ثناءغوری
ڈاکٹر ثناءغوری ایک پاکستانی صحافی، کالم نگار اور ادیب اور استاد ہیں۔ وہ گذشتہ ایک عشرے سے پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ساتھ ہی الیکٹرونک میڈیا میں بھی ایک اینکر پرسن کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ اور اس وقت روزمانہ ایکسپریس کالم لکھتی ہیں ساتھ ہی اسی روزنامہ میں سوشل میڈیا کے عنوان سے شایع ہونے والے صفحے کے لیے ایک فری لانس کے طور پر مواد فراہم کرتیں ہیں۔ کالم نگاری ان کا خاص حوالہ ہے۔ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔
ابتدائی زندگی
ترمیمثناءغوری نے 1982ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں آنکھ کھولی۔ دسویں جماعت سائنس میں کرنے کے بعد انٹر کامرس میں کیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی دلچسپی رکھتیں تھیں لیکن نامناسب حالات کی وجہ سے اس شعبہ میں ڈگری حاصل نا کرسکیں۔ ایک ادارے نیوسینچری ایجوکیشن سے آٹی ٹیچرز ٹرینگ حاصل کی اور اَسی ادارے میں بطور گرافکس ڈیزائینر کام کیا۔19سال کی عمر میں رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئی۔
تعلیم
ترمیمانٹرمیڈیٹ کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ جانے والی ثناء نے حصول ِ علم کی لگن کو گھریلو ذمے داریوں اور مجبوریوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 2007 میں ماس کمیونیکشن میں بیچلرز کیا۔ اور پھر 2011 میں فیڈرل اردو یونیورسٹی عبد الحق کیمپس کراچی سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کی مکمل کیا۔ تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے ثناءغوری صاحبہ حالیہ دنوں (2015) میں فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی سے ایم فل لیڈینگ ٹو پی ایچ ڈی (ماس کمیونکشن ڈیمارٹنمٹ )میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔
سوانح
ترمیمثنا غوری کی پیدائش کراچی میں ہوئی۔ بچپن ہی سے ان کا ناتا کتابوں سے جُڑ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ جانے والی ثناء نے حصول ِ علم کی لگن کو گھریلو ذمے داریوں اور مجبوریوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا۔ انھوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بہ حیثت بیوی اور ماں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے بی اے کے بعد اردو یونی ورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ایم اے بھی کر ڈالا۔ کثرت مطالعہ نے لکھنے کی طرف مائل کیا، ابتدا مضامین تحریر کرنے سے ہوئی جو مختلف اخبارات اور رسائل کا حصہ بنے۔ ساتھ ساتھ انگریزی تحریروں کے اردو ترجمے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اپنے صحافتی کیریر کی ابتدا ہی میں انھوں نے ایک رسالے ”لوح“ کی ادارت کی۔ سماجی مسائل پر گہری نظر رکھنے والی ثناء غوری نے ان مسائل اور عام آدمی کے مصائب پر اظہارخیال کے لیے جب کالم نویسی کو وسیلہ بنایا تو اردو صحافت کو ایک بہت اچھی کالم نویس میسر آگئی۔ روزنامہ ایکسپریس میں ”معرکہ“ کے زیرعنوان شایع ہونے والے ثناء غوری کے کالم سادہ زبان، دلوں کو چھوتے اسلوب اور معاشرے کو درپیش حقیقی مسائل کو موضوع بنانے کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ ایک طرف ان کے ذوق و شوق کا دائرہ ادب، سماجیات، نفسیات اور فلسفے تک محیط ہے تو دوسری طرف ان کی دسترس سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جادوئی دنیاؤں تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اردو صحافت میں پہلی بار سوشل میڈیا سے متعلق صفحے کا آغاز ”سوشل میڈیا“ کے عنوان سے ہوا، تو اس کی ادارت کے لیے ثناء غوری کو منتخب کیا گیا، جو بہ طور فری لانسر اس صفحے کے لیے مواد کے انتخاب سے لے کر اسے انگریزی سے اردو میں ڈھالنے تک کے تمام امور بہ حسن وخوبی انجام دے رہی ہیں۔ کالم نویسی تو ثناء غوری کی پہچان بن ہی چکی ہے، مگر کالم نگاری سے بہت پہلے وہ اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کر چکی تھیں۔ کہانیاں اور بچوں کے لیے تحریروں کے ذریعے تخلیقی سفر کی شروعات کرنے والی اس لڑکی نے اپنی افسانہ نگاری سے عام قارئین ہی کو نہیں سینیرقلم کاروں کو بھی چونکا دیا۔ اس بات کا روشن امکان ہے کہ اپنے ڈکشن، زبان، کہانی اور منظر نگاری کے اعتبار سے منفرد اور خوب صورت افسانے تخلیق کرنے والی ثناء غوری کی افسانہ نویسی بھی جلد انھیں ایک منفرد شناخت عطا کر دے گی۔ کچھ عرصہ انٹرنیٹ ریڈیوسے بھی وابستہ رہیں اور انٹرنیٹ ریڈیو پر مکمل عبور حاصل کیا۔ ساتھ ہی نیئے آنے والے صحافیوں کو بھی انٹرنیٹ ریڈیو کی تعلیم دینے کا سلسلہ انفرادی طور پر جاری رکھا۔ ثناءغوری نے بطور ٹی وی اینکر ایک مقامی ٹی وی پر بطوراینکر پرسن پروگرام بھی کیے۔ اس پروگرام کو کافی پزیرائی ملی۔ مختلف فورمز میں سوشل میڈیا اور صحافت کے عنوان پر کامیاب ورک شاپس لے چکی ہیں۔ ثناء غوری صاحبہ کے دو سو سے زائد آرٹیکلزاور کالمز پاکستان میں اور بین الاقوامی اردو اخبارات اور رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ حالیا دنوں میں محترمہ ثناءغوری جناح یونیورسٹی خواتین کراچی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں تدریس کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ساتھ ہی ایم فل بھی کر رہی ہیں