"قوالی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات |
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، صوفیا، ہو گئے، پند و \1، سیاست داں، سے، علما، \1 رہا، اور، سے، غیر، ہو گئی، فرماں بردار، دیے، دیے، آج کل، یا |
||
سطر 6:
== تاریخ ==
قوالی کو سلسلہ [[چشتیہ]] میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ روایات کے مطابق قوالی کی شروعات حضرت [[امیر خسرو]] سے ہوئی۔ قدیم روایتی کلام زیادہ تر [[اردو|قدیم اردو]] میں ملتا ہے، تاہم
قوالی کی ابتدا کیسے اور کب ہوئی؟
سطر 13:
اسلام میں ذکر اور محفل سماع
ذکر” کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ روایت اسلام سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔ مگر”سماع” اپنے جوہری انداز میں خالصتاً اسلام سے منسلک ہے۔ امام غزالیؒ نے اس کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے “ذکر” اور “سماع” کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔ برصغیر میں اسلام “صوفیا” کی بدولت عام لوگوں تک پہنچا۔
قوالی کی تاریخ:
لفظ’’قوالی‘‘عربی کے لفظ ’’قول‘‘سے مشتق ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘یا ’’بیان کرنا‘‘۔اس طرح قوالی کا مطلب ہوا وہ بات جو بار بار دہرائی جائے۔حالانکہ لفظ قوالی کو بھارت اور پورے برصغیر میں گانے کی ایک خاص صنف کے نام کے طور پر استعمال کیاجانے لگا۔ قوالی ایک خاص اسٹائل کے گانوں کو کہتے ہیں جن میں اللہ کی حمد وثنا ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہوتی ہے یا صوفیہ اور اللہ والوں کی منقبت بیان کی جاتی ہے۔ اس کے لیے موسیقی لازم ہے، بغیرآلات موسیقی کے قوالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔قدیم روایتوں ،صوفیہ کے تذکروںاور تاریخی کتابوں کے مطابق اس خطے میں پرانے زمانے سے صوفیہ کی خانقاہوں میں قوالی کا رواج رہا ہے۔ اس کی ابتدا اگرچہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید ِ خاص حضرت امیر خسرو سے مانی جاتی ہے جو اپنے عہد کے ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے مگر سماع کی محفلیں اس سے پہلے بھی رائج تھیں اور باوجود اس کے رائج تھیں کہ
قوالی کے موجدامیرخسرو
قوالی کے موجد حضرت امیر خسرو مانے جاتے ہیں اور یہ ان کے فن کی سچائی کی دلیل ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ فن زندہ ہے اور اسے پسند کرنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے۔کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیرخسرو ،اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شیرینی آجائے جو بے مثال ہو۔ مرشد نے اپنے
امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی،جو متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔651ھ بمطابق 1252ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا۔والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک(ہندو) نومسلم ،سیاہ فام ہندوستانی
امیر خسرو کا نام آج تک علم موسیقی میں ان کے حیرت انگیز تجربات کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہو چکے تھے۔ روایت کے مطابق “فنافی الشیخ” کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ قوالی کی صنف کو امیر خسرو نے اپنے مرشد کی اطاعت اور مرضی سے انمول بنا دیا۔ انھوں نے مختلف نئے راگ ترتیب دیے۔ آج کا ستار اور طبلہ، صرف اور صرف اس مردِ عظیم کی کاوش اور ایجاد ہے۔ انھوں نے اپنی اکثر قوالیاں بھاگیشری، سوہنی،
اس فن نے سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک کا سفر بڑے آرام سے کیا۔ شاہ جہاں کے دور میں دو بہت مشہور قوال گزرے ہیں۔ ان کا نام “رضا اور
ر “کبیر” تھا۔
حضرت امیر خسروؔ کی طرف منسوب ’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘ ’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘ سے لے کر ’’بھردو جھولی مری یامحمد‘‘’’سجدے میں سر کٹادی محمد کے لعل نے‘‘تک ایسی قوالیاں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن کی مقبولیت زمان ومکان کی قید سے اوپر ہے۔برصغیر کا خطہ’’ قوالی‘‘کی جنم بھومی ہے۔ یہ ایک خالص ہندوستانی فن ہے جو اسی دھرتی سے اٹھا ہے۔ یہ خانقاہوں میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی نشو نما ہوئی۔ البتہ وقت اور حالات نے اس پر اثر ڈالا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ابتدا میں اس کی زبان فارسی ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کی زبان ہندوی یا اردو
قوالی میں تبدیلی کا دور
قوالی کا فن اس قدر مقبول ہوا کہ وہ خانقاہوں سے نکل کر عوام الناس تک پہنچ گیا اور عوامی محفلوں میں اسے گایا جانے لگا۔اب یہ خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عام لوگوں کی پسند بن چکا تھا۔ ایک ایک محفل میں ہزاروں اور لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی اور قوالی گانے والے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ۔بھارت میں سنیما کی آمد سے قبل عام لوگوں کی تفریح طبع کا سامان ہوا کرتی تھیں قوالی کی محفلیں اور جب یہاں سنیما متعارف ہوا تو قوالیوں کو بھی یہاں جگہ دی گئی۔ البتہ ایک بڑا بدلائو یہ ہوا کہ قوالی کے مضامین بدل گئے۔ جہاں خالص حمدونعت ، منقبت اور پند
قوالی کے پرانے انداز کو زندہ کرنے کی ضرورت
جس زمانے میں قوالی کا فن اپنے رنگ روپ بدل رہا تھا اور اسے اکتساب زر کا اچھا ذریعہ سمجھا
ان کی گائ ہوئ ایک ایک قوالی ماسٹر پیس ہے اوراب تک ہزاروں قوالوں کی دال روٹی یہی قوالیاں گا کر چل رہی ہے۔ یہ قوالیاں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں ری مکس اور بے شمار گلوکاروں نے گائی ہیں۔
لیکن ان میں سے کوئی صابری برادران کی گرد تک کو نہیں چھو سکا ہے۔ تاجدار حرم، میرا کوئی نہیں ہے تیرے
قوالی اتنی پر اثر کیوں؟
قوالی کی اثر انگیزی اور دل پزیری میں بڑا ہاتھ اس کے ساتھ زوردار آواز میں آیک خاص لے سے بجنے والے ڈھول ، طبلے، ہارمونیم اور تالیوں کی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق انسان ڈھول طبلے یا ڈرم کی بیٹ سن کر ایک خاص قسم کا وجد یا جسم کی دماغ کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس میں بڑا ہاتھ ماں کے دل کی دھڑکن کی دھک دھک ہے جو پیٹ میں موجود بچہ اپنی حس سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنی پیدائش تک مستقل سنتا ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ دھک دھک ایسی رچ بس جاتی ہے کہ اس دھمک اور ردھم کو سن کر وہ اسی خود فراموشی کی کیفیت میں جانا چاہتا ہے جو اس کی اس دنیا میں آمد سے پہلے اس کی کل کائنات تھی۔ بچوں کو جب تھپکا جاتا ہے تو وہ سو جاتے ہیں۔ یہاں بھی وہی وجہ کارفرما کے کی جب بچے کی کمر یا سینے یا کندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی جاتی ہے تو وہی دھک دھک اس کو اپنے جسم اور کانوں میں محسوس ہوتی ہےجس کو سن کر دماغ اور جسم اس لے کے تحت ایک ردھم میں آکر پرسکون ہوجاتے ہیں۔ قوالی میں جب یہی زوردار ڈھول کی دھک دھک اور اس کے ساتھ ان ھستیوں کے نام یا ذات باری تعالی کا ذکر جن سے انسان روحانی و قلبی تعظیم اور تعلق رکھتا ہے لگا تار تکرار سے کیا جاتا ہے تو یہ انسان کے دل و دماغ پر دہرا اثر ڈالتی ہے اور سننے والے وجد میں آجاتے ہیں جب یہ کیفیت مکمل طور پر غالب آ جائے تو اسے حال آنا کہتے ہیں جس میں انسان مکمل طور پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ایسے افراد بھی قوالی سن کر وجد میں آجاتے ہیں جو قوالی کی زبان یا اس میں ادا
قوالی میں اختراع :
استاد نصرت فتح علی خاں نے قوالی میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اختراع کی مگر انھوں نے کم عمر پائی۔ وہ اکثر پی ٹی وی کے محفل سماع پروگرام میں روایتی انداز سے قوالی گاتے تھے لیکن کبھی بھی روام میں مقبولیت یا پزیرائ حاصل نہ کرسکے۔ لیکن جب سن 1988 میں ان کی جرمنی میں جدید آلات موسیقی اور ماڈرن اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ قوالی دم مست قلندر مست مست کی تعریف عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کی تو گویا استاد نصرت پر شہرت و بلندی کے دروازے کھل گئے۔ وہ اس قوالی کے بعد شاید آتھ نو سال کا عرصہ حیات رہے لیکن اس دوران انہوں نے وہ بین الاقوامی شہرت پائ کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
اس عرصے میں انہوں نے اتنی قوالیاں اور غزلیں ریکارڈ کروائیں جتنا انہوں نے شاید اپنی پوری زندگی نہ گایا تھا۔ سن 1997 میں وہ عارضہ جگر کے باعث لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے۔ اب ان کے بھانجے
استادراحت فتح علی خاں مقبول ہیں اور درگاہوں سے لے کر فلموں تک ان کی آواز سنائی دے رہی ہے۔لیکن راحت فتح علی روایتی قوالی سے زیادہ غزلیں اور فلمی گانے گاتے ہیں۔ ان کی آواز اور گائیگی کی مقبولیت نے بڑے بڑے منجھے ہوئے اور مہا گلوکاروں کی چھٹی کردی ہے۔ ھندو انتہا پسندوں کی شدید ترین مخالفت کے باوجود بھارت میں ان کا طوطی بول رہا ہے۔ ان کے گائے ہوئے ہر گیت اور غزل نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ
بھارت اور پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں مگر بیشتر لوگ اسے پارٹ ٹائم جاب کی طرح دیکھتے ہیں کیونکہ سوائے چند حضرات کے اب یہ کسی کی مالی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے۔ درگاہوں کے آس پاس جو قوال نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو دن بھر آس پاس کوئی معمولی قسم کے کام کرتے ہیں اور شام کو ڈھول ،ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری طور پر اس فن کی سرپرستی کی جائے اور اس کے روایتی پرانے انداز کو دوبارہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ یہ ہماری تہذیب سے جڑا ہوا فن ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔
== قوالی اور تبلیغ اسلام ==
برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں قوالی نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر میں تبلیغ اسلام کے دوران اس دور کے
== قوالی اور حضرہ ==
سطر 46:
== پاکستان میں قوالی ==
[[پاکستان]] نے متعدد ایسے قوال پیدا
== قوال ==
|