حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
فاصلہ
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
7 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 24:
|url=http://ncert.nic.in/textbooks/testing/Index.htm|title=Our Pasts II, History Textbook for Class VII|accessdate=6 جولائی 2007|publisher=NCERT |archiveurl = https://web.archive.org/web/20070623140748/http://www.ncert.nic.in/textbooks/testing/Index.htm |archivedate = 23 جون 2007}}</ref>
'''بھویشیے پران''' کے مطابق [[اندر پرستھ]] کے [[بادشاہ]] [[پرتھوی راج چوہان]] نے اپنی بادشاہت کی چار ذاتوں کی سہولت کے لیے ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا جو موجودہ دور میں [[پرانا قلعہ]] علاقہ میں تھا۔ اس قلعہ لیے ایک دروازے کی تعمیر کا حکم دیا اور بعد میں قلعے کا نام '''دہالی''' رکھا۔<ref name=historyhistoryabtindra>[http://dsal.uchicago.edu/reference/gazetteer/pager.html?objectid=DS405.1.I34_V11_242.gif Delhi City] [[معجم سلطانی ہند]]، 1909, v. 11, ''p. 236.''۔</ref>
بعض مورخین اس نام [[اردو-ہندی|ہندوستانی]] زبان کے لفظ '''دلی''' سے ماخوذ سمجھتے ہیں جو '''دہلیز''' کہ بگڑی ہوَئی شکل ہے، کیونکہ یہ شہر [[سندھ و گنگ کا میدان]] کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔<ref>[http://dsal.uchicago.edu/cgi-bin/philologic/getobject.pl?c.4:1:2294.platts ''A Dictionary of Urdu، Classical Hindi, and English''] {{wayback|url=http://dsal.uchicago.edu/cgi-bin/philologic/getobject.pl?c.4:1:2294.platts |date=20131007124004 }}۔ Dsal.uchicago.edu. Retrieved 24 اکتوبر 2011.</ref><ref name=cohen>{{cite journal
|last = Cohen |first=Richard J. |date=اکتوبر–دسمبر 1989 |title=An Early Attestation of the Toponym Dhilli | journal = Journal of the American Oriental Society | volume = 109 | issue = 4 |pages=513–519 | doi = 10.2307/604073
|jstor = 604073}}</ref>
سطر 31:
== تاریخ ==
=== قدیم تاریخ ===
دہلی کا قدیم ذکر [[مہا بھارت]] نامت مہا پران میں ملتا ہے جہاں اس کا ذکر قدیم [[اندر پرستھ]] کے طور پر کیا گیا ہے۔ اندرپرستھ [[مہا بھارت]] کے دور میں پانڈو کا دار الحکومت تھا۔<ref>{{Cite web |url=http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/Chpt/1.pdf |title=آرکائیو کاپی |access-date=2017-02-26 |archive-date=2016-11-13 |archive-url=https://web.archive.org/web/20161113174155/http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/Chpt/1.pdf |url-status=dead }}</ref>
آثار قدیمہ کے جو پہلے ثبوت ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار [[قبل مسیح]] سے پہلے بھی دہلی اور اس کے آس پاس انسانی رہائش گاہیں تھیں۔ موریہ کال (300 ق م) سے یہاں ایک شہر نے ترقی پانا شروع کی۔ [[پرتھوی راج چوہان]] کے درباری شاعر [[چند بردائی]] کی ہندی تحریر پرتھوی راسو میں [[تومر خاندان|تومر]] بادشاہ انگپال کو دہلی کا بانی بتایا گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس نے ہی 'لال کوٹ' تعمیر کروایا تھا اور مہرولی کے لوہے کے ستون کو دہلی لایا۔ دہلی میں [[تومر]] کا دور حکومت سال 900-1200سال تک سمجھا جاتا ہے۔ [[پرتھوی راج چوہان]] کو دہلی کا آخری ہندو شہنشاہ سمجھا جاتا ہے۔
 
سطر 98:
== نقل و حمل ==
[[فائل:DTC low-floor bus.jpg|تصغیر|150px|دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن بس سروس]]
دہلی کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹوركشا اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ دہلی کی اہم ٹریفک کی ضرورت کا 60 فیصد حصہ بسیں مکمل کرتی ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی طرف سے سرکاری بس سروس دہلی میں موجود ہے۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن دنیا کی سب سے بڑی ماحول دوست بس سروس ہے۔<ref>{{Cite web |url=http://dtc.nic.in/ccharter.htm |title=آرکائیو کاپی |access-date=2017-02-26 |archive-date=2007-01-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20070110171420/http://dtc.nic.in/ccharter.htm |url-status=dead }}</ref>
آٹو رکشہ دہلی میں ٹریفک کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ یہ ایندھن کے طور پر [[سی این جی]] کا استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں ٹیکسی سروس بھی دستیاب ہے جس کا کرایہ 7.50 سے 15 روپے فی کلومیٹر تک ہے۔ دہلی کی کل گاڑیوں کی تعداد کا 30٪ ذاتی گاڑیاں ہیں۔<ref>{{Cite web |url=http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/Chpt/12.pdf |title=آرکائیو کاپی |access-date=2017-02-26 |archive-date=2007-01-16 |archive-url=https://web.archive.org/web/20070116044119/http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/Chpt/12.pdf |url-status=dead }}</ref>
دہلی بھارت کے پانچ اہم شہروں سے قومی شاہراہوں سے منسلک ہے۔ یہ شاہراہیں : قومی شاہراہ نمبر: 1، 2، 8، 10 اور 24 ہیں۔ [[2008ء]] کے مطابق دہلی میں 55 لاکھ گاڑیاں میونسپل کارپوریشن کی حدود کے اندر ہیں۔ اس وجہ دہلی دنیا کا سب سے زیادہ گاڑیوں والا شہر ہے۔ [[1998ء]] میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی کے تمام عوامی گاڑیوں کو ڈیزل کی جگہ پر [[سی این جی]] کا استعمال لازمی طور سے کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں تمام عوامی گاڑیاں سی این جی پر ہی چلنے والی ہیں۔
 
سطر 233:
دیگر یادگاروں میں انڈیا گیٹ، جنتر منتر ([[اٹھارویں صدی]] کی [[رصدگاہ]])، پرانا قلعہ ([[سولہویں صدی]] کا قلعہ)۔ برلا مندر، اکشر دھام مندر اور کمل مندر تعمیرات کی شاندار مثالیں ہیں۔ راج گھاٹ میں قومی رہنما [[مہاتما گاندھی]] اور قریب ہی دوسرے بڑے افراد کی سمادھياں ہیں۔ نئی دہلی میں بہت سے سرکاری دفتر، سرکاری رہائش گاہیں اور برطانوی دور کی باقیات اور عمارتیں ہیں۔ کچھ انتہائی اہم عمارتوں میں صدارتی محل، مرکزی سیکرٹریٹ، راج پتھ، پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں۔
 
یہاں بہت سے قومی تہوار جیسے یوم جمہوریہ، یوم آزادی اور گاندھی یوم پیدائش رسمی طور پر جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم لال قلعہ سے یہاں کے عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ بہت سے '''دلی والے''' اس دن کو پتنگیں اڑا کر مناتے ہیں۔ اس دن پتنگوں کو آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔<ref>[{{Cite web |url=http://123independenceday.com/indian/gift_of/freedom/ |title=The Gift Of Freedom<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->] |access-date=2017-02-27 |archive-date=2012-05-31 |archive-url=https://www.webcitation.org/684WsTS3d?url=http://123independenceday.com/indian/gift_of/freedom/ |url-status=dead }}</ref>
یوم جمہوریہ کی پریڈ ایک بڑا جلوس ہوتی ہے، جس میں بھارت کی فوجی طاقت اور ثقافتی جھلک کا مظاہرہ ہوتا ہے۔<ref>http://www.thehindubusinessline.com/2002/01/28/stories/2002012800060800.htm</ref>
 
سطر 246:
دہلی کی انتہائی مخلوط آبادی کی وجہ سے بھارت کے مختلف حصوں کے پکوانوں کی جھلک دہلی میں ملتی ہے، جیسے راجستھانی، مہاراشٹرین، بنگالی، حیدرآبادی اور جنوبی بھارتی کھانے کی اشیاء جیسے اڈلی، سانبھر، دوسا وغیرہ کثرت میں مل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مقامی خاصیت والی چیزیں جیسے چاٹ وغیرہ بھی خوب ملتی ہے، جسے لوگ چٹخارے لگا لگا کر کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں براعظم کھانا جیسے اطالوی اور چینی کھانا بھی عام دستیاب ہے۔
[[مغلیہ سلطنت]] کے [[دار الحکومت]] رہنے کی وجہ سے دلی کے لوگوں کو [[مغلائی پکوان]]وں نے بہت متاثر کیا ہے۔<ref name="Narayan">{{cite book|title=New Delhi|url=https://books.google.com/?id=VCX1UrCinO4C|publisher=Marshall Cavendish|pages=14–17|year=2006|first=M.R.Narayan|last=Swamy|isbn=978-981-232-996-7 |accessdate=23 جون 2012}}</ref>
شہر کے خصوصی پکوانوں میں بٹر چکن، آلو چاٹ، چاٹ، دہی بڑے، کچوری، گول گپے، [[سموسہ]]، چھولے [[بھٹورا|بھٹورے]]، چھولے کلچہ، جلیبی اور لسی شامل ہیں۔<ref name="Narayan"/><ref name="commonwealth">{{cite web|title=Commonwealth games guide to Delhi|url=http://www.delhitourism.gov.in/delhitourism/pdf/Book1-complete.pdf|publisher=Delhi Tourism and Transportation Development Corporation Ltd|year=2010|first=Chetananand|last=Singh|format=PDF|accessdate=23 جون 2012|archive-date=2012-05-10|archive-url=https://web.archive.org/web/20120510032252/http://www.delhitourism.gov.in/delhitourism/pdf/Book1-complete.pdf|url-status=dead}}</ref>{{rp|40–50, 189–196}}
 
دہلی کی تیز زندگی کی وجہ سے فاسٹ فوڈ نے شہر میں کافی ترقی کی ہے۔<ref name="commonwealth"/>{{rp|41}}
سطر 604:
== مزید پڑھیے ==
{{Refbegin}}
* [http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/ES2005-06.htm Economic Survey of Delhi 2005–2006] {{wayback|url=http://delhiplanning.nic.in/Economic%20Survey/ES%202005-06/ES2005-06.htm |date=20160215014054 }}۔ Planning Department. Government of National Capital Territory of Delhi. Retrieved on 12 فروری 2007
* {{Cite book|last1 = Dalrymple|given1 = W|year = 2003|edition = 1|title=City of Djinns
|publisher=Penguin Books |isbn=978-0-14-200100-4}}
سطر 613:
* {{Cite book|last1 = Brown|given1 = L|year = 2011|edition = 5|title=Lonely Planet Rajasthan, Delhi & Agra|publisher=Lonely Planet Publications|isbn=978-1-74179-460-1}}
* {{Cite book|last1 = Rowe|given1 = P|surname2= Coster|given2= P|year = 2004|title=Delhi (Great Cities of the World)|publisher= World Almanac Library|isbn = 978-0-8368-5197-7}}
* {{Cite news|title=Metrocity Journal: Delhi's Changing Landscape|author=Four-part series on Delhi|newspaper=The Wall Street Journal|date=30 مئی – 2 جون 2012 |url=http://blogs.wsj.com/indiarealtime/2012/05/30/metrocity-journal-delhis-changing-landscape/}}
{{Refend}}