"کنن پوشپورہ سانحہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
9 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 9:
نیو یارک ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، کنن پوشپورہ میں رہنے والے لوگوں نے یہ کہا کہ عسکریت پسندوں نے فوج پر گولی چلائی جس کی وجہ سے فوج نے سرچ آپریشن چلایا۔<ref name="nyt" /> 23فروری 1991 کو سی۔آر۔پی۔ایف اور بی۔ایس۔ایف کے دستوں نے کنن اور پوشپورہ، دونوں گاؤں کو گھیر لیا، تاکہ وہ سرچ آپریشن کر سکے۔ گاؤں کے مردوں کو گاؤں سے باہر جمع کیا گیا اور ان سے عسکریت پسندوں کی سرگرمی کے متعلق سوال کئے گئے۔ سرچ آپریشن کے خاتمے کے بعد، کئی گاؤں والوں نے یہ دعوی کیا کہ اس رات فوج نے کئی خواتین کے ساتھ عصمت دری کی۔<ref name="nyt" />
 
بعد ازاں مقامی جماعت حزب اسلامی کے رہنما مشتاق الاسلام نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویوکشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کی حمایت کرتے ہوئے بھارتی حکومت کے اس دعوے کی تردید کی کہ سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
=== ایف آئی آر اور عدالتی کمیشن ===
5 مارچ کو، گاؤں والوں نے اس واقعے کی شکایت مقامی مجسٹریٹ ایس ایم یاسین سے کی۔ 7 مارچ کو گاؤں کا دورہ کرنے کے بعد، اس نے اپنی رپورٹ درج کروائی جس میں 23 خواتین کے بیانات شامل تھے جنہوں نے بھارتی فوج پر عصمت دری  کا الزام لگایا تھا۔ بھارتی اور عالمی میڈیا نے جب اس مسئلے کو اجاگر کیا تو بھارتی حکومت اور فوجی حکام کی طرف سے سختی سے تردید کی گئی۔ 8 مارچ کو تریہگام پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ کنن اور پوش پورہ میں 23 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
 
17 مارچ کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مفتی بہاؤالدین فاروقی نے ایک فیکٹ فائنڈنگ وفد کی قیادت کرتے ہوئے کنن پوشپورہ کا دورہ کیا۔ اپنی تفتیش کے دوران، اس نے 53 خواتین کا انٹرویو کیا جنہوں نے الزام لگایا کہ فوجیوں نے ریپ کیا، جسٹس مفتی بہاؤالدین فاروقی کے مطابق گاوں کے لوگوں نے بتایا کہ تفتیش کیلئے مقرر کئے گئے اے ایس پی دلباغ سنگھ چھٹی پر تھے جس کی وجہ سے اس کیس کی تحقیقات کا آغاز ہی نہیں ہوسکا۔ اس کے ساتھ ہی جسٹس مفتی بہاوالدین فاروقی نے بعد میں کہا کہ اس معاملے میں "عام تفتیشی طریقہ کار کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ صرف چند ماہ بعد، جولائی 1991 میں، دلباغ سنگھ کو بغیر تفتیش شروع کیے کسی دوسرے اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔<ref>{{Cite web|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|title=کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر|access-date=2023-02-24|archive-date=2023-02-24|archive-url=https://web.archive.org/web/20230224034055/https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|url-status=dead}}</ref>
 
=== ڈویژنل سطح پر تحقیق ===
سطر 20:
 
=== پریس کونسل آف انڈیا ===
حکومتی تحقیقات پر شدید نکتہ چینی ہوئی تو پریس کونسل آف انڈیا جو کہ پرنٹ میڈیا کا ایک قانونی اور نیم عدالتی ادارہ ہے، نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی۔ تحقیقاتی کمیٹی نے جون میں کنن پوش پورہ کا دورہ کیا تھا۔ متعدد  متاثرین کا انٹرویو کرنے پر، ٹیم نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کے بیانات میں تضاد ہے جس کی وجہ سے وہ عصمت دری کے الزامات کو بے بنیاد  سمجھتی ہے۔ <ref>{{Cite web|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|title=کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر|access-date=2023-02-24|archive-date=2023-02-24|archive-url=https://web.archive.org/web/20230224034055/https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|url-status=dead}}</ref>صرف چار دن بعد  ایک ماہر اطفال جو جموں و کشمیر پیپلز بیسک رائٹس کمیٹی کے نام سے شہریوں کے گروپ کا رکن تھا اور اس نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس واقعے کے وقت حاملہ ہونے والی خواتین میں سے ایک نے ایک بچے کو جنم دیا تھا جس کا بازو ٹوٹا ہوا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے ہسپتال کے حکام سے انٹرویوکے بعد یہ قیاس کیا کہ بچے کو لگی چوٹیں ڈاکٹروں کے بچے کو پیدائش کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔<ref>{{Cite web|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|title=کنن پوشپورہ اجتماعی آبروریزی، متاثرین 32 سال سے انصاف کے منتظر|access-date=2023-02-24|archive-date=2023-02-24|archive-url=https://web.archive.org/web/20230224034055/https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/|url-status=dead}}</ref>
 
=== میڈیکل رپورٹ میں تاخیر ===
15 اور 21 مارچ کو 32 خواتین کے طبی معائنے کیے گئے، جن میں ان کے سینے اور پیٹ پر خراشوں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی، اور تین غیر شادی شدہ خواتین کے ہائیمن پھٹے ہوئے تھے۔ جس پر ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "اس طرح کے معاملے میں تاخیر سے ہونے والے طبی معائنے سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ہے" اور یہ کہ کشمیر کے دیہاتیوں میں اس طرح کے خراشیں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ہائمن قدرتی عوامل، چوٹ، یا شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
بدسلوکی کے مبینہ الزامات کے بالکل برعکس، ان تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ الزامات خود "مبالغہ آمیز یا خود ساختہ ہیں"۔ ٹیم نے یہ بھی لکھا کہ یہ سب کچھ "کشمیر اور بیرون ملک عسکریت پسند گروپوں اور ان کے ہمدردوں اور سرپرستوں کے ذریعہ نفسیاتی جنگ کی پائیدار حل کےلیے انتہائی چالاکی سے تیار کردہ حکمت عملی  ہے جس کا مقصد فوج کو بدنام کرنا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام معاملے میں متعدد جگہ پر تضادات ہیں جس واقعہ کی صداقت کو مشکوک کرتے ہیں۔
 
پریس کونسل کی رپورٹ کے اجراء کے بعد، سرکاری حکام نے اجتماعی عصمت دری کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ستمبر میں، کیس کو قرار دیا گیا اور ایک ماہ بعد بند کر دیا گیا۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
=== ہیومن رائٹس واچ کی تنقید ===
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے پریس کونسل کے اس الزام کو مسترد کرنے پر تنقید کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ  طبی معائنے کے نتائج عصمت دری کے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، لیکن پھر بھی انہوں نے کنن پوش پورہ میں فوج کی سرگرمی پر سوالات اٹھائے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، کمیٹی نے ایسے ہر ثبوت کو مسترد کر دیا  جو حکومتی بیانیے کی تردید کرتا تھا۔  ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ میں کمیٹی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سچائی سے پردہ اٹھانے کے بجائے تنقید کا مقابلہ کرنے میں زیادہ فکر مند ہے۔
 
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی انسانی حقوق پر اپنی 1992 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ  کنن پوشپور ہ میں فوج کی طرف سے اجتماعی زیادتی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
=== ریاستی انسانی حقوق کمیشن کا مطالبہ ===
2004 میں، مبینہ متاثرین میں سے ایک نے جموں و کشمیر کے ریاستی انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا اور کیس کی دوبارہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ 2007 میں، مزید خواتین نےکیس دوبارہ کھولنے کیلئے رابطہ کیا۔دونوں دیہات کے  متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے 70 سالہ شخص غلام احمد ڈار کی سربراہی میں کنن پوش پورہ رابطہ کمیٹی (KCC) بنائی۔
 
اکتوبر 2011 میں، جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن نے جموں و کشمیر حکومت سے مبینہ اجتماعی عصمت دری کیس کی دوبارہ تحقیقات کرنے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کو کہا۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں 2013 میں دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن میں الزام لگایا گیا تھا کہ 30 سے زیادہ خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے اور مقدمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اسے امید ہے کہ جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی ایس ایچ آر سی کی سفارشات کا جائزہ لے گی اور ان پر تیزی سے عمل درآمد کرے گی۔[https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/] {{wayback|url=https://jtnpk.com/%DA%A9%D9%86%D9%86-%D9%BE%D9%88%D8%B4%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%81-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-%D8%A2%D8%A8%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%B2%DB%8C/ |date=20230224034055 }}
 
دسمبر 2017 میں، جموں و کشمیر حکومت نے ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ اپیلوں کی جلد سماعت کی جائے۔