"ماتریدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ سانچہ/سانچہ جات
غیر ضروری فرقہ وارنہ مواد کا اخراج
سطر 6:
| دين = [[اسلام]]
| زعيم = [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]]
| أعلام = [[ابو جعفر الطحاویطحاوی]]{{·}}[[محمد الفاتح]]{{·}}[[الحكيم السمرقندی]]{{·}}[[ابو اليسر البزدوی]]{{·}}[[ابو المعين النسفی]]{{·}}[[نجم الدين عمر النسفی]]{{·}}[[حافظ الدين أبو البركات النسفی]]{{·}}[[برهان الدين النسفی]]{{·}}[[سعد الدين التفتازانی]]{{·}}[[الشريف الجرجانی]]{{·}}[[الكمال بن الهمام]]{{·}}[[نور الدين الصابونی]]{{·}}[[علاءعلا الدين البخاری]]{{·}}[[جمال الدين الغزنوی]]{{·}}[[أبو الليث السمرقندی]]{{·}}[[علاءعلا الدين السمرقندی]]{{·}}[[العلاءالعلا الأسمندی]]{{·}}[[بكبرس بن يلنقلج]]{{·}}[[سبط ابن الجوزی]]{{·}}[[شجاع الدين التركستانی]]{{·}}[[حسام الدين السغناقی]]{{·}}[[شهاب الدين التوربشتی]]{{·}}[[ابن التركمانی]]{{·}}[[ابن نجيم]]{{·}}[[ابن قطلوبغا]]{{·}}[[ابن الغرس]]{{·}}[[جمال الدين القونوی]]{{·}}[[شمس الدين القونوی]]{{·}}[[شمس الدين الخيالی]]{{·}}[[خضر بك]]{{·}}[[محيي الدين الكافيجی]]{{·}}[[عبد الرحمن الجامی]]{{·}}[[مصلح الدين القسطلانی]]{{·}}[[محي الدين النكساری]]{{·}}[[الكرماستی]]{{·}}[[عصام الدين الإسفرايينی]]{{·}}[[أورنكزيب]]{{·}}[[الملا علي القاری]]{{·}}[[ابن عابدين]]{{·}}[[عبد العزيز الدهلوی]]{{·}}[[عبد العزيز الملتانی]]{{·}}[[عبد الحق الدهلوي|سيف الدين الدهلوی]]{{·}}[[عبد الحكيم السيالكوتي|شمس الدين السيالكوتی]]{{·}}[[كمال الدين البياضی]]{{·}}[[عبد الغني الميدانی]]{{·}}[[محمد عبده (عالم دين)|محمد عبدهعبدہ]]{{·}}[[إسماعيل حقی البروسوی|إسماعیل حقی]]{{·}}[[أنورانور شاهشاہ الكشميریکشمیری]]{{·}}[[محمد زاهدزاہد الكوثریکوثری]]
| تاريخ ظهور =
| مكان ظهور = [[سمرقند]]، [[بلاد ما وراء النهرالنہر]]
| مميزات = إثبات عقيدة [[السلف]] [[علم الكلام|بحجج كلامية]]<br />استخدام العقل في توضيح النقل
| أصل = [[اہلسنت و الجماعت]]
| فروع =
| منطقة =
| تعداد =
| مؤسس = [[ابومنصور ماتریدی]]
| معالم =
| تقارب = [[اشعری]]، [[تصوف|صوفیا]]
| مجموعة =
سطر 23:
ماتریدیہ متعدد مراحل سے گزرے ہیں، اور انہیں اس نام سے اس فرقے کے مؤسس کی وفات کے بعد ہی پہچانا گیا، جیسے اشعری ابو الحسن الاشعری کی وفات کے بعد ہی مشہور ہوئے، اس فرقے کے تمام مراحل کو چار بنیادی مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
 
== تاسیسی مرحلہ: ==
 
اس مرحلہ میں معتزلہ کے ساتھ انکے بہت ہی زیادہ مناظرے ہوئے، یہ مرحلہ ابو منصور ماتریدی پر قائم تھا، اسکا مکمل نام محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی، "ماتریدی"یہ نسبت جائے پیدائش کی طرف ہے، جو ما وراء النہر کے علاقے میں سمرقند کے قریب ہی ایک محلے کا نام ہے۔
 
سطر 33 ⟵ 32:
ابو منصور، ابن کلاب (متوفی 240 ہجری) سے بھی متاثر تھا، اسی ابن کلاب نے اللہ تعالی کے بارے میں "کلام نفسی" کا عقیدہ ایجاد کیا تھا، جس سے ابو منصور بھی متاثر تھا۔
 
== تکوینی مرحلہ: ==
 
یہ دور ماتریدی کے شاگردوں اور بعد میں اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کا تھا، اس دور میں ماتریدیہ مستقل ایک کلامی فرقہمکتب فکر بن چکا تھا؛ ابتدائی طور پر سمرقند میں ظہور پزیر ہوا، اور اپنے شیخ اور امام کے افکار نشر کرنے شروع کئے، اور انکا دفاع بھی کیا، اس کے لیے انہوں نے تصانیف بھی لکھیں، یہ لوگ فروع میں امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے، اسی لیے ماتریدی عقائد انہی علاقوں میں زیادہ منتشر ہوئے۔
 
اس مرحلے کے قابل ذکر افراد میں ، ابو القاسم اسحاق بن محمد بن اسماعیل الحکیم سمرقندی، اور ابو محمد عبد الكريم بن موسى بن عيسى بزدوی ہیں۔
 
ماتریدی عقائد کے لیے== اصول و قواعد اور تالیفات کا مرحلہ: ==
 
اس مرحلے میں تالیف کثرت سے ہوئی ، اور ماتریدی عقائد کے لیے دلائل جمع کئے گئے، اس لیے مذہب کی بنیاد کے لیے گذشتہ تمام مراحل سے زیادہ اہم مرحلہ یہی ہے۔
سطر 45 ⟵ 44:
اس مرحلے کے قابل ذکر علماء میں :ابو معين نسفی، اورنجم الدين عمر نسفی شامل ہیں۔
 
== انتشار اور مذہبی پھیلاؤ کا مرحلہ: ==
 
ماتریدیہ کے لیے انتہائی اہم ترین مرحلہ ہے، کہ اس مرحلے میں ماتریدی مذہب خوب پھیلا حتیٰ کہ اس سے زیادہ پھیلاؤ کبھی نہیں ہوا تھا؛ اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دولہ عثمانیہ کی خوب تائید کی ، اسی وجہ سے ماتریدی مذہب وہاں تک پھیلا جہاں تک دولہ عثمانیہ پھیلی، چنانچہ یہ مذہب زمین کے مشرق، مغرب، عرب ممالک ، غیر عرب ممالک، ہندوستان، ترکی، فارس، اور روم تک پھیل گیا۔
سطر 51 ⟵ 50:
اس مرحلے میں متعدد کبار محققین نے اپنا نام پیدا کیا، جیسے: کمال بن ہمام۔
 
ماتریدی فرقہمکتب فکر کے پیروکار ہندوستان اور اسکےاس کے آس پاس کے مشرقی ممالک چین، بنگلہ دیش، پاکستان، اور افغانستان میں بہت زیادہ ہیں، اسی طرح اس فرقے کا پھیلاؤ ترکی، روم، فارس، اور ما وراء النہر کے علاقوں میں خوب ہوا، ابھی تک ان علاقوں میں اکثریت انہی کی ہے۔
== نظریات و عقائد ==
 
دوسری بات:
 
ماتریدی اور اہل السنۃ کے مابین اختلافات کی شکلیں مندرجہ ذیل ہیں:
 
ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین(عقائد) کی ماخذ کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
 
1-* الٰہیات (عقلیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کے لیے عقل بنیاد ی ماخذ ہے، اور نصوص شرعیہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفاتِ الٰہیہ شامل ہیں۔
 
2- شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کرنے کے لیے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّات، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّات کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
 
مندرجہ بالابیان میں بالکل واضح منہج اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت پائی جاتی ہے؛ اس لیے کہ اہل السنۃ کے ہاں قرآن و سنت اور اجماعِ صحابہ ہی مصادر اور مآخذ ہیں، اور دین کے تمام مسائل انہی مآخذ سے لیے جاتے ہیں، کسی مسئلہ کے لیے کوئی خاص ماخذ نہیں ہے۔
 
پھر انہوں نے اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی بدعت ایجاد کی، یہ تقسیم ایک بے بنیاد فکر پر ہے اور وہ ہے کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جنکا عقل سے ادراک ناممکن ہے، اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کر سکتی ہیں، بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کے لیے تائید کا کام کرتی ہیں۔
 
- ماتریدیہ نے بھی دیگر کلامی فرقوں معتزلہ اور اشاعرہ کی طرح معرفتِ الٰہیہ کتاب وسنت سے پہلے عقل کے ذریعے حاصل کرنے کے متعلق گفتگو کی اور اسے واجب کہہ دیا، بلکہ اسے مکلف کے لیے واجب اولی بھی قرار دیا ، اس سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ نہ کیا تو اسے سزا بھی ہوگی اور اسکا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائےگا، چاہے انبیاء اور رسل کی بعثت سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔
 
یہ بات کہہ کر انہوں نے معتزلہ کی موافقت کی ،حالانکہ یہ بات واضح طور پر باطل ہے، اور کتاب و سنت کے دلائل سے متصادم بھی ہے، کیونکہ کتاب وسنت ہمیں بتلاتے ہیں کہ ثواب اور عذاب شریعت کے بعد ہی ہوتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 
(وما كنا معذبين حتى نبعث رسولاً)
 
ترجمہ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج دیں۔ الاسراء/15
 
اس لیے بندوں پر سب سے پہلے واجب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک مانیں، اور اسکے دین میں داخل ہوجائیں، نا کہ اس معرفت کے پیچھے بھاگتے پھریں جو اللہ تعالی نے فطرتی طور پر ساری مخلوقات کی گھُٹّی میں ڈال دی ہے۔
 
- جبکہ ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ تعالی کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اسکا کوئی ہمسر نہیں، اور نہ ہی اسکا کوئی حصہ دار ہے، وہ اپنی صفات میں یکتا ہے، اسکا کوئی بھی شبیہ نہیں ہے، اور اپنے افعال میں اکیلا ہے، مخلوقات ایجاد کرنے میں اس کا کوئی بھی شراکت دار نہیں ہے۔
 
اسی لیے انہوں نے توحید کی اس قسم کو ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا، کیونکہ ان کے ہاں "الٰہ" کا مطلب: وہ ذات ہے جو پیدا کرنے کی طاقت رکھتی ہو، اس نظریے کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے معتزلہ اور جہمیہ کی ایجاد کردہ عقلی اور فلسفی قیاس آرائیوں کو استعمال کیا، یہ ایسے دلائل ہیں جن کی سلف ، ائمہ کرام، اور علمِ کلام و فلسفہ کے سُرخیل علماء نے تردید کی ، اور یہ روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا کہ جو انداز قرآن مجید نے بیان کیا ہے وہی صحیح ترین ہے۔
 
- ماتریدی اللہ تعالی کی صرف آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان آٹھ کی تفصیل کے بارے میں بھی انکا آپس میں اختلاف ہے، وہ آٹھ صفات یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق۔
 
2-* شرعیات (سمعیات): یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کرنے کے لیے عقل کو کوئی چارہ نہیں ؛ جیسے: نبوّات، عذابِ قبر، احوالِ آخرت، یاد رہے! کہ کچھ ماتریدی نبوّات کوبھی عقلیات میں شمار کرتے ہیں۔
اسکے علاوہ جتنی بھی صفاتِ خبریہ صفاتِ ذاتیہ یا فعلیہ ہیں جن پر قرآن و سنت کے دلائل موجود ہیں؛عقل کے دائرہ کار میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے ان سب کا انہوں نے انکار کردیا، اور ان کے سب دلائل میں من مانی تاویلیں کر ڈالیں۔
 
پھر انہوں نے اصولِ دین کو عقلیات، اور سمعیات دو حصوں میں تقسیم کرتےکیا ہوئے ایک نئی بدعت ایجاد کی،گیا، یہ تقسیم ایک بے بنیاد فکر پر ہے اور وہ ہےیہ کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جنکاجن کا عقل سے ادراک ناممکن ہے، اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کر سکتی ہیں، بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کے لیے تائید کا کام کرتی ہیں۔
جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ اسماء و صفات کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ : تمام کی تمام صفات توقیفی ہیں، جن صفات کے بارے میں نصوص موجود ہیں ان کو بلا تشبیہ ثابت مانتے ہوئے ایمان لاتے ہیں، اور اللہ تعالی کو تمام صفاتِ ذمیمہ یا ایسی صفات جن سے مخلوق کے ساتھ مماثلت ہو ان تمام صفات سے پاک جانتے ہیں، اور تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات کو بغیر تعطیل کے مانتے ہیں، جبکہ کیفیت اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اور ان صفات کا معنی و مفہوم شانِ الٰہی کے مطابق بیان کرتے ہیں، اس لیے کہ انکی دلیل فرمانِ الہی ہے:
 
- ماتریدیہ نے بھی دیگر کلامی فرقوں معتزلہ اور اشاعرہ کی طرح معرفتِ الٰہیہ کتاب وسنت سے پہلے عقل کے ذریعے حاصل کرنے کے متعلق گفتگو کی اور اسے واجب کہہقرار دیا، بلکہ اسے مکلف کے لیے واجب اولی بھی قرار دیا ،دیا، اس سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس نے یہ نہ کیا تو اسے سزا بھی ہوگی اور اسکا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائےگا، چاہے انبیاء اور رسل کی بعثت سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔{{حوالہ درکار}}
(ليس كمثلہ شيء وهو السميع البصير)
 
- جبکہ* ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ تعالی کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اسکا کوئی ہمسر نہیں، اور نہ ہی اسکا کوئی حصہ دار ہے، وہ اپنی صفات میں یکتا ہے، اسکا کوئی بھی شبیہ نہیں ہے، اور اپنے افعال میں اکیلا ہے، مخلوقات ایجاد کرنے میں اس کا کوئی بھی شراکت دار نہیں ہے۔
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ الشوری/ 11
 
-* ماتریدی اللہ تعالی کی صرف آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان آٹھ کی تفصیل کے بارے میں بھی انکا آپس میں اختلاف ہے، وہ آٹھ صفات یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق۔
- ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام حقیقت تو ہے لیکن وہ کلامِ نفسی ہے جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اللہ کی کلام سُنی نہیں جاسکتی، اورجو آواز سنائی دیتی ہے وہ اصل میں قدیم نفسی صفت کی تعبیر ہوتی ہے، اسی لیے انکے ہاں لوگوں کے ہاتھوں میں لکھا ہوا قرآن مجید مخلوق ہوسکتا ہے، اور اس قول کی وجہ یہ لوگ معتزلہ سے جاملے، اور اجماع ائمہ کی مخالفت کر ڈالی، حالانکہ ائمہ کرام نے اس عقیدے کو غلط قرار دیا بلکہ قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے کو کافر بھی کہا ہے۔
 
-* ماتریدیہ کہتے ہیں کہ اللہ کی کلام حقیقت تو ہے لیکن وہ کلامِ نفسی ہے جو اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، اللہ کی کلام سُنی نہیں جاسکتی، اورجو آواز سنائی دیتی ہے وہ اصل میں قدیم نفسی صفت کی تعبیر ہوتی ہے، اسی لیے انکے ہاں لوگوں کے ہاتھوں میں لکھا ہوا قرآن مجید مخلوق ہوسکتا ہے، اور اس قول کی وجہ یہ لوگ معتزلہ سے جاملے، اور اجماع ائمہ کی مخالفت کر ڈالی، حالانکہ ائمہ کرام نے اس عقیدے کو غلط قرار دیا بلکہ قرآن مجید کو مخلوق کہنے والے کو کافر بھی کہا ہے۔
- ماتریدیہ ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ایمان صرف دل سے تصدیق کا نام ہے، لیکن بعض لوگوں نے زبان سے اقرار کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیاہے، لیکن ایمان میں کمی زیادتی کا سب ماتریدی انکار کرتے ہیں، اور ماتریدی ایمان کے متعلق استثناء کی حرمت کے قائل ہیں، انکے ہاں ایمان اور اسلام دونوں ہی مترادف ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، اوراس قول کی وجہ سے وہ مرجئہ سے جا ملے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی اس لیے اہل السنۃ کے ہاں ایمان یہ ہے کہ:
 
-* ماتریدیہ ایمان کے بارے میں کہتے ہیں کہ : ایمان صرف دل سے تصدیق کا نام ہے، لیکن بعض لوگوں نے زبان سے اقرار کو بھی ایمان کی تعریف میں شامل کیاہے، لیکن ایمان میں کمی زیادتی کا سب ماتریدی انکار کرتے ہیں، اور ماتریدی ایمان کے متعلق استثناءاستثنا کی حرمت کے قائل ہیں، انکےان کے ہاں ایمان اور اسلام دونوں ہی مترادف ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، اوراس قول کی وجہ سے وہ مرجئہ سے جا ملے اور اہل السنۃ والجماعۃ کی مخالفت کی اس لیے اہل السنۃ کے ہاں ایمان یہ ہے کہ:نہیں۔
دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار، اور اعضاء سے عمل کا نام ایمان ہے جوکہ نیکی کرنے سے بڑھتا ہےاور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
 
-* ماتریدی آخرت میں اللہ کے دیدار کو تو مانتے ہیں لیکن کس جہت میں اللہ کا دیدار ہوگا اسکا انکارکرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں، کہ شروع میں تو ایک چیز کو ثابت کیا ہے لیکن بعد میں اسکی حقیقت کا انکار کردیا۔
 
== مزید مطالعہ ==