جدون
کشمیر کے مغرب میں متصل ہزارہ ڈویژن اور شانگلہ میں پٹھان آباد ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ تحصیل ہری پور میں یوسف زئی کی ذیلی شاخ اتمان زئی، ترین، کاکڑ، پنی، شلمانی اور مشوانی آباد ہیں۔ [1] ایبٹ آباد اور شانگلہ کٹکوڑ پورن چکسیر اور لیلونی میں جدون یا گدون آباد ہیں اور تحصیل مانسہرہ میں سواتی پٹھان قبائل آباد ہیں۔ سواتی اور مشوانی اب بھی اپنی پشتو زبان میں بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ اور لوگوں نے اپنی پشتو زبان کو چھوڑ کر پنجابی یا ہند کو زبان کا استعمال کرنا شروع کیا۔ علاقہ چھپہ میں بلکہ مرگلہ پہاڑ تک بھی اکثر یسوفزئی پٹھان آباد ہیں اور مکڈھ میں بلاق خٹک آباد ہیں جن کی زبان اب بھی پشتو ہے مگر چچھ میں بعض جگہ پشتو کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی مادری پشتو زبان چھوڑنے پر سخت افسوس ہے جو قومی زوال کی نشانی ہے۔ [2]
گدون
ترمیمیہ عبرانی نام ہے۔ یہ قبیلہ اس وقت ضلع صوابی اور ایبٹ آباد میں سکونت پزیر ہے۔ واضح ہو کہ گدون عبرانی لفظ گدعون سے ماخوذ ہے اور جدون عربی لفظ جدعون سے جو ایک افغان قبیلہ کے جداعلیٰ کے ایک ہی نام کے دو مختلف تلفظ ہیں۔ دور قضا ۃ میں گدعون ایک مشہور نبی گذرے ہیں۔ جن کی اولاد اس وقت ان کی نسبت سے گدون یا جدون کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ قاضیوں کی کتاب باب 6 آیت 13 کے مطابق گدعون بنی اسرائیل کے پہلے قاضی تھے۔
واضح ہو کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جس میں بنی اسرائیل کو دشمنوں کی طرف سے حملوں اور قسم قسم کی زیادیتوں سے پریشانی لاحق ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں مولانا سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
آخر جدعون(جدون) نامی ایک سردار ان میں پیدا ہوا جس نے بنی اسرائیل کی قوت کو مجتمع کیا اور صرف تین سو منتخب آدمیوں کو لے کر اسنے اہل مدین پر شبخون مارا۔ رات کی تاریکی میں دوست و دشمن کی تمیز نہ ہوئی۔ ایک لاکھ بیس ہزار اہل مدین خود اپنوں اور دشمنوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ عوریب اور ذیب نامی مدین کے دو بادشاہ قید ہوئے جن کو نہایت ذلت سے قتل کیا گیا اور دوبارہ شاہ زاباح اور صلمناع پندرہ ہزار آدمیوں کے ساتھ بھاگ نکلے لیکن ان کو پناہ نہ مل سکی۔
ضلع ہزارہ کے بارے میں کیرو لکھتا ہے:
’’وسطی اور زیریں ہزارہ کے کچھ لوگ پٹھان ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگوں نے جن میں یوسف زئی، جدون اور ترین بھی شامل ہیں شمالی پنجاب کے طور طریقے اور زبان اپنا لی ہے۔ کلابٹ اور تربیلہ کے لوگ یوسف زئی نسل کے اعتبار سے کھرے پٹھان ہیں لیکن غیر پختون قبائل کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ بھی اپنی زبان بھول گئے اور ان کی پختون ولی میں پہلی سی شدت نہیں رہی۔ البتہ ابھی تک مشوانیوں کا ہمسایہ قبیلہ موجود ہے جس نے ہری سنگھ کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ یہ لوگ کھرے پٹھان ہیں اور دریائے سندھ اور وادی ہزارہ کے درمیان میں گنگہر کی پہاڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان کا مرکز کئی دیہات کا ایک جھرمٹ ہے جو سری کوٹ کہلاتا ہے۔ یہ جگہ پہاڑیوں کے اندر محفوظ علاقہ میں واقع ہے۔ یہاںمشوانیوں نے پٹھانوں کے رہن سہن کے دلچسپ طریقے برقرار رکھے ہیں۔ وہ قرن اور صدیاں گذر جانے پر بھی نہیں بدلے۔‘‘
حوالہ جات
ترمیم- ↑ David Emmanuel Singh (2012)۔ Islamization in Modern South Asia: Deobandi Reform and the Gujjar Response۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 200۔ ISBN 9781614511854۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2014
- ↑ Shashishekhar Gopal Deogaonkar, Shailaja Shashishekhar Deogaonkar (1992)۔ The Banjara۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 18,19۔ ISBN 9788170224334