حکایت

نظم یا نثر میں کوئی مختصر قصہ یا بیانیہ

حکایت (انگریزی: Fable) سے مراد نظم یا نثر میں کوئی مختصر قصہ یا بیانیہ جس میں کسی اخلاقی نکتہ ہو نمایاں کیا گیا ہو۔ اکثر ان حکایات میں جانوروں یا پرندوں کو انسانوں کی طرح بولتے اور انسانوں جیسی حرکتیں کرتے دکھایا جاتا ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ حکایتیں بہت پرانی ہیں۔ شاید اس زمانے کی یادگار ہو جب انسان خود کو جانوروں یا پرندوں سے بہت قریب محسوس کرتے تھے۔ ان حکایتوں کو یکجا کرنے کا کام مشرق میں ہوا۔ سنسکرت میں پنچ تنتر کے نام سے جو کتاب موجود ہے وہ بہت پرانی ہے۔ پنچ تنتر کے قصوں میں زیادہ تر توجہ حکمرانی کرنے کی حکمتِ عملی پر مرکوز ہے لیکن کردار بالعموم جانور اور پرندے دکھائے گئے ہیں۔ پنچ تنتر کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔[1]

مغرب کی ادبی روایت میں اس ادبی صنف کا آغاز قدیم یونان سے ہوا اور اس قبیل کی حکایات کا پہلا مجموعہ ایسپ (چھٹی صدی قبل مسیح) سے منسوب ہے۔ اس کے بعد مغرب کی مختلف زبانوں میں اس طرح کے مختصر بیانیوں کو نظم یا نثر میں قلم بند کرنے کا رواج پڑا۔ حکایت خواہ حقیقت پسندانہ ہو یا کھلے یا چھپے طنز سے عبارت، کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ تاہم اردو ادب میں حکایت سے لازمی طور پر مراد نہیں ہے کہ اس میں کوئی اخلاقی نکتہ موجود ہو گا یا جانور یا پرندے کردار بن کر سامنے آئیں گے۔ اردو داستان گو طویل دستانوں کے اجزا کو حکایت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ڈاکٹر سہیل احمد خان، محمد سلیم الرحمٰن، منتخب ادبی اصطلاحات، شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،2005ء، ص 82