"مسعود غزنوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م خودکار: خودکار درستی املا ← فرماں بردار، امرا، کر لیا، راجا، دیے، علاحدہ، ہو گیا، اہل و عیال، ناچار، علما، ہو گئی
سطر 6:
سلطان مسعود بن محمود غزنوی بہت ہی سخی اور بہادر تھا اس کی بہادری اور جرات مندی کا یہ عالم تھا کہ لوگ اسے '''رستم ثانی''' کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ اس کے تیر میں ایسی تیزی تھی کہ وہ لوہے میں سوراخ کرنے کے بعد ہاتھی کے جسم میں گھس جاتا تھا۔ اس کا گرز اس قدر وزنی تھا کہ کوئی شخص بھی اسے ایک ہاتھ سے نہ اٹھا سکتا تھا۔ حق گوئی و بے باکی مسعود کا شعار تھا اس وجہ سے وہ اکثر گفتگو میں اپنے باپ سلطان محمود کے ساتھ درشت کلامی کر بیٹھتا تھا۔ اس لیے سلطان محمود اسے سخت ناپسند کرتا تھا اس کے بر خلاف محمود محمد غزنوی کو بہت چاہتا تھا کیونکہ وہ موقع بے موقع باپ کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا تھا۔ مسعود غزنوی سے سلطان محمود کی نفرت اور امیر محمد غزنوی سے محبت نے یہاں تک طول کھینچا کہ سلطان نے مسعود کی ہر طرح سے حق تلفی کی اور خلیفہ بغداد سے یہ سفارش کی کہ فرامین اور خطبات میں امیر محمد کا نام مسعود کے نام سے پہلے لیا جائے۔
طبات ناصری کے مولف نے ابو نصر مشکاتی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ جب سلطان محمود کے مندرجہ بالا خط کا مسودہ سر دربار پڑھا گیا تو اس کو سن کر تمام درباریوں کو افسوس ہوا۔ اور مسعود کی اس حق تلفی کو سبھی نے نا موزوں خیال کیا۔ جب امیر مسعود دربار سے اٹھ کر باہر آیا تو ابو نصر بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا اور اس سے کہا۔ ”تمہاری حق تلفی پر مجھے اور تمام اہل دربار کو بہت افسوس ہوا۔ مسعود نے اس سے جواب میں کہا اس کی فکر نہ کرو کیا تم نے بزرگوں کا یہ قول نہیں سنا کہ تلوار خط سے زیادہ سچی اور مضبوط ہوتی ہے۔
ابو نصر کا بیان ہے کہ جب میں مسعود کی گفتگو کرنے کے بعد واپس دربار میں آیا تو سلطان محمود نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تم مسعود کے ساتھ دربار سے باہر کیوں گئے اور تمہاری اس سے کیا بات چیت ہوئی؟ میں نے سلطان محمود سے سب کچھ صیح صیح بیان کر دیا۔ سلطان نے میری اور مسعود کی بات چیت سن کر کہا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مسعود ہر لحاظ سے امیر محمد سے بہتر ہے اور مجھے اس کا یقین ہے کہ میرے بعد سلطنت مسعود ہی کے قبضے میں آئے گی، لیکن میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امیر محمد نے میری زندگی میں ہمیشہ میری بہت عزت کی ہے اور ہر طرح سے میرا خیال رکھا ہے۔ ابو نصر کا بیان ہے کہ اس سارے واقعے میں مجھے دو باتوں پر بہت تعجب ہوا ایک تو مسعود کے اس پر معنی جواب پر کہ میرے علم و فضل کے شایان شان تھا اور دوسرے سلطان محمود کے انتظام سلطنت پر کہ ادھر میں نے مسعود سے گفتگو کی اور ادھر محمود کو اطلاع ہوگئی۔ہو گئی۔
 
== سلطان محمود کی وفات ==
سطر 12:
 
== مسعود غزنوی کی خواہش ==
مورخین بیان کرتے ہیں کہ امیر مسعود نے جب ہمدان میں اپنے باپ سلطان محمود کے انتقال کی خبر سنی تھی تو اس نے عراق اور عجم میں اپنے قابل اور تجزیہ کار نائب اور عامل مقرر کر دیئےدیے تھے اور خود جلد از جلد خراسان پہنچ گیا تھا۔ یہاں سے اس نے اپنے بھائی سلطان کو اس مضمون کا خط لکھا کہ
* سلطان محمود مرحوم نے جو ملک تمہیں عطا کیے ہیں میں ان کو اپنے قبضے میں لانا نہیں چاہتا میرے لیے خود اپنے مفتوحہ ممالک (جبل طربستان اور عراق) کافی ہیں۔ میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ تم اپنے ممالک میں بھی یہ ہدایت کر دو کہ خطبے میں میرا نام تمہارے نام سے پہلے پڑھا جائے۔
 
سطر 20:
 
== سلطان محمد غزنوی کی گرفتاری ==
جہاں سلطان کا لشکر خیمہ زن تھا وہاں عید کے روز اتفاق سے سلطان کے سر سے تاج گر پڑا۔ لوگوں نے اس واقعے کو فال بد سمجھا اور اس سے علیحدہعلاحدہ ہو جانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ شوال کی تین تاریخ کو مشہور معروف امیروں (امیر علی خویشاوند ، امیر یوسف سبکتگین اور میر حسین وغیرہ) نے سلطان کے خلاف بغاوت کی۔ یہ امراءامرا امیر مسعود غزنوی کی حمایت کے نعرے لگاتے ہوئے سلطان محمد غزنوی کے خیمے کے گرد جمع ہو گئے۔ ان امیروں نے سلطان کو گرفتار کر کے دلج کے قلعے میں جسے اب اہل قندهار قلعہ خلج کہتے ہیں قید کر دیا گیا اور خود مسعود غزنوی سلطان غزنوی بن گیا۔ اسیری کی حالات میں محمد غزنوی کو سلطان مسعود کے حکم سے نابینا کر دیا گیا۔
 
== سلطان مسعود کی تخت نشینی ==
سطر 27:
== مکران کی فتح ==
423ھ میں سلطان مسعود بلغ سے غزنی آیا یہاں پہنچ کر اس نے مکران کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر روانہ کیا یہاں کی فتح کے بعد سلطان نے یہاں اپنے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔
سلطان مسعود کے زمانے میں کچ اور مکران کے حاکم نے وفات پائی۔ اس کے دو بیٹے تھے ان میں ایک جس کا نام عیسی تھا اپنے باپ کی سلطنت پر قابض ہو گیا اس نے اپنے بھائی ابو العساکر کو ہر چیز سے محروم کر کے سلطنت سے باہر نکال دیا۔ ابو العساکر میں اتنی قوت نہ تھی کہ وہ اپنے بھائی کا مقابلہ کرتا۔ لہذا اس نے سلطان مسعود کی بارگاہ میں فریاد کی اور اس نے یہ درخواست کی کہ اگر سلطان اپنے لشکر کی مدد سے اسے اپنے آبائی ملک پر قبضہ کروا دے گا تو ہمیشہ ہمیشہ حکومت غزنی کی اطاعت کا دم بھرتا رہے گا نیز اپنے علاقے میں سلطان کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کر دے گا۔ سلطان نے ابو العساکر کی درخواست قبول کی اور ایک زبردست لشکر اس کے ساتھ مکران کی طرف روانہ کیا۔ مسعود نے اپنے سپاہیوں کو یہ ہدایت کی کہ اگر عیسی صلح پر آمادہ ہو اور سلطنت میں سے نصف علاقہ ابوالعساکر کو دینے پر تیار ہو تو اس سے جنگ نہ کی جائے، لیکن اگر وہ اس لشکر کو دیکھ کر صلح پر آمادہ نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے اور ملک اس کے قبضے سے نکال کر ابو العساکر کے حوالے کر دیا جائے۔ جب غزنوی فوج مکران کی حدود میں پہنچی تو اس کے افسر اعلی نے سلطان مسعود کی ہدایت کے مطابق امیر عیسی سے صلح کی بات چیت شروع کی اور اس بات کی پوری پوری کوشش کی کہ معاملہ امن کی فضا میں طے ہو جائے، لیکن بد قسمت عیسی کے برے دن آ چکے تھے اس نے کوئی بات نہ سنی اور صلح سے انکار کر کے جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ امیر عیسی کے چند عاقبت اندیش امراءامرا نے اس سے اختلاف کیا اور اسے لڑائی سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن عیسی پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پہلے کی طرح لڑائی کے خیال میں مگن رہا اور اپنے خاص خاص لوگوں کو ساتھ لے کر غزنوی فوج کے مقابلے پر آیا۔ فریقین میں زبردست لڑائی ہوئی عیسی خاں اس قدر لڑا کہ اپنے لشکریوں کے ساتھ ساتھ خود بھی میدان جنگ میں کام آیا۔
امیر عیسی کی وفات کے بعد ابوالعساکر ملک پر قابض ہو گیا اور اس نے حسب وعدہ اپنے ملک میں سلطان مسعود غزنوی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کر دیا۔
 
سطر 45:
 
== ہندوستان پر لشکر کشی ==
422ھ میں سلطان مسعود نے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور دورہ کشمیر میں سرستی کے قلعے پر پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا۔کر لیا۔ اسلامی لشکر کی آمد سے اہل قلعہ کانپ اٹھے۔ انہوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا اور یہ درخواست کی کہ ہم اس شرط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں کہ بادشاہ ہم کو قتل نہ کرے اس کے صلے میں ہم اس وقت ایک بہت بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کریں گے اور آئندہ بھی اسی طرح ہر سال ایک معقول رقم شاہی خزانے میں بطور خراج کے داخل کرتے رہیں گے۔
سلطان مسعود کو صلح کی یہ شرائط معقول معلوم ہوئیں۔ اس نے اہل قلعہ سے صلح کر کے غزنی کو واپسی کا ارادہ کر لیا اس سے قبل کہ وہ حاکم قلعہ کو کوئی جواب دیتا اسے ان مسلمان سوداگروں کی ایک درخواست موصول ہوئی جو اہل قلعہ کی سختیوں کا شکار ہو رہے تھے اس درخواست میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہم چند مسلمان تاجر اپنے وطن سے نکلے اور بدقسمتی سے ان کافروں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں۔ ان ہندوؤں نے تعصب کی بنا پر ہم پر طرح طرح سے تشدد کیا ہے اور ہم سے ہمارا تمام مال اور دولت چھین کر ہمیں کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا ہے۔ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ اگر آپ نے ہندوؤں سے ان کی پیش کردہ شرائط پر صلح کر لی تو آپ کے جاتے ہی یہ ہندو ہم پر مصیبت ڈھائیں گے اور زندہ نہ چھوڑیں گے۔ ہم اپنے احوال گوش گزار کرنے کے بعد آپ کو یہ بتا دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ان محصور ہندووں کے پاس سامان رسد بالکل ختم ہو چکا ہے اور اب ان میں قلعہ بند ہو کر رہنے کی ہمت نہیں۔ اگر آپ دو تین روز تک محاصرہ قائم رکھیں گے تو یہ قلعہ بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو جائے گا۔ مسعود نے یہ درخواست پڑھ کر صلح کا ارادہ فوراً ترک کر دیا اور محاصرے کی شدت میں معقول اضافہ کر دیا۔
قلعے کے ارد گرد ایک بہت گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ مسعود کے حکم سے اس خندق کو گنوں سے پاٹ دیا گیا اس علاقے کے گرد و نواح میں گنا بکثرت پیدا ہوتا ہے خندق کو پاٹ کر اس کی سطح اتنی بلند کی گئی کہ لشکر اس پر چڑھ کر باآسانی قلعے تک پہنچ سکتا تھا مسلمان اسی ذریعے سے قلعے کے اندر گھس گئے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کو قتل کیا۔ ان کے بیوی بچوں کو قید کیا اور ان کا مال و اسباب اپنے قبضے میں کر لیا۔ سلطان مسعود نے مسلمان تاجروں کو ان کی دولت واپس کر دی اور یوں دنیا میں اپنا نیک نام چھوڑا۔
سطر 56:
 
== ترکمانیوں سے معرکہ آرائی ==
جب سلطان مسعود نیشاپور پہنچا تو وہاں کے باشندے ترکمان سلجوقی کے ظلم و ستم کی شکایت لے کر مسعود کے پاس آئے اور اس سے امان طلب کی۔ مسعود نے بک تعذی اور حسین بن علی میکال کو ایک زبردست فوج کے ساتھ ترکمانوں کی سرزنش کے لیے روانہ کیا جب یہ فوج شقيد القاق (نامی مقام پر) پہنچی تو ترکمانیوں کا ایک پیامبر بک تعذی کے پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ "ترکمانی یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہماری ساری قوم غزنویوں کی تابع اور امیر مسعود کی طرف دار ہے اگر ہمیں تباہ و برباد کیا گیا تو اس سے آس پاس کے علاقوں کے باشندوں کو تکلیف ہو گی۔ لہذا اگر سلطان مسعود ہماری معاش کے لیے زمین کی حد بندی کر دے تو ہم اقرار کرتے ہیں کہ آئندہ ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گے۔" بک تعذی ترکمانی قاصد کے ساتھ ذرا سختی سے پیش آیا اور اسے جواب دیا کہ ترکمانیوں سے جا کر کہہ دو کہ اطاعت کا اقرار کریں اور آئندہ کسی بد اعمالی کے مرتکب نہ ہوں۔ نیز اپنا ایک قابل اعتبار آدمی سلطان مسعود کی خدمت میں بھیجے کہ میرے نام ایک شاہی فرمان منگوائیں تاکہ میں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کروں اگر یہ شرائط منظور نہ ہوں تو پھر ہمارے اور ان کے درمیان تلوار ہی سے صلح ہوگی۔ ترکمانیوں کو جب یہ جواب ملا تو وہ مجبوراً جنگ کے لیے تیار ہوئے اور بڑی سرفروشی اور جان بازی سے لڑے لیکن بک تعذی کے سامنے ان کا زور نہ چلا اور شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگ گئے۔ بک تعذی نے ترکمانیوں کا تعاقب کیا اور ان کے بیوی بچوں کو اپنا قیدی بنا کر ان کے تمام مال و دولت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد غزنوی فوج لوٹ مار کے لیے ادهر ادهر منتشر ہوگئی۔ہو گئی۔ ترکمانوں کو ایک اچھا موقع ہاتھ آیا تو انہوں نے درہ کوہ سے نکل کر بک تعذی کی فوج پر حملہ کر دیا۔ طرفین میں دو دن اور دو رات تک زبردست لڑائی ہوتی رہی۔ غزنوی سپاہیوں کی تعداد کم تھی اس لیے میدان جنگ سے ان کے قدم اکھڑنے لگے یہ عالم دیکھ کر بک تحذی نے حسین میکال سے کہا اب یہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ میدان جنگ سے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں. حسین میکال نے یک تعذی کے مشورے پر عمل نہ کیا۔ یک تعذی خود میدان جنگ سے بھاگ نکلا. میکال نے بڑی ہمت و جرات سے کام لیا اور خوب جان توڑ کر لڑتا رہا آخر کار دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ بک تعذی جان چھپا کر بھاگتا ہوا نیشاپور پہنچا اور سلطان مسعود سے سارا ماجرا بیان کیا۔ سلطان کو اس واقعے سے بڑا رنج ہوا اور وہ 436ھ میں ناکام و نامراد واپس غزنی روانہ ہوا۔
 
== احمد نیالتگین کی سرکشی ==
اسی زمانے میں ہندوستان سے احمد نیالتگین کی بغاوت کی خبریں آئیں۔ سلطان مسعود نے نانھ نام کے ایک ہندو سردار کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ناتھ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہوا اور اس سے معرکہ آرا ہوا دونوں میں زبردست جنگ ہوئی۔ احمد نے بڑی دلیری اور جوانمردی کے ساتھ ناتھ کا مقابلہ کیا اس لڑائی میں ناتھ مارا گیا اور غزنوی فوج کو شکست ہوئی۔ جب سلطان مسعود تک اس واقعے کی اطلاع پہنچی تو اس نے تولک بن حسین کو جو ہندووں کا بہت بڑا امیر تھا نیالتگین کے مقابلے پر روانہ کیا۔ تولک نے نیالتگین سے جنگ کر کے اسے شکست دی۔ نیا لتگین پریشانی کے عالم میں منصورہ ، ٹھٹھہ اور سندھ کی طرف بھاگ گیا۔ تولک نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے جس ساتھی کو دیکھا اس کے کان اور ناک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا۔ احمد ہانپتا کانپا [[دریائے سندھ]] کے کنارے تک پہنچا وہ دریا کو پار کر کے دوسری طرف اترنا ہی چاہتا تھا کہ دفعتاً دریا میں سیلاب آگیا اور نیالتگین اس سیلاب کے سامنے بے دست و پا ہو کر رہ گیا اور یوں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ہو گیا۔ پانی کے بہاو نے نیالتگین کی لاش جب کنارے پر پھینک دی تو لاش کو غزنوی سپاہیوں نے اپنے قبضے میں کر لیا اور اس کا سر کاٹ کر تولک کے سامنے پیش کیا۔ تولک نے سر کو سلطان مسعود کے پاس غزنی بھیج دیا۔
 
== عالی شان تاج ==
سطر 66:
== قلعہ ہانسی اور سون پت کی فتح ==
اسی سال سلطان مسعود نے اپنے بیٹے مودود غزنوی کو صاحب طبل و علم کیا اور خود قلعہ ہانسی کو فتح کرنے کے لیے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔ طبقات ناصری کے مولف کا بیان ہے کہ اس زمانے میں ہانسی سوالک کا دارالسلطنت تھا اور ہانسی کا قلعہ بہت ہی مضبوط تھا۔ اس کی بابت ہندو عقیدہ رکھتے تھے کہ اب کبھی کوئی مسلمان فرمانروا تسخیر نہیں کر سکتا۔ سلطان مسعود نے ہانسی پہنچ کر اس قلعے کا محاصرہ کر لیا اور چھ روز کی محنت کے بعد اسے فتح کر لیا۔ اس قلعے سے بہت سا [[مال غنیمت]] مسعود کے ہاتھ لگا۔ اس نے یہ قلعہ اور تمام مال غنیمت اپنے قابل اعتماد سرداروں کے حوالے کیا اور خود سون پت کا قلعہ فتح کرنے کے لیے آگے بڑھا۔
سون پت کے راجہراجا دیپال ہری کو جب یہ معلوم ہوا کہ سلطان مسعود اس کی سرزنش کے لیے آ رہا ہے تو وہ پریشان و بد حواس ہو کر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔ غزنوی لشکر نے سون پت پہنچ کر وہاں کے قلعہ کو تسخیر کر لیا اور اس کے تمام بتوں کو پاش پاش کر کے تمام مال و دولت پر اپنا قبضہ کرلیا۔کر لیا۔ مسلمانوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ دیپال ہری راجہراجا سون پت یہاں سے فرار ہو چکا ہے تو انہوں نے اس کا تعاقب گیا۔ دیپال کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا ساز و سامان اور لشکر جنگل ہی میں چھوڑ دیا اور خود کسی گوشے میں روپوش ہو گیا۔ مسلمانوں نے دیپال ہری کے ساز و سامان پر قبضہ کیا اور اس کے لشکر کو گرفتار کر کے یہاں سے دره رام دیو کی طرف بڑھے۔
راجہراجا رام دیو اپنی آنکھوں سے دیپال ہری کا حشر دیکھ چکا تھا۔ اسے جب سلطان مسعود کی آمد کی خبر ہوئی تو اس نے بڑی دانشمندی سے کام لیا۔ اس نے بہت سا مال و دولت سلطان کی خدمت میں روانہ کیا اور یہ درخواست کی کہ میں بہت ضعیف اور کمزور ہوں اس لیے مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ بذات خود خدمت اقدس میں حاضر ہو سکوں میرے حال پر رحم کیا جائے اور جو کچھ ارسال خدمت ہے اسے قبول کیا جائے اور مجھے اپنے اطاعت شعاروں میں شمار کیا جائے۔ سلطان نے اس کی درخواست قبول کر لی اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا یہاں سے وہ سون پت واپس آگیا۔
امیر مسعود نے سون پت کی حفاظت اور انتظام کے لیے اپنے ایک معتد امیر کو وہاں چھوڑا اور خود سون پت کے آس پاس کے علاقوں کی تسخیر میں مصروف ہو گیا۔ ان علاقوں کو اس نے بہت جلد فتح کر لیا۔ ان پر قبضہ کرنے کے بعد وہ غزنی کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب سلطان مسعود لاہور پہنچا تو اس نے کچھ دن وہاں قیام کیا اس نے اپنے دوسرے بیٹے ابو المجدود کو وہاں کا حاکم بنایا اور اسے طبل و علم عطا کیا اور ایاز خاں
سطر 73:
 
== طغرل بیگ کی سرزنش کا ارادہ ==
ترکمانیوں کی شورشوں کو ختم کرنے کے لیے سلطان مسعود 438ھ میں بلغ پہنچا۔ ترکمانیوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بلغ کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے علاقوں میں منتشر ہو گئے۔ بلخ کے باشندوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ سلطان کی غیر موجودگی میں [[طغرل بیگ]] نے دریا کو پار کر کے کئی بار مسلمانوں کو مارا اور لوٹا ہے۔ سلطان مسعود نے یہ سن کر [[موسم سرما]] میں ہی طغرل کی سرکوبی کا ارادہ کیا اور ترکمانیوں کی سرزنش کو موسم بہار کے ابتدائی زمانے تک کے لیے ملتوی کیا۔ سلطنت کے امراءامرا اور فوجی افسروں وغیرہ کو بادشاہ کے اس ارادے کی خبر ہوئی تو انہوں نے گزارش کی کہ دو سال سے ترکمانی خراسان میں لوٹ مار مچائے ہوئے ہیں اور اہل خراسان ان کی اس روش سے اس حد تک عاجز آ چکے ہیں کہ خراسانیوں کا ایک بڑا حصہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے اس وقت یہی مناسب ہے کہ سب سے پہلے ترکمانیوں کا قلع قمع کیا جائے اور پھر اس کے بعد کسی اور طرف توجہ کی جائے۔ (سبھی لوگ بادشاہ کے اس ارادے کے مخالف تھے اور اس کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگے) ایک شاعر نے اس مضمون کی ایک نظم بھی لکھی کہ بادشاہ کو پہلے طغرل بیگ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے یہ نظم سلطان مسعود کی خدمت میں پیش کی لیکن سلطان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے ارادے پر قائم رہا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ طغرل بیگ کا ملک بآسانی اس کے قبضے میں آجائے گا۔ لہذا اس نے دریائے جیحون پر پل بندھوایا اور دریا کو پار کر کے ماوراء النہر پہنچا۔
ماوراءالنہر میں کسی نے سلطان مسعود کا مقابلہ نہ کیا اس لیے اس صوبے کے بہت سے علاقوں پر مسعود نے بغیر کسی روک ٹوک کے قبضہ کرلیا۔کر لیا۔ ان دنوں میں اس علاقے میں شدید [[برف باری]] اور بارش ہوئی ، ایک تو سردیوں کا موسم اور دوسرے یہ مصیبت اس وجہ سے غزنوی فوج کو بہت سی تکلیفوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
اس زمانے میں داؤد سلجوقی نے سر اٹھایا اور وہ سرخس سے بلغ کی طرف بڑھا۔ خواجہ احمد وزیر نے بلغ سے سلطان مسعود کو اطلاع دی کہ داؤد سلجوقی ایک زبردست لشکر کے ساتھ بلغ کی طرف آ رہا ہے اور میرے پاس اتنی فوج اور سامان جنگ نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں صف آرا ہو سکوں۔ یہ خبر ملتے ہی سلطان مسعود بلغ کی طرف روانہ ہو گیا۔ جو نہی سلطان بلغ کی طرف روانہ ہوا طغرل نے غزنی پر حملہ کر دیا اور بہت سے شاہی اونٹ اور گھوڑے لوٹ کر لے گیا۔ اس لوٹ مار کے دوران میں طغرل نے اہل غزنی کو خوب جی بھر کے بے عزتی کی۔
سلطان مسعود جب بلخ کے قرب و جوار میں پہنچا تو داؤد بلغ پر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے مرو کی طرف چلا گیا۔ سلطان نے بلغ پہنچ کر اپنے بیٹے مودود کو ساتھ لیا اور داؤد کے تعاقب میں گورگان کی طرف روانہ ہو گیا۔ گورکان میں کچھ لوگ علی تقندری کے ظلم و ستم کا شکار تھے انہوں نے سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہو کر على تقندری کی شکایت کی اور اس کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی درخواست کی۔ على تقندری ایک ظالم عیار اور چالاک ڈاکو تھا لوٹ مار اس کا پیشہ تھا اور اس پر وہ گزر بسر کرتا تھا۔ سلطان مسعود نے اس سے اطاعت گزاری کے لیے کہا۔ اس نے نے انکار کیا اور حسب معمول اپنی روش پر چلتا رہا، علی تقندری نے جب دیکھا کہ سلطان جنگ کا ارادہ کر رہا ہے تو وہ قلعہ میں پناہ گزین ہو گیا۔ مسعود نے اس قلع کی تسخیر کے لیے لشکر کا ایک دستہ روانہ کیا ان سپاہیوں نے بآسانی قلعے کو فتح کر لیا اور علی تقندری کو گرفتار کر کے سلطان کے سامنے لائے ، مسعود نے اس بد معاش شخص کو اس کی بد اعمالیوں کی سزا دی اور پھانسی پر چڑھا دیا۔
 
== ترکمانیوں سے معاہده ==
جب ترکمانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان مسعود ایک زبردست لشکر لے کر مرو کی طرف آ رہا ہے تو انہوں نے ایک قاصد کے ذریعہ سلطان کے پاس پیغام بھیجا کہ ہماری قوم پوری طرح بادشاہ کی فرمانبردارفرماں بردار اور اطاعت گزار ہے۔ ہم نے اب تک جو بدعنوانیاں کی ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ اگر بادشاہ ہماری معاش کے لیے مدد فرمائے اور ہمارے لیے اتنی جاگیر وقف کر دے کہ اس کی آمدنی سے ہمارے اہل وعیالو عیال اور جانوروں کی کفالت ہو سکے تو ہم سب اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی گذشتہ بد کرداریوں کے لیے معافی مانگیں گے اور آئندہ کے لیے ایسی حرکتوں سے توبہ کریں گے۔ سلطان مسعود نے ترکمانیوں کی اس درخواست کو قبول کر لیا اور ان کے سردار مسمی پیغو کے پاس اپنا ایک قاصد بھیجا تا کہ ترکمانی اپنے وعدوں کی کوئی ضمانت دے کر سلطان مسعود کو اپنی نیک چلنی کا یقین دلا دیں۔ ترکمانیوں نے مسعود کی خواہش کے مطابق قول و قسم دے کر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا یقین دلایا اور مسعود نے بھی ان کی خواہش کو پورا کیا اور ان کی گزر بسر کے لیے جاگیر وقف کر دی یہاں سے مسعود نے ہرات کی طرف کوچ کیا۔
راستے میں ترکمانیوں کے ایک گروہ نے مسعود کے لشکر پر چھاپہ مارا چند سپاہیوں کو قتل کر کے وہ لوگ تھوڑا بہت مال بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ مسعود نے اپنے لشکر کا ایک دستہ ان کے پیچھے روانہ کیا۔ اس دستے نے ترکمانیوں کے اس گروہ کو جا لیا اور انہیں تہ تیغ کر دیا۔
ان مقتولوں کے سر اور اہل و عیال کو ساتھ لے کر یہ دستہ سلطان مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسعود نے ان مردہ اور زندہ ترکمانیوں کو گدھوں پر سوار کر کے پیغو کے پاس بھجوا دیا۔ اور اس سے کہلا بھیجا یہ دیکھو اور آئندہ کے لیے ہوشیار ہو جاؤ۔ جو کوئی وعدہ خلافی کرتا ہے اور اپنے عہد کو توڑتا ہے اس کا یہی حال ہوتا ہے۔ پیغو نے اس جماعت سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا اور جواب میں سلطان مسعود کو کہلا بھیجا۔ "میں خود بھی ان لوگوں سے بیزار تھا اور میں خود ان کو سزا دینا چاہتا تھا جو انہیں خود بخود مل گئی۔"
سلطان مسعود ہرات سے نیشاپور آیا اور وہاں سے طوس کی طرف روانہ ہوا۔ طوس کے قرب و جوار میں بھی ترکمانیوں کے ایک چھوٹے سے لشکر نے سلطان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ مسعود نے انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور طوس کے شہر میں داخل ہوا- یہاں پہنچ کر سلطان مسعود کو معلوم ہوا کہ باد آورد کے باشندوں نے قلعہ ترکمانیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ مسعود نے طوس کے قلعہ کو ختم کر کے اہلیان قلعہ کو قتل کیا اور پھر نیشاپور کی طرف واپس ہوا۔
سلطان مسعود نے سردیوں کا زمانہ نیشاپور ہی میں بسر کیا اور 430ھ کے موسم بہار میں طغرل بیگ کو کچلنے کے ارادے سے بار آورد کی طرف روانہ ہوا۔ طغرل نے جب مسعود کی آمد کی خبر سنی تو وہ ڈر کے مارے تزن کی طرف فرار ہو گیا۔ طغرل کے فرار کی خبر سن کر مسعود نے راستے ہی سے اپنی باگ موڑی اور مہتہ ہوتا ہوا سرخس کی طرف چل نکلا۔ مہتہ میں مسعود کو معلوم ہوا کہ یہاں کے باشندے بھی بغاوت پر آمادہ ہیں اور خراج ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ مسعود نے یہاں کے باشندوں کو اس نافرمانی کا مزا چکھایا۔ بعض کو قتل کیا بعض کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں معذور اور لاچارناچار بنایا اور ان کے قلع کوفتح کر کے آگے بڑھا اور دندانقان میں پہنچا۔
 
== ترکمانیوں سے جنگ ==
سطر 95:
== غلاموں کی بغاوت اور سلطان کی گرفتاری ==
ان حفاظتی انتظامات کے بعد سلطان مسعود نے اپنے باپ (محمود غزنوی) کی جمع کی ہوئی تمام دولت اونٹوں پر لادی اور اس خزانے کو اپنے ساتھ لے کر لاہور کی طرف روانہ ہوا۔
سلطان نے راستے ہی میں اپنے ایک آدمی کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ اس کے بھائی محمد غزنوی کو قلعے سے نکال کر ان کے سامنے لائے۔ سلطان رباط مارکلہ (مارگیلہ)(یہ مقام راولپنڈی اور اٹک کے درمیان واقع ہے) [[دریائے جہلم]] کے قریب پہنچا تو سلطان کے قابل اعتبار غلاموں نے لالچ میں آ کر اونٹوں پر لدے ہوئے خزانے کو جی کھول کر لوٹا اور اس دوران میں سلطان کے بھائی محمد غزنوی بھی وہاں پہنچ گیا۔ ان نمک حرام غلاموں نے جنہوں نے خزانہ شاہی کو لوٹا تھا یہ خیال کیا کہ سلطان مسعود کو معزول کر دینا مناسب ہے ورنہ وہ ان کی ناشائستہ حرکت کو معاف نہ کرے گا۔ (اور کڑی سزا دے گا) یہ سوچنے کے بعد ان غلاموں نے سلطان مسعود پر حملہ کر دیا۔ مسعود مجبوراً رباط مارکلہ میں قلعہ بند ہوگیا۔ہو گیا۔
غزنوی فوج کا ہر چھوٹا بڑا فرد آئے دن کی جنگوں سے تنگ آ چکا تھا نیز وطن کی جدائی کی وجہ سے بھی یہ سب لوگ پریشان تھے۔ اس بنا سارے لشکر نے سلطان کی مخالفت کی۔ یہ لوگ رباط کے اندر داخل ہو گئے اور سلطان مسعود کو گرفتار کر کے امیر محمد غزنوی کے پاس لے آئے۔ امیر محمد نے اپنے بھائی سے کہا
* میں نہیں چاہتا کہ تمہیں قتل کر دوں ہاں نظر بند ضرور کروں گا ، تم جو جگہ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے منتخب کرو میں وہیں تمہیں قید کر دوں گا۔ تاکہ تم اپنی زندگی کے باقی دن اطمینان اور آرام سے بسر کر سکو۔
سلطان مسعود نے قلعہ گیری (یہ قلعہ دریائے سندھ کے قریب واقع تھا) میں رہنا پسند کیا اور روانگی کی تیاری کرنے لگا۔
مورخین کا بیان ہے کہ جس وقت مسعود غزنوی روانہ ہوا اس وقت اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی لہذا اس نے ایک آدمی کو اپنے بھائی محمد غزنوی جو اس وقت سلطان تھا کے پاس بھیجا تا کہ وہ اخراجات کے لیے رقم لائے۔ سلطان نے پانچ سو درہم بھجوائے۔ جب یہ رقم مسعود کے سامنے آئی تو اسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسی عالم میں اس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ '''سبحان اللہ كل اس وقت میرے قبضے میں زر و جواہر سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ تھے اور آج میری بد قسمتی کا یہ عالم ہے'''۔ مسعود نے اسی وقت اپنے چند ساتھیوں سے ایک ہزار دینار بطور قرض لیے اور وہ پانچ سو درہم جو سلطان نے بھجوائے تھے اسی شخص کو بطور انعام دے دیئےدیے جو لے کر آیا تھا۔
 
== سلطان مسعود کا قتل ==
سطر 110:
 
== سیرت ==
سلطان مسعود بڑا بمادر رحم دل اور ہنس مکھ انسان تھا۔ اسے علماءعلما و فضلاء سے بے حد عقیدت تھی اور وہ ہمیشہ ان کی صحبت میں بیٹھنا پسند کرتا تھا۔ اس کے زمانہ کے بہت سے علماءعلما و فضلاء نے اپنی کتابیں اس کے نام سے معنون کی ہیں۔ استاد خوارزمی ابوریحان البیرونی منجم اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور فن ریاضی کے ماہر تھے۔ ان کی کتب '''قانون مسعودی''' ایک اعلی درجے کی کتاب ہے جو فن ریاضی سے متعلق ہے۔ یہ کتاب
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے سلطان مسعود کے نام پر لکھی گئی۔ اس گراں با تصنیف کے سلسلے میں سلطان مسعود نے ابو ریحان کو ایک ہاتھی کے وزن کے برابر چاندی دی۔ قاضی ابو محمد نامی نے اپنی عظیم الشان کتاب کو جو فقہ حنفی سے متعلق ہے۔ سلطان مسعود ہی کے نام سے منسوب کیا اور اس کا نام '''کتاب مسعودی''' رکھا۔
"تاریخ رونته الصفا“ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسعود محتاجوں اور غریبوں وغیرہ کا بہت خیال رکھتا تھا اور ہمیشہ انہیں صدقہ اور خیرات دیا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں سلطان مسعود نے صرف ایک دن میں ایک لاکھ سے زیادہ درہم خیرات کیے۔ مسعود کی حکومت کے زمانے میں ممالک غزنویہ میں بے شمار مسجدیں اور مدرسے تعمیر ہوئے۔"