حق اسقاط حمل تحریکیں
حق اسقاط حمل تحریکیں (انگریزی: Abortion-rights movements) کی تحریکیں عالمی سطح پر مختلف خطوں اور مختلف ممالک میں دیکھی گئی ہیں۔ یہ تحریکوں کی اگر چیکہ تفصیلات میں فرق پایا گیا ہے، تاہم اس کا نچوڑ یہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو اسقاط حمل کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ قدیم دور سے جب عورتیں جنسی قربت زیادہ تر اپنے شوہروں سے ہی رکھا کرتی تھیں، تب بھی وہ اسقاط حمل کی ضرورت دو بچوں کے بیچ فاصلہ بنائے رکھنے کے لیے ضروری سمجھتی تھی۔ تاہم اس دور میں برسر عام اس طرح حمل کا گرانا ایک بچے کی جان لینے کے طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس کے خاص طور پر 1960ء کے بعد کے دور میں جہاں جنسی برابری اور اس کی وجہ سے کام کاج میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ رہیں، ایسے میں اتفاقی جنسی ملاپ اور ناچاقی استقرار حمل کے واقعات وجود میں آئے، جن کی وجہ سے حق اسقاط حمل تحریکیں اس بات پر زور پکڑنے لگیں جس طرح مرد کسی ناچاقی حمل کی ذمے داری سے آزاد ہو سکتا ہے، عورتیں بھی یہی آزادی کی دعوے دار ہو سکتی ہیں۔ اس کے بعد کے دہوں میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم گاہوں میں، خاص کر اسکول اور کالج میں لڑکیاں جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے لگیں اور بیس سال سے کم عمر میں استقرار حمل کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ نیز ترقی پزیر ممالک میں کم سنی کی شادیوں اور ان نو بیاہتاؤں کے حمل پر بھی سوال اٹھنے لگے اور اس طرح ان ممالک میں بھی حمل کے گرانے پر تحریکیں شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں ہر ملک کا رویہ مختلف رہا ہے۔ زیادہ تر ترقی پزیر ممالک حق اسقاط حمل تحریکوں کے پر زور حامی نہیں تھے، جب کہ اس تحریک کو ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں کافی پزیرائی حاصل ہوئی، حالاں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پولینڈ جیسے کچھ مغربی ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں، جہاں پر 2019ء میں خواتین کو اسقاط حمل پر عائد پابندیوں اور مہاجرین مخالف پالیسیوں کے خلاف اور خواتین کے حقوق اور ماحول دوستی کے حق میں جدوجہد کے باعث حملوں کا سامنا رہا[1] اور معاملے میں حکومت کا رویہ بھی منفی ہی رہا۔
حکومتوں کے بدلنے سے تحریکوں کی پزیرائی اور عدم پزیرائی
ترمیممخلتف ملک کی حکومتوں کا حق اسقاط اور اس سے جڑی تحریکوں کے لیے رویہ یکساں نہیں رہا بلکہ بدلتا رہا ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں اسقاط حمل تحریک کی مخالفت کے لیے مارچ فار لائف ہر سال انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے اپنی مارچ کرتی رہی تھی۔ کئی انتظامیے ان کے بر عکس حق اسقاط حمل تحریکوں کے لیے نرم گوشہ تھے۔ تاہم یہ صورت حال ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ میں بدل گئی۔ 2017ء میں نائب صدر مائیک پینس نے، جو ایک طویل عرصے سے اسقاطِ حمل کے مخالف رہے ہیں اس مارچ میں شریک ہو کر کہا کہا کہ ’’زندگی کی جیت‘‘ ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیوں کہ آپ سب اور ملک بھر میں ہزاروں دوسرے مارچ کر رہے ہیں ، اس لیے امریکا میں زندگی ایک بار پھر جیت رہی ہے۔مارک پنس کا ریالی سے خطاب کسی بھی ریالی میں کسی عہدے پر موجود نائب صدر کی جانب سے پہلا خطاب تھا جس سے مظاہرین کاحوصلہ بڑھا جو کئی دہوں سے مارچ کر رہے تھے۔ مارچ فار لائف کو ملک بھر کے اسکولوں کے بچوں نے ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔[2] انتظامیہ کا یہ رویہ جہاں کسی مقصد کے لیے کوشاں فعالیت پسندوں کے لیے حوصلہ افزا تھا، وہیں یہ رویے میں تبدیلی حق اسقاط حمل تحریکوں کے لیے منفی رویہ بھی تھا، جنہیں کچھ دیگر ملک کے انتظامیوں کی حمایت حاصل تھی۔