حارث کذاب بن عبد الرحمن بن سعید متنبی دمشقی پہلے ابو جلاس عبدی قریشی کا مملوک تھا۔ حصول آزادی کے بعد اس کے دل میں یاد الہی کا شوق سرسرایا۔ چنانچہ بعض اہل اللہ کی دیکھا دیکھی رات دن عبادت الہی میں مصروف رہنے لگا۔ سد رمق سے زیادہ غذا کو نہ کھاتا، کم سوتا، کم بولتا اور اس قدر پوشش پر اکتفا کرتا جو ستر عورت کے لیے ضروری تھی۔ یہاں تک کہ تقف اور قتل و انقطاع کو غایت قصوی تک پہنچا دیا۔ اگر یہ زہد و ورع، ریاضت اور مجاہدے کسی مرشد کامل کے ارشاد وافادہ کے ماتحت عمل میں لائے جاتے تو اسے قال سے حال تک پہنچا دیتے اور معرفت الہی کا نور مبین اس کے کشور دل کو جگمگا دیتا لیکن اس غریب کو معلوم نہ تھا کہ جو لوگ کسی رہبر کامل کی محبت میں رہ کر منازل سلوک طے کرنے کی بجائے از خود ریاضت و انزوا کا طریقہ اختیار کرتے ہیں شیطان ان کا رہنما بن جاتا ہے۔ اور اس وقت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ انھیں ضلالت و ہلاک ابدی کے تحت الثری تک نہ پہنچا دے۔[1]

حارث دمشقی
معلومات شخصیت
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیطان کے وار ترمیم

شیطان کا معمول ہے کہ وہ طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے بے مرشد ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے اور انھیں طرح طرح کے کے سبز باغ دیکھا کے کسی سے کہتا کہ تو میری موعود ہے ، کسی کے کان میں کہتا کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے ، کسی کو حلال و حرام کی پابندیوں سے مستشنی قرار دیتا ، کسی کہ دل میں یہ ڈالتا کہ تو اللہ کا نبی ہے اور بدنصیب عابد اسیر یقین بھی کر لیتا ہے۔ شیطان کی نورانی شکل اور آواز کو سمجھتا ہے کہ خود خداوند قدوس کا جمال دیکھ رہا ہے۔ حارث دمشقی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

حارث کے شعبدے (استدراج) ترمیم

جو شخص بھوکا رہے ، کم سوئے ، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صدر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگ اگر اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراه بدعتی لوگ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ یہ تصرف محض ریاضت اور نفس کشی کا ثمرہ ہوتے ہیں۔ تعلق باللہ اور قرب حق سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ چنانچہ حارث اپنی ریاضت و مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے تصرفات کرتا تھا مثلا کہتا کہ آؤ میں تمھیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ بہت حسین و جمیل بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جار رہے ہیں۔ موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں سردیوں کے پھل لوگوں کو کھلاتا۔

بیت المقدس کو فرار ترمیم

جب حارث کے استدراج اور شعبدوں نے شہرت اختیار کر لی اور خلق خدا زیادہ گمراہ ہونے لگی۔ ایک دمشقی رئیسں قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ تم کسی کے دعویدار ہو اور کیا چاہتے ہو۔ حارث بولا میں الله کا نبی ہوں۔ قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازه ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ قاسم وہاں سے اٹھ کر سیدھا خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان کے پاس گیا اور ملاقات کر کے حارث کے دعوائے نبوت اور لوگوں کی بداعتقادی کا تذکرہ کیا۔ عبد المالک بن مروان نے حکم دیا کہ حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے لیکن جب پولیس پہنچی تو وہ بیت المقدس فرار ہو چکا تھا۔ حارث نے وہاں باقاعدہ اپنی نبوت کی دکان کھولی اور لوگوں کو گمراہ کرنے لگا۔

گرفتاری ترمیم

بصرہ کے ایک سمجھدار شخص نے حارث سے ملاقات کی اور بہت دیر تک اس سے تبادلہ خیالات کیا جس سے اس کو یقین ہو گیا کہ یہ محض جھوٹا ہے اور خلق خدا کو گمراہ کر رہا ہے۔ یہ شخص بہت عرصہ تک حارث کے ساتھ رہا اور جب اس کا اعتماد حاصل کر لیا تو حارث سے یہ کہہ کر میں اب اپنے وطن بصرہ جا رہا ہوں اور وہاں آپ کی نبوت کی طرف لوگوں کو دعوت دوں گا۔ سیدھا خلیفہ عبد الملک بن مروان کی خدمت میں پہنچا اور حارث کی شرانگیزیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اگر کچھ آدمی میرے ساتھ آپ کر دیں تو حارث کو میں خود گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ خلیفہ نے چالیس سپاہی اس کے ساتھ کر دیے۔ بصری رات کے وقت حارث کی قیام گاہ پر پہنچا اور اپنے ساتھیوں کو قریب ہی کہیں چھپا دیا اور کہا جب میں آواز دوں تو سب اندر آجانا۔ بصری چونکہ حارث کا معتمد تھا اس لیے کسی نے نہیں روکا۔ اندر جاتے ہی ساتھیوں کو آواز دی اور اس طرح حارث کو پایہ زنجیر کر کے دمشق کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں دوسری مرتبہ حارث نے اپنا شعبده دکھایا اور زنجیر ہاتھ سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑی۔ ایسا دو مرتبہ ہوا مگر بصری با لکل متاثر نہیں ہوا اور اس کو لے جا کر خلیفہ عبد المالک کے سامنے پیش کر دیا۔

قتل ترمیم

خلیفہ نے حارث سے پوچھا کیا واقعی تم نبی ہو؟ حارث بولا بے شک لیکن یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو میں کہتا ہوں وہ وحی الہی کے مطابق کہتا ہوں۔ خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو اشارہ کیا کہ اس کو نیزہ مار کے ہلاک کر دے۔ اس نے ایک نیزه مارا لیکن حارث پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جارث کے مریدوں نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کے اجسام پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ عبد المالک نے محافظ سے کہا شاید تونے بسم اللہ پڑھ کر نیزه نہیں مارا۔ محافظ نے بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ نیزہ مارا جو حارث کے جسم کے پار ہو گیا اور وہ بری طرح چیخ مار کر گرا اور گرتے ہی ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح خانہ ساز نبی اور اس کی نبوت انجام کو پہنچی۔

  • حارث کے بدن سے زنجیر ٹوٹ کر گرنے سے متعلق علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء شیطان میں لکھا ہے کہ حارث کی ہتھکڑیاں اتارنے والا اس کا کوئی موکل یا شیطان تھا اور اس نے فرشتوں کو جو گھوڑوں پر سوار دکھایا تھا وہ فرشتے نہیں جنات تھے۔ [2] [3]

حوالہ جات ترمیم

  1. جھوٹے نبی مولف ابو القاسم رفیق دلاوری صفحہ 128
  2. بائیس جھوٹے نبی تالیف نثار احمد خان فتحی صفحہ 35 تا 37
  3. جھوٹے نبی مولف ابو القاسم رفیق دلاوری صفحہ 128 اور 133 تا 136