بادشاہی مسجد
بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔
بادشاہی مسجد | |
---|---|
بنیادی معلومات | |
متناسقات | 31°35′17.07″N 74°18′36.45″E / 31.5880750°N 74.3101250°E |
مذہبی انتساب | اسلام |
ضلع | ضلع لاہور |
صوبہ | پنجاب، پاکستان |
ملک | پاکستان |
سنہ تقدیس | اپریل 1671ء |
مذہبی یا تنظیمی حالت | مسجد |
سربراہی | اورنگزیب |
تعمیراتی تفصیلات | |
نوعیتِ تعمیر | مسجد |
طرز تعمیر | اسلامی، مغلیہ |
سنہ تکمیل | مئی 1673ء |
تفصیلات | |
گنجائش | 100,000 |
گنبد | 3 |
مینار | 8 (4 بڑے، 4 چھوٹے) |
مینار کی بلندی | 176 فٹ 4 انچ (53.7464 میٹر) |
تاریخ
ترمیمہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو فدائی خاں کوکہ بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔
1671ء سے لے کر 1673ء تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے سامنے شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔
اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اس کا خواب دیکھا تھا کہ مسجد جنت میں موجود ھے اسی طرح کی مسجد اس نے زمین پر بنوائی ۔
فن تعمیر
ترمیمسید لطیف نے اپنی کتاب میں مسجد کا طرز تعمیر اس وقت حجاز (موجودہ سعودی عرب) میں موجود مکہ مکرمہ کے مقام پر ایک مسجد الوالد سے متاثر بیان کیا ہے۔ اگر ہندوستان میں دیگر تاریخی مساجد کے طرز تعمیر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس مسجد کا طرز تعمیر کافی حد تک جامع مسجد فتح پور سیکری سے مماثلت کھاتا ہے۔ یہ مسجد حضرت سلیم چشتیؒ کے عہد میں 1571-1575ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد‘ دہلی کی جامع مسجد ’’جہاں نما‘‘ ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1650-1656ء میں تعمیر کی تھی۔ پہلی نظر میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں تھے۔ یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی مسجد لاہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔ دہلی اور لاہور کی بادشاہی مسجد کی مماثلت کے بارے میں تحریر انگریز سرکار کے عہد میں چھپے لاہور گیزئٹیر نمبر 1883-84ء کے صفحہ نمبر(175-176) پر بھی ملتی ہے۔ اس میں ان دونوں مساجد کو جامع مسجد کے نام سے تحریر کیا گیا۔ لیکن طرز تعمیر میں نفاست کے حوالے سے جامع مسجد دہلی کو زیادہ بہتر مانا گیا۔ روایات کے مطابق دہلی کی جامع مسجد پر اخراجات دس لاکھ روپے آئے تھے جو لاہور کی مسجد سے چار لاکھ زائد تھے جبکہ لاہور کی مسجد صرف دو برس کی قلیل مدت میں تعمیر ہو گئی تھی اور دہلی کی مسجد پر پانچ برس سے زائد کا عرصہ لگا۔[1]
مرمت
ترمیمجوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
بادشاہی مسجد کتب خانہ
ترمیمبادشاہی مسجد میں ایک لائبریری بھی موجود ہے۔جب علما اکیڈمی بادشاہی مسجد میں موجود تھی تو یہ لائبریری علما کی علمی پیاس بجھانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس لیے لائبریری میں زیادہ تر عالمانہ کتب ہی موجود ہیں۔ لائبریری میں عموماً سناٹا ہوتاھے کتابوں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو کھولنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ جب سے علما اکیڈمی یہاں سے منتقل ہوئی ہے کوئی اس لائبریری میں آتا ہی نہیں البتہ لائبریری میں کتب بہت شاندار ہیں خصوصاََ جو لوگ عربی سے واقف ہیں ان کے لیے یہاں بہت کچھ ہے۔ لائبریری میں عربی کی بہت سے تفاسیر موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے
خاص واقعات
ترمیم22 فروری، 1974ء کو لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39 سربراہانِ مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
خطیب
ترمیمنگار خانہ
ترمیمحوالہ جات
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر بادشاہی مسجد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
ویکی ذخائر پر بادشاہی مسجد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |