مقتدیٰ خان شروانی
محمد مقتدیٰ خان شروانی (پیدائش: فروری/ مارچ 1880ء— وفات: 6 دسمبر 1968ء) اردو زبان کے شاعر اور مصنف تھے۔
مقتدیٰ خان شروانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 فروری 1880ء علی گڑھ |
وفات | 6 دسمبر 1968ء (88 سال) علی گڑھ |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، شاعر |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیممقتدیٰ خان ماہِ ربیع الاول 1297ھ مطابق فروری/ مارچ 1880ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ محمد مقتدیٰ خان اُن کا تاریخی نام تھا جس سے 1297 اعداد مخرج ہوتے ہیں جو سالِ پیدائش بمطابق قمری ہجری کے ہیں۔ فارسی اور عربی میں تعلیم گھر پر حاصل کی۔ باقاعدہ انگریزی زبان میں تعلیم ڈھولنہ، ضلع علی گڑھ کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ 1899ء میں ایم او اسکول، علی گڑھ سے مکمل کیا۔
مضمون نویسی
ترمیمشروانی صاجب کو خاندانی جائداد کی دیکھ بھال سے کوئی دِلچسپی نہ تھی اور نہ زمینداری و کاشتکاری سے۔ وہ ابتدا سے ہی اخبار بینی کے رسیا ثابت ہوئے تھے اور اِسی اخبارنویسی کے شغل سے مضمون نویسی کا شغف پیدا ہوا۔ یہی شوق انھیں علی گڑھ سے لاہور لے گیا اور وہ 1902ء میں جبکہ اُن کی عمر بمشکل ہی 22/23 سال کی تھی، منشی محبوب عالم کے روزنامہ پیسہ اخبار کے ادارہ تحریر سے منسلک ہو گئے۔ اس اخبار کے علاوہ لاہور کے دیگر اخبارات اور رسائل میں بھی اُن کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اِس سے نہ صرف اُن کی لکھنے کی مشق جاری رہی بلکہ انھیں اپنے آپ پر اعتماد پیدا ہوتا چلا گیا اور بہت حد تک اُن کی صلاحیتوں کا رجحان اور مستقبل کا پروگرام طے ہو گیا۔
1909ء کے آخری مہینوں میں وہ لاہور سے علی گڑھ واپس چلے گئے۔ یہ وقارالملک (متوفی جنوری 1917ء) کی سیکرٹری کا زمانہ تھا۔ مولوی وحیدالدین سلیم پانی پتی (متوفی جولائی 1928ء) نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے چھٹیاں لے لی تھیں اور اِس پر مقتدیٰ خان کو قائم مقام مدیر مقرر کر دیا گیا۔ دو سال کے بعد 1911ء میں مشہور خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ملازمت اختیار کرکے اُس کے مقامی نامہ نگار بن گئے۔ اِس عہدے پر وہ تقریباً چودہ سال کی طویل مدت تک یعنی 1925ء تک فائز رہے۔ 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اب اُس کا پریس جہاں گزٹ شائع ہوا کرتا تھا، مسلم یونیورسٹی پریس کہلانے لگا۔ مقتدیٰ خان اِس کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اب تک اُس میں صرف لوہے کے چھاپہ کا اِنتظام تھا مگر شروانی صاحب نے اِس میں پتھر کے چھاپہ کا اِضافہ کیا۔ 1914ء میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی (متوفی جون 1926ء) نے کلیات امیر خسرو کی ترتیب و تدوین اور اِشاعت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اِس سلسلے کی سرپرستی نظام دکن نواب میر عثمان علی خان نے قبول کی تھی۔ کلیات امیرخسرو کے مجموعہ کی مختلف کتب ترتیب و تدوین کے لیے متعدد اصحابِ علم حضرات میں تقسیم کردی گئی تھیں جس میں خمسہ خسروی کی پہلی مثنوی مطلع الانوار کی تصحیح مقتدیٰ خان نے ہی کی تھی مگر افسوس کہ وہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا اور صرف آٹھ جلدیں ہی شائع ہوسکیں ۔[1]
وفات
ترمیمشروانی صاحب نے 88 سال کی عمر میں شب جمعہ 6 دسمبر 1968ء کو علی گڑھ میں وفات پائی۔ قبرستان شاہ جمال، علی گڑھ میں تدفین کی گئی۔[2]