"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م نے زمرہ:کڈپہ ضلع کا اضافہ کیا فوری زمرہ بندی کے ذریعہ
سطر 10:
ساغرؔ جیدی کے کل تین غزلوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔1974ء میں ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کل پانچ شعراء کا اشتراکی مجموعہ ہے جس میں عقیل جامدؔ ، اشفاق رہبرؔ ، راہیؔ فدائی، ساغرؔ جیدی کی غزلیں اوریوسف صفیؔ کی نظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ضلع کڈپہ کی ادبی تاریخ میں جدید رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس مجموعہ کے ذریعہ ساغرؔ جیدی نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ جدیدیت کو اپنا نے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان شعراء نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قدم ملایا ہے اور اپنے اشعار میں جدیدیت کے تمام فنی لوازمات و قواعد کو اپنایا ہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’انتسللہ‘‘(اشتراکی مجموعہ)1978 ؁ء میں شائع ہوکر اہل ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ان کا تیسرا مجموعہ غزل ’’اثبات‘‘ ہے جو1991 ؁ء میں منظرِ عام پر آیا ہے، ان کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نئے الفاظ کی تراکیب کو اپنایا ہے اور اپنے خیالات و جذبات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا ہے۔
موصوف کی غزلوں میں نئے الفاظ کی تراکیب، علامت نگاری، اظہار بیان کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یوں تو ان کی شاعری موضوع ،اسلوب اور ہئیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی غزل میں علائم کی فراوانی پائی جاتی ہے ۔ندرت خیال پیش کرنے میں موصوف پیش پیش ہیں۔ مثلاً زاغِ ہوس، صداؤں کا ہتھوڑا، راتیں، ضیاء پتھروں کے درخت، قطراتِ شبنم، نبض شرر، پیاسی شعائیں وغیرہ جیسے الفاظ کی چُست بندش سے موصوف نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے، چند شعر ملاحظہ ہوں ؂
{{اقتباس|بھٹکتا رہے گا وہ تاریک شب میں
جو احساس ساغرؔ سحر سے ہے خائف}}
 
{{اقتباس|ان اجالوں کی زباں میری سمجھ سے دور تھی
یہ اندھیرے بن گئے ہیں ترجماں میرے لیے}}
 
{{اقتباس|ہستی کی بیاضوں پر کیا غور کروں ساغرؔ
اوراق بھی کالے ہیں، الفاظ بھی کالے ہیں}}
{{اقتباس|خوابیدہ گاؤں سے یہ سرکتی ہوئی سی شب
ناگن کسی کو ڈس کے پلتی دکھائی دے}}
{{اقتباس|ہواؤں کی میزان پر تُل گئے ہیں
گراں بار ارمان بادل بنے ہیں}}
 
ہستی کی بیاضوں پر کیا غور کروں ساغرؔ
اوراق بھی کالے ہیں، الفاظ بھی کالے ہیں
خوابیدہ گاؤں سے یہ سرکتی ہوئی سی شب
ناگن کسی کو ڈس کے پلتی دکھائی دے
ہواؤں کی میزان پر تُل گئے ہیں
گراں بار ارمان بادل بنے ہیں
==ساغرؔ جیدی کی دوہا گوئی==
ہمہ اصناف کے پروردہ ساغرؔ جیدی نے نہ صرف صنف غزل کو اپنا یا بلکہ دوہے جو ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتے ہیں اردو میں تخلیق کی ،نہ صرف تخلیق کی بلکہ ان تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کے اب تک پانچ دوہوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔1990 ؁ء میں’’ ثبوت‘‘کے نام سے ایک دوہوں کا مجموعہ جس میں ایک دیوان(بغیر الف) ’’دو نیم‘‘ کے نام سے اور دوسرا مجموعہ ، ’’تحویل‘‘ جن کی رسم اجراء آندھرا پردیش کے گورنر سر جیت سنگھ برنالہ کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ ان تین مجموعوں کے علاوہ2005 ؁ء میں مرن مئی کے نام سے ہندی میں شائع ہوچکا ہے جس میں دوہوں کے ساتھ ساتھ دوہا گیت بھی موصوف نے تخلیق کی ہے۔2009 ء میں اردو اکاڈمی آندھرا پردیش کی مالی اعانت سے ’’کیسر کیسر دوہے‘‘ کے نام سے ایک اور دوہوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔ علاوہ ازیں محبی ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری ،ڈگری لکچرر، ڈگری کالج پلمنیر نے موصوف کے دوہوں کے مجموعوں پر ایک تحقیقی(ناکہ تنقیدی) جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب ’’ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی‘‘ کے نام سے شائع کی۔ جس میں ڈاکٹروصی اللہ نے موصوف کی دوہا گوئی پر عمدہ بحث کی ہے اور تمام فنی لوازمات کو اجاگر کیا ہے۔