جامع کبیر
جامع کبیر امام محمد کی اہم ترین اور دقیق ترین کتاب ہے۔
امام محمد بن شجاع ثلجی بغدادی (181ھ تا 266ھ) جو ایک واسطے سے امام اعظم کے شاگرد ہیں، ارشاد فرماتے ہیں کہ اسلامی لٹریچر میں علمِ فقہ میں جامعِ کبیر جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ بابرتی فرماتے ہیں کہ جامعِ کبیر علمِ فقہ کے اہم مسائل کا بڑا مجموعہ ہے۔ اس میں ایسی پیچیدہ روایات اور ایسے مضبوط دلائل ہیں کہ اس کو ایک معجزہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ کتاب انتہائی دقیق ہے، چنانچہ تمام اکا برِ احناف نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔ مثلاً: امام طحاوی، کرخی، ابو خازم , جصاص، رازی، فقیہ ابو اللیث سمر قندی، جرجانی، حلوائی، سرخسی، بزدوی برادران، قاضی خان، صاحب ہدایہ اور جمال الدین حصیری وغیرہم نے اس کتاب کی خدمت کی ہے۔ مگر اب تک کوئی شرح طبع نہیں ہوئی۔ اصل کتاب مولانا ابوالوفا، افغانی حیدرآبادی نے تین قلمی نسخوں کی مدد سے تصحیح کر کے حیدرآباد سے شائع کی ہے، جو متوسط سائز کے پونے چار سو صفحات میں ہے۔
جامعِ کبیر کے دو نسخے ہیں۔ جب امام محمد نے اس کو شروع میں تصنیف کیا تھا تو ان کے تلامذہ ابو حفص کبیر ابو سلیمان جوزجانی، ہشام رازی اور ابنِ سماعہ وغیرہم نے اس کو روایت کیا تھا۔ یہ پہلا نسخہ ہے، پھر مصنف نے اس پر نظرِ ثانی کی اور اس میں بہت سے ابواب ومسائل کا اضافہ کیا۔ اس نسخے کو بعد کے تلامذہ نے روایت کیا، یہ دوسرا نسخہ کہلاتا ہے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ آپ فتوی کیسے دیں، مؤلف : مفتی سعید احمد پالنپوری- صفحہ38مکتبہ حجاز دیوبند سہارنپور انڈیا