شمع ہدایت دکھاتا ہے کہ اللہ اس ہستی کو کہتے ہیں جو باپ اور بیٹے جیسی فانی نسبتوں سے بالاتر ہے وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا { تَعَالَی اللّٰہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا } (اسراء ١٧/٤٣) اور اسی طرح ہندو دھرم سے کہتا ہے کہ ایسی لازوال ہستی کی مقدس شان اس سے بلند وبالا ہے کہ وہ کسی انسان یا حیوان کے جسم میں محدود ہو کر اوتار کہلائے یا اس معبود مطلق کے ساتھ چھوٹے معبودوں کا سلسلہ قائم کرکے کسی مخلوق کو اس کا سہیم و شریک ٹھہرایا جائے۔ { سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ} (نور ٢٤/١٦) اور وہ مجوس اور ویدک دھرم کے ان پجاریوں کو مخاطب کرتا ہے جو اس کو یزداں کہہ کر اہرمن کو اس کا مقابل حریف تسلیم کرتے ہیں یا روح (جیو) اور مادہ (پر کرتی) کو خدا کے ساتھ ازلی و ابدی (قدیم و غیر مخلوق) کہہ کر ان چیزوں کو خدا کا کفو اور ہمسر بتلاتے ہیں ‘ اور کہتا ہے { وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔ } (الاخلاص : ١١٢/٤) خدا اس ہستی کا نام ہے جس کا نہ کوئی ہمسر اور حریف ہے اور نہ اس کی طرح انادی (قدیم) اور غیر مخلوق ہے۔
غرض قرآن عزیز نے خدا کی ذات واحد سے متعلق ان تمام نسبتوں کا قطعی انکار کرکے جو توحید خالص کے کسی طرح بھی معارض ہوتی تھیں اس کو یکتا اور بےہمتا ظاہر کیا ہے اور اس طرح شرک فی الذات اور شرک فی الصفات کا قلع قمع کردیا ہے اور شرک فی الالوہیت اور شرک فی الربوبیت کے خلاف توحید اور صرف توحید کو ہی اسلام کا بنیادی تصور قرار دیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جس طرح قرآن نے توحید کے تمام اطراف و جوانب کو نقص و خام کاری سے پاک کرکے حقیقی توحید کے تصور کی جانب رہنمائی کی اور ہر قسم کے تجسم سے وراء الوراء بتلا کر توحید کامل کی جانب دعوت دی اسی طرح اس نے توحید کے اس فلسفیانہ عقیدہ کو بھی باطل ثابت کیا جو اس باب میں تفریط کی حد تک بڑھ کر صفات الٰہی کا بھی منکر ہوگیا اور کہنے لگا کہ وہ قادر ہے بغیر قدرت کے ‘ خالق ہے بغیر خلق کے ‘ بصیر ہے بغیر رویت کے ‘ سمیع ہے بغیر سمع کے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس عقیدہ کا حاصل یہ ہے کہ خدا ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے ” تعطل “ لازم ہے جیسا کہ پہلی تعلیمات کا حاصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں خدا کے لیے تجسم ضروری ہے۔ قرآن نے کہا کہ پہلی کیفیت اگر افراط پر مبنی تھی تو یہ تفریط پر قائم ہے اس لیے کہ ایک ذات کے لیے متعدد صفات کمال کا ہونا ذات کی وحدت پر اثر انداز نہیں ہے اس لیے بلاشبہ وہ سمیع وبصیر ہے ‘ سنتا ہے اور دیکھتا ہے لاریب وہ قدرت کاملہ کے ساتھ قادر ہے اور صفت رحم و کرم کے ساتھ رحیم و کریم ہے البتہ اس کی صفت سمع و بصر ‘ صفت رحم و کرم وغیرہ صفات کا انسانی صفات سمع و بصر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور جس طرح وہ اپنی ذات میں بےہمتا اور یکتا ہے اسی طرح صفات میں بھی ہے :
{ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌج وَّہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } [129]
” اس (خدا) کی کوئی مثال نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ “
غور فرمایئے کہ کس معجزانہ تعبیر کے ساتھ ایک ہی آیت اور ایک ہی جملہ میں اس کی صفات کمالیہ کا اعتراف بھی مذکور ہے اور یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ خدا کی ان صفات کو انسانی صفات کی طرح نہ سمجھو بلکہ اس کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی { لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } [130] کے عنوان سے معنون اور انسانی صفات کے حقائق کے مقابلہ میں بےمثال و بےنظیر ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خدائے برتر کی توحید جب ہی حقیقی توحید کہلا سکتی ہے کہ اس میں نہ تجسم کا عقیدہ شامل حال ہو اور نہ تعطل کا کہ یہ دونوں افراط وتفریط کی راہیں ہیں بلکہ عقیدہ یہ ہو کہ اللہ اپنی ذات میں بھی بےہمتا و یکتا ہے اور اپنی صفات میں بھی اور وہ ہر طرح کے شرک و کفر سے پاک اور برتر ہے۔

رسالت

توحید حقیقی کے ثبوت کے بعد قرآن نے رسالت کے بنیادی عقیدہ کی اصلاح بھی ضروری سمجھی اور اس نے بتلایا کہ کسی تعلیم کے حسن و قبح میں معلم کی شخصیت کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اچھی تعلیم کا معلم بدعمل انسان ہو یا بری تعلیم کا معلم نیکوکار ‘ اور جبکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ خدا ہر ایک انسان کے ساتھ براہ راست ہم کلام نہیں ہوتا تو از بس ضروری تھا کہ کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے ایک انسان ہی کو معلم بنایا جائے اور وہی خدا کی جانب سے رسالت اور پیغامبری کا فرض انجام دے۔
پس بشری اوصاف سے متصف یہ انسان نہ خدا ہوگا اور نہ خدا کا بیٹا یا خدا کا اوتار بلکہ بشر اور انسان ہی رہے گا نیز خدا کے پیغامبر ہونے کی وجہ سے پاکی اور تقدس کا جو رشتہ اس کو خدا کی درگاہ سے وابستہ کئے ہوئے ہے اس کے پیش نظر اس کی ہستی کا نہ انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کو دوسرے انسانوں کے مساوی کہا جاسکتا ہے اس لیے قرآن نے جگہ جگہ مسیح ابن مریم اور عزیر (علیہما السلام) کے متعلق اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ خدا کے مقدس رسول ہیں خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں نیز یہ بھی بتلایا کہ اگر ایک انسان تمہاری طرح کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی اور بازاروں میں چلتا پھرتا ‘ خریدو فروخت کرتا اور گھر میں اہل و عیال کے ساتھ معاشرتی زندگی بسر کرتا ہے تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ وہ خدا کا فرستادہ رسول نہیں ہے اور کس طرح یہ جائز ہے کہ ایک صادق و امین ہستی کے اس دعویٰ کو تم محض قیاس کی بنا پر جھٹلا دو کہ وہ خدا کا رسول نہیں ہے۔ قرآن نے ان حقائق کو جن صاف اور واضح تعبیرات کے ساتھ بیان کیا ہے گزشتہ صفحات میں آپ ان کا مطالعہ فرما چکے ہیں۔
پس جس کتاب میں نبوت و رسالت سے متعلق صحیح تصور موجود نہ ہو وہ کبھی اپنی مذہبی تعلیمات کی صداقت کی مکمل تصویر نہیں پیش کرسکتی ‘ یہی وہ عقیدہ ہے جس کی حقیقت میں ایمان بالرسل ‘ ایمان بالکتب ‘ ایمان بالملائکہ سب بنیادی عقائد سمٹ کر جذب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ جبکہ ہدایت انسانی کے لیے خدائے تعالیٰ اپنی پیغامبری کے لیے ایک انسان اور بشر کو ہی چن لیتا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ قائم ہے۔
{ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ} [131]
” کوئی گروہ یا جماعت ایسی نہیں ہے کہ جس میں ہماری جانب سے نذیر (پیغامبر) نہ گزرا ہو۔ “
{ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ } [132]
” اور ہر قوم کے لیے ہادی آئے ہیں۔ “
{ مِنْہُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ }
[133]
” ان میں سے بعض کے واقعات کا ہم نے قرآن میں تذکرہ کردیا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا تذکرہ قرآن میں نہیں کیا۔ “
اور یہ یقین لانا بھی ضروری ہے کہ جبکہ خدا ایک ہے اور اس کی تعلیم ایک ‘ تو بلاشبہ تمام پیغمبران خدا کی بنیادی تعلیم بھی ایک ہی رہی ہے اور اس لیے اگر خدا کے کسی ایک برحق نبی و رسول کا بھی انکار کردیا گیا تو گویا اس نے پوری دعوت قرآنی کا انکار کردیا پس یہ ایمان ضروری ہوا :
{ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ } [134]
” ہم خدا کے پیغمبروں میں (پیغمبر ہونے کے لحاظ سے) کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے (کہ ایک کو مان لیں اور دوسرے کو انکار کردیں) “
لہٰذا جب تمام انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لانا از بس ضروری ہوا تو ان پر نازل شدہ تمام کتب سماویہ پر بھی ایمان لانا جزء ایمان ہوگا ورنہ تو ایک جانب سے ایمان لا کر دوسری جانب سے اس پیغمبر کی صداقت کا انکار لازم آئے گا اور جب رسالت اور رسالت کے ساتھ کتب سماویہ پر ایمان حقیقت ثابتہ بن جائے تو ملائکۃ اللہ پر اس لیے ایمان لانا ضروری ہوگا کہ خدا کے ان پیغمبروں نے یہ صاف صاف اعلان کیا ہے کہ خدا کی جانب سے ان پر یہ وحی خدا کا فرشتہ لے کر آتا ہے تو اب یا ہم اس پیغمبر کی صداقت کا انکار کردیں اور یا پھر بن دیکھے فرشتہ پر اس لیے ایمان لے آئیں کہ بتلانے والی ہستی اپنے کردار و اعمال میں ہر طرح صادق و امین اور امراض دماغی و قلبی ” جنون و سحر “ سے ہر طرح پاک ہے اور ضروری نہیں ہے کہ جس شئے کو آنکھوں نے نہ دیکھا ہو اور کانوں نے نہ سنا ہو وہ حقیقت میں بھی غیر موجود ہو کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی شے کے عدم علم سے اس شے کا عدم لازم نہیں آتا یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس بات کو ہم نہیں جانتے وہ واقع میں بھی موجود نہ ہو۔

یوم آخرت

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے آخری اور مکمل پیغام قرآن کے ذریعہ تیسری بنیادی اصلاح یوم آخرت سے متعلق فرمائی۔ مذاہب عالم اس سلسلہ میں بھی راہ مستقیم سے رو گرداں اور افراط وتفریط کے بحر ظلمات میں پھنسے ہوئے تھے وہ یا تو آواگون 1 (تناسخ) کے چکر میں یوم آخرت کے اس تصور سے قطعاً بیگانہ ہوچکے تھے اور قیامت (پر لے) کا تعلق انسانی اعمال کی جزا و سزا اور یوم الحساب سے غیر متعلق سمجھ چکے تھے اور یا پھر اس دن نجات کا مدار اور جزا و سزا کا معیار اعمال و کردار کی جگہ نسل و خاندان اور سوسائٹی کی معاشرتی گروہ بندی پر سمجھ بیٹھے تھے اور کفارہ کو عقیدہ بنا کر حساب و محاسبہ اعمال سے مطمئن ہوچکے تھے اور مشرکین اور بعض فلاسفہ نے تو یوم آخرت کے وجود ہی کا انکار کردیا تھا اور ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ آج کا مردہ انسان کل کس طرح زندگی اختیار کرلے گا اور سیکڑوں اور ہزاروں برس کی بوسیدہ ہڈیاں یوم حساب میں کس طرح جسم بن کر اپنی روح کے لیے لباس بن سکیں گی۔
حاشیہ 1 اس موقع پر اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں سے متعلق اگرچہ بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے تاہم اس قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ تناسخ (آواگون) کا عقیدہ اس اساس پر قائم ہے کہ ایک انسان کی موجودہ زندگی سابق میں کئے ہوئے اعمال کا ثمرہ اور نتیجہ ہے ورنہ کائنات میں یہ تنوع ہرگز نہ ہوتا کہ کوئی انسان ہے تو کوئی حیوان اور کوئی نباتات و جمادات ‘ نیز انسانوں میں کوئی عالم ہے تو کوئی جاہل اور کوئی صحت یاب ہے تو کوئی مریض اور کوئی امیر کبیر ہے تو کوئی مفلس و محتاج وغیرہ وغیرہ۔
قرآن نے نازل ہو کر دنیائے انسانی کو بتایا کہ اس صاف اور واضح بات کے سمجھنے میں آخر تم پر کیوں وحشت طاری ہوتی ہے اور اس عقیدہ کا مقصد یہ ہوا کہ بغیر عمل و کردار کے اگر عالم میں یہ تغیرات موجود ہیں تو یہ خدا کی صفت عدل کے منافی ہے لیکن اس عقیدہ کی خام کاری اور بطلان کی مختلف وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اگر روح اپنے اعمال کی وجہ سے مختلف جون بدل کر ان تغیرات عالم کا باعث ہے جو مجموعہ کائنات کے حسن کا باعث ہیں اور جس کی بدولت یہ پورا کارخانہ مکمل نظام کے ساتھ وابستہ نظر آتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان کے لیے فطری اور نیچرل طور پر گناہ گار ‘ بدکار اور بداعمال ہونا از بس ضروری ہے تاکہ مجموعہ کائنات کا یہ حسن نہ صرف یہ کہ پیدا ہو بلکہ قائم رہے جس کا تغیرات اور تنوعات پر مبنی ہونا از بس ضروری ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ دیجئے کہ جون بدل کر آواگون کی زندگی اگر اعمال کی جزا و سزا سے متعلق ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت انسان کے لیے نیکوکار بننے کی جگہ زیادہ سے زیادہ بدکار ہونا چاہیے تاکہ آئندہ نظام عمل میں یہ تنوع باقی رہے جس کا باقی رہنا عقل و فطرت کے مطابق ہے ورنہ تو حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات کے فقدان سے انسانی دنیا کا یہ سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ تناسخ کے ناقص فلسفیانہ عقیدہ پر یقین رکھنے والوں نے اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیا ہے کہ ایک چیز اپنی انفرادیت کے لحاظ سے خواہ کتنی ہی قبیح اور بری معلوم ہو لیکن مجموعہ کائنات کے پیش نظر اس کا وجود بھی اپنے اندر ضرور حسن رکھتا ہے مثلاً تل (خال) اپنے رنگ و روپ میں کیسا ہی سیاہ فام کیوں نہ ہو لیکن محبوب کے رخسار پر نہ صرف خود حسین بن جاتا ہے بلکہ حسن محبوب کو دو بالا کردیتا ہے اور حافظ شیرازی (رحمہ اللہ علیہ) جیسے صوفی کو ” خال محبوب “ پر سمرقند وبخارا بخش دینے پر آمادہ کردیتا ہے۔
اسی طرح عالم و کائنات میں انفرادی طور پر کسی کا مریض ہونا ‘ اپاہج و معذور ہونا ‘ ناقص الخلقت ہونا وغیرہ گو قبیح اور قابل افسوس نظر آتے ہوں مگر مجموعہ کائنات کے حسن کے لیے فطری (نیچرل) ہیں اور اس تنوع پر ہی دنیا کے نظام کا بقا ہے اور خالق کائنات کے کمالات آفرینش کا آئینہ دار۔ گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے کیوں تمہاری عقل اس کو نہیں تسلیم کرتی کہ جس خالق کائنات اور بدیع السموات والارض نے نمونہ اور نقشہ کے بغیر یہ عجیب و غریب عالم آفرینش کردیا وہ بلاشبہ اس پر قادر ہے کہ ماضی میں مخلوق اور حال میں مردہ و بوسیدہ ہستی کو مستقبل میں دوبارہ وجود عطا فرما دے اور اس کے منتشر اجزاء کو جمع کرکے دوبارہ وہی ہیئت جسمانی عطا اور سابق روح کو اس میں واپس کر دے۔ یا تو صاف کہو کہ اس کائنات کو کسی بلند وبالا ہستی نے پیدا نہیں کیا جس کو خدا (اللہ) کہتے ہیں اور اگر یہ مانتے ہو تو یہ قطعاً عقل کے خلاف ہے کہ جو ابتدائی آفرینش کرسکے وہ اس آفرینش کو دہرانہ سکے :
{ وَ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ئَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا ۔ اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَکُ شَیْئًا۔ } [135]
” اور انسان کہتا ہے کہ بھلا جب میں مرگیا تو کیا میں (قبر سے) زندہ نکالا جاؤں گا کیا انسان یہ یاد نہیں کرتا کہ ہم نے پہلے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ کوئی چیز نہیں تھا۔ “
{ وَضَرَبَ لَنَا مَثَـلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ ۔ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ اَنْشَاَہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ ۔ } [136]
” اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کی حقیقت کو بھول گیا کہتا ہے کہ ہڈیاں جب گل کر خاک ہوگئی ہوں تو کون ہے جو ان کو زندہ کرکے کھڑا کر دے (اے محمد) کہہ دیجئے کہ جس نے ان ہڈیوں کو اول بار پیدا کردیا تھا وہی ان کو زندہ کرے گا اور وہ سب کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ “
یہ مشرکین مکہ تھے جو خدا اور خالقیت خدا کے تو قائل تھے مگر دوسری زندگی کے منکر و کافر اور جاحد تھے پھر اس نے ان کو بھی مخاطب کیا جو کہتے تھے کہ آخرت کا تصور اس لیے فضول ہے کہ یہ کائنات کسی کی مخلوق ہی نہیں ‘ مادہ اور اس کی حرکت یونہی ازل سے ابد تک کائنات کا روپ و رنگ اختیار کئے ہوئے ہے اور حرکت و کشش دو قوتیں اس نظام عالم کے ہر قسم کے تنوعات کی کفیل ہیں قرآن نے کہا یہ گمراہ کن تصور ایک بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے وہ یہ کہ عقل اور سائنس کے خلاف یہ سمجھ لیا گیا کہ ذرات مادہ (اجزائے ایتھریہ) میں شعور و ارادہ نہ ہونے کے باوجود حرکت ‘ قوت استعداد اور کشش کے ذریعہ خود بخود ایسی اشیاء وجود پذیر ہوسکتی ہیں جن کا مواد (مٹیریل) ان ذرات میں موجود نہیں یعنی مادہ میں بالقوہ بھی نہ شعور ہے اور نہ ارادہ ‘ نہ جذبات ہیں نہ احساسات ‘ نہ ادراکات ہیں اور نہ عقل وتمیز ورنہ تو جسم کو بالقوہ ان صفات کا حامل کہنا بجا ہوتا ‘ لیکن یہ مسلمات میں سے ہے کہ جسم کو نہ شعوری کہہ سکتے ہیں نہ جذباتی ‘ نہ ذی ادراک کہا جاسکتا ہے اور نہ ذی عقل و صاحب تمیز پس دلیل وجدان جو فطری دلائل میں سب سے زیادہ مضبوط اور نیچر دلیل ہے وہ اس حقیقت کو تسلیم کراتی ہے کہ جبکہ تمام موجودات عالم میں انسان موجودات عالم کی ارتقائی ہستی اور اشرف الموجودات ہے اور اس میں جذبات ‘ حسیات ‘ ادراکات ‘ شعور اور عقل جیسے لطیف اوصاف موجود نظر آتے ہیں حالانکہ بلاشبہ مادہ کی قوت و استعداد میں یہ معدوم تھے تو اس میں قطعاً شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان سے بلند ‘ ضرور ایک ایسی ہستی موجود ہے جو قدرت و ارادہ کی علی الاطلاق مالک اور تمام موجودات کی خالق ہے اور اس میں بھی کوئی ریب و شک نہیں کہ انسان ایسی ذی عقل و ذی شعور اور صاحب ارادہ ہستی کی تخلیق محض بےفائدہ نہیں ہے اور اس کی زندگی کے اعمال اور کردار بےوجہ اور مہمل نہیں ہیں اور جبکہ ہم اس دنیا میں انسانوں کے اعمال و کردار کی جزاء و سزا کا مظاہرہ نہیں دیکھتے تو وجدان ہی ہمارے لیے رہنمائی کرتا ہے کہ ایک ایسا دن ضرور مقرر ہے جب کائنات انسانی اپنے اعمال و کردار کی جزا و سزا کا نتیجہ وثمرہ پائے گی اور اسی کو یوم القیامہ ‘ یوم الآخرہ اور یوم الحساب کہتے ہیں چونکہ یہ دن اپنی پائیداری اور قیام کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے اس لیے یوم القیامہ کہلاتا ہے اور چونکہ دنیائے موجودہ کے بعد ہے اس لیے یوم الآخرہ ہے اور چونکہ جزا و سزا اور اعمال کے محاسبہ پر مثمر ہوگا اس لیے یوم الحساب ہے :
{ وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلٰی وَ رَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ } [137]
” اور منکرین کہتے ہیں کہ قیامت ہم کو تو کبھی نہیں آئے گی۔ اے محمد ! کہہ دیجئے ہاں ہاں مجھ کو اپنے پروردگار کی قسم جو عالم الغیب ہے قیامت تو تم کو ضرور پیش آ کر رہے گی۔ “
{ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی } [138]
” کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ مہمل اور بیکار چھوڑ دیا جائے گا “
{ اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ یَ الْمَوْتٰی } [139]
” کیا خدا اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ “
{ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ ۔ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ۔ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۔ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ۔ } [140]
” گواہ ہے انجیر و زیتون (کے باغات سے سرسبز و شاداب وہ مقام بیت اللحم جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی) اور گواہ ہے طور سینا (جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفرازی نصیب ہوئی) اور گواہ ہے یہ بلد امین (مکہ جہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت ہوئی) کہ بلاشبہ ہم نے انسانوں کو بہتر سے بہتر قوام سے بنایا پھر اس کو نشیبوں کے سب سے نیچے مقام پر دھکیل دیا مگر وہ انسان جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لیے بےمنت و احسان اجر وثواب ہے۔ تو اب وہ کیا بات ہے جو تجھ کو دین (قیامت) کے جھٹلانے پر آمادہ کرتی ہے کیا اللہ حاکموں میں سب سے بہتر حاکم نہیں ہے۔ “
اور سچ تو یہ ہے کہ قرآن عزیز کہتا ہے کہ آخرت کے انکار پر منطقی دلائل قائم کرنے اور سفسطہ اور غلط روش کو اختیار کرکے ادھر ادھر بھٹکنے کی آخر ضرورت کیا ہے جبکہ انسان کی سب سے قریب اور سب سے زیادہ مضبوط دلیل وجدان خود بخود اس جانب رہنمائی کرتی ہے کہ یہ نظام عالم جس طرح حیرت زا اور محیر العقول نظام فطرت سے منظم اور قوانین فطرت کے ہاتھوں میں مسخر ہے ہو نہیں سکتا کہ یہ خود رو نظام ہو اور جبکہ اس کا کوئی خالق ضرور ہے تو اس نے خیر و شر کے ثمرات و نتائج کے لیے بھی ضرور کوئی وقت مقرر کیا ہے ورنہ یہ کامل و مکمل نظام ثمرہ اور نتیجہ کے پیش نظر ایک مہمل شئے ماننی پڑے گی پس نتیجہ اور ثمرہ کا وہ دن ہی یوم آخرت کے نام سے موسوم ہے جو نہ تناسخ کے چکر سے وابستہ ہے اور نہ ازلیت و ابدیت عالم کا حامل بلکہ جس طرح عالم کی ہر شے کا ایک آغاز ہے اور ایک انجام اسی طرح خود اس پورے عالم کا بھی ایک آغاز اور انجام از بس ضروری ہے۔
پس مومن اور مسلم وہی ہے جو توحید خالص ‘ رسالت کے صحیح تصور اور یوم آخرت پر یقین کامل کے سر رشتہ کے ساتھ پیوستہ ہو اور یہی وہ تین بنیادی عقائد ہیں جو دین کے حقیقی تصور یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسل ‘ ایمان بالکتب ‘ ایمان بالملائکہ ‘ ایمان بالقدر اور ایمان بالآخرہ سب ہی پر حاوی ہیں اور یہی وہ دین کامل ہے جس کی تشریح قرآن عزیز نے سورة بقرہ کے آخری رکوع میں اس طرح کی ہے :
{ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ } [141]
” رسول (محمد) ایمان رکھتے ہیں اس شے پر جو اس پر ان کے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے (یعنی قرآن) اور ہر ایک (ایماندار) ایمان رکھتا ہے خدا پر ‘ فرشتوں پر ‘ سماوی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ‘ (وہ کہتے ہیں خدایا) ہم تیرے پیغمبروں کے درمیان کسی ایک کو بھی پیغمبر تسلیم کرنے کے سلسلہ میں فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں ہم نے تیرا حکم سنا اور اس کی پیروی کی اے پروردگار ہم تجھ سے مغفرت کے خواہاں ہیں اور ہم کو آخر کار تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ “
مابعد الطبیعیاتی عقائد و افکار سے متعلق قرآن حکیم کی یہی وہ اصلاحی اور انقلابی تعلیمات تھیں جن کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اول عرب کے سامنے روشناس کیا اور پھر تمام کائنات انسانی تک پہنچا کر مذاہب کی دنیا ہی بدل ڈالی اور اسلام کی اس دعوت توحید نے مذاہب عالم میں ہل چل پیدا کردی اور کسی نہ کسی رنگ میں ان کو توحید حقیقی کے اس ارتقائی نقطہ کی جانب جھکنا پڑا اور اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رشتہ معبودیت و عبودیت ہی کو صحیح نقطہ نظر پر استوار اور عقائد اور ما بعد الطبیعیاتی افکار کے رخ روشن کو آشکارا کردیا ‘ بلکہ اس نے ایمان اور عمل صالح کو دین کی بنیاد بنا کر اخلاق ‘ معاشرت ‘ معاش ‘ غرض مذہب اور اجتماعی سیاست سب ہی کو اصلاح و انقلاب کے سانچے میں ڈھال کر دنیا کی صحیح رہنمائی کا حق ادا کردیا۔
یہ بحث چونکہ طویل الذیل ہے اور آیت { وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ } [142]
کی تفسیر کے ضمن میں شرح و بسط کی محتاج اس لیے یہ مقام اس کی وسعت کو برداشت نہیں کرسکتا۔

اسراء (معراج)

 
مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی

” اسراء “ کے معنی شب میں لے جانے کے ہیں ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ بےنظیر شرف و مجد اور حیرت زا واقعہ جس میں خدائے برتر نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور وہاں سے ملاء اعلیٰ تک بجسد عنصری اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے سیر کرائی چونکہ شب کے ایک حصہ میں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس لیے اسراء کہلاتا ہے۔ معراج عروج سے مشتق ہے جس کے معنی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں اور اسی لیے معراج زینہ کو بھی کہتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ اس شب میں ملائے اعلیٰ کے منازل ارتقاء طے فرماتے ہوئے سبع سماوات ‘ سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند ہو کر آیات اللہ کا مشاہدہ فرمایا اور ان واقعات کے ذکر میں زبان وحی ترجمان نے عُرِجَ بِیْ کا جملہ استعمال فرمایا اس لیے اس باجبروت اور پر عظمت واقعہ کو معراج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بعض علماء نے اصطلاحی فرق و امتیاز کے لیے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس واقعہ کا وہ حصہ جس کا ذکر بصراحت سورة بنی اسرائیل میں ہے قرآنی تعبیر کے اتباع میں ” اسراء “ ہے اور وہ حصہ جس کا تذکرہ سورة النجم اور صحیح احادیث میں ہے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعبیر ” ثُمَّ عُرِجَ بِیْ “ کی مناسبت سے ” معراج “ کے عنوان سے معنون ہے۔

واقعہ کی وحدت

اس لیے دو مختلف تعبیروں اور واقعات کی تفصیلات میں جزوی اختلاف کے پیش نظر تطبیق روایات کی خاطر اس واقعہ کے تعدد کا قائل ہونا تاریخی اور تحقیقی نقطہ نظر سے ہرگز صحیح نہیں ہے اور مشہور محقق ‘ جلیل القدر محدث ‘ مفسر اور مورخ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) کا یہ ارشاد بلاشبہ درست اور حقیقت حال کے لیے کاشف ہے فرماتے ہیں :
” ان تمام روایتوں کو جمع کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ واقعہ معراج صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا ہے اور راویوں کی عبارات کے بعض حصص کا ایک دوسرے سے کچھ مختلف اور تفصیلات میں کم و بیش ہونا وحدت واقعہ پر اثر انداز نہیں ہے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ دوسرے انسان خطا کاری سے محفوظ نہیں ہیں۔
سو ان روایات کے جزوی اختلافات کو دیکھ کر جن علماء نے تعدد واقعہ کا مسلک اختیار کیا اور ہر ایک مختلف روایت کو جدا جدا واقعہ بنادیا اور اس طرح یہ دعویٰ کردیا کہ معراج کا واقعہ متعدد بار پیش آیا ہے ‘ انھوں نے بعید از قیاس بات کہہ ڈالی اور قطعاً غلط راہ روی اختیار کرلی اور حقیقت حال سے دور پڑ گئے۔ یہ مسلک اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ نہ سلف صالحین سے تعدد واقعہ منقول ہے اور نہ تاریخی دلائل اس کے مؤید ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور بصراحت اس سے مطلع فرماتے اور راویان روایت بلاشبہ اس کو روایت کرتے۔ “ [143]

تحقیق تاریخ و سنہ

یہ عدیم النظیر واقعہ کب پیش آیا ؟ اس کے تعین میں اگرچہ متعدد اقوال مذکور ہیں لیکن ان دو باتوں پر سب کا اتفاق نظر آتا ہے ایک یہ کہ واقعہ معراج قبل از ہجرت پیش آیا ‘اور دوسری بات یہ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی وفات کے بعد وقوع میں آیا اور جبکہ واقعہ ہجرت باتفاق 13 سنہ نبوت کو پیش آیا اور بخاری میں مذکور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی روایت کے مطابق حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہجرت سے تین سال قبل اور ایک دوسری روایت کے پیش نظر نماز پنجگانہ کی فرضیت سے قبل ہوچکا تھا ‘ تو اب واقعہ کو ہجرت سے قبل کے ان تین برسوں کے اندر ہی ہونا چاہیے۔ [144]
نیز کتب تاریخ و سیرت دونوں شاہد ہیں کہ معراج اور ہجرت کے درمیان کوئی اہم واقعہ موجود نہیں ہے اور بنظر تحقیق ان ہر دو کے درمیان نہایت گہرا رشتہ اور ربط و علاقہ پایا جاتا ہے تو بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے بہت قریب زمانہ میں پیش آیا ہے اور درحقیقت یہ واقعہ ہجرت ہی کی پرجلال و پر عظمت تمہید تھی۔ غالباً ابن سعد (رحمہ اللہ علیہ) نے طبقات میں اور امام بخاری (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی الجامع الصحیح میں اس لیے واقعہ معراج اور ہجرت کو کسی تیسرے واقعہ کی مداخلت کے بغیر آگے پیچھے بیان کیا ہے اور جو حضرات صحیح بخاری کے ابواب و تراجم کی باہمی ترتیب کی دقیقہ سنجی سے واقف اور ان کے تفقہ کی بالغ نظری سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا رجحان یہ ہے کہ ان ہر دو واقعات کے درمیان زمانہ اور تعلق دونوں اعتبار سے انتہائی قربت ہے۔
تو اب یہ کہنا آسان ہے کہ جو ارباب سیرو تاریخ یہ فرماتے ہیں کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال یاڈیڑھ سال قبل پیش آیا ان کا ارشاد پایہ تحقیق رکھتا ہے۔
پھر مہینہ اور تاریخ کے تعین میں بھی متعدد اقوال موجود ہیں مگر راجح قول یہ ہے کہ مہینہ رجب کا تھا اور تاریخ ٢٧ تھی چنانچہ ابن عبد البر ‘ امام نووی اور عبد الغنی مقدسی جیسے مشہور اور جلیل القدر محدثین کا رجحان اسی جانب ہے کہ رجب تھا اور آخر الذکر فرماتے ہیں کہ 27 تاریخ تھی اور دعویٰ کرتے ہیں کہ امت مرحومہ میں ہمیشہ سے عملاً اسی پر اتفاق بھی رہا ہے۔

قرآن عزیز اور واقعہ معراج

قرآن عزیز میں اسراء یا معراج کا واقعہ دو سورتوں بنی اسرائیل اور النجم میں مذکور ہے سورة بنی اسرائیل میں مکہ (مسجد حرام) سے بیت المقدس (مسجد اقصیٰ ) تک سیرکاتذکرہ ہے اور سورة النجم میں ملائے اعلیٰ کی سیروعروج کا بھی ذکر موجود ہے اور اگرچہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل کی صرف ابتدائی آیات ہی میں یہ واقعہ مذکور ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ پوری سورت اسی عظیم الشان واقعہ سے متعلق ہے اور سورت کی تمام آیات اسی کا تکملہ ہیں اور اس دعویٰ کے لیے ایک صاف اور واضح دلیل خود اسی سورت میں یہ موجود ہے کہ وسط سورة میں آیت:
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [145]
میں اسی واقعہ معراج کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے قبل حضرت موسیٰ اور حضرت نوح (علیہما السلام) کے واقعات دعوت و تبلیغ اسی سلسلہ میں بطور شواہد و نظائر پیش کئے گئے ہیں کہ منکرین نے ہمیشہ اسی طرح خدا کی صداقتوں کو جھٹلایا ہے جس طرح آج واقعہ معراج کو جھٹلا رہے ہیں۔

احادیث اور واقعہ معراج کا ثبوت

مشہور محدث زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ پینتالیس (45) صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم) عنم و رضوا عنہ سے منقول ہے اور پھر ان کے نام بھی شمار کرائے ہیں۔ [146]
ان صحابہ میں مہاجرین بھی ہیں اور انصار بھی اور یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ چونکہ انصار صحابہ مکہ میں موجود نہیں تھے ‘ اس لیے ان کی روایات صرف شنیدہ ہیں اس لیے کہ ایسے اہم واقعہ کو جس کا اسلام کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق اور ہجرت کے واقعہ کے ساتھ خصوصی ربط ہے صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ نے براہ راست نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی دریافت حال کیا ہوگا اور اگر مہاجرین سے بھی سنا ہوگا تو پھر ذات اقدس سے تصدیق ضرور کی ہوگی چنانچہ شداد بن اوس (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں :
( (قُلْنَا یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ اُسْرِیَ بِکَ )) [147]
” ہم نے (صحابہ نے) عرض کیا اے خدا کے رسول ! آپ کو معراج کس طرح ہوئی ؟ “
لفظ قلنا یہ ثابت کر رہا ہے کہ بلاشبہ معراج سے متعلق صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے عام مجمع میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا جاتا تھا جن میں مہاجرین و انصار سب ہی شریک ہوتے تھے اور مالک بن صعصعہ (رضی اللہ عنہ) جو انصاری صحابی ہیں ان کی روایت معراج میں ہے :
( (اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَھُمْ )) [148]
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے (صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم) عنم و رضوا عنہ سے) یہ واقعہ بیان فرمایا۔ “

واقعہ کی نوعیت

چونکہ یہ واقعہ اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ طویل بھی تھا اس لیے بر بنائے بشریت واقعہ کے اصل تفصیلی حالات میں اتحاد و اتفاق اور بحد تواتر روایات منقول ہونے کے باوجود متعدد روایات کی فروعی تفصیلات میں جو اختلاف نظر آتا ہے وہ معمولی توجہ سے رفع کیا جاسکتا ہے اور بلاشبہ ان جزوی اختلافات سے اصل واقعہ کی حقیقت پر مطلق کوئی اثر نہیں پڑتا خصوصاً جبکہ قرآن عزیز نے ان عجیب اور حیرت زا واقعات کو نص قطعی سے واضح کردیا ہے جن کے متعلق ملحدین اپنے الحاد وزندقہ کے ذریعہ باطل تاویلات پیش کرکے اس واقعہ کی معجزانہ حیثیت کا انکار کرتے ہیں۔

واقعہ معراج و اسراء اور قرآن عزیز

سورة بنی اسرائیل میں واقعہ اسراء بیت المقدس تک کی سیر سے وابستہ ہے :
{ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } [149]
” پاکی ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندے کو (یعنی پیغمبر اسلام کو) راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کہ اس کے اطراف کو ہم نے بڑی ہی برکت دی ہے سیر کرائی اور اس لیے سیر کرائی کہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں بلاشبہ وہی ذات ہے جو سننے والی دیکھنے والی ہے۔ “
{ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْ یَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [150]
” ور وہ دکھلاوا جو تجھ کو ہم نے دکھایا سو لوگوں کی آزمائش کے لیے (دکھلایا) ۔ “
اور سورة النجم میں ملائے اعلیٰ تک عروج کا ذکر بھی موجود ہے :
{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ۔ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی ۔ ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی ۔ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی ۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی ۔ فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی ۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی ۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ۔ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی ۔ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی ۔ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ۔ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی ۔ } [151]
” شاہد ہے ستارہ جبکہ غروب ہو ‘ تمہارا رفیق گمراہ ہوا اور نہ بھٹکا اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے ‘ یہ نہیں ہے مگر حکم جو اس کو بھیجا گیا ہے اس کو بتلایا ہے سخت قوتوں والے زور آور (فرشتہ) نے (کہ یہ خدا کی وحی ہے) جو سیدھا بیٹھا اور تھا وہ آسمان کے اونچے کنارہ پر پھر وہ قریب ہوا پس جھک آیا پھر رہ گیا (دونوں کے درمیان) دو کمان بلکہ اس سے بھی نزدیک کا فرق پس خدا نے اپنے بندہ (محمد) پر وحی نازل فرمائی جو بھی وحی بھیجی اس (بندہ) نے جو دیکھا (اس کے) دل نے جھوٹ نہیں کہا (یعنی آنکھ کی دیکھی بات کو جھٹلایا نہیں بلکہ تصدیق کی) تو کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے خود دیکھا ہے (یعنی واقعہ پر جھگڑتے ہو) اور اس (بندہ) نے خدا کو دیکھا ایک (خاص) نزول کے ساتھ جبکہ وہ (بندہ) سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک موجود تھا جس کے پاس آرام سے رہنے کی بہشت (جنت الماویٰ ) ہے اس وقت سدرہ (بیری کا درخت) پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا اس رویت کے وقت نہ نگاہ بہکی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی بلاشبہ اس (بندہ) نے (اس حالت میں) اپنے پروردگار کے بڑے بڑے نشان دیکھے۔ “

سورة بنی اسرائیل اور واقعہ معراج

یہاں سورة بنی اسرائیل اور سورة النجم کی تفسیر کا موقع نہیں صرف اشارات ہی پر اکتفا مناسب معلوم ہوتا ہے ‘ کیونکہ اگر ایک جانب یہ آیات اپنے مکمل تفسیری حق کا مطالبہ کرتی ہیں تو دوسری جانب کتاب اپنے سیاق وسباق کے پیش نظر اختصار کی طالب ہے بہرحال حسب ضرورت دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس قدر گزارش ہے کہ سورة بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت میں واقعہ اسراء کے متعلق جو کچھ کہا گیا اس کی اگر تحلیل کی جائے تو بآسانی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس کا فیصلہ یہی ہے کہ واقعہ اسراء بحالت بیداری بجسد عنصری پیش آیا ہے اور اس مطلب سے ہٹ کر جب اس کو روحانی یا منامی رؤیا کہا جاتا ہے تو تاویلات باردہ کے بغیر دعویٰ پر دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔
بنی اسرائیل میں اس واقعہ کی ابتداء خدائے برتر کی قدوسیت اور سبحانیت کے بعد لفظ اسریٰ سے ہوئی ہے یہ لفظ ” س ‘ ر ‘ ی۔ سریٰ یسریٰ “ سے ماخوذ ہے لغت میں جس کے معنی رات میں چلنے کے آتے ہیں۔
( (سری ‘ یسری ‘ سری و سریۃً سارلیـلًا)) (لغت المنجد) ” سریٰ ‘ یسری ‘ سریۃً میں سریٰ کے معنی ہیں ” وہ رات میں چلا “
اور اسریٰ کے معنی بھی ” شب میں لے چلا “ آتے ہیں چنانچہ کتب لغت میں ہے :
( (اسریٰ ‘ اسراء ‘ سار لیـلًا)) (لغت المنجد) اسریٰ کے معنی ہیں ” رات میں چلا “
یہی معنی اقرب الموارد ‘ قاموس ‘ لسان العرب اور تمام کتب لغت میں بصراحت مذکور ہیں اور اسی لفظ اسریٰ کو جب متعدی بنانا چاہتے ہیں یعنی ” راتوں رات لے جانا “ ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ” ب تعدیہ “ بڑھا دیتے ہیں۔ اس موقع کے علاوہ قرآن عزیز میں جہاں جہاں اسراء اور اس کے مشتقات آئے ہیں ان تمام مقامات میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے چنانچہ سورة ہود میں لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہے :
{ قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ } [152]
” فرشتوں نے کہا : اے لوط ! ہم تو تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں۔ یہ تجھ تک ہرگز نہیں پہنچ پائیں گے پس تو اپنے لوگوں کو کچھ رات گئے (یہاں سے) لے نکل۔ “
یہ آیت { فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلٍ } [153] سورة دخان میں بھی موجود ہے اور سورة طٰہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہے :
{ وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ } [154]
” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔ “
اور سورة شعراء میں ہے :
{ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبٰدِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ } [155]
” اور ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جا۔ تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گیا۔ “
اور یہی آیت سورة دخان میں بھی مذکور ہے۔ ان تمام آیات میں لفظ اسراء کا جس طرح اطلاق کیا گیا ہے اس سے دو حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ اسراء اس سیر اور اس چلنے کو کہتے ہیں جو رات میں پیش آئے اس لیے دن یا شام کے چلنے پر اسراء کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ سَرَیْ یا اسراء ان تمام آیات میں روح مع جسد پر اطلاق ہوا ہے یعنی لوط اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے متبعین جن کے لیے یہ حکم ہو رہا ہے کہ وہ دشمنوں سے بچ کر راتوں رات ان بستیوں (مصر اور سدوم) سے نکل جائیں ‘ ان کا رات کے حصہ میں نکل جانا نہ خواب کی شکل میں تھا اور نہ روحانی طور پر اور نہ رؤیائے کشفی کے طریقہ پر بلکہ عالم بیداری میں روح مع جسد کے تھا۔
پس جبکہ قرآن کے ان تمام اطلاقات میں اسراء کے یہ معنی بغیر کسی تاویل کے قابل تسلیم ہیں تو بنی اسرائیل کی آیت سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی میں اسراء کو روح مع جسد تسلیم کرنے میں کیوں پس و پیش ہو اور کس لیے اس واقعہ کو فقط روحانی ‘ منامی ‘ یابین النوم والیقظہ کشفی طریقہ کے ساتھ مخصوص کیا جائے ؟ جبکہ اس آیت اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً میں ایک لفظ بھی ایسا موجود نہیں ہے جو اس اسراء کو قرآن کے عام اطلاقات سے جدا معنی پر دلالت یا اشارہ کرتا ہو۔ رہا یہ مسئلہ کہ بنی اسرائیل کی آیت { وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [156]
کے لفظ رؤیا سے فائدہ اٹھا کر یہ کہنا کہ چونکہ رؤیا عالم خواب پر بولا جاتا ہے ‘ اس لیے اسراء کا واقعہ منامی یا روحانی تھا بدیں وجہ صحیح نہیں ہے کہ عربی بول چال میں جس طرح ” رؤیا “ کا اطلاق خواب کی حالت پر ہوتا ہے اسی طرح وہ اس رویت پر بھی بولا جاتا ہے جس کا مشاہدہ آنکھ بحالت بیداری کرتی ہے چنانچہ عربی کے نہایت مستند اور مشہور لغت لسان العرب میں یہ تصریح موجود ہے :
( (وَقَدْ جَائَ رُؤْیَا فِیْ الْیَقْظَۃِ ))
” اور بلاشبہ رؤیا بیداری میں عینی مشاہدہ کے لیے بھی آتا ہے۔ “
اور صاحب لسان نے جاہلی شاعر راعی کے اس شعر کو اس معنی کے لیے سند ٹھہرایا ہے :
فَکَبَّرَ لِرُؤْیَا وَ ھَشَّ فُؤَادُہٗ
وَ بَشَّرَ نَفْسًا کَانَ نَفْسًا یَلُوْمُھَا
” اس نے تکبیر کہی اور اس کا دل مسرت سے لبریز ہوگیا اور اس نے اپنے نفس کو پہلے ملامت کر رکھا تھا خوش خبری دی اس منظر کو دیکھ کر جس کا اس نے عینی مشاہدہ کیا۔ “
اسی طرح متنبی کے اس مصرعہ کو بھی سند قرار دیا ہے :
وَ رُؤْیَاکَ اَحْلٰی فِیْ الْعُیُوْنِ مِنَ الْغَمَصِ ” اور تیرا دیدار (میری) آنکھوں میں نیند سے بھی زیادہ لذیذ ہے۔ “
ان مستند اقوال عرب کے بعد رؤیا کو صرف خواب کی حالت کے ساتھ مخصوص کردینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ اب جبکہ ” اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ “ میں ” اسرا “ کے متبادر معنی سیر روح مع جسد کے ہیں اور ” رؤیا “ کا اطلاق دونوں قسم کی رؤیت پر ہوتا رہا ہے تو اس مقام پر ” اسرا “ کا قرینہ اس کا متقاضی ہے کہ یہاں ” بحالت بیداری عینی مشاہدہ “ کے معنی ہی متعین ہونے چاہئیں اور دوسرے معنی قیاسی اور تاویلی حیثیت سے زیادہ وقیع نہیں ہیں۔ بعض معاصر علماء نے ” اسرا “ کو روحانی قرار دیتے ہوئے لسان العرب کی پیش کردہ سندات کو اول تو مستند ہی تسلیم نہیں کیا اور بفرض تسلیم کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان ہر دوشاعروں راعی اور متنبی کے شعر و مصرعہ سے رویا کے معنی خواب میں رویت ہی کے نکلتے ہیں نہ کہ رویائے بصری کے مگر تعجب یہ ہے کہ دونوں باتیں محض دعویٰ پر ہی ختم ہوگئی ہیں اور دعویٰ کے لیے زحمت دلیل کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ تسلیم کرلیجئے کہ لغت عرب کے لیے متنبی مستند نہیں ہے مگر مشہور جاہلی شاعر کس لیے غیر مستند قرار پایا جبکہ کلام عرب کی سند کے لیے جاہلی شعراء سے زیادہ کوئی سند مقبول نہیں سمجھی گئی۔ نیز راعی نے جبکہ جملہ فَکَبَّرَ کو لِلرُّؤْیَا کے ساتھ وابستہ کیا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ رویا کی وجہ سے اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ظاہر ہے کہ نعرہ تکبیر خواب میں بلند نہیں ہوا تھا بلکہ عالم بیداری کا واقعہ تھا اسی طرح متنبی کے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ شب وصل میں تیرے دیدار کے مقابلہ میں نیند ہیچ ہے اگرچہ یہ صحیح ہے کہ نیند خود بہت شیریں ہے مگر دیدار محبوب کے مقابلہ میں اس کی شیرینی بھی بےحقیقت ہے۔
اس لغوی حقیقت کے آشکارا ہوجانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد جو صحیح بخاری میں مذکور ہے ” رَؤْیَا عَیْنٍ اُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ سونے پر سہاگہ ہے کیونکہ وہ لغت عرب کے امام بھی ہیں اور ترجمان القرآن بھی اور ان کے مقابلہ میں حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد پیش کرنا قطعاً مرجوح ہے کہ وہ اسراء کو رویا بمعنی خواب مراد لیتے ہیں۔
مرجوح اس لیے ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہم) سے جو روایات اس سلسلہ میں منقول ہیں وہ بلحاظ صحت روایت وہ درجہ نہیں رکھتیں جو حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت کو حاصل ہے بلکہ محدثین کے نزدیک بہ چند وجوہ ان کی صحت غیر مستند ہے مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت کتب حدیث کے بجائے فقط سیرت کی روایت ہے اور پھر محمد بن اسحاق اس کے متعلق یہ کہتے ہیں حَدَّثَنِیْ بَعْضُ اٰلُ اَبِیْ بَکَر ” مجھ سے یہ روایت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے خاندان کے ایک فرد نے بیان کی ہے “ اس کا حاصل یہ ہوا کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ درمیان کا ایک راوی مجہول ہے جس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ کس درجہ کا راوی ہے نیز اس روایت کے طریق میں بھی باہم اختلاف ہے اس لیے کہ بعض روایات میں ہے مَا فَقَدْتُ جَسَدَ رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسد اطہر گم نہیں پایا “ حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) حریم نبوی میں ہجرت کے بعد داخل ہوئی ہیں اور واقعہ معراج ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے تو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) کا مَافَقَدْتُ ” میں نے گم نہیں پایا “ فرمانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟
اس لیے بلاشبہ اس روایت میں جرح و نقص ہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی روایت بھی سیرت میں منقول روایت ہے جس کو محمد بن اسحاق نے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس سے روایت کیا ہے اور محدثین اس پر متفق ہیں کہ یعقوب نے حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا زمانہ نہیں پایا اس لیے یعقوب اور حضرت معاویہ کے درمیان ضرور کوئی راوی متروک ہے جس کا روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے پس یہ روایت بھی مجروح و منقطع ہے اور بروایت ابن اسحاق حضرت معاویہ کا یہ قول : قَالَ کَانَتْ رُؤْیَا مِنَ اللّٰہِ صَادِقَۃً ” حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا : معراج اللہ تعالیٰ کی جانب سے سچا خواب تھا “ کسی طرح بھی صحت کو نہیں پہنچتا۔
اب ایک مرتبہ پھر احادیث معراج پر نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ ایک جانب بخاری ومسلم اور صحاح کی وہ روایات ہیں جو متن و سند کے لحاظ سے مسلم اور صحت کے اعلیٰ معیار پر قائم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تفصیلات واقعہ معراج کو بجسد عنصری ظاہر کرتی ہیں اور اسی لیے جمہور صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ اسی مسلک کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور دوسری جانب محمد بن اسحاق کی سیرت میں منقول اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی جانب منسوب وہ روایات ہیں جن کی صحت تک مجروح ہے اس لیے بات صرف یہی نہیں ہے کہ جو شخص سورة بنی اسرائیل کی آیت میں رویا بمعنی خواب لیتا ہے اس کا قول درست نہیں ہے بلکہ بلحاظ سند یہ انتساب بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) رویائے منامی کے قائل ہیں کیونکہ جن جلیل القدر محدثین و مفسرین نے اس قول کو ان بزرگوں کی جانب منسوب کیا ہے اس کا مدار محمد بن اسحاق کی ہی یہ ہر دو روایات ہیں اور ان دونوں کی صحت کا حال ابھی روشن ہوچکا۔
ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض روایات میں واقعہ کی ابتداء اس طرح مذکور ہے ” بَیْنَا اَنَا نَائِمٌ“ یا ” بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ “ یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحالت خواب تھے یا بیداری اور خواب کی درمیانی حالت میں تھے کہ خدا کا قاصد جبرائیل (علیہ السلام) آیا نیز بخاری کی شریک والی روایت کے ختم پر ہے اِسْتَیْقَظَ وَھُوَ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” اور آپ جاگ اٹھے جبکہ آپ مسجد حرام میں تھے “ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ گزرا خواب میں گزرا۔ مگر یہ اس لیے صحیح نہیں کہ پہلے دو جملوں کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہے کہ جب معراج یا اسراء کا واقعہ پیش آنے والا تھا تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو رہے تھے لیکن واقعہ بحالت بیداری پیش آیا جیسا کہ باقی تمام روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور بقول قرطبی (رحمہ اللہ علیہ) دوسرے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ راوی اس بیداری کا ذکر کر رہا ہے جو علی الصباح نماز فجر کے لیے ہوئی یعنی اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدائے شب میں ام ہانی (رضی اللہ عنہا) کے مکان میں سوئے تھے مگر کچھ حصہ شب میں جب معراج کا واقعہ پیش آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے فارغ ہو کر کرہ ارضی پر واپس تشریف لائے تو باقی رات مسجد حرام میں سو کر گزاری اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو بیدار ہوئے ہیں تو لوگوں نے مسجد حرام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا۔
علاوہ ازیں شریک کی روایت میں تعبیر ادا کی فاش غلطیاں ہوگئی ہیں جن پر محدثین نے تنبیہ فرمائی ہے مثلاً ان کی روایت کہتی ہے کہ معراج کا واقعہ بعثت سے بھی قبل پیش آیا اَنَّہٗ جَائَہٗ ثُلٰثَۃُ نَفَرٍ قَبْلَ اَنْ یُّوْحٰی اِلَیْہِ وَھُوَ نَائِمٌ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تین فرشتے بعثت اور نزول وحی سے قبل اس حالت میں آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں سو رہے تھے “ چنانچہ امام نووی ‘ خطابی ‘ ابن حزم ‘ عبد الحق ‘ قاضی عیاض نے شریک کی روایت پر سخت تعاقب کیا ہے امام نووی (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :
” شریک نے اس روایت میں بہت سی غلطیاں کی ہیں جن کا علماء نے انکار کیا ہے اور مسلم نے بھی یہ الفاظ کہہ کر شریک کے اوہام پر تنبیہ کی ہے ” شریک نے روایت میں مقدم و موخر کردیا ہے اور کم و بیش کردیا ہے اوہام میں سے ایک وہم یہ ہے کہ شریک کی روایت میں ہے : معراج کا واقعہ نزول وحی سے قبل پیش آیا ہے “ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے اور اس قول کا کوئی راوی بھی موافق نہیں ہے۔ حافظ عبد الحق (رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی کتاب الجمع بین الصحیحین میں اس شریک والی روایت کو نقل کرکے کہا ہے کہ شریک نے اس میں بہت سی غیر معروف (ناقابل قبول) باتیں بڑھا دی ہیں اور غیر معروف الفاظ کا بھی اضافہ کردیا ہے کیونکہ اسراء کی حدیث کو حفاظ حدیث کی ایسی جماعت نے نقل کیا ہے جو بلند پایہ اور ہر قسم کی جرح سے محفوظ اور مشہور ائمہ حدیث ہیں مثلاً ابن شہاب زہری ‘ ثابت بنانی ‘ قتادہ عن انس اور ان میں سے کوئی ایک حافظ حدیث بھی ان اجزاء کو بیان نہیں کرتا جن کو شریک نے بیان کیا ہے اور شریک محدثین کے نزدیک حافظ حدیث نہیں ہے۔ “
بہرحال فتح الباری میں معراج اور اسریٰ کے متعلق اتحاد وتغائر کی بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ علیہ) یہی فیصلہ فرماتے ہیں کہ معراج بحالت بیداری اور روح مع الجسد ہوئی ہے :
( (فَمِنْھُمْ مَنْ ذَھَبَ اِلٰی اَنَّ الْاِسْرَائَ وَالْمِعْرَاجَ وَقَعَا فِیْ لَیْلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ فِی الْیَقْظَۃِ بِجَسَدِ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ رُوْحِہِ بَعْدَ الْمَبْعَثِ وَاِلٰی ھَذَا ذَھَبَ الْجُمْھُوْرُ مِنْ عُلَمَائِ الْمُحَدِّثِیْنِ وَالْفُقَھَائِ الْمُتَکَلِّّمِیْنَ وَتَوَارَدَتْ عَلَیْہِ ظَوَاھِرُ اَخْبَارِ الصَّحِیْحَۃِ وَلَا یَنْبَغِی الْعُدُوْلُ عَنْ ذٰلِکَ اِذْ لَیْسَ فِی الْعَقْلِ مَایُحِیْلُہٗ حَتّٰی یُحْتَاجَ اِلٰی تَاْوِیْلِہِ )) [157]
” پس ان علماء میں سے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ بلاشبہ واقعات اسراء و معراج دونوں ایک ہی رات میں بحالت بیداری جسم اور روح کے ساتھ بعثت کے بعد پیش آئے۔ تمام محدثین ‘ فقہاء اور متکلمین کا یہی مذہب ہے اور صحیح احادیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اور اس سے تجاوز کرنا یعنی اس کا انکار کرنا نامناسب ہے اس لیے کہ ایسا ہونا عقل کے نزدیک محال نہیں ہے کہ تاویل کرنے کی احتیاج ہو۔ “
اور قاضی عیاض (رحمہ اللہ علیہ) شفاء میں یہی تحریر فرماتے ہیں :
( (وذھب معظم السلف والمسلمین الی ان الاسراء بالجسد فی الیقظۃ وھو الحق وھذا قول ابن عباس و جابر وانس وحذیفۃ و عمرو ابوہریرہ ومالک بن صعصعۃ وابی حیۃ البدری وابن مسعود (رضی اللہ عنہ) وضحاک و سعید بن جبیر وقتادۃ و ابن المسیب وابن شھاب و ابن زید والحسن وابراھیم ومسروق و مجاھد وعکرمۃ و ابن جریج وھو دلیل قول عائشۃ (رضی اللہ عنہا) وھو قول الطبرانی وابن حنبل وجماعۃ عظیمۃ من المسلمین وھو قول اکثر المتأخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین والمفسرین ))
” جلیل القدر سلف صالحین اور بزرگ ترین مسلمان اس جانب ہیں کہ اسراء بجسد عنصری بیداری میں پیش آیا اور یہی مذہب حق ہے اور یہی ابن عباس ‘ جابر ‘ انس ‘ حذیفہ ‘ عمر ‘ ابوہریرہ ‘ مالک بن صعصعہ ‘ ابوحیہ بدری ‘ ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) اور ضحاک ‘ سعید ابن جبیر ‘ قتادہ ‘ ابن مسیب ‘ ابن شہاب ‘ ابن زید ‘ حسن ‘ ابراہیم نخعی ‘ مسروق ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ ابن جریج کا قول ہے اور یہی دلیل ہے حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے قول کی اور یہی طبرانی کا قول ہے اور ابن حنبل (رحمہ اللہ علیہ) کا اور مسلمانوں کی جماعت عظیم کا اور یہی قول ہے متاخرین میں سے اکثر فقہاء ‘ محدثین ‘ متکلمین اور مفسرین کا۔ “
اور خفاجی ” نسیم الریاض “ میں قاضی عیاض کی اس عبارت وَھُوَ دَلِیْلُ قَوْلِ عَائِشَۃَ کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات بظاہر خلاف معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب جو قول منسوب ہے وہ اس کے قطعاً خلاف ہے لیکن قاضی عیاض (رحمہ اللہ علیہ) کا یہ دعویٰ ہے کہ جلیل القدر صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ کی یہ نقول اس امر کی دلیل ہیں کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب منسوب قول صحیح نہیں ہے اور وہ بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔
الحاصل قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ بغیر کسی تاویل کے بصراحت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ بجسد عنصری اور بحالت بیداری پیش آیا ہے اور ان دلائل کو بطور فہرست اس طرح شمار کرایا جاسکتا ہے :
سورة بنی اسرائیل کی آیت اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ میں اسراء کے متبادر معنی وہی ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت لوط (علیہما السلام) سے متعلق آیات میں ہیں یعنی بحالت بیداری اور بجسد عنصری رات میں لے چلنا۔
1 آیت { وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنٰکَ } [158] میں ” رؤیا “ بمعنی عینی مشاہدہ ہے نہ کہ خواب یا روحانی رؤیت اور لغت عرب میں رؤیا کے یہ معنی مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔
2 آیت { اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } میں قرآن نے اس واقعہ کو اقرار و انکار کی شکل میں ایمان و کفر کے لیے معیار قرار دیا ہے اور اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) کے روحانی مشاہدہ یا خواب پر بھی مشرکین و منکرین کا انکار و جحود ممکن اور ثابت ہے لیکن اس جگہ تبادر یہی ظاہر کرتا ہے کہ واقعہ کی عظمت و فخامت کے پیش نظر منکرین کا انکار اس لیے شدید سے شدید تر ہوا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کو عینی مشاہدہ کی طرح بیان فرمایا ہے۔
3 سورة النجم کی آیت { مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی } [159] میں رؤیت جبرائیل (علیہ السلام) نہیں بلکہ واقعہ اسراء کا مشاہدہ عینی مراد ہے اور سورة نجم کی آیت { مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی } [160] میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا قلب نے ہو بہو اس کی تصدیق کی اور واقعہ سے متعلق نہ رویت عینی نے کجی اختیار کی اور نہ رویت قلبی نے اس حقیقت کا انکار کیا بلکہ دونوں کی مطابقت نے اس کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
4 صحیح حدیث میں ہے کہ جب مشرکین نے اس واقعہ کے انکار پر یہ حجت قائم کی کہ اگر یہ صحیح ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس کی موجودہ جزئی تفصیلات بتائیں کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ نہ انھوں نے بیت المقدس کو کبھی دیکھا ہے اور نہ بغیر دیکھے جزئی تفصیلات بتائی جاسکتی ہیں تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے بیت المقدس کے درمیانی حجابات منجانب اللہ اٹھا دیئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے مشرکین کے سوالات کے صحیح جوابات مرحمت فرمائے جن میں مسجد کی بعض تعمیری تفصیلات تک زیر بحث آئیں۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مشرکین یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسراء کا بحالت بیداری اور بجسد عنصری ہونا بیان فرما رہے ہیں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خیال کی تردید نہیں فرمائی بلکہ اس کی تائید کے لیے معجزانہ تصدیق کا مظاہرہ فرما کر ان کو لاجواب بنادیا۔
5 ترجمان القرآن نحضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے بسند صحیح منقول ہے کہ قرآن میں مذکور رؤیا سے مراد رؤیائے عین ہے نہ کہ خواب یا روحانی مشاہدہ
6 { وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْ انِ } [161] میں یہ مذکور ہے کہ واقعہ اسراء اور جہنم کے اندر سینڈھ کے درخت کا موجود ہونا اور آگ میں نہ جلنا یہ دونوں واقعے اقرار و انکار کی صورت میں ایمان و کفر کے لیے آزمائش ہیں پس جبکہ جہنمیوں کی غذا کے لیے ایک مادی خار دار درخت کا موجود ہونا ‘ سرسبز و شاداب رہنا اور آگ سے نہ جلنا مشرکین کے انکار کا باعث ہوا ‘ بلاشبہ اسراء کے واقعہ میں بھی آزمائش کا پہلو یہی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس طرح زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر بجسد عنصری و بحالت بیداری وہ سیر کرلی جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل اور سورة النجم میں اور صحیح احادیث میں ہے اور یقیناً مشرکین نے اس کا انکار کیا جس کے رد میں قرآن نے اس کو اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ کہہ کر اس قدر اہمیت دی ورنہ تو انبیاء (علیہم السلام) کے روحانی مشاہدات اور خواب کے واقعات کا انکار تو ان کے لیے ایک عام بات تھی۔ اسراء کا واقعہ جب پیش آیا تو صبح کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن صحابہ (رضوان اللہ علیہم) و رضوا عنہ کی محفل میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا وہ سب باتفاق یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ بجسد عنصری بحالت بیداری پیش آیا مثلاً عمر ‘ حضرت انس ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) وغیرہ اور اس کے برعکس ذیل کے قائلین میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے اسمائے گرامی ہیں جن کا اسلام یا حرم نبوی سے تعلق اس واقعہ سے برسوں بعد مدینہ کی زندگی پاک سے وابستہ ہے اس لیے واقعہ کے ایام میں موجود اصحاب کا قول راجح ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کا جو مسلک جمہور کے خلاف منقول ہے وہ بلحاظ درجہ روایت و صحت سند نہ صرف مرجوح ہے بلکہ مجروح ہے ‘ اس لیے کہ اول تو ان بزرگوں کی جانب اس قول کا انتساب ہی درست نہیں اور بالفرض صحیح بھی ہو تو جمہور کے مسلک کے مقابلہ میں ہر حیثیت سے مرجوح ہے۔ وَذٰلِکَ تِسْعُ ایَاتٍ بَیِّنَاتٍ ۔

سورة النجم اور واقعہ معراج

واقعہ معراج کی تفصیلات اگرچہ مستند ‘ مشہور اور مقبول روایات و احادیث سے ثابت و منصوص ہیں لیکن خود قرآن عزیز (والنجم) میں بھی بنص صریح بعض وہ تفصیلات مذکور ہیں جن کو بنی اسرائیل کے اجمال کی تفسیر کہنا چاہیے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند آیات کی تفسیر بھی بیان کردی جائے :
{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۔ } [162]
” نجم “ ستارہ کو کہتے ہیں اور النجم کہہ کر کبھی خاص ستارہ ثریا پر بھی اطلاق کرتے ہیں اور ہویٰ کے معنی سقوط و غروب کے ہیں اور ” والنجم “ میں واؤ قسم کے لیے ہے جس سے استعمالات قرآنی میں اکثر مضمون مابعد کی اہمیت کے پیش نظر استشہاد مقصود ہوتا ہے ” ضل “ ضلالت سے ہے گمراہ ہونے اور بہک جانے کو کہتے ہیں اور ” غوی “ غوایت سے جس کے معنی بےراہ روی اور بچل جانے کے ہیں۔
پس ہر دو آیات کا مطلب یہ ہوا کہ شب دیجور کے یہ ستارے یا ثریا اس امر کی شہادت ہیں کہ جس طرح نظام شمسی میں ثریا بلکہ تمام ستارے طلوع سے غروب تک ایسے محکم اور مضبوط نظام فطرت میں منسلک ہیں کہ مقررہ وقت و معین رفتار کے ساتھ بغیر بھٹکے بچلے ہوئے جاری وساری ہیں ‘ ٹھیک اسی طرح روحانی نظام شمسی کے تمام ستارے (انبیاء (علیہم السلام)) بھی نبوت و رسالت کے مقررہ اصول و معین راہ پر جاری وساری رہے ہیں اور کبھی خدا کے معین کردہ نظام نبوت سے نہ بھٹکے اور نہ بےراہ ہوئے تو پھر یقین کرو کہ اس نظام روحانیت (نبوت) کا آفتاب عالم تاب یعنی تمہارا رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہ بھٹکا اور نہ بےراہ ہوا ‘ اور ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ ایسا ہونے پر سارا نظام نبوت ہی درہم برہم ہو کر رہ جاتا اور انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا یا یوں کہہ لیجئے کہ تمہارے سامنے جس شب کا ذکر ہو رہا ہے اس شب دیجور میں ثریا جیسے روشن ستارہ کا طلوع ہو کر غروب ہوجانا اس پورے نظام شمسی کے تغیر و فنا کی منہ بولتی تصویر ہے پس اگر تمہارا رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی ایسے واقعہ کا اظہار کرتا ہے جو عام قانون قدرت کے پیش نظر عجیب و غریب معلوم ہوتا اور اس نظام شمسی کے ایک خاص دور انقلاب اور حیرت زا تغیر کا پتہ دیتا ہے تو تم کو یقین کرنا چاہیے کہ یہ واقعہ بلاشبہ عالم وجود میں آیا اور تمہارا رفیق اس معاملہ میں نہ بھٹکا اور نہ بےراہ ہوا بلکہ جو کچھ دیکھا اور جو کچھ نقل کیا وہ سب حرف بحرف حق ‘ مبنی برحقیقت ہے۔
{ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی } [163] ” نطق “ گویائی اور ” ہویٰ “ خواہش نفس۔ { اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی } [164]
” وحی “ وہ یقینی الہام جو خدا کی جانب سے نبی پر نازل ہوتا ہے اور جس کے خدا کی جانب سے ہونے میں کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہوتا یعنی رسالت اور یہ بھی واضح رہے کہ تمہارے رفیق کی صدق مقالی کا یہ عالم ہے کہ وہ خدا کی باتیں کبھی بھی اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا بلکہ جو کچھ بھی کہتا ہے وہ خدا کی ہی وحی سے ہوتا ہے۔
{ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی ۔ ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی ۔ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی ۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی ۔ } [165]
” علمہ “ تعلیم ‘ سکھلانا ‘ ” شدید القویٰ “ زبردست روحانی طاقتوں والا ‘ ” مرۃ “ زور آور ‘ ” فاستویٰ “ استواء ‘ سیدھا ہو بیٹھا ‘ ” بالافق الاعلٰی “ (آسمان کا) اونچا کنارہ ‘ ” دنیٰ “ دنو ‘ قریب ہونا ‘ ” فتدلٰی “ تدلی ‘ جھک آنا ‘ ” قاب قوسین “ دو کمان کی مقدار ” ادنیٰ “ قریب یا کم۔
صاحب وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وحی نازل کرنے والے (خدا) کے باہم رشتہ وحی کا اظہار کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ ان دونوں کے درمیان جو وحی کے لیے رابطہ ہے یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کچھ اس کے متعلق بھی کہا جائے کیونکہ مشرکین مکہ اس کی شخصیت اور اس کے فرض کی تفصیلات سے قطعاً ناآشنا تھے اور یوں بھی وحی کی عظمت ‘ صاحب وحی کی جلالت اور وحی نازل کرنے والی ہستی کے جلال و جبروت کا تقاضا تھا کہ رابطہ وحی کی شخصیت کے بعض نمایاں اوصاف کو بھی بیان کیا جائے اس لیے ارشاد ہوا کہ اس پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) جو وحی لاتا ہے وہ زبردست روحانی و جسمانی طاقتوں کا پیکر ہے وہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی حقیقی ہیئت و صورت میں صاف نمایاں نظر آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو آسمان کے بلند کنارے پر دیکھا پھر وہ قریب ہوگیا ‘ پس (پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب) جھک آیا پھر ہوگیا اتنا قریب جیسا کہ دو کمان کی مسافت یا اس سے بھی قریب تر۔
{ فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی ۔ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی۔ } [166]
” فواد “ قلب ‘ ” رای “ رؤیت بصر ‘ ” تمارونہ مماراۃ “ بمعنی مقابلہ کرنا ‘ جھگڑا کرنا۔
جب صاحب وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وحی کے لانے والے (جبرئیل (علیہ السلام)) کے درمیان صورت حال یہ پیش آئی تو اس کے بعد موحی (وحی کرنے والے خدا) نے اپنے بندے پر جو کچھ چاہا وہ براہ راست وحی فرمائی یعنی جب اس مقام رفیع پر بلا کر جہاں کسی مخلوق کا گزر نہ ہوا اور نہ ہو ‘ مخاطب کو کیا بتلایا جائے کہ خدا اور اس کے پیغمبر کے درمیان کیا کچھ وحی کی سرگوشیاں ہوئیں کیونکہ کسی کو وہ رفعت جب نصیب ہی نہیں تو وہ ان حقائق کو سمجھ ہی کیا سکتا ہے لہٰذا اسی قدر کافی ہے کہ یہ یقین کرلو کہ خدا نے جو چاہا اپنے بندہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت کی اور یہ کہ اس کی آنکھ نے اس شب میں جن اسرار الٰہی کو دیکھا قلب نے اس کو جھوٹا نہیں کہا بلکہ وہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کے بارے میں چشم و قلب دونوں کے درمیان مطابقت و تصدیق کا ہی سلسلہ قائم رہا تو پھر اے مخاطبین جو کچھ اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کیا تم اس کے متعلق جھگڑتے ہو ؟
{ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی ۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ۔ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی ۔ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَایَغْشٰی۔ } [167]
” نزلۃ اخریٰ “ ایک قسم کا نزول یا دوسری مرتبہ ‘ ” سدرہ “ بیری کا درخت ‘ ” سدرۃ المنتہیٰ “ ملائے اعلیٰ کا ایک مقام رفیع ‘ ” جنۃ الماویٰ “ نیکوں کے قیام کی جنت ” یغشیٰ “ غشیان ‘ ڈھانپ لینا۔ حالانکہ جھگڑنے کی کوئی بات نہیں اس لیے کہ اس نے وحی کرنے والے (خدا) کو ایک خاص کیفیت نزول کے ساتھ دیکھا ہے اور اس وقت دیکھا جب وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس تھا جس کے قریب جنت الماویٰ ہے اور اس وقت اس سدرہ کو ڈھانپنے والی شے (یعنی فرشتوں) نے ڈھانپ رکھا تھا۔ [168]
یا یہ کہئے کہ اس نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دوسری مرتبہ (اصلی ہیئت میں) دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے قریب پس نہ مشاہدہ جلوہ حق کوئی جھگڑنے کی بات ہے اور نہ رویت جبرائیل (علیہ السلام) کہ جس کو اس سے قبل بھی اس نے دیکھا ہے اور چشم حق بیں اور قلب حق آگاہ کے لیے ان میں سے ایک بات بھی قابل نزاع نہیں۔
{ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ۔ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی ۔ } [169]
” زاغ “ زیغ ‘ کجی ‘ ” طغیٰ “ طغیان ‘ سرکشی ‘ خلاف حق رجحان۔
بہرحال اس کے مشاہدہ حق پر کوئی جھگڑے اور انکار کرے یا تسلیم کرے اور حق جانے ‘ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے لیلۃ الاسراء میں جو کچھ بھی مشاہدات کئے اور آنکھوں سے جو کچھ بھی دیکھا اس چشم حق بیں نے حقیقت حال کے خلاف نہ کسی قسم کی کجی اختیار کی اور نہ وہ راہ سے بےراہ ہوئی اور بلا شائبہ شک و شبہ اس نے اپنے پروردگار کے بڑے بڑے نشان دیکھے۔

واقعہ کی تفصیلات

وہ نشان کیا تھے جن کو اس جگہ { لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی } [170]
کہا اور سورة بنی اسرائیل میں لِنُرْیَہٗ مِنْ ایَاتِنَا فرمایا اور اسی سورت میں دوسرے مقام پر { وَ مَا جَعَلْنَا الرُّئْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ } [171]
کہہ کر ان کی اہمیت کو روشناس کرایا تو بخاری و مسلم میں منقول صحیح ‘ مشہور اور مقبول روایات کا مجموعی بیان یہ ہے :
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صبح کو ارشاد فرمایا : گزشتہ شب میرے خدا نے مجھ کو اپنے خاص مجدو شرف سے نوازا جس کی تفصیل یہ ہے کہ شب گزشتہ جبکہ میں سو رہا تھا رات کے ایک حصہ میں جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھ کو بیدار کیا ابھی پوری طرح جاگ بھی نہ پایا تھا کہ حرم کعبہ میں اٹھا لائے اور تھوڑی دیر لیٹا تھا کہ پوری طرح بیدار کرکے اول میرا سینہ چاک کیا اور (ملائے اعلیٰ کے ساتھ مناسبت تام پیدا کرنے کے لیے عالم دنیا کی کدورتوں کو) دھویا اور ایمان و حکمت سے بھر دیا۔ اس کے بعد حرم کے دروازہ پر لایا گیا اور وہاں جبرائیل (علیہ السلام) نے میری سواری کے لیے خچر سے کچھ چھوٹا جانور براق پیش کیا جو سپید رنگ کا تھا جب میں اس پر سوار ہو کر روانہ ہوا تو اس کی سبک رفتاری کا یہ عالم تھا کہ حد نگاہ اور حد رفتار یکساں نظر آتی تھی کہ اچانک بیت المقدس جا پہنچے ‘ یہاں جبرائیل (علیہ السلام) کے اشارہ پر براق کو مسجد کے دروازہ کے اس حصہ سے باندھ دیا جس سے انبیائے بنی اسرائیل مسجد اقصیٰ کی حاضری پر اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (اور جو اس وقت تک بطور یادگار قائم تھا) پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعات پڑھیں اب یہاں سے ملائے اعلیٰ کی تیاری شروع ہوئی تو اول جبرائیل (علیہ السلام) نے میرے سامنے دو پیالے پیش کئے ان میں سے ایک شراب (خمر) سے لبریز تھا اور دوسرا دودھ (لبن) سے ‘میں نے دودھ کا پیالہ قبول کیا اور شراب کا پیالہ مسترد کردیا ‘ جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر کہا : آپ نے دودھ کا پیالہ قبول کرکے دین فطرت کو اختیار کیا (یعنی خدا کی جانب سے جو میں نے آپ کو یہ دو پیالے پیش کئے تو دراصل یہ تمثیل تھی دین فطرت اور دین زیغ کی مگر آپ نے اس حقیقت کو پہچان لیا اور دودھ کے پیالہ کو قبول فرما کر جو دین فطرت کی تمثیل تھا دین فطرت کو قبول فرما لیا) اس کے بعد ملائے اعلیٰ کا سفر شروع ہوا اور جبرائیل (علیہ السلام) کی ہمرکابی میں براق نے آسمان کی جانب پرواز کی جب ہم پہلے آسمان (سمائے دنیا) تک پہنچ گئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے نگہبان فرشتوں سے دروازہ کھولنے کو کہا نگہبان فرشتہ نے دریافت کیا ‘ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : میں جبرائیل ہوں فرشتہ نے دریافت کیا تمہارے ساتھ کون ہے ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتہ نے کہا : کیا خدا کے مدعو ہو کر آئے ہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا بیشک ‘ فرشتہ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا : ایسی ہستی کا آنا مبارک ہو جب ہم اندر داخل ہوئے تو حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے میری جانب مخاطب ہو کر کہا یہ آپ کے والد (اور نسل انسانی کے مورث اعلیٰ ) آدم (علیہ السلام) ہیں آپ ان کو سلام کیجئے میں نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے جواب سلام دیتے ہوئے فرمایا مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ” خوش آمدید ‘ برگزیدہ بیٹے اور برگزیدہ نبی “ اس کے بعد دوسرے آسمان تک پہنچے اور پہلے آسمان کی طرح سوال و جواب ہو کر دروازہ میں داخل ہوئے تو وہاں یحییٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کا تعارف کرایا اور کہا کہ آپ سلام پر پیش قدمی فرمائیے میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِحِ وَ النَّبِیِّ الصَّالِحِ ” خوش آمدید اے برگزیدہ بھائی اور برگزیدہ نبی “ پھر تیسرے آسمان تک پہنچ کر یہی مرحلہ پیش آیا اور جب میں آسمان ثالث میں داخل ہوا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبرائیل (علیہ السلام) نے تقدیم سلام کے لیے کہا اور میرے سلام کرنے پر یوسف (علیہ السلام) نے بھی جواب سلام کے بعد یہی کلمہ کہا ” خوش آمدید اے برگزیدہ بھائی اور برگزیدہ نبی “ بعد ازاں چوتھے آسمان پر اس سوال و جواب کے ساتھ حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون (علیہ السلام) سے اور چھٹے آسمان پر موسیٰ (علیہ السلام) سے اسی طرح ملاقات ہوئی لیکن جب میں وہاں سے روانہ ہونے لگا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر رقت طاری ہوگئی میں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا :
مجھے یہ رشک ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے ایسی ہستی کو جو میرے بعد مبعوث ہوئی یہ شرف بخش دیا کہ اس کی امت میری امت کے مقابلہ میں چند در چند زیادہ جنت سے فیضیاب ہوگی۔ اس کے بعد سابق سوالات و جوابات کا مرحلہ طے ہو کر جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جو بیت المعمور سے پشت لگائے بیٹھے تھے اور جس میں ہر روز ستر ہزار نئے فرشتے (عبادت کے لئے) داخل ہوتے ہیں انھوں نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ” مبارک اے میرے برگزیدہ بیٹے اور برگزیدہ نبی “ یہاں سے پھر مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا (تمہاری بول چال میں یہ ایک انتہا کی بیری کا درخت ہے) جس کا پھل (بیر) ہجر کی ٹھلیا کے برابر ہے اور جس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح چوڑے ہیں۔1 ؎ اس پر ملائکۃ اللہ جگنو کی طرح بےتعداد چمک رہے تھے اور خدا کی خاص تجلی نے اس کو حیرت زا طور پر روشن و پر کیف بنادیا تھا۔
حاشیہ 1سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق مختلف روایات کا حاصل یہ ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور اس کی شاخیں ساتویں آسمان سے بھی نکل گئی ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے چیزیں زمین پر اترتی اور زمین سے اوپر چڑھ کر وہاں تک پہنچتی ہیں گویا نزول و عروج کا مقام اتصال ہے۔ اس مقام سے آگے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ نہ جبرائیل (علیہ السلام) اور دوسرے ملائکۃ اللہ کا گزر ہوا اور نہ کسی نبی مرسل کا۔ محدثین کہتے ہیں کہ یہ مقام اس درخت کی شکل میں دراصل ” ایمان و حکمت “ کی حقیقت کو مشکل و مصور ظاہر کرتا ہے ‘ اس لیے کہ ایمان نیت صالح اور عمل صالح کا جامع ہے۔ پس یہ درخت پھل کے ذائقہ ‘ اپنی خوشبو اور اپنے سایہ ہر سہ صفات کے لحاظ سے حقیقت ایمان کا مظہر ہے یعنی اس درخت کے پھل کا لذیذ ذائقہ نیت صالح کا عمدہ مظہر ہے اور عمدہ خوشبو قول صالح اور راحت بخش سایہ عمل صالح کا مظہر ہے اور اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان کی تشبیہ شجر کے ساتھ دی ہے۔ ارشاد مبارک ہے : اَلْاِیْمَانُ بِضْعُ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً۔
اسی سفر میں میں نے چار نہروں کا بھی معائنہ کیا ان میں سے دو ظاہر نظر آتی تھیں اور دو باطن میں بہہ رہی تھیں یعنی دو نہریں جن کا نام نیل اور فرات 2 ہے آسمان دنیا پر نظر پڑیں اور دو نہریں جنت کے اوپر موجود پائیں اور ان مشاہدات کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شراب (خمر) دودھ اور شہد کے پیالے پیش کئے گئے اور میں نے دودھ کو قبول کرلیا اس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے بشارت سنائی کہ آپ نے دین فطرت کو قبول کرلیا (یعنی جو ہر قسم کی کدورتوں سے پاک اور شفاف ہے عمل میں شیریں اور خوشگوار اور نتیجہ میں حد درجہ مفید اور احسن ہے) پھر خدائے تعالیٰ کا خطاب ہوا کہ تم پر شبانہ روز پچاس نمازیں فرض قرار دی گئیں جب میں ان اسرار الٰہی کے مشاہدات سے فارغ ہو کر نیچے اترنے لگا تو درمیان میں موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انھوں نے دریافت کیا : معراج کا کیا تحفہ لائے ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں۔ انھوں نے فرمایا تمہاری امت اس بارگراں کو برداشت نہ کرسکے گی اس لیے واپس جایئے اور تخفیف کی التجا کیجئے کیونکہ میں آپ سے قبل اپنی امت کو آزما چکا ہوں چنانچہ میں درگاہ الٰہی میں رجوع ہوا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پانچ کی تخفیف ہوگئی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) تک لوٹ کر آیا تو انھوں نے پھر اصرار کیا کہ اب بھی زیادہ ہیں اور کم کراؤ اور میں اسی طرح چند مرتبہ آتا جاتا رہا حتیٰ کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) مطمئن نہیں ہوئے اور فرمایا میں بنی اسرائیل کا کافی تجربہ اور ان کی اصلاح کرچکا ہوں اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ آپ کی امت یہ بھی برداشت نہ کرسکے گی ‘ اس لیے تخفیف کے لیے مزید عرض کیجئے تب میں نے کہا کہ اب عرض کرتے شرم آتی ہے میں اب راضی برضا اور اس کے فیصلہ کے سامنے سرنیاز جھکاتا ہوں جب میں یہ کہہ کر چلنے لگا تو ندا آئی کہ ہم نے اپنا فرض نافذ کردیا اور اپنے بندوں کے لیے تخفیف کردی یعنی مشیت الٰہی قبل ہی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ امت محمد پر بصورت ادا اگرچہ پانچ نمازیں فرض رہیں گی مگر ان کا اجر وثواب پچاس ہی کے برابر ہوگا اور یہ تخفیف ہمارا فضل و کرم ہے۔
حاشیہ 2یا تو یہ مراد ہے کہ جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت میں دو نہریں دیکھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی وقت جب دنیا کی جانب نگاہ کی تو وہاں سامنے نیل اور فرات بہتے ہوئی نظر آئے اور یا یہ ملائے اعلیٰ کی نہروں کے اسی طرح نام ہیں جس طرح دنیا کے دو دریا نیل اور فرات ہیں۔
ان ہی روایات میں ہے کہ میں نے جنت و جہنم کا بھی مشاہدہ کیا اور پھر مشاہدہ کی تفصیلات بھی منقول ہیں۔

معراج میں رؤیت باری

کیا معراج میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات احدیت کے جمال جہاں آراء کا بےحجاب مشاہدہ کیا ؟ صحیح روایات میں اس مسئلہ کے متعلق جو تعبیرات مذکور ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشاہدہ ضرور کیا تاہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مشاہدہ کی کیفیت کے حقیقی اظہار سے اس لیے قاصر ہیں کہ دنیوی تعبیرات میں کوئی تعبیر ایسی موجود نہیں کہ بلند سے بلند ترین مخلوق اس کے ذریعہ جمال جہاں آراء کی کیفیت و حقیقت کو بیان کرسکے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفس واقعہ کا اقرار فرماتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں منقول ہے:
رَاَیْتُہٗ نُوْرًا ” میں نے اس کو نور دیکھا “اور مشاہدہ کے باوجود جمال جہاں آراء کی ناقابل بیان کیفیت کا پھر ان الفاظ میں اظہار بھی فرماتے جاتے ہیں نُوْرًا اَنِّیْ اَرَاہٗ ۔” اس نور بحت کا حقیقی مشاہدہ کہاں ہوسکتا تھا۔ “
پس حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کے مقابلہ میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی جانب سے رویت باری کی نفی میں آیت قرآنی کا یہ استدلال
{ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ } [172]
” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کا (یعنی دیکھنے والوں کی پوری حقیقت کا) ادراک کئے ہوئے ہے۔ “
اس لیے مرجوح ہے کہ آیت میں موجودہ دنیا کی مادی اور محدود بصارت کے مشاہدہ کا انکار ہے جو لاریب حق ہے لیکن ملائے اعلیٰ کا وہ مقام معراج جہاں زمان و مکان اور حدود وقیود سے آزاد اسرار الٰہی کے مشاہدات کے لیے کسی کو نوازا گیا ہو تو اس کے مشاہدہ حقیقت کا یہ آیت کسی طرح انکار نہیں کرتی۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ (رضوان اللہ علیہم) عنم و رضوا عنہ کے زمانہ سے آج تک محققین علماء کی ایک کثیر جماعت سلفًا عن خلفٍ سورة النجم کی آیت { مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ۔ اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ۔ } [173]
کی تفسیر میں صحیح احادیث کی استمداد سے یہ ثابت کرتی رہی ہے کہ ان مقامات میں رویت سے رویت باری مراد ہے ۔
اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، بعض صحابہ کی رائے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…﴾ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، لیکن جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول ہے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سےبھی اور آنکھ سے بھی، یہاں "مَرَّتَیْن" سے مراد دو مرتبہ دیکھنا نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوہ ازیں جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو ہے ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ نگاہیں اس کا حاطہ نہیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"،تیرا بھلا ہو وہ تو اس طرح نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں کہ اللہ تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطہ کریں۔
"عن عکرمة عن ابن عباس قال: راٰی محمد ربه، قلت: ألیس اللّٰه یقول: ﴿ لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾؟ قال: ویحک ذاک إذا تجلی بنوره الذي هو نوره وقد راٰی ربه مرتین". (جامع ترمذی) عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا: میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔
عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔
مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فقط واللہ اعلم

مدنی زندگی

ہجرت

622ء تک مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی تقویم کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔

میثاقِ مدینہ

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔[174][175][176][177][178][179][180]

یہود و مشرکین کی سازشیں

میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف نے قتل کر دیا۔ ابو عفک کو حضرت سالم بن عمیر نے قتل کیا۔[181]

جنگیں

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

  • غزوہ بدر : 17 رمضان (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
  • غزوہ احد :7 شوال (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لیے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
  • غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
  • غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
  • غزوہ بنی مصطلق: شعبان (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • غزوہ خیبر: محرم (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول (اگست۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
  • غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
  • غزوہ حنین: شوال (جنوری۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
  • غزوہ تبوک: رجب (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

صلح حدیبیہ

مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبيۃ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباًً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ کو روانہ کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔۔[182]

فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد تھا جبکہ ان کے مخالف بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزع کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔

قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لیے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔

630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

حجۃ الوداع

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔[183]

وفات

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔

آپﷺ کو منگل کے روز کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ رسول اللہ کو غسل دینے والے افراد میں سیدنا عباس، حضرت اسامہ، اوس بن خولیٰ، حضرت عباس کے دو بیٹے قثم اور فضل اور رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران شامل تھے۔ حضرت عباس اور ان کے دونوں صاحب زادے رسول اللہﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے، حضرت اسامہ اور شقران پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علی غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس نے آپﷺ کو اپنے سینے پر ٹیک رکھا تھا۔[184] رسول اللہ کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار غسل دیا گیا۔ پانی عرس نامی قباء میں واقع حضرت سعد بن خثیمہ کے کنویں کا تھا۔ آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں بھی پینے کے لیے اس کنویں کا پانی استعمال فرماتے تھے۔[185] پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین سفید سوتی یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی بس آپ کو صرف چادروں میں لپیٹا گیا۔[186] حضرت ابوطلحہ نے آپ کی قبر اسی جگہ کھودی جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔ قبر لحد والی کھودی پھر آپ کی چارپائی قبر کے کنارے رکھ دی گئی اور پھر دس دس صحابہ اندر داخل ہوتے جاتے اور فرداً فرداً نماز ادا کرتے، کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ کے خانوادے نے نماز پڑھی، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے اور پھر بچوں نے، پھر عورتوں نے یا پہلے عورتوں نے پھر بچوں نے۔[187] نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا ہی دن اور منگل کی بیشتر رات گزر گئی جس کے بعد رات کے اواخر میں رسول اقدس کو سپرد خاک کر دیا گیا۔[188] جنازے میں شریک افراد کے بارے اختلاف ہے۔

امہات المؤمنین اور اولاد

مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

 

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔ (یعنی حضرت خدیجہؓ اور ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما ) ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔[189] نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

  • حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔ آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام بیٹے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ - زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حسن، حسین رضی اللہ عنہما، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔[189]
  • حضرت سودہ بنت زمعہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تقریباًً ایک مہینہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضرت سَوْدَہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات شوال 54ھ میں مدینہ کے اندر ہوئی۔[190]
  • حضرت زینب بنت خزیمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعْصَعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقّت ورأفت کے سبب ان کا لقب اُمّ المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تو رسول اللہﷺ نے 4ھ میں ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ 4ھ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[190]
  • حضرت ام سلمہ ہند رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ابو سلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ جمادی الآخر 4ھ میں حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد شوال 4ھ میں رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ چوراسی سال کی عمر میں 59ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 62ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[190]
  • حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبر 7ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہباء کے پاس انہیں رخصت کرایا۔ 50ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 52ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 36ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔[191]
  • حضرت جویریۃ بنت الحارث رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہؓ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ یہ شعبان 5ھ یا 6ھ کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئیں۔ ربیع الاول 56ھ یا 55ھ میں وفات پائی۔ عمر 65برس تھی۔[191]
  • حضرت میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ 7ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے … اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے۔۔۔ کے بعد شادی کی اور مکہ سے 9میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ 61ھ اور کہا جاتا ہے کہ 63ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔[191]
  • حضرت ام حبیبہ رملہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکر عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اور پھر وہیں انتقال کرگیا۔ مگر اُم حبیبہؓ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم 7ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہؓ سے آپﷺ کا نکاح کر دے۔ اس نے امِ حبیبہؓ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کر دیا۔ اور شُرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔ 43ھ یا 44ھ یا 50ھ میں وفات پائی۔[191]
  • حضرت حفصہ بنت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : آپ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی، شادی کا یہ واقعہ 3ھ کا ہے۔ شعبان 45ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔[190]
  • حضرت عائشہ بنت ابی بکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال 1ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔ 17/ شعبان 57ھ یا 58ھ میں حضرت عائشہ ؓ نے وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[190]
  • حضرت زینب بنت جحش رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زیدؓ سے نباہ نہ ہو سکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ ٔ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب: 37)جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔

انہیں کے تعلق سے سورۂ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں مُتَبنّیٰ (لے پالک ) کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کر دیا گیا - حضرت زینبؓ سے رسول اللہﷺ کی شادی ذی قعدہ 5ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 4ھ میں ہوئی۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔ 20ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 53سال تھی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المؤمنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[191]

یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں، یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان میں بڑے اختلافات ہیں۔

جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریۃ القبطیۃ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری 632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔[192]

دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبید ہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔[193]

خطوطِ نبوی

مشہور صحابہ

غصہ

غصہ غیرت کی علامت ہے ایک غصہ وہ ہے جو عام کوئی بھی بات پر آجاتا ہے، اور بعض ایسا غصہ کرنے والے اپنے آپ کو بڑابہادر سمجھتے ہیں، دوسرا غصہ وہ ہے جوتلخ بات سن کر آجاتاہے، کڑوے جملے، ناگزیر رویوں، لفظ کی تیزی یا زہر بھرے رویے سے آتا ہے آپ ﷺ کو کبھی بھی غصہ نہیں آیا کسی بھی بد اخلاق رویے آپﷺ کی پیشانی پر شکن نہیں ڈال سکے، ایک غصہ وہ ہوتا ہے جس کا آنا ایمانی غیرت ہے اور نہ آنا بزدلی ہے یہ وہ غصہ ہے جو غیر شرعی امور کو دیکھ کرآتاہے جیسے ایک مؤمن گھر میں اللہ کی نافرمانی دیکھ کر غصہ کرتا ہے یا تربیتی امور کو متاثر کر نے والی چیز کو دیکھ کر آپ کو غصہ آجانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:
لقد جلست أنا وأخي مجلسا ما أحب أن لي بہ حمر النعم، أقبلت أنا وأخي، وإذا مشيخة من صحابة رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - جلوس عند باب من أبوابہ، فكرهنا أن نفرق بينهم، فجلسنا حجرة، إذ ذكروا آية من القرآن، فتماروا فيها، حتى ارتفعت أصواتهم، فخرج رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - مغضبا، قد احمر وجهہ، يرميهم بالتراب، ويقول: "مهلا يا قوم، بهذا أهلكت الأمم من قبلكم، باختلافهم على أنبيائهم، وضربهم الكتب بعضهاببعض، إن القرآن لم ينزل يكذب بعضہ بعضا، بل يصدق بعضہ بعضا، في عرفتم منہ فاعملوا بہ، وما جهلتم منہ فردوہ إلى عالمہ [194]
ترجمہ:میں اور میرے بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں۔پھر میں نے کچھ بزرگ صحابہ کومسجد نبوی کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ہم نے ان کے درمیان میں گھس کر تفریق کرنے کو اچھا نہیں سمجھا اس لیے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔اس دوران میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے قرآن ایک آیت کا تذکرہ چھیڑااور اس میں ان کے درمیان میں اختلاف رائے ہوگئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔نبی ﷺ غصہ کی حالت میں باہر نکلے۔آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھااور آپ ﷺ مٹی پھینک رہے تھے اور فرمارہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیااور اپنی کتابوں کے حصہ کو دوسرے حصے پر مارا۔قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ تم اس کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تکذیب کرو، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصديق کرتا ہے، اس لیے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کرواور جو معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 11
  2. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا
  3. مسند احمد جلد 1 صفحہ 361
  4. (سورہ الزمر : ٣٩/٣)
  5. (سورہ آل عمران : ٣/٩٦)
  6. (سورہ النازعات : ٧٩/٢٦)
  7. (سورہ الفیل : ١٠٥/١ تا ٥)
  8. (سورہ ق : ٥٠/٣٧)
  9. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  10. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  11. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  12. (صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، حدیث 2750 )
  13. (فتح الباری جلد ٦‘ تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦٠)
  14. (سورہ الجمعۃ : ٦٢/٢)
  15. (سورہ التوبۃ : ٩/١٢٨)
  16. (سورہ آل عمران : ٣/١٦٤)
  17. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٧)
  18. (سورہ النحل : ١٦/١٠٣)
  19. (القصد والامم ص ٢٢ والانباہ علیٰ قبائل الرواۃ ص ٤٦)
  20. البدایہ والنہایہ جلد ٢۔
  21. (صحیح مسلم ،کتاب الانبیاء حدیث 5938)
  22. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  23. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  24. (مجمع الفوائد جلد ١ از معجم طبرانی کبیر)
  25. (سنن ابو داؤد کتاب التفسیر ‘ جامع ترمذی کتاب التفسیر )
  26. مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
  27. مستدرک الحاکم
  28. خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48
  29. (سورہ الضحٰی : ٩٣/٦ تا ٨)
  30. تفسیر ابن کثیر سورہ الضحیٰ
  31. (سورہ الضحیٰ : ٩٣/٧)
  32. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٥٢)
  33. (تفسیر ابن کثیر , سورہ الضحیٰ)
  34. ( زرقانی ص ۱۳۷ ج ۱ ۔ )
  35. (فتح الباری ص ۱۲۴ ج ۹ - کتاب النکاح - )
  36. روض الانف ج 1 ، صفحہ ۱۰۹
  37. خصائص کبری صفحہ ۵۴ جلد 1
  38. البدایہ والنھایہ ص ۲۷۵ ج ۲
  39. (مسلم:۲۴۰،کتاب الایمان)
  40. سیرت ابن هشام، ج ا ص ۵۶، نیز مجمع الزوائد ج ۸ ۱ : صفحہ ۲۳ ۔
  41. (مسلم:۹۷۶ ، کتاب الجنائز)
  42. روض الانف ج 1 صفحہ 111
  43. زرقانی جلد 1 صفحہ 162,163
  44. الفصول فی سیرۃ الرسول ﷺ،از: ابن کثیر،صفحہ:۹۳
  45. البدایۃ والنہایۃ ،تاریخ لابن کثیر، سیرت محمد
  46. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34
  47. سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177
  48. تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575
  49. البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294
  50. (البدایہ والنھایہ جلد ٣ ص ٥)
  51. (سورہ طٰہٰ : ٢٠/٥٠)
  52. (سورہ الاعلیٰ : ٨٧/٢‘ ٣)
  53. (سورہ البلد : ٩٠/٨ تا ١٠)
  54. (سورہ الدھر : ٧٦/٢‘ ٣)
  55. (سورہ حم السجدۃ : ٤١/١٧)
  56. (سورہ الانعام : ٦/٧١)
  57. (سورہ العنکبوت : ٢٩/٦٩)
  58. (سورہ اللیل : ٩٢/١٢‘ ١٣)
  59. (سورہ الانعام : ٦/١٩)
  60. (سورہ النساء : ٤/١٦٣ تا ١٦٥)
  61. (سورہ الزخرف : ٤٣/٦٣‘ ٦٤)
  62. (سورہ النساء : ٤/١٧٤‘ ١٧٥)
  63. (سورہ النساء : ٤/١٧٤)
  64. (سورہ لمائدۃ : ٥/١٥)
  65. (سورہ التوبۃ : ٩/٣٢)
  66. (سورہ ابراہیم : ١٤/٥)
  67. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٥٢)
  68. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/١٧)
  69. (سورہ یونس : ١٠/١٦‘ ١٧)
  70. (صحیح بخاری ج 1 حدیث 7)
  71. (ترجمان القرآن ج ٢ ص ١٥١)
  72. (سورہ العلق : ٩٦/١ تا ٥)
  73. صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی علی رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  74. (تاریخ ابن کثیر ج ٣ ص ٧)
  75. (حجۃ اللہ البالغہ ج ٢ ص ١٥٣)
  76. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٩٣)
  77. (سورہ الاعراف : ٧/١٨٨)
  78. (سورہ مریم : ١٩/٣٠‘ ٣١)
  79. (سورہ طٰہٰ : ٢٠/٤٧)
  80. (سورہ النساء : ٤/١٦٥)
  81. (سورہ الاحزاب : ٣٣/٤٥‘ ٤٦)
  82. (سورہ الجن : ٧٢/٢٦ تا ٢٨)
  83. (سورہ الفرقان : ٢٥/٧‘ ٨)
  84. (سورہ الفرقان : ٢٥/٢٠)
  85. (سورہ الانعام : ٦/٨‘ ٩)
  86. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٩٤‘ ٩٥)
  87. (سورہ الانبیاء : ٢١/٧‘ ٨)
  88. (سورہ الزخرف : ٤٣/٣١‘ ٣٢)
  89. (سورہ الانعام : ٦/١٢٤)
  90. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٨٦‘ ٨٧)
  91. (سورہ الاعراف : ٧/٦١‘ ٦٢)
  92. (سورہ الاعراف : ٧/٦٧‘ ٦٨)
  93. (سورہ الاعراف : ٧/٧٩)
  94. (سورہ مریم : ١٩/٤١ تا ٤٣)
  95. (سورہ الشعراء : ٢٦/١٦١ تا ١٦٣)
  96. (سورہ یوسف : ١٢/٦)
  97. (سورہ یوسف : ١٢/٣٩‘ ٤٠)
  98. (سورہ الشعراء : ٢٦/١٧٦ تا ١٧٩)
  99. (سورہ الاعراف : ٧/١٠٤‘ ١٠٥)
  100. (سورہ النمل : ٢٧/٣٠‘ ٣١)
  101. (سورہ یٰسٓ: ٣٦/١٦‘ ١٧)
  102. (سورہ مریم : ١٩/٣٠)
  103. (سورہ الصف : ٦١/٦)
  104. (سورہ الاحزاب : ٣٣/٤٥‘ ٤٦)
  105. (سورہ الاعراف : ٧/١٥٨)
  106. (سورہ آل عمران : ٣/١٩)
  107. (سورہ آل عمران : ٣/٨٥)
  108. (سورہ حم السجدۃ : ٤١/٤٢)
  109. (سورہ النجم : ٥٣/٣‘ ٤ )
  110. (سورہ النحل : ١٦/٦٨)
  111. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/٥١)
  112. (سورہ نور : ٢٤/١٦)
  113. (سورہ العلق : ٩٦/١ تا ٥)
  114. (سورہ العلق : ٩٦/٥)
  115. (سورہ المدثر : ٧٤/١ تا ٧)
  116. (سورہ الشعراء : ٢٦/٢١٤ تا ٢٢٠)
  117. (تاریخ ابن کثیر ج ٣ ص ٣٨)
  118. (سورہ سبا : ٣٤/٢٨)
  119. (سورہ الانعام : ٦/٩٢)
  120. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/٧)
  121. (سورہ سبا : ٣٤/٢٨)
  122. (سورہ الفرقان : ٢٥/١)
  123. (سیرت ابن ہشام جلد اول و تاریخ ابن کثیر ج ٣)
  124. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٥)
  125. (سورہ النساء : ٤/٣٦)
  126. (سورہ لقمان : ٣١/١٣)
  127. (سورہ البقرۃ : ٢/١٦٣)
  128. (سورہ الاخلاص : ١١٢/١ تا ٤)
  129. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/١١)
  130. (سورہ الشوریٰ : ٤٢/١١)
  131. (سورہ فاطر : ٣٥/٢٤)
  132. (سورہ الرعد : ١٣/٧)
  133. (سورہ المومن : ٤٠/٧٨)
  134. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٨٥)
  135. (سورہ مریم : ١٩/٦٦‘ ٦٧)
  136. (سورہ یٰسٓ : ٣٦/٧٨‘ ٧٩)
  137. (سورہ سبا : ٣٤/٣)
  138. (سورہ القیٰمۃ : ٧٥/٣٦)
  139. (سورہ القیٰمۃ : ٧٥/٤٠)
  140. (سورہ التین : ٩٥/١ تا ٨)
  141. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٨٥)
  142. (سورہ الانبیاء : ٢١/١٠٧)
  143. (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢٢ مطبوعہ مصر (جدید)
  144. فتح الباری جلد 7 ص 179
  145. (سورہ الاسراء : ١٧/٦٠)
  146. فتح الباری جلد 6 ص 16
  147. (جامع ترمذی حدیث نمبر 3130)
  148. (صحیح بخاری کتاب المعراج)
  149. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/١)
  150. (سورہ بنی اسرائیل : ١٧/٦٠)
  151. (سورہ النجم : ٥٣/١ تا ١٨)
  152. (سورہ ھود : ١١/٨١)
  153. (سورہ ہود : ١١/٨١)
  154. (سورہ طٰہٰ : ٢٠/٧٧)
  155. (سورہ الشعراء : ٢٦/٥٢)
  156. (سورہ الاسراء : ١٧/٦٠)
  157. (فتح الباری جلد ٧ ص ١٥٦ مطبوعہ البہیۃ المصریہ)
  158. (سورہ اسراء ١٧/٦٠)
  159. (سورہ النجم ٥٣/١٧)
  160. (سورہ النجم ٥٣/١٧)
  161. (سورہ الاسراء : ١٧/٦٠)
  162. (سورہ النجم : ٥٣/١‘ ٢)
  163. (سورہ النجم : ٥٣/٣)
  164. (سورہ النجم : ٥٣/٤)
  165. (سورہ النجم : ٥٣/٥ تا ٩)
  166. (سورہ النجم : ٥٣/١٠ تا ١٢)
  167. (سورہ النجم : ٥٣/١٣ تا ١٦)
  168. مشکلات القرآن ص ٣٤٠ تا ٣٦٠
  169. (سورہ النجم : ٥٣/١٧‘ ١٨)
  170. (سورہ النجم : ٥٣/١٨)
  171. (سورہ الاسراء : ١٧/٦٠)
  172. (سورہ الانعام : ٦/١٠٣)
  173. (سورہ النجم : ٥٣/١١‘ ١٢)
  174. ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت
  175. ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
  176. ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء
  177. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ، دارالارشاد، بیروت
  178. ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
  179. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
  180. میثاقِ مدینہ از ڈاکٹر طاہر القادری[مردہ ربط]
  181. حرفِ زار از اوریا مقبول جان[مردہ ربط]
  182. الطبقات الکبریٰ جلد اول صفحہ 260 تا 262
  183. سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 603
  184. سنن ابن ماجہ، الکتاب الجنائز، حدیث 1628
  185. طبقات ابن سعد
  186. صحیح البخاری، حدیث :1264
  187. موطا امام مالک 231/1، و طبقات ابن سعد 292-298
  188. مسند احمد 62/6 و 274
  189. ^ ا ب الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634
  190. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 635
  191. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 636
  192. الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 637
  193. زاد المعاد 1/29
  194. احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، رقم الحدیث: 6703، ج -6،مطبوعۃ: دار الحديث، القاهرة، 1416 هـ، ص :252