شیر شاہ سوری ، نے بھیرہ میں ایک بڑی مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جسے 1541ء میں مکمل کیا گیا اور اسے جامع مسجد شیر شاہ سوری کا نام دیا گیا۔ مسجد کا کل رقبہ 2976 مربع فٹ ہے جبکہ اس میں بیک وقت پندرہ سے بیس ہزار نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔

طرز تعمیر

ترمیم

مسجد کا طرزِ تعمیر لاہور کی بادشاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد جیسا ہی ہے۔ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ جامع مسجد شیر شاہ سوری ہمایوں کے دور میں تعمیر ہو رہی تھی۔ جب یہ مسجد مکمل ہوئی تو ہمایوں کو شکست ہو چکی تھی اور شیر شاہ سوری دہلی کے تحت پر براجمان ہو چکا تھا۔ یہ مسجد بھی شاہی مسجد کی طرح مکمل طور پر لال پتھروں سے بنی تھی جس پر انتہائی خوبصورت نقش و نگاری تھی مگر جب پنجاب رنجیت سنگھ کے قبضے میں گیا۔ تو اس نے مسجد کو بہت نقصان پہنچا۔ نقش و نگاری کو خراب کیا گیا۔ انگریز جب برصغیر پر قابض ہوئے تو انھوں نے مسجد کو دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کیا۔ مسجد کی مرمت کے دوران گنبد کو سفید چونا کر دیا گیا۔ مسجد کے صحن میں ایک بڑا حوض ہے جہاں ایک فوارہ لگا ہے مگر بنیادی طور پر یہ وضو کرنے کی جگہ تھی۔ مسجد کی دیکھ بھال ایک لمبے عرصے سے بگویہ خاندان کر رہا ہے جن کے بزرگوں نے آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے پنجاب کی جانب ہجرت کی تھی۔ مسجد کے بائیں جانب ایک کمرے میں بگویہ علمائے کرام کی قبریں بھی موجود ہیں۔ مسجد میں طلبہ کی تدریس کے لیے ایک بڑا ہال بھی بنا ہوا ہے جبکہ دور دراز کے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا انتظام بھی مسجد میں ہی کیا گیا ہے۔ بگویہ خاندان کی بدولت ہی اسے جامع مسجد بگویہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بھیرہ شہر کے متعلق دستاویزات اور عام استعمال کی چیزیں رکھی گئی ہیں ۔

حوالہ جات

ترمیم