ابو جعفر طحاوی
امام ابو جعفر طحاوی تیسری صدی کے عظیم محدث و فقیہہ ہیں محدثین کے ہاں انھیں حافظ اور امام کا درجہ حاصل ہے جبکہ فقہا انھیں مجتہدمنتسب قرار دیتے ہیں۔ عموما امام طحاوی کے نام سے بھی معروف ہیں۔
محدث | |
---|---|
ابو جعفر طحاوی | |
(عربی میں: أبو جعفر الطحاوي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 اگست 853ء [1][2] مصر |
وفات | سنہ 935ء (81–82 سال) قاہرہ [3] |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
استاد | اسماعیل بن یحیٰی مُزنی ، ابو زرعہ دمشقی |
پیشہ | محدث ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | اسلامی عقیدہ ، تاریخ ، فقہ ، علم حدیث |
کارہائے نمایاں | عقیدہ طحاویہ |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمنام، احمد۔ کنیت، ابو جعفر۔ والد کا نام، محمد ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے۔ الامام الحافظ ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبد الملک بن سلمہ بن سلیم بن سلیمان بن خباب ازدی حجری طحاوی مصری حنفی۔
نسبت
ترمیممصر میں وادی نیل کے کنارے "طحا" نامی ایک بستی میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے آپ طحاوی کہلاتے ہیں۔ ازد یمن کا ایک قبیلہ ہے جو ازد بن عمران کی طرف منسوب ہے اور حجری قبیلہ حجر اس کی ایک شاخ سے منسوب ہے۔ حجر نام کے تین قبائل تھے۔ حجر بن وحید۔ حجر ذی اعین۔ حجر ازد۔ اور ازد نام کے بھی دو قبیلے تھے، ازدحجر۔ ازد شنو ہ۔ لہذا امتیاز کے لیے آپ کے نام کے ساتھ دونوں ذکر کر کے ازدی حجری کہا جاتا ہے آپ کے آبا واجداد فتح اسلام کے بعد مصر میں فروکش ہو گئے تھے لہذا آپ مصر ی کہلائے ۔
امام طحاوی کی پیدائش کب ہوئی اس بارے میں کئی قول ہیں الجواہرالمضیہ میں خود امام طحاوی کاقول نقل کیاہے : ابوسعید بن یونس نے کہامجھ سے امام طحاوی نے بیان کیا کہ میری پیدائش 239ھ بمطابق 853ء میں ہوئی۔ امام طحاوی کی پیدائش کے بارے میں ابن عساکر نے پوری تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاہے جب کہ اس کے مقابل دوسرامشہور قول امام ذہبی کا ہے کہ امام طحاوی کی ولادت 237ھ کو ہوئی۔ لیکن اصح قول یہ ہے کہ ان کی پیدائش 229ھ بمطابق 843ء میں ہوئی ہے
تعلیم و تربیت
ترمیمامام طحاوی کے والد ادب و شاعری میں ممتاز مقام رکھتے تھے اوران کی والدہ جوابو ابراہیم مزنی کی ہمشیرہ تھیں وہ خود بھی بڑی فقیہہ اورعالمہ تھیں امام سیوطی نے ان کا ذکر مصر کے شافعی فقہا میں کیاہے۔ گویا انکا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔۔ ایسے علمی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والابچہ نامور محدث ومجتہد نہ بنے توعجیب بات ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کرنے کے علاوہ امام طحاوی نے ابو جعفر احمد بن ابی عمران موسیٰ بن عیسیٰ اور امام ابوزکریا یحیی بن محمد بن عمروس سے مزید تعلیم حاصل کی انہی کے پاس قرآن حفظ کیا۔ امام مزنی کا فقہا شافعیہ میں بڑامقام ومرتبہ ہے امام طحاوی نے فقہ اورحدیث کی تحصیل امام مزنی سے کی۔ باوجود علمی گھرانہ حاصل ہونے کے امام طحاوی جہاں کہیں گئے وہاں کے علما سے استفادہ کیا چنانچہ امام طحاوی جب شام ،بیت المقدس ،عسقلان وغیرہ گئے توانہوں نے اس سفر کے ذریعہ وہاں کے علما سے استفادہ کیا اوربطور خاص شام میں انھوں نے قاضی القضاۃ ابوحازم سے استفادہ کیااوران سے فقہ وحدیث دونوں حاصل کیا۔
تبدیلی مذہب
ترمیمامام زاہد الکوثری نے ایک کتاب الحاوی فی سیرۃ الطحاوی میں لکھا امام مزنی خود بھی امام ابوحنیفہ اوران کے اجلہ تلامذہ امام ابویوسف وامام محمد کی کتابیں زیر مطالعہ رکھتے تھے اوراستفادہ کرتے تھے اوریہی ان کے شافعی سے حنفی ہونے کی وجہ بنی۔ خود امام طحاوی سے منقول ہے کہ میں نے اولاًامام مزنی سے حدیثیں لکھی اورامام شافعی کے قول کو اختیار کیاچند سالوں کے بعد جب احمد بن ابی عمران قاضی بن کر مصرآئے تو میں نے ان کی شاگردی اختیار کی اوران کے قول کو اختیار کیا۔
اساتذہ و شیوخ
ترمیمامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے ان میں چند ایک یہ ہیں۔ ابراہیم بن ابی داؤد سلیمان بن داؤد الاسدی ،احمد بن شعیب بن علی النسائی صاحب السنن ،احمد بن ابی عمران القاضی،اسحاق بن ابراہیم بن یونس البغدادی،اسماعیل بن یحیی المزنی ،بحربن نصر بن سابق الخولانی،بکار بن قتیبہ بن البصری القاضی،یونس بن عبد الاعلی الصدفی، ہارون بن سعیدایلی،محمد بن عبد اللہ بن الحکم،عیسیٰ بن مشرود اور عبد الغنی بن رفاعہ
شاگرد وتلامذہ
ترمیمامام طحاوی کی علمی شہرت جب دور دور تک پھیل گئی توپھر تشنگان علم اورعلم حدیث وفقہ کے شائقین نے دوردراز سے آپ کی جانب رجوع کیااورآپ کی شاگردی اختیار کی۔ امام طحاوی کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جیساکہ الجواہر المضیئہ میں کہاہے چند اسماء ذکر کیے جاتے ہیں۔ احمد بن ابراہیم بن حماد احمد بن محمد بن منصور الانصاری الدامغانی عبد الرحمن بن احمد بن یونس المورخ سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ابو القاسم صاحب المعاجم عبد اللہ بن عدی بن عبد اللہ الجرجانی ابو احمد صاحب کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل علی بن احمد الطحاوی ابو القاسم عبید اللہ بن علی الداؤدی شیخ اہل الظاہر فی عصرہ، محمد بن عبد اللہ بن احمد بن زبر ابوسلیمان الحافظ ابوبکرمحمد بن جعفربن الحسین البغدادی المعروف بغندرالحافظ المفید
وفات
ترمیمامام طحاوی کی وفات یکم ذیقعدہ 321ھ بمطابق 933ء میں 82 سال کی عمر میں ہوئی[4]
تصنیفات وتالیفات
ترمیمامام طحاوی کی تصنیفات وتالیفات میں کچھ ایسی ہیں جو مطبوعہ یامخطوطہ کی شکل میں موجود ہیں اوربعض ایسی ہیں جو زمانہ کے دست برد سے ضائع ہوگئیں یامفقود الخبر ہیں ان کے بارے میں کسی کو تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔
احکام القرآنیہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوئی ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ ترکی کے مکتبہ وزیر کبری میں رقم 814میں موجود ہے۔
اختلاف العلماءیہ بہت بڑی کتاب ہے اورجیساکہ امام طحاوی کے سوانح نگاروں نے ذکر کیاہے یہ کتاب تقریبا 130جلدوں میں ہے اس کتاب کا جواختصار حافظ ابوبکر الجصاص الرازی نے کیاہے وہی دستیاب ہے اس کتاب کا نسخہ مکتبہ جاراللہ ولی الدین استنبول اور دارالکتب المصریہ میں موجود ہے۔
التسویۃ بین حدثناواخبرناایک چھوٹاسارسالہ ہے جس میں علم حدیث کی ایک خاص اصطلاح حدثنااوراخبرنا کے بارے میں بحث کی گئی ہے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔
الجامع الکبیر فی الشروطیہ کتاب مکمل طور پر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے مثلا اذکار الحقوق والرہون اورکتاب الشفعہ شائع ہو چکی ہے۔
السنن الماثورہیہ امام ابوجعفر الطحاوی کی وہ روایتیں ہیں جوانہوں نے اپنے ماموں امام مزنی سے امام شافعی کے واسطے سے سنی ہیں اس کو سنن شافعی بھی کہاجاتاہے۔ حال میں خلیل ابراہیم ملاخاطر کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔
شرح معانی الآثاریہ امام طحاوی کی سب سے مایہ ناز کتاب ہے جس میں انھوں نے احادیث احکام پر بحث کی ہے۔ یہ بھی کئی مرتبہ شائع ہو چکی ہے اوراہل علم کی آنکھوں کا سرمہ ہے۔
صحیح الآثاریہ کتاب تاحال طبع نہیں ہو سکی ہے لیکن اس کا نسخہ مکتبہ بانتہ میں موجود ہے۔
الشروط الصغیرعراق کے دیوان الاوقاف احیاء التراث الاسلامی کی جانب سے دکتور روحی اوزجان کی تحقیق سے مطبع العانی سے شائع ہو چکی ہے۔
العقیدۃالطحاویہ امام طحاوی نے شروع میں بیان کیاہے اس میں وہ عقائد ہین جو امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اورامام محمد سے منقول وماثور ہیں۔ یہ بھی امام طحاوی کی مایہ ناز کتابوں میں سے ہے اورکئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے اوراس کے بہت سارے شروح لکھے گئے ہیں۔
مختصر الطحاوی(الاوسط)یہ کتاب فقہ میں ہے اور اولا لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد دکن سے علامہ ابوالوفاء الافغانی کی تحقیق سے شائع ہوئی تھی بعد کو قاہرہ سے مطبع دارالکتاب العربی سے شائع ہوئی اس پر بھی بہت ساری شرحیں لکھی گئی ہیں۔
مشکل الآثار (فی اختلاف الحدیث)یہ کتاب دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن الھند نے شائع کی تھی اوریہ کتاب آدھی شائع ہوئی جوچارجلدوں میں ہے۔ اس کے بعد دوبارہ یہ کتاب مشہور محقق علامہ شعیب الارنوئوط کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا بھی کئی حضرات نے ایک اختصار کیاہے جن میں سے ایک یوسف بن موسی ابوالمحاسن الحنفی ہیں یہ اختصار حیدرآباد دکن سے شائع ہو چکی ہے۔
امام طحاوی کی مفقود کتابیں
ترمیم- احکام القِران (اکثرلوگ غلطی یہ کرتے ہیں کہ امام طحاوی کی احکام القرآن اور احکام القِران دونوں کو ایک یا اس کی بجائے اس کو اوراس کی بجائے اس کو سمجھ لیتے ہیں اس کا خیال رہے دونوں الگ الگ کتابیں ہیں۔
- اخبارابی حنیفۃ واصحابہ (اومناقب ابی حنیفہ)
- اختلاف الروایات علی مذہب الکوفیین کتاب الاشربۃ
- التاریخ الکبیر یہ کتاب جو تاریخ میں لکھی گئی تھی وہ بھی مفقود الخبر ہے لیکن اس کتاب سے ان کے شاگرد اورمورخ ابن یونس نے بہت استفادہ کیاہے اورجگہ جگہ اس کاحوالہ بھی دیاہے۔
- الحکایات والنوادر
- حکم
- ارض مکہ
- الردعلی ابی عبید فیمااخطاء فیہ فی کتاب النسب
- الرد علی الکرابیسی (نقض کتاب المدلسین علی الکرابیسی)
- الرد علی عیسی بن ابان [1][مردہ ربط]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عنوان : Türkiye Diyanet Vakfı İslâm Ansiklopedisi
- ↑ https://islamansiklopedisi.org.tr/tahavi
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/119311917 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ طحاوی شریف ،جلد 1،صفحہ 7،امام ابو جعفر الطحاوی،حامد اینڈ کمپنی لاہور