جمال ابڑو

ترقی پسند سندھی ادیب

جمال ابڑو ممتاز ماہر تعلیم علی خان ابڑو کے بیٹے تھے - انھوں نے ابتدائی تعلیم میہڑ کے قریب اپنے گاؤں سانگی میں حاصل کی۔ وہ کچھ عرصہ جوناگڑھ میں بھی زیر تعلیم رہے-

جمال ابڑو
جمال ابرو

معلومات شخصیت
پیدائش 2 مئی 1924(1924-05-02)
سنگین(ضلع دادو), سندھ, پاکستان
وفات جون 30، 2004(2004-60-30) (عمر  80 سال)
کراچی
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1948 میں جمال ابڑو وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے- کچھ عرصے تک پبلک پراسیکیوٹر رہنے کے بعد عدلیہ سے منسلک ہو گئے۔ وہ سندھ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہوئے- اس دوران وہ سندھ اسمبلی کے سیکریٹری اور سروسز ٹربیونل کے چیئرمین بھی رہے- لیکن ان کی پہچان ادب اور ان کے ترقی پسند خیالات تھے-

انھوں نے اسکول کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا- انھوں نے سچ، پیار، محبت، انسانی حقوق، مساوات اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا-

ان کی پہلی کتاب ’ پشو پاشا ‘ افسانوں کا مجموعہ تھی جس نے انھیں امر کر دیا- ان کی کہانیوں نے مواد، اسلوب، فن اور خیالات کے حوالے سے سندھی ادب میں ایک انقلاب برپا کر دیا- انھوں نے سندھی افسانہ نگاری کو نئے رجحانات سے روشناس کیا۔

ابڑو کا شمار جدید سندھی افسانے کے بانیوں میں ہوتا ہے- ان کے بعض افسانوں کے ترجمے انگریزی، اردو، روسی اور جرمن زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں-

جمال ابڑو کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے سندھی ادب میں ترقی پسند خیالات کو ناصرف روشناس کرایا بلکہ اس مقصد کے لیے علمی کام اورتنظیم سازی بھی کی-

وہ سندھی ادیبوں کی ترقی پسند تنظیم سندھی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے- اس تنظیم نے سندھ میں سیاسی فکر کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا-

ان کے بیٹے بدر ابڑو سندھ کے ممتاز ادیب اور محقق ہیں-

جمال ابڑو کو ادب کے علاوہ سندھ کی تاریخ اور ثقافت پر بھی دسترس حاصل تھی - انھوں کی خود نوشت سوانح کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں-

ترقی پسند فکر رکھنے والے ابڑو عمر کے آخری حصے میں مذہب کی طرف راغب ہو گئے تھے۔80 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔