جمنیہ کی مجلس
جب رومی افواج نے اہلِ یہود کی بغاوت کو 70ء میں فرو کر دیا تو فاتحین نے شہر یروشلیم کو تباہ و برباد کر دیا اور یہود کی مقدس ہیکل کو مسمار کر دیا اور ایسا کہ یسوع مسیح کی پیشین گوئی کے مطابق وہاں ”کسی پتھر پر پتھر باقی“ نہ رہا (متی 24: 1 تا 2 آیات) یہود مختلف ملکوں میں منتشر ہو گئے اور قوم کی زندگی کے ہر شعبہ میں انتشار پیدا ہو گیا۔ اب بنی اسرائیل کے لیڈروں کے پاس صرف ایک واحد شے رہ گئی جو قوم کے پراگندہ افراد کو یکجا جمع کرسکتی تھی اور وہ تھیں ان کی کُتبِ مُقدسہ۔ اب ان قومی اور مذہبی لیڈروں کی تمام کوششیں تورات اور صحفِ انبیا کے مطالعہ پر مرکوز ہوگئیں۔ جس والہانہ عقیدت سے ہیکل کو پہلے دیکھا جاتا تھا، (مرقس 14: 58، 15: 29 وغیرہ) اب انبیا اللہ کی کتُبِ مقُدسہ کو بیش از پیش اسی شیفنگی کے ساتھ دیکھا جانے لگا کیونکہ اب یہی واحد قومی ورثہ ان کے پاس رہ گیا تھا۔ اِن کتب مقدسہ کی حفاظت کرنا اب ان کی زندگی کا واحد مقصد ہو گیا پس 90ء میں یہودی علما اور فضلا کی مقام جمنیہ/یفنہ میں ایک مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں کتب مقدسہ کے الفاظ کا ایک معیاری متن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مجلس میں کتابوں کے صفحات کی سطروں کی تعداد مقرر کی گئی۔ ہر سطر کے الفاظ کی تعداد مقرر ہو گئی۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ایک لفظ کے مختلف حروف کے درمیان میں اور مختلف الفاظ کے درمیان میں کس قدر فاصلہ چھوڑا جائے۔ مقدس الفاظ لکھنے کے لیے کس قسم اور کس رنگ کی سیاہی ہو۔ انھوں نے یہاں تک فیصلہ کیا کہ ان متبرک کتابوں کو لکھنے کے وقت کاتبوں کو کس قسم کے لباس میں ملبوس ہونا چاہیے۔ کاتبوں کو ہدایت کی گئی کہ ہر لفظ کو نہایت صحت کے ساتھ نقل کریں کیونکہ ہر لفظ کاتبِ ازل کے ہاتھوں نے لکھا تھا (خروج 19: 16 تا 20: 21 وغیرہ)[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ کتاب: صحتِ کتب مُقدسہ، مصنف: قسیس معظم آرچڈیکن علامہ برکت اللہ صاحب