"علی گڑھ تحریک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: القاب)
سطر 2:
[[تصویر:Victoria gate.jpg|تصغیر|[[جامعہ علی گڑھ]]]]
 
[[برصغیر پاک و ہند]] میں 1857کی ناکام [[1857ء کی جنگ آزادی|1857ء کی ناکام جنگ آزادی]] اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لئے جو کوششیں کی گئیں ، عرف عام میں وہ ”[[علی گڑھ]] تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں ۔ [[سرسید احمد خان|سر سید]] نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ <br>
لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ <br>
ابتداء میں [[سرسید احمد خان]] نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔<br>
1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ [[ہندوستان]] میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار [[ہندوستان]] سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”[[رسالہ تہذیب الاخلاق]]“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں
 
 
سطر 49:
 
علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقاءرکھنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبداللہ سرسید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سرانجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاءکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔<br>
اگرچہ [[سر سید احمد خان|سرسید احمد خان]] نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیالات نے تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈالا۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلیٰ تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔ سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا ۔ انہوں نے انداز بیان کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا ۔ سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے [[سرسید احمد خان]] کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔<br>
علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی ۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی ۔ گو کہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی ۔ تاہم ان کے رفقاءمیں سے [[الطاف حسین حالی]] نے ”[[مقدمہ شعر و شاعری]]“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ”یادگار غالب “ میں کیا۔ مولانا حالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم “ ہے۔<br>
[[سرسید]] نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قار ی کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی ۔ لیکن انشاءکے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقاءمیں سے مولانا شبلی اور [[ڈپٹی نذیر احمد]] کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکاءاللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ [[نواب محسن الملک]] کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے۔
 
 
سطر 57:
 
 
اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کئے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران [[سرسید احمد خان]] وہاں کے بعض اخبارات مثلاً سپکٹیڑ، ٹیٹلر ، اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں [[ہندوستان]] سے بھی ایک اخبار کا اجراءکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد [[سرسید احمد خان]] نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں [[سرسید احمد خان]] نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو مذکورہ بالا رسائل کا تھا۔ <br>
[[سرسید احمد خان]] کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لئے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essayکی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت [[اردو]] ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہوگیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔ <br>
تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں [[سرسید احمد خان]] ، محسن الملک ، اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا ۔ چنانچہ محسن الملک ، وقار الملک ، مولوی چراغ علی ، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔
 
 
سطر 67:
علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید احمد خان ، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کردیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ [[ڈپٹی نذیر احمد]] نے انہیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔<br>
اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا ۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔
[[مولوی نذیر احمد]] کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لئے انہیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔
 
 
سطر 76:
” ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“
اس بناءپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔<br>
[[سرسید احمد خان]] شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نےچر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ
<br>”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی ۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“
چنانچہ [[سرسیداحمد خان]] کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی ۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبدالحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔
 
== مجموعی جائزہ ==