"صلاح الدین احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ مواد، اضافہ سانچہ/سانچہ جات، حوالہ/حوالہ جات کی درستی، درستی املا (ٹیگ: القاب) |
|||
سطر 27:
| influences =
| influenced =
| awards = [[تمغا حسن کارکردگی|صدارتی
| signature =
| website =
سطر 33:
| students =
}}
'''مولانا صلاح الدین احمد''' (پیدائش: [[25 مارچ]]، [[1902ء]] - وفات: [[14 جون]]، [[1964ء]]) [[پاکستان]] سے تعلق رکھنے والے [[اردو]] کے نامور [[ادیب]]، [[صحافی]]، [[نقاد]]، [[مترجم]] ادبی جریدے
== حالات زندگی ==
صلاح الدین احمد 25 مارچ، 1902ء کو لاہور، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے<ref name="پاکستان کرونیکل">
== اردو کے لئے خدمات ==
مولانا صلاح الدین احمدکی اُردو کے لیے خدمات کا اگر ایمان داری سے احاطہ کیا جائے تو شاید اُن کی پوری سوانح عمری کو دُہرانا ہو گا کہ اُن کی زندگی کے شعوری حصے کا کوئی ایسا پل نہیں ہے، جو خدمتِ اُردو سے خالی ہو۔ اُردو زبان کی تحسین، فروغ، دفاع اور نفاذ اُن کی زندگی کا مقصدِ اوّل اور مدّعائے آخر تھا۔ اُردو اُن کی تہذیب تھی، اُن کا ماحول تھا، اُن کی ثقافتی فضا تھی، اُن کی وجہِ دوستی اور سبب عداوت تھی، اُن کا نظریہ تھا، اُن کا نظامِ خیال تھا حتیٰ کہ اُن کا جزوِ ایمان تھا۔<ref name="nlpd.gov.pk">[http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/june2011/1.html مولانا صلاح الدین احمد کی اُردو خدمات، ڈاکٹر طارق ہاشمی، '''اخبار اردو'''، جون 2011ء، [[ادارہ فروغ قومی زبان]] پاکستان]</ref>
زمانی لحاظ سے اُن کی خدمات کا پہلا عرصہ [[قیام پاکستان]] تک کا ہے جب کہ اُردو اور ہندی کا تنازعہ اُسی طرح عروج پر تھا جیسا کہ [[ہندوستان]] کی دو بڑی اقوام کے مابین مذہب کا جھگڑا۔ اگرچہ یہ لسانی مناقشہ قطعی طور پر مصنوعی تھا اور اُس زبان کے خلاف ایک محاذ تھا جو عوام میں رائج اور مقبول تھی۔اُس وقت کی ہندوقیادت کا یہ خیال تھا : '''اُردو کا مستقبل مسلمانوں کے فرقے کا نجی معاملہ ہے اور اگر وہ اِسی زبان میں لکھنا پڑھنا چاہیں تو اُن پر کوئی پابندی مناسب نہ ہو گی۔ البتہ قومی سطح پر فوقیت ہندی یا ہندوستانی کو حاصل ہو گی۔'''
یہی وہ نقطۂ نظر تھا جس کے باعث اُردو کے قومی سطح پر فروغ یا نفاذ کے خلاف سرگرمیاں شروع ہوئیں اورہر سطح پر اُردو کے فروغ کا راستہ روکا گیا۔ ہندی نواز طبقہ اُردو دُشمنی میں ہر نوع کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اُردو کے خلاف جلسے بھی منعقد کیے جانے لگے اور قراردادیں بھی پاس ہونے لگیں۔ الغرض کوئی موقع ضائع نہ کیا گیا۔ جون [[1945ء]] میں [[پنجاب ساہتیہ منڈل]] کا ایک جلسہ زیرِصدارت بہاری لال چاننہ منعقد ہوا جس میں یہ قرارداد پاس کی گئی: ''چونکہ ریڈیو کی زبان [[عربی زبان|عربی]] اور [[فارسی زبان|فارسی]] الفاظ کی کثرت کے باعث حدِ درجہ ناقابلِ فہم ہے، اِسی لیے اِس محکمے کے عملے میں فوری تبدیلیاں کی جائیں اور پچھتّر فی صد اسامیاں ایسے لوگوں سے پُر کی جائیں جو ہندی دان طبقے کے نمائندے ہوں اور جو زبان کے معاملے میں ہم سے انصاف کر سکیں۔''
اُردو کے خلاف اِس محاذ کے باعث یہ ضروری سمجھا گیا کہ اِس لسانی مناقشے میں بھرپور دفاعی پالیسی اپنائی جائے۔ چنانچہ اُردو کے تحفظ کے لیے تمام مسلمانانِ ہند اور اُن کی نمائندہ جماعتیں ایک ہو گئیں اور اُسی شدومد کے ساتھ اُردو دفاع کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، جس قدر کہ جارحیت تھی۔ بقول ڈاکٹر [[
مولانا صلاح الدین احمدنے اِس صورتِ حال میں جو کردار ادا کیا وہ کسی جہاد سے کم نہیں۔ اُردو کو اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہوئے اُردو کے فروغ اور اُس کے خلاف کارروائیوں کے سدِّ باب کے لیے تن، من اور دھن کی بازی لگا دی۔ اِسی سلسلے میں انہوں نے جو نمایاں اقدامات کیے،وہ یہ ہیں:
# جریدے ادبی دنیا کے اداریوں میں فروغ و دفاعِ اُردو کو مستقل اہمیت دی۔
# ادبی دنیا میں اپنے تنقیدی شذرات میں اُردو کے دفاع کے لیے بطورِ خاص لکھا۔
# ادبی دنیا میں اُردو کے حق میں اور ہندوستان کی لسانی صورتِ حال پر مضامین لکھوائے اور شائع کیے۔
# '''اُردو بولو تحریک''' شروع کی اور اِس کے لیے مختلف سلوگنز بنائے۔ (اِس کی تفصیل آگے آئے گی۔)
#''' پنجاب اُردو کانفرنس''' کی بنا ڈالی۔
# اُردو یونیورسٹیوں کے قیام کی تجویز پیش کی اور اِن کی عملی شکل کے لیے جدوجہد کی۔
# '''مجلسِ تعمیرِ جامعہ اُردو'''تشکیل دی، جس کا ایک اہم شعبہ '''دارالتحقیق علم و ادب''' قرار پایا۔
# اُردو زبان کے دفاع کے لیے کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور ہر اُس عملی جہد کا حصہ بنے جو اُردو کی بقاءکے لیے ناگزیر تھی۔
سطر 58:
مولانا صلاح الدین احمد کی تمام تر زندگی اُردو کے تحفظ، فروغ، دفاع اور نفاذ کی کوششوں میں گزری۔ یہ کوششیں ایک ایسی زبان کے لیے تھیں جو ایک عظیم تہذیب کی ترجمان اور امانت دار تھی مگر جس ہوائے مخالف کو ورثے میں پایا اور تاحال اِس تندئ بادِ مخالف کا سامناکر رہی ہے، غنیمت نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے شعبۂ اُردو کے لیے ایک مضبوط بادبان کا کام کیا ورنہ تو اِس کے دُشمنوں ہی نے نہیں بعض نادان دوستوں نے بھی اِ س کے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔<ref name="nlpd.gov.pk"/>
انہوں نے اُردو کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم بھی اُٹھایا اور آواز بھی۔ ادبی دنیا کے اداریے، تنقیدی شذرات، '''اُردو
=== اُردو بولو تحریک ===
ہندی زبان کے مقابلے میں اُردو کے فروغ کے سلسلے میں مولانا صلاح الدین احمدکی ''اُردو بولوتحریک'' کا کردار بہت بھرپور ہے۔اگرچہ یہ تحریک ابتداً اُن مختصر فرمودات بلکہ نعروں( سلوگنز) پر مبنی ہے جو ادبی دُنیا کے صفحات پر خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے درج کیے جاتے تھے مگر اپنے اثر اور اُردو کے فروغ کے سلسلے میں خاصے کارگر ثابت ہوئے۔ بعدازاں اِس کے لیے صفحہ مختص کر دیا گیا اور ادبی دنیا کا سرورق اُلٹتے ہی اِس تحریک کے نعروں پر نظر پڑتی جو جلی حروف میں درج ہوتے تھے۔ اِس تحریک کی اِبتدا کے بارے میں [[آغا بابر]] کا دعویٰ ہے کہ یہ اُن کی تجویز تھی۔ اِس سلسلے میں اُن کا کہنا ہے:
یہ مختصر سے نعرے (سلوگن) اپنے حلقہ اثر کے اعتبار سے بہت وسعت کے حامِل ثابت ہوئے اور یہ تحریک وقت کے ساتھ ساتھ اذہان میں ایک مثبت شعور اور تبدیلی کا باعث بنی۔اِن اعلانات میں نہایت سادہ مگر پراثرانداز کے الفاظ شامل کیے جاتے، جن میں لسانی سطح کی ایک فکری دعوت ہوتی۔ یہ اعلانات اُردو کے حق میں ہوتے لیکن کوئی ایسا اعلان شائع نہ ہوا، جو ہندی کے خلاف ہو، جس کا مقصد یہ تھا کہ بغیر محاذ آرائی کی فضا پیدا کیے اُردو کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ چنانچہ صرف اُردو کے فروغ اور اہمیت پر اعلانات درج کیے گئے۔ ادبی دُنیا کے صفحات پر اِن اعلانات کی نوعیت کیا تھی۔ مناسب ہو گا کہ چند منتخب اعلانات درج کیے جائیں:
* اُردو بولو۔
سطر 81:
* اُردو وہ جادو ہے جو سَر چڑھ کر بولتا ہے۔ اُردو بولو۔
یہ مختصر، بے ضرر مگر پراثر اعلانات بڑی سرعت کے ساتھ ذہنی بیداری کا باعث بنے۔ اِس تحریک کے اثرات کس قدر وسیع تھے۔ اِس سلسلے میں مولوی عبدالحق کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
=== اکادمی پنجاب کی بنیاد ===
اُردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے ''اُردوبولوتحریک'' کے علاوہ مولانا صلاح الدین احمد نے اپنے وسائل سے '''اکادمی پنجاب''' کی بنیاد رکھی۔اِس سلسلے میں اُن کو [[فقیر سید وحید الدین]]،اے ڈی اظہر اور [[وزیر آغا|ڈاکٹر وزیرآغا]] کا تعاون حاصل تھا۔ اِس اکادمی کے مقاصد میں اُردو زبان و ادب کی نشوونما کے لیے متنوع جہتوں میں کام کرنا تھا۔ '''اکادمی پنجاب''' کے مقاصد کا تعین کرتے ہوئے [[ڈاکٹر انور سدید]] نے درج ذیل پانچ نکات پیش کیے ہیں:
# قومی زبان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنا۔
# اُردو کی ترقی اور فروغ کی علمی کامرانیوں میں اضافہ۔
سطر 130:
== مولانا صلاح الدین احمد کے فن و شخصیت پر تحقیقی ==
* مولانا صلاح الدین احمد : تعلیمی و ادبی
== ناقدین کی آراء ==
سطر 137:
== اعزازات ==
[[حکومت پاکستان]] نے مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات کے صلے میں بعد از مرگ
== وفات ==
صلاح الدین احمد 14 جون، 1964ء کو
<ref name="bio-bibliography.com"/>
|