سندھ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صوبہ

سندھ (سندھی: سنڌ)‏ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبان سندھی اور صوبائی دار الحکومت کراچی ہے۔سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔


سندھ
صوبہ
سندھ
پرچم
سندھ
مہر
عرفیت: مہران (باب)، باب الاسلام
سندھ کا محل وقوع
سندھ کا محل وقوع
ملک پاکستان
قیام
  • 1 جولائی 1970
صوبائی دار الحکومتکراچی
حکومت
 • قسمخود مختار صوبائی حکومت
 • گورنرعمران اسماعیل
 • وزیر اعلیٰسید مراد علی شاہ
 • چیف سیکریٹری سندھاعظم سلیمان خان
 • مقننہصوبائی اسمبلی
 • عدالت عدلیہسندھ عدالت عالیہ
رقبہ
 • کل140,914 کلومیٹر2 (54,407 میل مربع)
رقبہ درجہتیسرا
آبادی (2017)
 • کل47,886,051
 • درجہدوسرا
 • کثافت340/کلومیٹر2 (880/میل مربع)
نام آبادیسندھی
زبانیں
 • صوبائیسندھی
 • دفتریانگریزی
 • قومیاردو
منطقۂ وقتPKT (UTC+5)
آیزو 3166 رمزPK-SD
قومی اسمبلی میں نشستیں75
صوبائی اسمبلی میں نشستیں168
اضلاع22
تحصیلیں119
یونین کونسلیں1108
ویب سائٹsindh.gov.pk

وجہ تسمیہ

لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائے سندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔

سندھ کی صوبائی علامات (غیر سرکاری)
صوبائی جانور  
صوبائی پرندہ  
صوبائی پھول  
صوبائی درخت  
صوبائی کھیل  

آب و ہوا

ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (بالخصوص مئی۔ جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (بالخصوص دسمبر۔ جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاً سالانہ سات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاں برف باری ہوتی ہے۔

تاریخ

 

زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنھوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔ مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہو گئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔ آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائے سرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔ آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے ہندوستان کے مذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر[1]

برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلبہ نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔

حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے جس کے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری ہیں۔ مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔

ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنہیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈر، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکا میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔

سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہو سکا کہ وہ ہندوستانی فنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کے لیے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟

زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔

گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اس کی تعمیرِ نو ہوئی ہے۔

کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کے لیے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔

سندھ کی انتظامی تقسیم

سندھ کے اضلاع

موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سے مندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔

سندھ میں مذاہب

سندھ میں مذاہب[2]
مذہب فیصد
مسلمان
  
91.31%
ہندو
  
8.51%
دیگر
  
0.18%

آبادیات اور معاشرہ

آبادیات سندھ
موشر شماریات
شہری آبادی 49.50%
دیہی آبادی 50.50%
شرح افزائش آبادی 2.80%
تناسب جنس (100 عورتوں کے مقابلے میں مرد) 112.24
بحساب اقتصاد 22.75%
تاریخی آبادی
مردم شماری آبادی شہری تناسب

1951 6,047,748 29.23%
1961 8,367,065 37.85%
1972 14,155,909 40.44%
1981 19,028,666 43.31%
1998 35,439,893 48.75%
2010 55,245,497[3] n/a

سندھ کے بڑے شہر

سندھ کا دار الحکومت کراچی ہے۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر بڑے شہر درج ذیل ہیں۔

سندھ کے بڑے شہر
درجہ شہر ضلع آبادی

 
کراچی
حیدرآباد
حیدرآباد، سندھ

سکھر

1 کراچی کراچی 11,136,886
2 حیدر آباد حیدرآباد 1,391,534
3 سکھر سکھر 400,148
4 لاڑکانہ لاڑکانہ 322,315
6 میرپور خاص میر پور خاص 219 977
5 نوابشاہ ضلع شہید بے نظیر آباد بینظیر آباد]] 218 361
7 جیکب آباد جیکب آباد 164,248
8 شکار پور شکارپور 158,913
8 خیرپور خیرپور 158,913
9 ٹنڈو آدم سانگھڑ 123,261
مآخذ: ورلڈ گزٹر 2012[4]
یہ فہرست ان شہروں کی شہری آبادی پر مشتمل ہے اور یہ آبادی اضلاع کی مکمل آبادی پر مشتمل نہیں ہے۔

نگار خانہ

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. یہ الگ مضمون ہے، مہربانی کر کے اسے الگ ہی رکھیں۔
  2. "2017 Census Data"۔ 02 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2012 
  3. "Population shoots up by 47 percent since 1998"۔ Thenews.com.pk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2012 
  4. "پاکستان: Largest cities and towns and statistics of their population"۔ 17 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2011 

بیرونی روابط