جزیرے کے قیدی (ناول)
جزیرے کے قیدی ایک سنسنی خیز ناول ہے جسے انگریزی کی معروف جاسوسی نگار اگاتھا کرسٹی نے تحریر کیا۔ یہ ان کا سب سے زیادہ بکنے والا ناول ہے جو ان کے بقول لکھنے میں سب سے مشکل ثابت ہوا۔[2] پہلی بار یہ ناول 6 نومبر 1939ء کو مملکت متحدہ میں کولن کرائم کلب نے Ten Little Niggers کے عنوان کے تحت شائع کیا۔[3]اس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ساتھی میں شائع ہوا۔
فائل:Fatima Noor.jpg اردو ترجمے کا سرورق | |
مصنف | اگاتھا کرسٹی |
---|---|
اصل عنوان | جزیرے کے قیدی (اردو عنوان) کا سرورق |
مترجم | فاطمہ نور صدیقی |
مصور سرورق | اسٹیفن بلمین |
ملک | مملکت متحدہ |
زبان | انگریزی، اردو |
صنف | پراسرار، جُرم، نفسیاتی پراسرار، خوفناک |
ناشر | کولن کرائم کلب |
تاریخ اشاعت | 6 نومبر 1939 |
صفحات | 272[1] |
قبل ازاں | قتل آسان ہے ناول) |
ویب سائٹ | And Then There Were None |
کہانی
ترمیم1930ء کی دہائی کے اخیر پر 8 اگست کو ڈیون (انگلستان) کے ساحل کے قریب ایک الگ تھلگ چھوٹے سے جزیرے پر ایسے دس مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دس افراد کو جو پہلے کبھی آپس میں نہیں ملے ہوتے، چھٹیاں گزارنے کی ایک دعوت پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ جزیرے کو حال ہی میں ایک امیر شخص یو این اوین نے خریدا تھا لیکن جب یہ سب لوگ ایک مقررہ دن جزیرے پر پہنچتے ہیں تو ان کا میزبان ناگزیر وجوہ کی بنا پر وہاں موجود نہیں ہوتا۔ جزیرے پر بنا بنگلہ کافی دلچسپ انداز میں سجایا گیا تھا، وہاں پر دس کرسٹل ڈولز پر مشتمل ایک عجیب و غریب شوپیس تھا اور مہمانوں کے سونے کے ہر کمرے میں بچوں کی ایک ہی نظم کو فریم کر کے لگوایا گیا تھا۔ اس جزیرے کا مقامی قصبے سے سواے کشتی کے کوئی اور رابطہ نہیں تھا۔ پہلی رات نیگر آئی لینڈ کے مہمانوں کے لیے قیامت بن کر اترتی ہے، جب ان کو کیسٹ ریکارڈ سنوایا جاتا ہے جس میں موجود آواز ان میں سے ہر ایک پر قاتل ہونے کا الزام دائرکرتی ہے۔ اس آواز کے بقول وہ سب اپنے اپنے ماضی میں کوئی ایسا قتل کر چکے ہیں جسے دنیا کی کوئی عدالت ثابت کرسکتی ہے نہ سزا دے سکتی ہے۔ اسی وجہ سے جزیرے کے مالک مسٹر اوین نے ان سب کو سزا دینے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ یہ سب سننے کے بعد پھیلنے والی افراتفری میں ایک نوجوان مرجاتا ہے جسے وہاں موجود ڈاکٹر خودکشی کا کیس قرار دیتا ہے لیکن جب جزیرے کی ملازمہ بھی سوتے میں ہی انتقال کر جاتی ہے تو باقی افراد ٹھٹھک جاتے ہیں، وہ شک میں مبتلا جزیرے کی تلاشی لیتے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگلی شام تک ایک اور مہمان قتل ہو جاتا ہے جب کہ جیسے جیسے لوگ مر رہے ہوتے ہیں۔ شوپیس میں سے ایک ایک گڑیا کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ قاتل زندہ بچے افراد میں سے ہی کوئی ہے۔ لیکن باوجود ساری احتیاط کے فرداً فرداً جزیرے کے مہمان مرنے لگتے ہیں۔ کوئی کلہاڑی کی چوٹ سے مارا جاتا ہے کسی کو زہر دیا جاتا ہے۔ سمندر میں ڈوب کر، گولیاں کھا کر آخر کار جزیرے میں صرف ایک لڑکی بچتی ہے۔ اس لڑکی ویرا کے سامنے قاتل اپنے آپ کو ظاہر کردیتا ہے۔ قاتل ایسا شخص تھا جسے سب مرا ہوا تسلیم کر چکے ہوتے ہیں لیکن وہ دراصل زندہ حالت میں اپنا کام انجام دے رہا ہوتا ہے، وہ اپنی کامیابی پر جشن مناتا آخری مہمان کو مارنے کے لیے پر تول ہی رہا ہوتا ہے کہ ویرا اسے مار دیتی ہے لیکن جب اسے اپنے بچنے کی کوئی امید نہیں دکھائی دیتی تو وہ مرنے سے پہلے پولیس کے نام ایک پیغام چھوڑ جاتی ہے جس کے ذریعہ پولیس کو اصل قاتل کا علم ہوجاتا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "British Library Item details"۔ primocat.bl.uk۔ 31 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2018
- ↑ "And Then There Were None"۔ Agatha Christie Limited۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جولائی 2018
- ↑ "Review of Ten Little Indian Boys"۔ The Observer۔ 5 نومبر 1939۔ صفحہ: 6