تھکاوٹ
تھکاوٹ (انگریزی: Fatigue) ایسا احساس کسی اندر آتا ہے کہ وہ بہت زیادہ کام کر چکا ہے، اس سے اور آگے کام نہیں ہو گا یا پھر سے آرام اور نیند کی ضرورت ہے۔ یہ احساس رفتہ رفتہ بھی نمایاں ہو سکتا ہے اور اچانک سے بھی دیکھنے آ سکتا ہے۔ یہ کسی جسمانی سرگرمی کے انجام دینے سے ہو سکتا ہے اور کبھی دماغی سرگرمی کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔ مثلًا ایک شخص دفتر کے پورے دن کے کام کے بعد تھک جا سکتا ہے اور ایک طالب علم ریاضی کے مشکل سوالات حل کر کے تھک سکتا ہے۔ ان دونوں صورت حال میں عمومًا کچھ وقت یا کچھ گھنٹے آرام کر کے لوگ تر و تازہ ہو کر پھر سے کام پر لگ جا سکتے ہیں۔ تاہم تھکاوٹ کبھی کبھار کسی طبی کیفیت کا بھی آئینہ دار ہو سکتی ہے۔ ایسی صورتوں لوگ بنا کچھ کام کیے یا بہت کم کام کے بعد بھی بہت زیادہ تھک سکتا ہے۔
نیند تھکاوٹ کے سبب کے طور پر
ترمیمنیند کا دورانیہ ہی نہیں بلکہ معیار بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ناکافی نیند تھکاوٹ کی اہم ترین وجہ ہو سکتی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق 7 سے 8 گھنٹے کی نیند عام طور پر ہر بالغ فرد کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم اتنے دورانیے تک سونے کے باوجود تھکاوٹ دور نہیں ہوتی، تو اس کی وجہ نیند کا معیار ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل جیسے ڈیوائسز کی اسکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی، آوازیں، سرد یا گرم موسم، غیر آرام دہ بستر اور بچے وغیرہ اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے بچاﺅ کا طریقہ بھی آسان ہے، نیند کا ایک شیڈول طے کرکے اس پر عمل کریں۔ سونے سے قبل گرم مشروبات سے دور رہیں اور بستر پر ڈیوائسز کے استعمال سے گریز کریں۔[1]
ذہنی تھکاوٹ
ترمیمذہنی تھکاوٹ یا ذہنی تھکن ایک مخصوص مدت میں عملی ذہنی اور جسمانی کارکردگی میں کمی ہے۔ جب کوئی فرد ذہنی طور پر تھکا ہوا ہے تو ، ماحول یا کام ، شدت یا دورانیے کے علمی تقاضوں سے نمٹنے کے لیے اس کی صلاحیت کم جا رہی ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ فرد اور اس کے کام کے درمیان باہمی روابط کا لگاؤ یا مثبت تال میل کا فقدان ہے۔ جس کام کو وہ انجام دیتا بھی ہے[2] اس کو وہ من ہی من بوچھ سمجھنے لگتا ہے۔
مختلف زمروں کے لوگوں کا مختلف رد عمل
ترمیمدنیا کے مختلف ممالک میں مختلف زمروں کے لوگوں کا مختلف رد عمل دیکھا گیا ہے جو ضروری نہیں کہ ہر مشاہدے یا مطالعے میں بھی یکساں ہو، کیوں کہ لوگوں کی فطرت بھی بدلتی رہتی ہے اور کئی مطالعات بین زمرے اشخاص کے نمائندہ ہونے ہیں، نا کہ کل آبادی کے۔ ایک ایسے ہی مطالعے کے تحت جرمنی کے ڈاکٹروں کے ایک سروے کے مطابق تقریبًاً 50 فیصد ڈاکٹر تھکان محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ہر وقت بیزار محسوس کرتے ہیں۔کام میں ان کا ذرا بھی دل نہیں لگتا اور کام کا خیال آتے ہی جسم کی طاقت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ مگر ایک سروے کے مطابق عورتیں اور مرد تھکاوٹ سے الگ الگ طرح سے نمٹنے ہیں۔ مرد اس وجہ سے زیادہ طویل چھٹیاں لیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں خواتین، تھکاوٹ کی حالت سے نمٹنے کے لیے کم چھٹیاں لیتی ہیں۔[3]