"کاغذی کرنسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
7 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 1,437:
<!-- The respective figures for the 1960s were total payment deficits of $32bn, the equivalent of 28,437 tonnes of gold, and an actual decline in gold reserves of 5,283 tonnes. -->
اگر سارے قرضے شامل کر کے حساب لگایا جائے تو اس وقت امریکا ہر ایک ڈالر کے سونے کے عوض 44 ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔<ref>[http://mises.org/library/gold-versus-fractional-reserves gold versus fractional reserve-Mises Org.]</ref><br/>
15 اگست 1971 کو [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکا]] اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے [[Nixon shock|نکسن دھچکا]] (نکسن شاک) کہتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا کہ اب امریکا ڈالر کے بدلے [[سونا]] نہیں دے گا۔<ref>{{cite news |title=the-nixon-shock |author= |url=http://www.businessweek.com/magazine/the-nixon-shock-08042011.html |newspaper=بزنس ویک میگزین |date= |accessdate=}}</ref><!-- relatively little attention has been paid to the 10% import surcharge, despite the fact that it was a key element of the package. The purpose of the surcharge was to force other countries to revalue their currencies against the dollar --><ref>[{{Cite web |url=https://www.dartmouth.edu/~dirwin/Nixon.pdf |title=The Nixon shock after forty years: the import surcharge revisited] |access-date=2021-03-05 |archive-date=2020-09-28 |archive-url=https://web.archive.org/web/20200928122530/http://www.dartmouth.edu/~dirwin/Nixon.pdf |url-status=dead }}</ref> [[جان پرکنز]] کے مطابق اس سازش کا ماسٹر مائنڈ George Schultz تھا۔<!-- By 1971, the man whom Perkins exposed as the chief economic hit man George Schultz, orchestrated the removal of the U.S. dollar from the Gold-reserve --><ref>[https://www.strategic-culture.org/news/2020/05/09/for-victory-day-its-time-to-think-about-finally-winning-wwii/ For Victory Day: It’s Time to Think About Finally Winning WWII]</ref>
اس وقت تک امریکا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا [[تیل]] خرید چکا تھا کہ [[عرب]] اگر [[ڈالر]] کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکا]] اپنا پورا [[سونا]] دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردّی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکا کو ہوا۔ John Perkins کے بیان کے مطابق اس وقت امریکا دیوالیہ (bankrupt) ہو چکا تھا۔<ref>[https://www.youtube.com/watch?v=yJexNcw5_Sc John Perkins (Middle East and Oil) Iraq Saudi-Arabia]</ref> اگرچہ امریکا جاپان کو اپنی کولونی نہیں کہتا مگر 16 اور 17 اگست 1971ء میں جاپان کے سینٹرل بینک نے 1.3 ارب ڈالر خریدے تاکہ گرتے ہوئے ڈالر کو سہارا مل سکے مگر ایسا ہو نہ سکا۔<!-- Within two days August 16–17, 1971, Japan's central bank had to buy $1.3 billion to support the dollar --><ref>[https://en.wikipedia.org/wiki/Nixon_shock Nixon shock]</ref><br>
کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے سینٹرل بینکاروں کا صدیوں پرانا سپنا پورا ہو گیا اور وہ کرنسی چھاپنے کی محدود حد سے بالکل آزاد ہو گئے۔ اب وہ دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔
سطر 1,909:
اگر روس امریکا کا کرنسی پلان مان لیتا تو شائید نہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا نہ [[سرد جنگ]] شروع ہوتی۔<!-- How can we have a common currency with them unless we can control their imports and exports? To do that we could have to control their zone. And if we want to control their zone, they would want to control our zone. And where the hell would we be then?" (Burchett, 40-41) --><ref>[http://www.history.ucsb.edu/faculty/marcuse/classes/133c/133cproj/04proj/JohnsonBurchett50-042.htm Wilfred Burchett, جرمنی کی تقسیم]</ref>
[[فائل:Swiss gold reserves.jpg|تصغیر|سوئیزرلینڈ کے سونے کا ذخیرہ۔]]
دوسری جنگ عظیم کے دوران میں [[سویٹزرلینڈ|سوئیزرلینڈ]] کے ایک طرف [[جرمنی]] اور اس کے حامی تھے اور دوسری جانب [[اتحادی افواج]]۔ اس لحاظ سے سوئیزرلینڈ کو تو محاذ جنگ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب سارا [[یورپ]] جنگ کی آگ میں جل رہا تھا اس وقت سوئیزرلینڈ میں نہ صرف کوئی جنگ نہ ہوئی بلکہ وہ دونوں متحارب فوجوں کو سامان جنگ بھی فروخت کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اٹلی اور فرانس نے سوئیس نیشنل بینک کو 3.8 ارب سوئیس فرانک کا [[سونا]] بیچا یعنی لگ بھگ 784.4 ٹن۔<ref>[{{Cite web |url=http://www.swissbankclaims.com/Documents/DOC_40_Bergier%20Final.pdf |title=Final Report of the Independent Commission of Experts Switzerland – Second World War, page 243] |access-date=2015-09-26 |archive-date=2016-04-18 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160418183141/http://www.swissbankclaims.com/Documents/DOC_40_Bergier%20Final.pdf |url-status=dead }}</ref> بیسل، سوئیزرلینڈ میں [[بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ]] کا مرکزی دفتر تھا جو سارے بڑے مرکزی بینکوں کا محور تھا اور یہ بینک ہی دونوں طرف کی فوجوں کو سامان جنگ کی خریداری کے لیے کاغذی سرمایہ [[سود]] پر فراہم کر رہے تھے۔
1940 سے 1950 کے دوران میں امریکا اور فرانس پر قرضے 600 گنا بڑھے جبکہ جاپان پر 1348 گنا بڑھے۔ اس طرح مرکزی بینکوں کا منافع بھی خوب بڑھا<ref>{{cite web |url=http://iamthewitness.com/books/Andrew.Carrington.Hitchcock/The.History.of.the.Money.Changers.htm |title=The.History.of.the.Money.Changers |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=iamthewitness |publisher= |accessdate=}}</ref><ref>[https://criminalbankingmonopoly.wordpress.com/ A Historical Perspective: The Banking Monopoly]</ref> اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں امریکا، جو ایک مقروض ملک تھا، وہ 1919ء تک نوٹ چھاپ چھاپ کر قرضہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد ایک سال کے اندر امریکی ایکسپورٹ میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا اور امریکی تجارتی منافع تاریخ میں پہلی بار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔<!-- As a result of World War 1 the United States, which had been a net debtor country, had become a net creditor by 1919.<ref>Drummond, Ian M. The Gold Standard and the International Monetary System 1900–1939. Macmillan Education, LTD, 1987.</ref>
 
سطر 1,980:
== کاغذی کرنسی اور غربت ==
امریکا کے تیسرے صدر [[ٹامس جیفرسن|تھامس جیفرسن]] نے1788ء میں کاغذی کرنسی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ محض [[غربت]] ہے، یہ صرف رقم کا بھوت ہے رقم نہیں ہے۔{{quote|Paper is poverty... it is only the ghost of money, and not money itself|تھامس جیفرسن<ref>{{cite web |url=http://paperpoverty.blogspot.com |title=کاغذی غربت |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=blogspot |publisher= |accessdate=}}</ref>}}
امریکا کے ساتویں صدر [[اینڈریو جیکسن]] نے فروری 1834 میں ایک تقریر کے دوران میں کہا تھا "میں بڑے غور سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ [[بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ]] کیا کر رہا ہے۔ میرے آدمی کافی عرصے سے تم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب میں قائل ہو چکا ہوں کہ تم لوگوں نے بینک میں جمع شدہ رقم سے اشیاء خور و نوش پر سٹہ کھیلا۔ جب تم جیتے تو تم نے منافع آپس میں بانٹ لیا۔ اور جب تمہیں نقصان ہوا تو تم نے اسے بینک کے کھاتے میں ڈال دیا۔ تم مجھے بتاتے ہو کہ اگر میں تمہارے بینک کا سرکاری اجازت نامہ منسوخ کر دوں تو دس ہزار گھرانے برباد ہو جائینگے۔ معززین، ہو سکتا ہے یہ درست ہو لیکن یہ تمہارا گناہ ہے۔ اور اگر میں نے تمہیں اسی طرح کام کرنے دیا تو تم لوگ پچاس ہزار خاندان تباہ کر دو گے اور یہ میرا گناہ ہو گا۔ تم لوگ زہریلے سانپوں اور چوروں کا گروہ ہو اور میں تمہیں ہر حال میں ختم کر کے رہوں گا"<ref>{{cite web |url=http://unameitltd.limewebs.com/id20.htm |title=AbolishFiatSlavery |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=limewebs |publisher= |accessdate= |archive-date=2013-02-24 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130224054736/http://unameitltd.limewebs.com/id20.htm |url-status=dead }}</ref>
اگرچہ کانگریس نے بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ کی دوبارہ بحالی کا بل منظور کر لیا تھا مگر بعد میں اینڈریو جیکسن نے اسے [[حق استرداد|ویٹو]] کر دیا تھا۔
30 جنوری 1835 کو اینڈریو جیکسن پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن اس پر چلائی گئی دونوں گولیاں اسے نہیں لگیں۔