"شیطان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م خودکار: خودکار درستی املا ← صوفیا، دیے، سے، ر\1 عمل، سے، کی بجائے
سطر 5:
=== مسیحیت ===
=== اسلام ===
==== مسلمان صوفیاءصوفیا کے ہاں تصور شیطان====
 
جن مسلمان صوفیا نے ابلیس کا خاص انداز میں ذکر کیا ہے۔ ان میں [[حسین بن منصور حلاج|منصور حلاج]]، [[مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومی|مولانا روم]] ، [[ابن عربی]] وغیرہ کے نام زیادہ اہم ہیں۔ بعض نے تو [[ابلیس]] کو اتنی اہمیت دی کہ اُسے سب سے بڑا [[توحید پرست]] اور موحد قرار دیاہے۔
سطر 44:
=== نظم” تسخیر فطرت“ میں شیطان کے خدوخال ===
 
شیطان جو رسمی مذہب میں بد ی کا مجسمہ ہے اسے اقبال نے اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ وہ جبر و تحکم کے علمِ بغاوت کو بلند کرنے والا اور بندہ ئے دام کےکی بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے والا ایک منفرد کردار بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس اقدام سے ایک زبردست معرکہ چھیڑدیتا ہے جو افراد کے اندرونی رجحانات اورخارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔ تمام فرشتوں میں یہ ایک اسی کی ذات تھی جس نے خدا کے حکم پر آد م کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور خدا کے اس سوال پر کہ اس نے یہ خطرناک جرات کیوں کی ، شیطان نے یہ جواب دیا میں اس سے بہتر ہوں ۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔سے ۔ اقبال نے ”پیام مشرق“ میں اپنی نظم تسخیر فطرت میں اس قرآنی آیت کی نہایت مو ثر ترجمانی کی ہے۔ اس نظم کے پانچ حصے ہیں۔
 
#میلاد ِ آدم
سطر 56:
من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم
 
پروفیسر [[تاج محمد]] خیال نظم پر تبصرہ کرنے ہوئے لکھتے ہیں، ” یہاں اقبال نے شیطان کواپنے اندرونی جذبات یعنی جذبہ مسابقت، دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے اور غلبہ پانے کی آرزو کا آزاد اظہار کرتے دکھایا ہے۔ ماحول کی قوتوں کے مقابل میں ردعملرد عمل اور انہیں متاثر کرنے جو فطری رجحان ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ تو گویا شیطان اسی رجحان کی ایک رمزیہ شکل ہے۔ یہ رجحان زندگی کا ایک جوہر ہے اور تمام آرزو ، طلب ، سعی و کامرانی کی تخلیق کا ذمہ داردراصل یہی ہے۔“
 
=== نظم جبرئیل و ابلیس ===
 
بال جبریل کی نظم ”جبریل و ابلیس “ بھی اقبال کے تصور ابلیس پر روشنی ڈالتی ہے۔ نظم ایک دلچسپ مکالمے کی شکل میں ہے، جس میں جبرئیل اپنے ہمدم دیرینہ شیطان سے بڑے دوستانہ لہجے میں پوچھتا ہے کہ جہانِ رنگ و بو کا حال کیسا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتاؤ، شیطان اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جہاں عبادت ہے سوز و ساز وردو جستجو ہے۔ جبریل اُسے کہتا ہے کہ آسمانوں پر ہر وقت تیرا ہی چرچا رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تو خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے اور پھر سے ذات باری کا قرب حاصل کر لے؟ جواب میں شیطان کہتا ہے کہ میرے لیے اب یہ ممکن نہیں، میں آسمان پر آکر کیا کروں گا۔ وہاں کی خاموشی میں میرا دم گھٹ کر رہ جائے گا۔ آسمان پر زمین کی سی گہما گہمی اور شورش کہاں ہے۔ جبرئیل یہ باتیں سن کر بہت ناخوش ہوتے ہیں اور دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ اسی انکار کی وجہ سے تو نے اپنے مقاماتِ بلند کھو دیئےدیے اور اسی سے تو نے فرشتوں کی بےعزتی کرائی، تمہارے اس اقدام کے بعد فرشتوں کی خدائی نظروں میں کیا آبرو رہی؟ اس پر شیطان چمک کر جواب دیتا ہے کہ تم آبرو کا نام لیتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میری جرات سے ہی کائنات وجود میں آئی اور میری ہی وجہ سے عقل کی ضرورت پڑی۔ تیرا کیا ہے، تو تو ساحل پر کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے والوں میں سے ہے۔ تو خیر و شر کی جنگ کو بس دور سے دیکھتا ہے۔ میری طرف دیکھو کہ میں طوفان کے طمانچے کھاتا ہوں، یہ میں ہی تھا جس کی بدولت آدم کے قصے میں رنگینی پیدا ہوئی، ورنہ یہ ایک بے روح داستان تھی۔ ابلیس و جبریل خیالات کی بلندی کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک معرکے کی چیز ہے۔
 
ہے مری جرات سے مشتِ خاک میں ذوق نمو<br>
سطر 71:
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو
 
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے <br>
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟