"پارسی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات |
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، ہو گئے، قائد اعظم، امریکا، سے، سے، \1 رہی، \1 رہے، کی بجائے |
||
سطر 3:
'''پارسی''' [[زرتشت]] کے پیروکاروں کو کہتے ہیں۔ عربوں نے [[ایران]] فتح کیا تو ان میں سے کچھ مسلمان بن گئے، کچھ نے [[جزیہ]] دینا قبول کیا اور باقی (آٹھویں،دسویں صدی عیسوی) ترک وطن کرکے [[ہندوستان]] آ گئے۔
[[Image:300px-Parsi wedding portrait with Dastur MN Dhalla.jpg|framepx|thumb|left|پارسی خاندان]]
ان کا دعوی ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاس [[اوستا]] کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زردشت یا زرتشت پر نازل ہوا تھا۔پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے
جسمانی طہارت اور کھلی فضا میں رہائش پارسیوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ پاکیزگی کی مقدس علامت کے طور پر ، ان کے معابد اور مکانات میں ، ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔ خواہ وہ چراغ ہی ہو۔ ہندو ’’سناتن دھرم‘‘ اور [[يہوديت|یہودیوں]] کی طرح ، پارسی مذہب بھی غیر تبلیغی ہے۔ یہ لوگ نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور نہ ان کے ہاں شادی کرتے ہیں۔ ان کڑی پابندیوں کے باعث ابھی تک دوسرے طاقتور مذاہب ’’[[اسلام]] ، [[ہندومت|ہندو مت]] ، [[مسیحیت]]‘‘ کے ثقافتی اثرات سے محفوظ ہیں۔ حصول علم ان کا جزوایمان ہے ۔ ہر پارسی معبد میں ایک اسکول ہوتا ہے۔ دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد لاکھوں میں ہے اور اس میں بھی ان لوگوں میں شادی کے رجحان کے کم ہونےسے مزید کمی واقع
==آباد==
سطر 23:
شہر کی اس قدیم اور قریبا لاوارث عمارت کے باہر لگے ہوئے چائے کے کھوکھے پر چائے پیتے ہوئے عمارت کے موجودہ رہائشی پینتالیس سالہ خورشید احمد نے بی بی سی کو بتایا ان کے والد محمد بشیر عمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر انہوں نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے۔ خورشید احمد کے والد محمد بشیر کی اولاد کے سات خاندان اب پارسیوں کی عبادتگاہ کی چودیواری کے اندر رہائش پزیر ہیں۔ سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔ کراچی کی پارسی کمیونٹی کے اہم رکن ادیشن مارکر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ما ما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر میں اس کی کسی برانچ کا انہیں علم نہیں۔ ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید
ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ مسیحی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔ کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔ مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔ خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پزیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘ خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔ سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پزیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پزیر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پارسی برادری کا اہم کردار رہا ہے پارسی کمیونٹی نے پاکستان کی تعمیر وترقی میں ،باوجود بہت ہی کم ہونے کے ، اہم ترین کردار ادا کیا ہے ایک پارسی شخصیت ہی نے
پاکستان اور بھارت میں ماضی قریب میں یعنی پندرہ سال قبل تک پارسیوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی رہی ہے لیکن پاکستان میں اب ان کی تعداد18سو تک رہ گئی ہے اس لیے خدشہ یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں شائد ان کو ہندوؤں بدھ مت سکھوں اور مسیحیوں کے مقابلے میں اقلیت کی بنیاد پر کوئی نشست نہ ملے جہاں تک قومی صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں کسی اقلیتی نمائندے کی شرکت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی پارسی برادری کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے ہمارے ہاں خود اقلیت کے لوگ یعنی مسیحی، سکھ، ہندو، بدھ مت کے ماننے والے بھی عموماً پارسی شخصیت پر اتفاق کرلیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارسی مجموعی طور پر تعداد میں کم ہیں پھر ان کی اقتصادی اور تعلیمی حالت بہت معیاری ہے مجموعی طور پر پارسی دیانت دار ،غیر جانبدار اور باکردار ثابت
اس وقت پارسیوں کی آبادی میں پوری دنیا میں 18سال سے کم عمر افراد کا تناسب کل آبادی کا 18فیصد ہے جب کہ 18سے 60 برس تک عمروں تک پارسی افراد کا تناسب 31فیصد ہے اور باقی آبادی 60برس کی عمر سے بھی زیادہ عمررسیدہ ہے اس طرح ان میں شرح پیدائش شرح اموات کے مقابلے میں بہت کم ہے اور پھر
نامور کالم نگار اردشیر کاؤس جی طویل علالت کے بعد ہفتہ کو 86 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔ پارسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اردشیر کاؤس جی 13 اپریل 1926 میں کراچی میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1988 سے 2011 تک مستقل ڈان اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم لکھنے کے فرائض انجام دیے، آپ کا شمار پاکستان کے انتہائی مستند اور بے باک کالم نگاروں میں کیا جاتا تھا۔ وہ گزشتہ بارہ دن سے سینے میں انفیکشن کے باعث کراچی کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ(آئی سی یو) میں زیر علاج تھے۔ وربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول اور ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج سے تعلیم کمل کرنے کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار شپنگ سے منسلک ہو گئے۔ کاؤس جی کے ان کی بیوی نینسی دنشا سے دو بچے ہیں، ان کی بیتی کراچی میں رہائش پزیر اور خاندانی کاروبار سے منسلک ہیں جبکہ ان کے بیٹے جو ایک آرکیٹیکٹ ہیں وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ وہ ایک کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بزنس مین اور سماجی کارکن بھی تھے۔
==بھارت میں پارسی اہم شخصیات==
|