حبیب النجار یا حبیب نجار جنہیں مومن آل یاسین کے نام سے بھی یاد کیا ہے یہ نیک شخص تھے شام کے شہروں میں سے ایک شہرانطاکیہ کے رہنے والے تھے۔[1]
وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ رَجُلٌ يَّسْعٰى . اور ایک آدمی اس شہر کے دور مقام سے دوڑتا ہوا آیا۔(یٰسٓ:90) کے تحت قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں۔
یہ شخص حبیب نجار تھا (یعنی بڑھئی تھا) عبد الرزاق اور ابن ابی حاتم نے قتادہ کا یہی قول بیان کیا ہے۔ سدی نے کہا : حبیب دھوبی تھا۔ وہب نے کہا : حبیب ریشمی کپڑے بناتا تھا اور بیمار تھا۔ اس کو جذام ہو گیا تھا اس لیے شہر کے آخری دروازہ پر پڑا رہتا تھا اور مردمؤمن تھا‘ خیرات بہت کرتا تھا۔ دن میں جو کچھ کماتا تھا‘ شام کو دو حصے کر کے ایک حصہ خیرات کردیتا تھا اور ایک حصہ اپنے متعلقین کے صرف میں لاتا تھا۔[2]
اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین میں کئی قسم کے اختلافات ہیں۔ زیادہ مشہور یہی بات ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں۔ ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انھوں نے انھیں جھٹلایا لیکن آپ بدستور انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بالاخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین دھنسا دیا[3]
سدی نے کہا : قصہ یس والے اہل انطاکیہ ہیں، رس انطاکیہ میں ایک کنواں تھا جس میں لوگوں نے حبیب نجار کو قتل کیا تھا جو آل یس کا مومن تھا تو وہ لوگ اس کنویں کی طرف منسوب ہو گئے۔[4]
علامہ یاقوت بن عبد اللہ حموی متوفی 626 ھ لکھتے ہیں : انطاکیہ میں حبیب نجار کی قبر ہے دور و نزدیک سے لوگ اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔[5] مفتی محمد شفیع متوفی 1396 ھ لکھتے ہیں : یاقوت حموی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبیب نجار کی قبر انطاکیہ میں معروف ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔[6] کوہ سلپیس کی چوٹی پر جو مزار ہے اُس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انہی کا ہے۔مفسرین کا خیال ہے کہ سورۃ یٰسین آیات 13 تا 29ء میں جس شخص کا ذکر ہے وہ بزرگ یہی ہیں۔انجیل میں بھی اس سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے۔ لیکن اس قصے کے ہیرو کا نام اگابس ہے۔ مفسرین نے قرآن کی مذکورہ بالا آیات کی تشریح میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی نے خدا کے حکم سے اہل انطاکیہ کی ہدایت کے لیے دو پیغمبر حضرت یحٰیی اور حضرت یونس بھیجے جنہیں ان لوگوں نے جھٹلایا۔ منحوس کہا اور قتل کی دھمکی دی۔ عین اس وقت حضرت نجار دوڑے ہوئے آئے اور چلا کر کہا کہ یہ سچے نبی ہیں لیکن لوگ ان کی بات ماننے کی بجائے ان پر ٹوٹ پڑے اور انھیں قتل کرکے کہنے لگے۔ ’’جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس واقعے کے بعد اس قوم پر عذاب الہی نازل ہوا لیکن اللہ نے ان کی ہلاکت کے لیے آسمان سے کوئی چیز نہیں بھیجی بلکہ حضرت جبرائیل نے شہر پناہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر ایسی دہشت ناک چیخ ماری کہ تمام کافر ہلاک ہو کر راکھ کا ڈھیر ہو گئے۔ مفسرین کے بقول حضرت حبیب النجار پہلے کافر تھے اور لکڑی کے بت بنایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کا لقب نجار ہوا۔ بعد میں پیغمبروں پر ایمان لے آئے تھے۔ الدمشقی نے نخبتہ میں لکھا ہے کہ جب ان کو شہید کیا گیا تو وہ تین دن تک اپنا کٹا ہوا سر اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے رہے اور زبان توحید الہی کے کلمات کا ورد کرتی رہی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ar:حبيب النجار
  2. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی
  3. تفسیر تیسیر القرآن، عبد الرحمن کیلانی زیر آیت،38 سورہ،الفرقان
  4. تفسیر قرطبی۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی زیر آیت،38 سورہ،الفرقان
  5. (معجم البلدان ج 1 ص 269، داراحیاء التراث العربی بیروت، 1399 ھ)
  6. معارف القرآن ج7 ص 372، مطبوعہ ادارہ معارف القرآن کراچی، 1397 ھ