ثاقب لکھنوی کا اصل نام ذاکر حسین تھا، ثاقب تخلص اور لکھنؤ سے تعلق کی بنا پر لکھنوی کہلاتے تھے۔ ثاقب لکھنوی کی پیدائش 2 جنوری 1869ء کو آگرہ میں ہوئی تھی۔ تاہم بعد کے دور میں وہ لکھنؤ چلے گئے تھے۔ ثاقب کی شہرت کا اصل سبب ان کا مجموعہ کلام دیوان ثاقب ہے۔[1]

پیشہ

ترمیم

ثاقب نے تجارت سے آغاز کیا مگر اس میں گھر کی ساری جمع پونجی ضائع ہوئی۔

1906ء میں وہ ایران کے سفارت خانہ میں ملازم ہو گئے۔

1908ء میں مہاراجا محمود آباد سے تعلق ہو گیا اور میر منشی کا عہدہ ملا۔ مگر تقسیم ہند کے بعد جب یہ ختم ہوا تو ثاقب بھی گمنام ہو گئے اور یاد الٰہی میں دن گزارے۔ اور دو سال بعد 80 سال کی عمر میں 24 نومبر 1949ء کو وہ گذر گئے۔[2]

نمونہ کلام

ترمیم

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے


آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں

اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے


آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر

دل ڈوبتے ہیں حالت بیمار دیکھ کر


اپنے دل بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں

کیا دوں تمھیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں


باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگ


بلا سے ہو پامال سارا زمانہ

نہ آئے تمھیں پاؤں رکھنا سنبھل کر


بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی

میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://rekhta.org/poets/saqib-lakhnavi/profile
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2015 
  3. https://www.rekhta.org/poets/saqib-lakhnavi/couplets?lang=ur