"وحدت الوجود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م خودکار: خودکار درستی املا ← \1 رہی، سے، علما، سے، اور، \1 رہا، شے، \1 رہے
سطر 1:
{{تصوف}}
 
'''وحدت الوجود''' ایک صوفیانہ عقیدہ ہے جس کی رو سے جو کچھ اس دنیا میں نظر آتا ہے وہ خالق حقیقی کی ہی مختلف شکلیں ہیں اور خالق حقیقی کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس عقیدے کا اسلام کی اساس سے کوئی تعلق نہیں ، قران و حدیث میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور اکثر مسلمان علماءعلما اس عقیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ اس عقیدے کی ابتدا مسلم صوفیا کے یہاں سے ہوئی اس لیے اسے اسلام سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔
 
مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،ہے اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں، اس عقیدے کو “وحدت الشہود“ یا '''فنا فی اللہ''' کہاجاتاہے، عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ '''انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے''' یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کو اور مسیحی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء) قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=کتاب التوحید| صفحہ=70-71|مصنف=مولانا اقبال کیلانی |ناشر=حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور}}</ref>
 
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتا ہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ <ref>{{حوالہ کتاب|نام=شریعت وطریقت|جلد=1|باب=2۔دین طریقت کے نظریات وعقائد|صفحہ=63-64|مصنف=مولانا عبد الرحمن کیلانی|ناشر=مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور}}</ref>
 
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:-
اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اتر آتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا،رہا اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام= اہل تصوف کی کارستانیاں|مصنف=شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارک پوری{{رح}}|صفحہ=27|ناشر=مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان}}</ref>
 
== اہل سنت والجماعت کا نقطۂ نگاہ ==
وحدت الوجود اور اللہ تعالٰی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفرہے۔کف رہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=اصول اہلسنت والجماعت|صفحہ=3|مصنف=ناصر بن عبد الکریم العقل}}</ref>
 
===امام ابن تیمیہ{{رح}} کا نظریہ===
[[امام ابن تیمیہ]] رحمۃ اللہ علیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو رسول اللہ {{درود}} اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔
ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہیآ رہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)
 
اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہے
سطر 34:
سوم۔ اپنے آپ کو عین خداسمجھنا
 
امام کے ہاں پہلی صورت محمود ہے اور باقی دونوں مذموم ۔ کیونکہ ان کی تائید نہ تو حضور [[محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم]] کے کسی قول سے ہوتی ہے اور نہ فعل سے۔سے ۔
 
=== بریلوی نقطۂ نگاہ ===
سطر 42:
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں<br>
</div>
بریلوی علامہ سید احمد سعید کاظمی اس شعر کی تشریح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ ((قبلہ حضرت یار صاحب کا یہ شعر اور اس جیسی دوسری عبارات (جو مسلم بین الفریقین علماءعلما کی کتب میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدت الوجود پر مبنی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کرکے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔ مولانا یار صاحب کے شعر کا مضمون شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے کلام میں ہے۔: تم محمد عظیم الشان {{درود}} کو محمد گمان کرتے ہو جیسے تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو، وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقت{{دوزبر}}ا آب نہیں ہے، بلکہ سراب ہے، جب تم محمد {{درود}} کے قریب آؤگے تو تم محمد {{درود}} کو نہ پاؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو پاؤ گے،گے اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالٰی کو دیکھو گے۔<ref>فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:127</ref>{{اطلاع}}حوالہ مکمل دیں
 
=== دیوبندی نقطۂ نگاہ ===
دیوبندی علامہ انور شاہ کاشمیری{{رح}} اپنی کتاب فیض الباری میں لکھتے ہیں :- (کنت سمعہ الذی) کے یہ معنی بیان کرنا کہ بندہ کہ کان، آنکھ وغیرہ اعضاء حکم الہی کی نافرمانی نہیں کرتے حق الفاظ سے عدول کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالٰی کے قول( کنت سمعہ الذی) میں کنت صیغۂ متکلم اس بات پر دلالت کرتاہے کہ متقرب بالنوافل یعنی بندہ میں سوائے جسد وصورت کے کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی،رہی اور اس میں صرف اللہ تعالٰی ہی متصرف ہے
اور یہی وہ معنی ہیں جن کو صوفیائے کرام فنا فی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ <br />
حدیث مذکور(کنت سمعہ) میں وحدت الوجود کی طرف چمکتا ہوا اشارہ ہے اور ہمارے شاہ عبد العزیز صاحب، محدث{{رح}} دہلوی کے زمانے تک اس مسئلہ وحدت الوجود میں بڑے متشدد اور حریص تھے۔ میں اس کا قائل تو ہوں لیکن متشدد نہیں ہوں<ref>فیض الباری جلد رابع ص:428</ref>
سطر 51:
== تنقید==
ڈاکٹر ابوعدنان سہیل اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ مسیحی کہتے ہیں کہ اللہ، روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،ہیں اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔
کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے، وہ اللہ تعالٰی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان و مذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئےشے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئےشے سے وہی ظاہر ہورہاہے،ہو رہاہے، اس لیے ہر انسان مظہر{{زیر}} ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔<ref>{{حوالہ کتاب|نام=اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات|مصنف= ڈاکٹر ابوعدنان سہیل}}</ref>
 
== حوالہ جات ==