"مقتدیٰ خان شروانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کر دیا، == مزید دیکھیے ==، ہو گیا، ہو گئے، جو، ابتدا
سطر 3:
 
== سوانح ==
مقتدیٰ خان ماہِ [[ربیع الاول]] [[1297ھ]] مطابق [[فروری]]/ [[مارچ]] [[1880ء]] میں [[علی گڑھ]] میں پیدا ہوئے۔ محمد مقتدیٰ خان اُن کا تاریخی نام تھا جس سے 1297 اعداد مخرج ہوتے ہیں جو کہ سالِ پیدائش بمطابق قمری ہجری کے ہیں۔ [[فارسی زبان|فارسی]] اور [[عربی زبان|عربی]] میں تعلیم گھر پر حاصل کی۔ باقاعدہ [[انگریزی زبان]] میں تعلیم ڈھولنہ، ضلع علی گڑھ کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ [[1899ء]] میں ایم او اسکول، [[علی گڑھ]] سے مکمل کیا۔
 
== مضمون نویسی ==
شروانی صاجب کو خاندانی جائداد کی دیکھ بھال سے کوئی دِلچسپی نہ تھی اور نہ زمینداری و کاشتکاری سے۔ وہ ابتداءابتدا سے ہی اخبار بینی کے رسیا ثابت ہوئے تھے اور اِسی اخبارنویسی کے شغل سے مضمون نویسی کا شغف پیدا ہوا۔ یہی شوق اُنہیں [[علی گڑھ]] سے [[لاہور]] لے گیا اور وہ [[1902ء]] میں جبکہ اُن کی عمر بمشکل ہی 22/23 سال کی تھی، منشی محبوب عالم کے روزنامہ پیسہ اخبار کے ادارہ تحریر سے منسلک ہوگئے۔ہو گئے۔ اس اخبار کے علاوہ [[لاہور]] کے دیگر اخبارات اور رسائل میں بھی اُن کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اِس سے نہ صرف اُن کی لکھنے کی مشق جاری رہی بلکہ اُنہیں اپنے آپ پر اعتماد پیدا ہوتا چلا گیا اور بہت حد تک اُن کی صلاحیتوں کا رجحان اور مستقبل کا پروگرام طے ہوگیا۔ہو گیا۔
 
[[1909ء]] کے آخری مہینوں میں وہ [[لاہور]] سے [[علی گڑھ]] واپس چلے گئے۔ یہ وقارالملک (متوفی [[جنوری]] [[1917ء]]) کی سیکرٹری کا زمانہ تھا۔ مولوی وحیدالدین سلیم پانی پتی (متوفی [[جولائی]] [[1928ء]]) نے [[علی گڑھ]] انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے چھٹیاں لے لی تھیں اور اِس پر مقتدیٰ خان کو قائم مقام مدیر مقرر کردیاکر دیا گیا۔ دو سال کے بعد [[1911ء]] میں مشہور خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ملازمت اختیار کرکے اُس کے مقامی نامہ نگار بن گئے۔ اِس عہدے پر وہ تقریباً چودہ سال کی طویل مدت تک یعنی [[1925ء]] تک فائز رہے۔ [[1920ء]] میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اب اُس کا پریس جہاں گزٹ شائع ہوا کرتا تھا، مسلم یونیورسٹی پریس کہلانے لگا۔ مقتدیٰ خان اِس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اب تک اُس میں صرف لوہے کے چھاپہ کا اِنتظام تھا مگر شروانی صاحب نے اِس میں پتھر کے چھاپہ کا اِضافہ کیا۔ [[1914ء]] میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی (متوفی [[جون]] [[1926ء]]) نے کلیات [[امیر خسرو]] کی ترتیب و تدوین اور اِشاعت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اِس سلسلے کی سرپرستی نظام دکن [[نواب میر عثمان علی خان]] نے قبول کی تھی۔ کلیات [[امیرخسرو]] کے مجموعہ کی مختلف کتب ترتیب و تدوین کے لیے متعدد اصحابِ علم حضرات میں تقسیم کردی گئی تھیں جس میں خمسہ خسروی کی پہلی مثنوی مطلع الانوار کی تصحیح مقتدیٰ خان نے ہی کی تھی مگر افسوس کہ وہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور صرف آٹھ جلدیں ہی شائع ہوسکیں ۔<ref>[[مالک رام]]: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 90/91۔ مطبوعہ [[دہلی]]</ref>
 
== وفات ==
شروانی صاحب نے 88 سال کی عمر میں شب [[جمعہ]] [[6 دسمبر]] [[1968ء]] کو علی گڑھ میں وفات پائی۔ قبرستان شاہ جمال، [[علی گڑھ]] میں تدفین کی گئی۔<ref>[[مالک رام]]: تذکرہ معاصرین، جلد 1، صفحہ 94۔ مطبوعہ [[دہلی]]</ref>
 
== مزید دیکھیںدیکھیے ==
 
* [[مالک رام]]