حنظلہ بن ربیع
حنظلہ بن ربیع، ایک صحابی رسول تھے۔
حنظلہ بن ربیع | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نسب
ترمیمحنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی بڑے مشہور و معروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! [1]
اسلام
ترمیمان کے اسلام کا زمانہ متعین طور پر نہیں بتایا جا سکتا، لیکن قیاس یہ ہے کہ آغازِ دعوت اسلام میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہوں گے، اس لیے کہ اسی زمانہ میں ان کے گھرانے میں اسلام کا اثر ہوا تھا، ان کے چچا اکثم بن صیفی عرب کے مشہور حکیم تھے، آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے وہ آپ کے ظہور کی خبر دیتے تھے، بعثتِ نبوی کے وقت ان کی عمر 90 سال کی تھی جب انھیں بعثت کی اطلاع ہوئی ،تو انھوں نے آنحضرت ﷺ کو ایک خط لکھا، آپ نے اس کا جوب مرحمت فرمایا ،اکثم اس جواب سے بہت مسرور ہوئے اوراپنے قبیلہ کو جمع کرکے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اورآپ پر ایمان لانے کی ترغیب دی، لیکن مالک بن نویرہ نے درمیان میں پڑ کر سب کو منتشر کر دیا، مگر اکثم نے اپنے لڑکے اورجن جن لوگوں نے ان کا کہنا مانا سب کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا، لیکن سوئے اتفاق سے آپ تک کوئی نہ پہنچ سکا [2] قیاس یہ ہے کہ اسی زمانہ میں حنظلہ بھی ایمان لائے ہوں گے اسلام کے بعد مراسلات نبویﷺ کی کتابت کا عہدہ سپرد ہوا۔ [3]
سفیر رسول
ترمیمآپ کی کنیت ابو ربعی تھی۔ آپ ﷺ نے آپ رضی ﷲ تعالٰی عنہ کو غزوہ طائف سے پہلے بنی ثقیف کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ آپ رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ میں شرکت کی۔ آپ رضی ﷲ تعالٰی عنہ کچھ عرصہ کوفہ میں رہائش پزیر رہنے کے بعد قرقیسا چلے گئے ۔ حنظلہ بن ربیع رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے رسول اکرم ﷺ کی کچھ احادیث بھی بیان فرمائی ہیں۔
کاتب وحی
ترمیمآپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، آپ تمام کاتبین کے نائب تھے اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے [4]۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے [5] اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے [6] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حنظلہ کے پاس رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ [7] آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے [8] ۔
وفات
ترمیمآپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی ۔ [9][10]
صفا قلب اورقوتِ ایمانی
ترمیمحنظلہ کی قوتِ ایمانی اورصفائے قلب کا اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے خطبہ دیا اوراس طرح جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا کہ اس کے مناظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے، حنظلہ بھی اس خطبہ میں تھے، یہاں سے اٹھ کر گئے تو فطرت انسانی کے مطابق تھوڑی دیر میں سب مناظر بھول گئے اور بال بچوں میں پڑکر ہنسنے بولنے لگے، لیکن پھر فورا ًتنبہ ہوا عبرت پزیر دل نے ٹوکا کہ اتنی جلد یہ سبق فراموش ہو گیا، اسی وقت روتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے، حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا خیر ہے، کہا ابو بکر! حنظلہ منافق ہو گیا، ابھی ابھی رسول اللہ ﷺ کے خطبہ میں جنت دوزخ کا منظر دیکھ کر گھرآیا اورآتے ہی سب کو بھلا کر بیوی بچوں اورمال دولت کی دلچسپیوں میں مشغول ہو گیا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا، میرا بھی یہی حال ہے، چلو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں؛چنانچہ دونوں خدمتِ نبوی میں پہنچے آپ نے دیکھ کر پوچھا حنظلہ کیا ہے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ حنظلہ منافق ہو گیا، آپ نے جس وقت جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ دونوں نگاہوں کے سامنے ہیں خطبہ سن کر گھر گیا تو سب بھلا کر بیوی اور مال وجائداد میں مصروف ہو گیا، یہ سن کر آنحضرتﷺ نے فرمایا حنظلہ اگر تم لوگ اسی حالت پر ہمیشہ قائم رہتے جس حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر گئے تھے، تو ملائکہ آسمانی تمھارے جلسہ گاہوں، تمھارے راستوں اور تمھارے بستروں پر تم سے مصافحہ کرتے، لیکن حنظلہ کوئی گھڑی کیسی ہوئی ہے اور کوئی کیسی۔
دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ اسد الغابہ2/58
- ↑ (استیعاب:1/106)
- ↑ (اسد الغابہ:2/66)
- ↑ التاریخ الکبیر2/36
- ↑ الطبقات لمسلم بن حجاج280/ب
- ↑ طبقات بن سعد6/36
- ↑ الوزراء والکتاب13/13
- ↑ الاصابہ1/359، البدایہ والنہایہ5/242، عیون الاثیر2/315، اسد الغابہ2/58، المصباح المضئی8/ب، تاریخ یعقوبی2/80، تہذیب الکمال4/ب، شرح الفیہ عراقی245، المصباح المضئی20/أ، التنبیہ والإشراف282
- ↑ الاصابہ1/361،
- ↑ مکمل اسلامی انسائیکلوپیڈیا،مصنف:مرحوم سید قاسم محمود،ص- 820