حاجی لعل محمد مدراسی

بیسوی صدی کے ہندوستانی سنی عالم
(حاجی لعل خان مدارسی سے رجوع مکرر)

حاجی محمد لعل خان بیسویں صدی کے سنی عالم دین، مناظر اور مصنف تھے۔

حاجی لعل محمد مدراسی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1866ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویلور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 21 جولا‎ئی 1921ء (54–55 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
مکتب فکر بریلوی مکتب فکر
والد قاسم خان
عملی زندگی
پیشہ عالم دین، مصنف، تاجر
مؤثر محی الدین ویلوری، احمد رضا خان

پیدائش

ترمیم

آپ کی ولادت 1283ھ بمطابق 1866ء، کو" ویلور "(مدارس، انڈیا) میں قاسم خان کے ہاں ہوئی۔

تحصیلِ علم

ترمیم

اردو، انگریزی تعلیم پانے کے بعد 1301ھ، 1884ء میں اٹھارہ برس کی عمر میں فوج میں محرری کے عہدے پر متعین ہوکر "برما" کی جنگ میں شریک ہوئے۔جنگ کے دودران میں آپ کے دل میں اسلامیات اور سیرت کی کتب کے مطالقہ کا شوق پیدا ہوا تو اس سلسلہ میں شمس العلما غلام رسول مدارسی سے چند کتب منگوائیں۔موصوف نے آپ کے تسکین اور ذوق کے لیے 1887ء میں اکسیر ہدایت، حکایات الصالحین، کنزالدقائق وغیرہ کتب روانہ فرمائیں۔اکسیر ہدایت کے مطالعہ کے دوران میں رزقِ حلال کا بیان پڑھ کر دل ملازمت سے اچاٹ ہو گیا اور اللہ تعالیٰ سے عہد کیا جونہی پلٹن واپس ہندوستان پہنچے گی تو ملازمت کو خیر باد کہہ دوں گا مگر والدہ کے علاوہ دیگر اہل خانہ رضا مند نہ ہوئے۔جب 1890ء میں پلٹن مدارس سے سکندر آباد گئی تو آپ اپنے مرشد محی الدین ویلوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ"یہ روزگار جو میں کرتا ہوں کیسا ہے"؟انھوں نے ارشاد فرمایا۔"حرام"۔ عرض کیا۔کیا میں اسے چھوڑ دوں؟ فرمایا! ہاں"۔ آپ اُس وقت کچھ مقروض تھے۔اور صرف پچیس روپیہ تنخواہ ملتی تھی۔آپ نے کوشش کر کے چھ ماہ میں قرض ادا کر دیا اور ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔"خلہفائے اعلیٰ حضرت"۔ فیضان اعلیٰ حضرت۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 ستمبر 2021 

سیرت وخصائص

ترمیم

آپ کے اندر دین کا سچا جذبہ موجود تھا یہی وجہ کہ آپ نے ترکِ ملازمت کرکے ساری زندگی اپنے آپ کو دینِ اسلام کی ترویج کے لیے وقف کر دیا تھا۔ترکِ ملازمت کے بعد آپ 1309ھ / 1891ء میں سفر حج پر روانہ ہوئے، دوران میں حج آپ بہت سے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوکر مستفید و مستفیض ہوتے رہے خصوصاً معصوم شاہ بجنوری دہلوی اور گوہر علی شاہ ٹونکی سے فیض حاصل کیا۔ 1319ھ میں "ندوۃ العما" کا سالانہ جلسہ کلکۃ میں منعقد ہونا قرار پایا اور ندویوں نے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی سعی بلیغ کی تو آپ نے قاضی عبد الوحید فردوسی اور عبد السلام جبلپوری سے علمائے ندوہ کے بارے معلومات حاصل کر کے عوام کو پنی طرف کیا۔

1321ھ کو علمائے ندوہ کا جلسہ مدارس میں منعقد ہوا، حاجی صاحب بغرض تبلیغ کلکۃ سے یہاں چلے آئے اور مولانا عبد المجید ویلوری کے ساتھ مل کر بذریعہ تبلیغی لڑیچر ندوہ میں بھر پور کام کیا۔ جس سے اہل سنت کو کامیابی نصیب ہوئی اور ندوہ والوں کو شکست ہوئی۔

اس کامیابی پر امام احمد رضا خان محدث بریلوی نے آپ کو مبارکبار دارسال فرمائی۔ امام احمد رضا خان کا مکتوب:

بملاحظہ جامی سنت ماحیِ بدعت جناب منشی محمد لعل خاں صاحب۔"السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!الحمد للہ کہ اللہ عزوجل نے مدارس میں ندوہ مخذولہ پر آپ کو فتح بخشی۔الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے علماء حق کی طرف راجع کیا۔اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہاں میں بے شمار نعمتیں اور اجر کثیر عطا فرمائے، اور آپ جیسے عالی ہمت، خادم سنت، ہادم بدعت، اہلسنت میں بکثرت پیدا فرمائے۔آمین آمین آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیہم اجمعین آمین۔میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آپ اور مولانا قاضی عبد الوحید صاحب اور مولانا مولوی وصی احمد صاحب محدث سورتی کی شان کا ایک ایک سُنی بھی ہر شہر میں ہوجائے تو انشاء اللہ تعالیٰ اہل سنت کا طول بول جائے۔(فقیر احمد رضا قادری غفر لہ، رجب 1321ھ"۔

منشی محمد لعل خاں کا زکریا اسٹریٹ کلکۃ میں تجارت کا وسیع کاروبار تھا۔ آپ ایک عرب تاجر یوسف صاحب کے شریک کار تھے۔کلکۃ سے عرب ممالک میں چاول وغیرہ برآمد کرتے۔چوں کہ اہل سنت و جماعت کی تبلیغ و ترویج آپ کی زندگی کا مقصد وحید تھا اس لے کثیر تعداد میں اصلاحی لٹریچر چھپوا کر مفت تقسیم کرتے، سب سے پہلے ایک پوسٹر ردِ فرقہ باطلہ کے نام سے ہندوستان کے گوشہ میں پھیلایا۔ ملک العلماء علامہ ظفر الدین محدث بہاری کئی برس تک آپ کے ہاں مقیم رہے اور تصنیف و تالیف کے کام میں معاون رہے۔ امام احمد رضا خان کے لڑیچر کی اشاعت میں حاجی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں۔صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان کی اشاعت میں بھی معاونت فرمائی ان گراں قدر خدمات کی بدولت امام احمد رضا خان نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔

آپ نے کتابیں بھی لکھیں چند ایک کے نام یہ ہیں:

  • خزانۂ کرامت (مطبوعہ پٹنہ 1324ھ)
  • فتاوی بر عقائد وہابیہ دیوبندیہ (مطبوعہ کلکۃ 1324ھ
  • تاریخ وہابیہ
  • یک گز، وسہ فاختہ بیمناک"حاجی لعل خان مدراسی"۔ انجمن ضیائے طیبہ۔ 06 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 ستمبر 2021 

وفات

ترمیم

آپ نے 21 جولائی 1921ء، مطابق 1339ھ، کووفات پائی۔

حوالہ جات

ترمیم