"لاہور کی عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 4:
 
 
نواب خاندان میں نواب [[مظفر علی خان قزلباش|مظفر علی قزلباش]] کو مقبولیت ملی کیونکہ وہ [[پنجاب، پاکستان|پنجاب]] کے [[وزیر اعلی]] بھی رہے۔ اس خاندان کی اہم شخصیت نواب رضا خان تھے جن کے اجداد میں سر نوازش علی خان [[نواب]] آف [[لاہور]] قرار پائے اور انکا انتقال [[1890ء]] میں ہوا اور [[عزاداری]] کا کام انکے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو [[1898ء]] میں انتقال کر گئے، جسکے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا اور یہیں سے [[لاہور]] میں [[عزاداری]] کا عروج شروع ہوتا ہے۔ آج بھی [[لاہور]] میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد [[بھاٹی دروازہ|بھاٹی دروازے]] میں [[گامے شاہ]] پر ختم ہوتا ہے۔ [[مصطفی علی ہمدانی|مصطفیٰ علی ہمدانی]] نے [[ریڈیو پاکستان]] کے لئے تیار کئے جانے والے دستاویزی پروگرام میں بتایا تھا کہ [[گامے شاہ]] اور مائی گاماں دراصل دونوں [[مجذوب]] تھے، جو عاشور کے دن [[سر]] پر گتے کا [[تعزیہ]] رکھ کر [[کرشن نگر]] سے [[داتا دربار]] تک آتے تھے جہاں اس وقت [[دریائے راوی]] بہتا تھا اور یہاں [[تعزیہ]] ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ جب بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے [[داتا دربار]] کے عقب میں [[دفن]] کیا گیا اور اس کا نام گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادب کے ایک شہنشاہ مولانا [[محمد حسین آزاد]] کا بھی مزار موجود ہے۔
 
[[لاہور]] کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں [[عزاداری]] کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے ڈالی تھی اور انہیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں [[ماڈل ٹاؤن]] منتقل ہو گیا۔ کیسے کیسے نابغہ روزگار [[علماء]] اور ذاکرین تھے جو کسی مفاد اور تمنا کے بغیر ذکر امام کرتے تھے۔ خطابت اور ذاکری میں کمرشل ازم نہیں آیا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ [[شیعہ]] [[سنی|سُنی]] کا کوئی فرق معلوم نہیں تھا۔ سب [[مسلمان]] کیا بلکہ غیر مسلم بھی [[کربلا]] والوں کا غم مل کر منایا کرتے تھے۔ جب علامہ حائری مجلس پڑھتے [[علامہ اقبال]] سننے آتے۔ پرانے [[دریائے راوی]] کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں [[لاہور]] کی [[اہل تشیع]] کی پہلی جامعہ مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔ [[مصطفی علی ہمدانی|مصطفیٰ ہمدانی]] کے فرزند [[صفدر ہمدانی]] کہتے ہیں کہ وسن پورہ میں ہمارے [[گھر]] کا دروازہ اور مسجد علامہ حائری کا دروازہ بالکل آمنے سامنے تھے اور اسکے میناروں سے 5 وقت [[اذان]] کی آواز دور دور تک مسلمانوں کو حیی علی الفلاح اور حیی علی الصلٰوۃ کی دعوت دیتی تھی۔ یہ کوئی صدیوں پہلے کی بات نہیں بلکہ چند عشروں پہلے کی بات ہے جب ہم ابھی بچے تھے اور نوجوانی کی طرف قدم بڑھا رہے تھے کہ وسن پورہ سمیت [[لاہور]] کے کتنے ہی ایسے علاقے تھے جہاں [[عزاداری]] فروغ پا رہی تھی اور ان تمام علاقوں میں [[سنی|سُنی]] اور [[شیعہ]] کا کوئی فرق نہیں تھا۔ سب [[مسلمان]] [[شیعہ]] [[سنی|سُنی]] مل کر [[حسین بن علی|نواسہ رسول]] کا غم مناتے تھے۔
سطر 14:
علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کو دراصل پہلی بار [[نواب]] قزلباشوں نے ہی [[مجلس]] خوانی کے لئے [[لاہور]] مدعو کیا تھا اور یہ بات [[1800ء]] کے درمیانی عشروں کی ہے۔ پھر اسی زمانے میں وسن پورہ میں جو ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، علامہ حائری کے والد ابوالقاسم نے وسن پورہ کی زمین خریدی تھی اور یہیں پر [[اہل تشیع]] کی [[لاہور]] میں باقاعدہ پہلی جامع [[مسجد]] علامہ حائری کا قیام عمل میں آیا اور علامہ قاسم نے مختصر پیمانے پر ایک [[مدرسہ]] اور [[کتب خانہ]] بھی قائم کیا اور اسی [[مسجد]] میں [[عزاداری]] کا سلسلہ شروع ہوا جہاں [[9 محرم]] کو [[ذوالجناح]] کا [[جلوس]] نکلنا شروع ہوا اور یہ [[روایت]] آج تک قائم ہے۔ شمس العلماء مولانا ابوالقاسم کی [[وفات]] [[1906ء]] میں ہوئی جس کے بعد یہ سب انتظام انکے بیٹے علامہ سید علی الحائری نے سنبھالا اور انکی [[وفات]] کے بعد [[علم]] کا یہ در اس [[خاندان]] میں بند ہو گیا لیکن علامہ حائری کے بیٹوں نے [[مسجد]] میں [[نماز]] اور [[عزاداری]] کا سلسلہ قائم رکھا۔
 
علامہ حائری کے بیٹوں میں آغا سید رضی، آغا سید ذکی اور آغا سید تقی سب [[وفات]] پا چکے ہیں اور اب یہ [[خاندان]] لگ بھگ سارے کا سارا وسن پورہ چھوڑ کر [[لاہور]] کی جدید آبادیوں میں مقیم ہو چکا ہے۔ علامہ سید علی الحائری کی تین بیٹیاں تھیں جن میں محترمہ سائرہ جن کے شوہر آغا سید رضی تھے جو [[کالا شاہ کاکو]] کے حادثے میں فوت ہوئے تھے۔ محترمہ ذکیہ جن کے شوہر آغا سید حامد حسین تھے انہوں نے [[1970ء|70]] کے عشرے میں [[لاہور]] [[گلبرگ، لاہور|گلبرگ]] میں مجالس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ علامہ حائری کی سب سے چھوٹی بیٹی عالیہ تھیں جنکے شوہر سید تقی تھے جنہیں ہم سب آغا بابا کہتے تھے۔ [[صفدر ہمدانی]] کہتے ہیں کہ یہاں ایک اور تاریخی حقیقت کی طرف صرف اشارہ کرتا چلوں جو مجھے میرے والد مرحوم [[مصطفی علی ہمدانی]] نے بتائی تھی اور اس بات کا ذکر انہوں نے [[لاہور]] کی [[عزاداری]] کی تاریخ کے موضوع پر بنائی جانے والی [[ریڈیو]] [[لاہور]] کے اس واحد دستاویزی [[پروگرام]] میں کیا تھا جو شاید اب [[ریڈیو پاکستان]] کے آرکائیو میں بھی موجود نہ ہو حالانکہ اس [[پروگرام]] کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے سنٹرل پروڈکشن کے آرکائیو رجسٹر میں درج کیا تھا۔
 
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ [[لاہور]] کے [[10 محرم]] کے تاریخی جلوس کا جو راستہ ہم گذشتہ کئی عشروں سے دیکھ رہے ہیں دراصل یہ وہ (روٹ) راستہ نہیں ہے جو ابتداء میں تھا۔ [[1850ء]] کے عشرے میں [[موچی دروازہ|موچی دروازے]] سے [[10 محرم]] کے [[ذوالجناح]] کا پہلا جلوس [[مبارک حویلی]] سے نکلا تھا کیونکہ اس وقت [[نثار حویلی]] الگ نہیں تھی۔ یہ تو بعد میں [[1928ء]] میں خاندانی تنازعوں اور [[جائیداد]] کی تقسیم کی وجہ سے عمل میں آئی اور یہ جلوس نثار حویلی سے نکلنے لگا۔ [[بر سبیل]] تذکرہ [[تاریخ]] سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عرض ہے کہ [[کوہ نور]] [[ہیرا]] ایک زمانے میں اس مبارک حویلی میں بھی رکھا گیا تھا۔ [[مرحوم]] شاہد نقوی نے بھی اپنی تحقیقی [[کتاب]]‘‘[[عزاداری]]‘‘ میں اس تاریخی جلوس کا جو راستہ لکھا ہوا ہے وہ بھی موجودہ راستہ ہے۔ ابتدا میں [[10 محرم]] کی [[نصف شب]] میں نثار حویلی سے برآمد ہو کر [[نماز]] [[فجر]] تک محلہ شیعاں میں پہنچتا، جہاں [[فجر]] کی [[نماز]] ادا کی جاتی اور پھر یہاں سے [[لال کھوہ]] سے ہوتا ہوا جلوس [[کیلیاں والی سڑک]] پر نکل جاتا جسے آج کل [[برانڈرتھ روڈ]] کہا جاتا ہے۔