لسانی ثنویت (Diglossia) ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ جب کسی معاشرے میں اس کی زبان یا بولی دو (یا ایک سے زیادہ) رتبات یا درجات میں تقسیم ہو چکی ہو یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ اس معاشرے کے افراد میں اپنی زبان کے سلسلے میں تفریق پائی جاتی ہے، اس تفریق کو علم لسانیات میں لسانی ثنویت اور یا پھر انشقاق اللسان (Diglossia) بھی کہا جاتا ہے۔ اسی مفہوم کو آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں عوام اور خواص کی گفتار الگ الگ استعمال ہو تو اس معاشرے (کی متعلقہ زبان) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ثنائی اللسان کی کیفیت سے دوچار ہے۔ عام طور پر کسی زبان میں اس قسم کی ثنائی اللسانی یا دوزبانی کی وجہ سے اس میں اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق نمایاں ہونے لگتی ہے اور یہ عمل صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے؛ اعلیٰ اور ادنیٰ کی اس تفریق کے پس منظر میں ایک اہم کردار، امرا اور غربا کے درمیان فاصلے بھی ہوتا ہے جو عمومی طور پر تعلیمیافتہ اور غیرتعلیمیافتہ طبقات سے منسلک ہوتا ہے۔ اس دوزبانی کو طوالت بخشنے والی ایک وجہ اس صورت حال سے مستقل صرف نظر کرتے رہنے یا اس کو نظر انداز کرتے رہنے کی آتی ہے؛ نظراندازی کا یہ سلسلہ دانستہ یا نادانستہ چلتا رہتا ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق اس معاشرے میں موجود شرح خواندگی سے ہوتا ہے؛ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جس کی زبان میں لسانی ثنویت نا پائی جاتی ہو کیونکہ عام طور پر گھریلو زبان بے تکلفانہ ہونے کی وجہ سے ہی لسانی ثنویت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ وہ معاشرے کہ جن میں شرح خواندگی زیادہ ہوجاتی ہے ان میں لسانی ثنویت کی کیفیت موجود ہوتے ہوئے بھی کسی بڑے انشقاق یا تفریق کا باعث نہیں بنتی؛ اس کی بہترین مثال میں انگریزی اور جاپانی وغیرہ آجاتی ہیں۔

معاشرتی لسانیات

ترمیم

معاشرتی لسانیات (Sociolinguistics) میں لسانی ثنویت ایک اہم تصور ہے جس کی مدد سے معاشرے کے افراد میں ہونے والے تبادلۂ معلومات یا خیالات (جس کو رموز کہا جاتا ہے) اور ان کے مابین روابط کی معاشرتی ساخت کے مطالعے میں مدد ملتی ہے۔

عربی

ترمیم

جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہوا کہ بنیادی طور پر لسانی ثنویت دنیا کی ہر زبان میں پا ئی جاتی ہے کیونکہ اس کی اصل ابتدا گھریلو (مادری) زبان کی بے تکلفی اور آزاد بیانی میں ہوتی ہے اور معاشرے میں اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے پائے جانے والے مختلف طبقات اس لسانی ثنویت میں اضافے اور اس کو نمایاں کرنے کا سبب بنا کرتے ہیں۔ آج کل بولی جانے والی عربی زبان میں بھی یہ صورت حال دیکھنے میں آتی ہے؛ وہ عربی جو روایتی کہلائی جا سکتی ہے وہ رسمی مقاصد جیسے لکھائی پڑھائی اور دفاتر وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے جبکہ عام عربی بول چال وہ ہے جو گھر و گلی محلے میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ اس اعلٰی یا روایتی عربی کو قرآن کی عربی سے الگ سمجھا جانا چاہیے کیونکہ آج کل کی رسمی عربی بھی قرآن کی عربی سے خاصی مختلف ہے۔ عربی میں اس لسانی ثنویت کے بارے میں متعدد نظریات پیش کیے گئے ہیں اور اسی طرح اس کی ابتدا کے زمانے کے بارے میں؛ ان میں سب سے اہم اور منطقی نظریے کے مطابق عربی میں آج وہ لہجے جن کو لسانی ثنویت میں شمار کیا جاتا ہے فی الحقیقت الگ الگ متعدد زبانیں تھیں جو اسلام کی جغرافیائی حدود پھیلنے کے وقت اس میں سما گئیں اور قرآن و مسلمان ہوجانے والوں کی عبادات کی زبان ہونے کے ناطے ان کی زبان عربی میں بدل گئی۔ ان میں متعدد دور دراز کے علاقے جو مرکز اسلام سے دور تھے وہ اپنے اپنے اجداد کے تاریخی لہجے اور زبانیں بولا کرتے تھے جن کو بعد میں گو کہ عربی کی یکسانی میں شامل کر لیا گیا لیکن بہرحال لسانی ثنویت کی کیفیت وجود میں آئی۔