ثمامہ بن آثال
ثمامہ آثال قبیلہ یمامہ کے سردار اور صحابی رسول ہیں۔
ثمامہ بن آثال | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 580ء |
تاریخ وفات | سنہ 629ء (48–49 سال) |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمثمامہ نام، ابو امامہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، ثمامہ بن آثال بن نعمان بن سلمہ بن عتبہ ابن ثعلبہ بن یربوع بن ثعلبہ بن دؤل بن حنفیہ حنفی یمامی، ثمامہ کے سرداروں میں تھے۔[1]
اسلام
ترمیمفتح مکہ کے کچھ دنوں پہلے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے یمامہ کی طرف ایک مختصر سریہ جس میں چند سوار تھے بھیجا تھا، ان لوگوں نے واپسی میں ثمامہ کو گرفتار کر لیا اوروہ لاکر مسجد نبوی صل للہ علیہ والہ وسلم کے ستون میں باندھ دیے گئے، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے ان کے پاس آکر پوچھا کیوں ثمامہ کیا ہوا، کہا محمدصل للہ علیہ والہ وسلم بہت اچھا ہوا اگر تم مجھ کو قتل کروگے تو ایک جاندار کو قتل کروگے اوراگر احسان کرکے چھوڑدو گے تو ایک احسان شناس پر احسان کروگے، دوسرے دن پھر یہی سوال جواب ہوا، تیسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا تیسری مرتبہ سوال وجواب کے بعد محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے انھیں رہا کر دیا، ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کے اسیر ہو گئے، مسجد نبوی صل للہ علیہ والہ وسلم کے قریب ایک نخلستان میں گئے اورنہا دھو کر مسجد میں آئے اورکلمۂ شہادت پڑھ کر محمد صل للہ علیہ والہ وسلم سے کہا خدا کی قسم آپ کی ذات، آ پ کے مذہب اورآپ کے شہر سے زیادہ روئے زمین پر مجھے کسی سے بغض نہیں تھا؛ لیکن اب آپ کی ذات، آپ کے مذہب اورآپ کے شہر سے زیادہ کوئی ذات کوئی مذہب اورکوئی شہر محبوب نہیں ہے، میں عمرہ کا قصد کر رہا تھا کہ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑ لیا، اب کیا حکم ہوتا ہے؟ آپ نے بشارت دی اورعمرہ پورا کرنے کا حکم دیا؛چنانچہ وہ عمرہ کے لیے مکہ گئے، کسی نے پوچھا، تم بے دین ہو گئے، کہا نہیں ؛بلکہ رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ اسلام لایا، یاد رکھو اب بغیر رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کی اجازت کے گیہوں کا ایک دانہ بھی یمامہ سے مکہ نہیں آ سکتا۔[2] عمرہ پورا کرنے کے بعد یمامہ جاکر غلہ رکوادیا، مکہ والوں کا دارمدار یمامہ کے غلہ پر تھا، اس لیے وہاں آفت بپا ہو گئی، اہل مکہ نے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کے پاس لکھ بھیجا کہ تم صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، لیکن تمھارا عمل اس کے برعکس ہے، تم نے سن رسیدہ لوگوں کو تلوار سے اوربچوں کو بھوک سے مارڈالا ان کی اس تحریر پر آپ نے حکم دیا کہ غلہ نہ روکا جائے۔
فتنہ ارتداد
ترمیممشہور مدعی نبوت مسیلمہ کذاب ثمامہ کا ہم وطن تھا، اس نے حیاتِ نبوی صل للہ علیہ والہ وسلم ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن آفتاب حقیقت پر اس کی تاریکی غالب نہ آسکی، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ بڑے زور شور کے ساتھ اٹھا، اہل یمن اس کے دامِ تزویر میں پھنس کر مرتد ہو گئے اور مسیلمہ نے یمن پر قبضہ کر لیا، اس زمانہ میں ثمامہ وطن ہی میں موجود تھے، انھوں نے اہل یمامہ کو ارتداد سے بچانے کی بہت کوشش کی، ہر شخص کے کانوں تک یہ آواز پہنچاتے تھے کہ لوگو! اس تاریکی سے بچو جس میں نور کی کوئی کرن نہیں ہے، لیکن مسیلمہ کی آواز کے سامنے ان کی آواز صد ابصحرا ثابت ہوئی، جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے پند و نصائح کا کوئی اثر نہیں ہو سکتااور لوگ مسیلمہ کے دام میں پھنس چکے ہیں، تو خود یمامہ چھوڑدینے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی دوران میں علا ابن حضرمی جو مرتدین کے استیصال پر مامور ہوئے تھے، یمامہ کی طرف سے گذرے، ثمامہ کو خبر ہوئی، تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بنی حنیفہ کے ارتداد کے بعد میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا، عنقریب خدان پر ایسی مصیبت نازل کریگا کہ ان سے اُٹھتے، بیٹھے نہ بنے گا، مسلمان اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے آئے ہیں، ان سے نہ پچھڑنا چاہیے، تم میں سے جس کو چلنا ہو، وہ فورا تیار ہو جائے، غرض اپنے ہم خیال اشخاص کو ساتھ لے کر علا کی مدد کو پہنچے، جب مرتدین کو یہ معلوم ہوا کہ کچھ بنی حنیفہ بھی علا کی امداد پر آمادہ ہیں، تو وہ کمزور پڑ گئے، یمامہ کی مہم خالد کے سپرد تھی اور علا بحرین کے مرتدین پر مامور تھے؛چنانچہ ثمامہ بھی علا کے ساتھ بحرین چلے گئے اور مرتدین کے استیصال میں برابر کے شریک رہے۔
وفات
ترمیممرتدین کے استیصال کے بعد بنی قیس کے مرتد سردار حطم کا حُلہ اس کے قاتل سے خریدا اوراسے پہن کر نکلے، بنو قیس نے ان کے بدن پر حطم کا حلہ دیکھ کر سمجھا کہ انھی نے حطم کو قتل کیا ہے اوریہ حلہ انھیں سلب میں ملا ہے، اس شبہ میں ثمامہ کو شہید کر دیا۔[3]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال میں شاعری کے علاوہ اورکوئی خصوصیت لائق ذکر نہیں ہے ،مسیلمۂ کذاب کے سلسلہ میں یہ اشعار کہے تھے۔ دعاذاالی ترک الدانۃ والھدی مسیلمۃ الکذاب اذجاء یسجع فیاعجبا من معشر قد تتابعوا لہ فی سبیل الغنی والغی اشنع