حدیث کساء کا معنی اور مفہوم ہم قرآن و احادیث کی روشنی میں واضح کرتے ہیں۔

آیت تطہیر اور حدیث کساء

ترمیم

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{یَا نِسَائَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَائِ إِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا ٭وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا} [1]
ترجمہ:’’اے پیغمبر کی بیویو! تم دیگر عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو(کسی اجنبی شخص سے)نرم لہجہ میں باتیں نہ کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید(نہ)پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح جاہلیت(کے دنوں)میں عورتیں اظہارِ زینت کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔اور نماز پڑھتی رہو،زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کرتی رہو۔اے(پیغمبر کے)اہلِ بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی(کا میل کچیل)دُور کر دے اور تمھیں بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
ان آیات میں {أہل البیت} سے مراد سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات(رضی اللّٰهُ عنہن) ہیں کیونکہ:
1- آیاتِ کریمہ کا سیاق وسباق ازواج مطہرات(رضی اللّٰهُ عنہن)ہی کے بارے میں ہے،چنانچہ {أہل البیت} کا ذکر کرنے سے پہلے بھی بار بار ’’اے پیغمبر کی بیویو‘‘کہہ کر ان کو مخاطب کیا گیااور بعد میں بھی کتاب وحکمت کی تلاوت کا حکم انہی کو دیا گیا ہے۔
2- {أہل البیت} میں ’’بیت‘‘سے مراد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا گھر ہے جس میں اُس وقت سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات(رضی اللّٰهُ عنہن)کے اور کوئی ساکن نہ تھا۔
3- جب {أہل البیت} ’’گھر والے‘‘کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے بیوی مراد لی جاتی ہے جو گھریلو امور کو چلاتی ہے۔اور اس کی سب سے بڑی دلیل سورۃ ہود کی یہ آیات کریمہ ہیں:
{وَامْرَأَتُہُ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَّرَائِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ٭ قَالَتْ یَا وَیْْلَتَی أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَّہَـذَا بَعْلِیْ شَیْْخًا إِنَّ ہَـذَا لَشَیْْء ٌ عَجِیْبٌ٭قَالُوا أَتَعْجَبِیْنَ مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْْکُمْ أَہْلَ الْبَیْْتِ إِنَّہُ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ} [2]
’’اور ابراہیم کی بیوی(جو پاس)کھڑی تھی ہنس پڑی تو ہم نے اُس کو اسحق کی اور اسحق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔اُس نے کہا:اے ہے میرے بچہ ہو گا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں،یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔انھوں نے کہا:کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہلِ بیت! تم پر اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں وہ تعریف کا سزاوار اور بزرگوار ہے۔‘‘
ان آیات میں {أہل البیت} سے مراد یقینی طور پر سب سے پہلے حضرت سارہ علیہا السلام ہیں کیونکہ ان میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ احزاب کی مذکورہ آیات میں {أہل البیت} سے مراد سب سے پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں۔
بعض لوگ(حدیث الکساء)یعنی چادر والی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ {اھل البیت} سے مراد صرف وہی حضرات ہیں جو اس چادر میں تھے،یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا،حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ۔
حالانکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا کرکے ان حضرات کو بھی اہلِ بیت میں شامل فرمایا۔حدیث کے الفاظ ملاحظہ کیجئے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ کڑھائی والی چادر اوڑھ رکھی تھی،چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے انھیں اس میں داخل کر لیا،پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو وہ بھی اس میں داخل ہو گئے،پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو آپ نے انھیں بھی اس میں داخل کر لیا،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے انھیں بھی اس کے اندر داخل کر لیا،اس کے بعد فرمایا:
{إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا} یعنی ’’اے اہل بیت ! اللہ تعالی تم سے نا پاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘۔[3]
اور اس سے زیادہ واضح الفاظ حدیث ِ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہیں،چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں تھے،اسی دوران حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کچھ کھانا لے کر آپ کے پاس آئیں،تو آپ نے فرمایا:’’جاؤ اپنے خاوند اور دونوں بیٹوں کو بھی لے کر آؤ۔‘‘ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی آگئے،چنانچہ ان سب نے اُسی کھانے میں سے کھانا شروع کر دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر پر تشریف فرما تھے اور میں اُس وقت نماز پڑھ رہی تھی،تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری:
{إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا} لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا جو حصہ بچا ہو اتھا اسے پکڑا اور ان حضرات کو ڈھانپ دیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ باہر نکالا اور اسے آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے دو مرتبہ یوں دعا کی:
(اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلاَئِ أَہْلُ بَیْتِیْ وَخَاصَّتِیْ،فَأَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیْرًا) ’’اے اللہ ! یہ بھی میرے گھر والے اور میرے خاص لوگ ہیں،لہذا ان سے بھی ناپاکی کو دور کر دے اور انھیں اچھی طرح سے پاک کر دے۔‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنا سر اسی چادر میں داخل کیا اور کہا:اللہ کے رسول ! میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ)
’’آپ تو خیر کی طرف ہیں ہی۔‘‘

یعنی آپ تو پہلے ہی اہل بیت میں شامل ہیں۔
[4]
اسی طرح یہ حدیث عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے(حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے)بیٹے تھے اور انھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پانے کا شرف حاصل ہوا۔
[5]
نیز یہ حدیث حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
(اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلاَئِ أَہْلُ بَیْتِیْ،وَأَہْلُ بَیْتِیْ أَحَقُّ) ’’اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں اور میرے اہل بیت(اس تکریم کے)زیادہ حقدار ہیں’‘۔
[6]

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہنے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انھوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انھیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انھوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنھوں نے انھیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انھیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انھیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوش نودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک۔۔۔۔۔[7][8][9][10][11]

حوالہ جات

ترمیم
  1. [سورہ الأحزاب:32۔33]
  2. [سورہ ھود:71۔73]
  3. صحیح مسلم حدیث 5595
  4. [مسند احمد بن حنبل ج 44 ص 118:26508،الأرناؤط:حدیث صحیح]
  5. [جامع ترمذی:3205۔وصححہ الألبانی اسنادہ صحیح]
  6. [مسند احمد بن حنبل ج 28 ص 195:16988۔الأرناؤط:حدیث صحیح]
  7. ۔ حدیث 5595 صحیح مسلم
  8. مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر
  9. الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی
  10. تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری
  11. سنن الکبری جلد 2 صفحہ 149۔ حافظ احمد بن حسین بن علی بیہقی