جان ولیم گلیسن (پیدائش:14 مارچ 1938ء کیوگل، نیو ساؤتھ ویلز)|وفات:7 اکتوبر 2016ءٹام ورتھ، نیو ساؤتھ ویلز،)ایک آسٹریلوی کرکٹ کھلاڑی تھا جس نے 1967ء سے 1972ء تک 29 ٹیسٹ کھیلے[1] وہ اپنے انوکھے باؤلنگ اسٹائل کے لیے مشہور ہیں[2] جو کرکٹ آسٹریلیا کے سی ای او جیمز سدرلینڈ کے مطابق "بلے بازوں کو بھڑکا" دیتا تھا اور وہ "کسی بھی ٹیم کے بہترین بلے بازوں کو باقاعدگی سے بے وقوف بنانا جانتا تھا"[3]۔

جان گلیسن
ذاتی معلومات
مکمل نامجان ولیم گلیسن
پیدائش14 مارچ 1938(1938-03-14)
ویانگری، نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا
وفات7 اکتوبر 2016(2016-10-70) (عمر  78 سال)
ٹیمورتھ، نیو ساؤتھ ویلز
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیلیگ بریک گوگلی
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 242)23 دسمبر 1967  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ13 جولائی 1972  بمقابلہ  انگلینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ فرسٹ کلاس
میچ 29 116
رنز بنائے 395 1095
بیٹنگ اوسط 10.39 11.06
100s/50s -/- -/1
ٹاپ اسکور 45 59
گیندیں کرائیں 8857 27180
وکٹ 93 430
بولنگ اوسط 36.20 24.95
اننگز میں 5 وکٹ 3 22
میچ میں 10 وکٹ 2
بہترین بولنگ 5/61 7/52
کیچ/سٹمپ 17/- 58/-

ابتدائی دور

ترمیم

گلیسن شمالی نیو ساؤتھ ویلز قصبے ویانگری (کیوگل سے 14 کلومیٹر شمال میں) پیدا ہوا تھا اور ٹام ورتھ شہر میں پلا بڑھا تھا۔ وہ ایک وینگری ڈیری فارمر کا بیٹا تھا[4] اور اس نے اپنی دو انگلیوں والی گرفت سے گیند کرنے کے لیے انگلی کی طاقت کو بہت خوبی سے استعمال کیا اس کی اس طاقت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ 15 سال کی عمر میں خود گایوں کو دودھ دھوتا رہا اس بنا پر اس کی انگلی طاقت کا سرچشمہ بنی، اس نے پوسٹ ماسٹر جنرل کے محکمے میں کام کیا[5]

باولنگ کا انداز

ترمیم

اس نے اپنی دو انگلیوں والی گرفت سے گیند کرنے کے لیے درکار انگلی کی طاقت کو اپنے بچپن سے منسوب کیا، جو اس نے گایوں کو دودھ دینے میں گزارا۔15 سال کی عمر میں، اس نے پوسٹ ماسٹر جنرل کے محکمے کے لیے کام کیا۔ اس نے دو انگلیوں کا استعمال کرتے ہوئے جیک ایورسن کے اس وقت کی منفرد "مڑی ہوئی انگلی" کے عمل سے ملتی جلتی گرفت کا استعمال کیا ایک مڑی ہوئی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کو گیند کے خلاف دونوں طرف سے دبانے کی کوشش میں بولنگ کی ایک نئی قسم تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ایورسن کے بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کے بعد انقلابی باؤلنگ گرفت کا تجربہ کیا[6] گلیسن نے تیز وکٹوں پر نیچی گیند کرنے کی ترتیب بنائی کیونکہ اس وقت تیز وکٹ سے تیز رفتار گیند کے بڑے اسپنر نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس درستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی باولنگ کو دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ پرانے ایل بی ڈبلیو قانون کے تحت، بلے بازوں کو آف سٹمپ کے باہر مارے جانے پر آؤٹ نہیں کیا جا سکتا تھا، جس سے بلے باز اس کی گوگلی کو ختم کرنے کے لیے لمبی شارٹ مارنے کا رسک لیے بغیر اپنے پیڈ کو محفوظ طریقے سے استعمال کر سکتے تھے[7] بعد ازاں انھوں نے ورلڈ سیریز کرکٹ کی افتتاحی گورننگ کمیٹی میں خدمات انجام دیں۔ آسٹریلیا کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ٹیلی کام کے ساتھ 40 سال کی خدمات کے بعد، وہ 1995ء میں فرم کے نیو ساؤتھ ویلز کے انٹرنل کمیونیکیشن مینیجر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔

کیرئیر

ترمیم

گلیسن شیفیلڈ شیلڈ میں 1966-67ء کے آسٹریلیا کرکٹ سیزن میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کرنے والوں میں سے ایک تھا، جس نے چھ میچوں میں 23 وکٹیں حاصل کیں۔ اس نے ایک میچ میں پانچ گیندوں پر چار وکٹیں حاصل کیں، جس میں ایک ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی۔ سڈنی کے مقام پر وکٹوریہ کے خلاف 5/28 کی یہ کارکردگی ہر سطح پر سراہی گئی اس کے بعد اسے سال کے آخر میں نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی آسٹریلین دوسری الیون ٹیم میں منتخب کیا گیا۔ اور بعد ازاں وہ آسٹریلیا میں بھارت کے خلاف 1967-68ء کی ٹیسٹ سیریز کے لیے چنے گئے۔ اس نے ایڈیلیڈ اوول میں پہلے ٹیسٹ میں 2/36 اور 2/38 لے کر اپنا ڈیبیو کیا تاہم۔بدقسمتی سے وہ بقیہ تین ٹیسٹ میں کم کامیابی حاصل کر سکے، پانچ وکٹیں کے بہترین اعدادوشمار کے ساتھ انھوں نے 28.55 کی اوسط سے مجموعی طور پر نو وکٹیں حاصل کیں انھیں 1968ء میں انگلینڈ کے ایشیز دورے کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ سبھی پانچ ٹیسٹ میچوں میں شریک رہے اور 34.66 کی اوسط سے 12 وکٹیں اپنے کھاتے میں جمع کیں۔ 1968-69ء سیزن میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں میں گلیسن کافی متحرک دکھائی دیے پہلے دو ٹیسٹ میں اس نے 13 وکٹیں حاصل کیں، جن میں 5/122 اور 5/61 شامل تھے انھوں نے اور 32.46 کی اوسط سے 26 وکٹوں کے ساتھ سیریز ختم کی۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ اور ایڈیلیڈ اوول میں ٹیسٹ میں مسلسل اس نے اپنی بلے بازی سے بھی سب کو متاث کیا، جس نے 42* اور 45 کے دو سب سے زیادہ اسکور بنائے۔ اس کے بعد 1969-70ء کا ہندوستان کا دورہ کیا جہاں 35 سال کے بعد ٹیسٹ سیریز جیتی گئی۔ اس نے ممبئی کے پہلے ٹیسٹ میں 7/10 کے اعداد و شمار حاصل کیے، جو ایک آسٹریلوی کی طرف سے آٹھ وکٹوں کی فتح میں نمایاں واپسی تھی، لیکن اگلے چار میچوں میں صرف تین وکٹیں لے کر سیریز کا اختتام 34.70 پر دس وکٹوں کے ساتھ ہوا۔ 1969– 70ء جب آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا، گلیسن نے اپنے دائیں ہاتھ کا دس ہزار آسٹریلین ڈالرز میں بیمہ کرایا۔ گلیسن نے دورے کے آغاز میں صوبائی ٹیموں کے خلاف دو اول درجہ میچوں میں 18 وکٹیں حاصل کیں اور پھر کیپ ٹاؤن کے پہلے ٹیسٹ میں مزید پانچ اور جوہانسبرگ کے تیسرے ٹیسٹ میں دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ زیادہ تر جنوبی افریقی اسے پہلی بار دیکھ رہے تھے اور اس کے باولنگ کے انداز کو سمجھنے کی کوشش میں تھے۔ تاہم یہ جنوبی افریقہ کے بیری رچرڈز ہی تھے، جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اس کا خاطر خواہ مقابلہ کیا کیونکہ پوری سیریز میں 38.94 کی اوسط سے 19 وکٹیں لینے والے گلیسن نے سات اننگز میں ایک بار بھی رچرڈز کو اپنا شکار نہیں بنایا، جنوبی افریقہ نے سیریز میں 4-0 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ گلیسن 1970-71ء کی ایشز سیریز میں آسٹریلیا کے سب سے زیادہ وکٹ لینے والے کھلاڑی تھے، لیکن ان کی 14 وکٹوں کی اوسط 43.21 تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ انگلش بلے بازوں نے انھیں کاگی حد تک سمجھ لیا تھا۔1971-72ء کے مقامی سیزن کے دوران اس نے آٹھ میچوں میں 16.31 کی اوسط سے 45 وکٹیں حاصل کیں، جس میں لگاتار دو میچوں میں 19 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ گلیسن کو 1972ء کے ایشز ٹور کے لیے واپس بلایا گیا تھا، لیکن پہلے تین ٹیسٹ کے بعد انھیں ڈراپ کر دیا گیا، جس میں وہ 52.33 کی اوسط سے صرف تین وکٹیں حاصل کر سکے۔ اس کے پاس بلے کی معمولی مہارت تھی، جس میں ایک اول درجہ کی نصف سنچری اور 45 کا ٹیسٹ ٹاپ اسکور تھا۔

انتقال

ترمیم

گلیسن کا انتقال 08 اکتوبر 2016ء کو ٹام ورتھ، نیو ساؤتھ ویلز، بعمر 78 سال 208 دن کی عمر میں ہوا۔ کرکٹ آسٹریلیا کے سی ای او جیمز سدرلینڈ نے ان کی وفات پر کہا کہ "جان نے ہر جگہ کرکٹ کے شائقین کے تصور کو اپنی گرفت میں لے لیا کیونکہ اس نے اپنی عجیب باؤلنگ گرفت سے بلے بازوں کو حیران کر دیا، ایک اور پراسرار آسٹریلوی اسپنر جیک ایورسن سے مستعار لیا گیا۔" گلیسن کے پسماندگان میں بیوی سینڈرا، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم