جبت
جبت بت۔ جادوگر شیطان۔ جادو۔ جبت اور طاغوت سے ہر وہ جنس مراد ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کی جاوے۔ خواہ وہ بت ہو یا آدمی ہو یا جن۔ یہ لفظ قرآن میں ایک بار آیا ہے۔
(اے پیغمبر، ) کیا تم نے ان لوگوں (کے حال) پر نظر نہیں کی جن کو کتاب (الٰہی کے علم میں) سے ایک حصہ دیا گیا تھا۔ (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کی نسبت کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے تو کہیں زیادہ یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔
الجبت جبت اور جبس اس دھوان کو کہتے ہیں جو کسی کام کا نہ ہو اور بعض نے کہا ہے کہ دراصل جبس کے سین کو تار سے تبدیل کر لیا گیا ہے۔ تاکہ مبالغہ پر دلالت کرے شاعر نے کہا ہے۔ ( رجز ) یعنی عمر وبن پر بوع تمام لوگوں سے ناکام ہے۔ نیز ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پر ستش کی جائے وہ جبت کہلاتی ہے اور ساحر کا ہن کو بھی جبت کہا جاتا ہے قرآن میں ہے۔ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] کہ بے اصل باتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔[1]
جبت لغت میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بیکار محض ہو۔ الذی لا خیر فیہ۔ اس کا اطلاق جادو، جادوگر، جوتش، رمل اور فال گری وغیرہ خرافات پر ہوتا ہے۔
حضور کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ارشاد ہے۔ الْعِيَافَةُ، وَالطِّيَرَةُ، وَالطَّرْقُ مِنَ الجِبْتِ[2]
شگون (نیک وبد) لینے کے لیے پرندے کو اڑانا اور فال نکالنا اور زمین پر پتھر سے لکیر لگانا (فال وغیرہ کے لیے) بت پرستی (جبت کے اعمال میں) سے ہے۔
کنکریاں پھینک کر فال پکڑنے کو طرق کہتے ہیں اور الطیرۃ کا معنی بدشگونی ہے اور العیافۃ پرندوں کے ناموں، آوازوں اور ان کے گزرنے سے فال پکڑنے کو کہا جاتا ہے (حاشیہ قرطبی)
یہ سب اوہام پرستی کی اقسام ہیں۔ صاحب المنار لکھتے ہیں فالمعنی الجامع للجبت ہو الدجل والاوھام والخرافات یعنی مکرو فریب، وہم پرستی اور خرافات کو جبت کہا جاتا ہے[3]