عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔

قدیم عزاداری کے آداب و رسوم

ترمیم

بیسویں صدی کے ادیب، مولوی نور احمد چشتی،   نے لاہور کی تہذیب کے بارے میں  اپنی کتاب ”یادگارِ چشتی“ (سنِ تصنیف  1859ء) میں  اس صدی  کے لاہور میں عزاداری کا نقشہ  بھی پیش کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

 
لاہور میں عزاداری، سال 1857

” اہل اسلام کا سالِ نو ماہِ غم، یعنی محرم، جس کو پنجابی زبان میں ”دہے “ کہتے ہیں، سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہینا ہمارے نزدیک بہت غم و الم کا ہے کیوں کہ اس میں جناب حضرت امام حسین سید الشہداء رضی الله عنہ نے مع اپنے وابستگان کے، جو جملہ بہتر تن ایک نسل کے تھے، میدان کربلا میں شربتِ شہادت پیا اور یہ جنگ یزید ِ پلید سے ہوا“[2]۔

نیاز کا اہتمام

ترمیم

”اس میں سب مسلمان بنامِ حسین دودھ شربت پلاتے ہیں اور ہر گونہ  طعام پکا کے نذرِ سید الشہداء تقسیم کرتے ہیں۔ اور غریب غرباء ، دوست اقرباء کو کھلاتے ہیں۔ اس ضیافت کا نام ”نیازِ حسین“ ہے۔ ہر مسلمان اپنے مقدور بھر فاتحہ حضرت کا دلاتا ہے“[2]۔

مجلسِ عزاء اور ماتم

ترمیم

”اول محرم سے دہم محرم تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور مرثیہ خوان اور سامعین کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور مرثیہ خوان کو کچھ نقد اور دستاریں بھی دیتے ہیں۔ اس مرثیہ خوانی کا نام ”مجلس“ ہے جو دوقسم کی ہوتی ہے: ایک سنی کی، ایک شیعہ کی۔

شیعہ کی مجلس کا دستور یہ ہے کہ وہ ایک بڑے مکان میں فرش مکلف بچھاتے ہیں اور سائبان بھی تانتے ہیں اور شمعدانِ  فانوسِ قندیل روشن  کرتے ہیں۔ اور ایک منبرِ سیاہ رنگ بچھاتے ہیں اور ایک تکیہ اور مسند بھی بیچ میں رکھتے ہیں۔ اور تکیے پر پھولوں کے سہرے ادب کے واسطے رکھتے ہیں۔ اور تمام رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں۔ مرثیہ خوان تین تین، چار چار آدمی مل کر مرثیہ پڑھتے ہیں۔ اور مرثیہ خوانی کو مرثیہ خوانوں کی چوکی کہتے ہیں۔ چونکہ شہادت جناب امام حسین کی واقعہٴ پر غم ہے، لہذا جب مرثیہ خوانی ہوتی ہے تو ہر کہ و مہ گریہ و بکا کرتا ہے۔ اور اہلِ شیعہ پگڑین اتار کے ماتم کرتے ہیں اور تبرے کہتے ہیں۔

اور سنی لوگ بھی اکثر عشرہ اور مجلس کرتے ہیں اور مجلس کو شب کہتے ہیں۔ اس میں سب رسمیں برابر ہیں مگر یہ لوگ منبر نہیں رکھتے اور تبرا نہیں بولتے۔

شیعہ لوگوں میں، متصل منبر کے، شدے (علم) بھی رکھتے ہیں۔ اور شدے سے یہ مراد ہے کہ ایک بانس پر بہت اچھے اچھے کپڑے باندھتے ہیں۔ اور بعض بانسوں پر کمان باندھ کر ساتھ اس کے تلواریں لٹکاتے ہیں۔ اور منبر پر گاہ گاہ ایک ان کا فاضل آدمی بیٹھ کر وقائع حضرت کے نثر میں پڑھتا ہے اور مرثیہ نظم میں۔ اور مرثیے کی یہ رسم ہے کہ جب مرثیہ خوان آتے ہیں تو مسند پر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ”فاتحہ“۔ پھر سب حاضرینِ مجلس ہاتھ کھڑے کر کے درود حضرتِ سید الشہداء پر پہنچاتے ہیں۔ پھر مرثیہ خوانی ہوتی ہے۔ سب لوگ سن کر روتے ہیں اور اگر بہت غم ہو تو ماتم کے واسطے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک آدمی کہتا ہے”ماتمِ حسین“۔ پھر سب شیعہ لوگ سینہ زنی کرتے ہیں اور ”حسین حسین حسین حسین“ بولتے ہیں۔بعد پاؤ گھنٹے کے ایک شخص کہتا ہے ”ایک نعرہٴ حیدری!“ پھر سب کہتے ہیں: ”یا علی“ اور ماتم بلند ہوتا ہے۔ پھر مرثیہ خوانی ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح ایک دو دفعہ ماتم کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور رات بھر مرثیہ خوانی ہوتی رہتی ہے“[3]۔

سبیل

ترمیم

” سبیل اس کو کہتے ہیں کہ بازاروں کوچوں میں سائبان تان کر بلیوں سے ایک جگہ بیٹھنے کی بناتے ہیں اور اس پر مٹکے مٹی کے اور چھوٹی چھوٹی ٹھلیاں رکھتے ہیں اور نیچے ان کے سرسبز پتے رکھتے ہیں۔ اور پانی یا دودھ یا شربت ہر شخص کو پلاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’نذرِ حسین پانی یا دودھ یا شربت پی جاؤ‘۔جس کا دل چاہتا ہے، پی جاتا ہے“[3]۔

حلیم

ترمیم

” اور اکثر لوگ  ان دنوں میں حلیم پکاتے ہیں۔ حلیم سے مراد ہے کہ مکئی اور گیہوں اور گوشت اور مصالحے اور سریت وغیرہ ڈال کر پکاتے ہیں اور سب لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اور بعض شہر میں، کیا سنی  کیا شیعہ، یوں مجلسِ امامِ ہمام کرتے ہیں کہ پہلے سب دوست آشنا ، غریب غربا کو کھانا کھلایا اور پھر رات بھر مرثیہ خوانی کرائی۔ فجر کو مجلس برخاست ہوئی۔ مرثیہ خوانوں کو دستاریں دیں اور نقد بھی کچھ دیا“[3]۔

تعزیہ داری اورجلوسِ عزاء

ترمیم

”تعزیہ گویا شکل روضۂ حسین کی ہے۔ تعزیہ سنی شیعہ سب بناتے  ہیں۔ پھر دوسرے دن تعزیوں کی گشت کراتے ہیں۔ گشت سے یہ مراد ہے کہ اپنی جگہ سے اٹھا کر سب شہر میں پھرتے ہیں اور پھر اپنے گھر پر لا رکھتے ہیں۔ اور گشت نہم محرم کو ہوتی ہے۔ بعض دن کو اور بعض رات کو گشت کراتے ہیں۔ مگر رات کو خرچ مشعلوں کا زیادہ پڑتا ہے۔ اس کو تعزیہ اٹھانا کہتے ہیں۔

اس میں یہ دستور ہے کہ آگے آگے تاشے بجتے ہیں اور بعض اونٹوں پر بڑے نقارے، یعنی شترے، رکھ کر بجائے جاتے ہیں۔ پیچھے ان کے نشان آدمیوں کے ہاتھ میں اور گھوڑے ، ہاتھیوں، اونٹوں پر لے جاتے ہیں۔ اور نقاروں میں سے یہ آواز نکلتا ہے: ”چڑھے دلدل، مرے کافر“۔ نشانوں کے پیچھے گتکا باز لوگ ہوتے ہیں اور بعد ازاں مرثیہ خوان لوگ۔ اگر رات کا وقت ہو تو مرٹھی اور مشعلیں بھی ہوتی ہیں۔ سب سے پیچھے تعزیہ، جس کو تابوت بھی کہتے ہیں۔ اور تعزیے بہت بہت بڑے بنتے ہیں۔ بلکہ بڑے تعزیوں پر ہزار ہزار روپیہ لگ جاتا ہے۔ اور ہندوستان میں کئی لاکھ روپیہ ایک ایک تعزیے پر خرچ ہوتا ہے۔ اور گشت کا یہ معمول ہے کہ ہزارہا آدمی تعزیوں  کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہزارہا عورت مرد مکانوں پر بیٹھ کے دیکھتے ہیں“[3]۔

ذو الجناح

ترمیم

” اب شیعہ لوگ لاہور میں محرم کی دسویں تاریخ ایک گھوڑا سفید رنگ نقرہ نکالتے ہیں اور اس پر عربی زین باندھتے اور اس کے ہرنے سے زرہ اور خود لٹکاتے ہیں اور دو تلواریں بھی بہ شکلِ ذو الفقار باندھتے اور ایک چادر سفید اس کی پیٹھ پر ڈالتے ہیں۔ اور اس پر لہو کے داغ ڈالتے ہیں اور تیر بھی اس کپڑے میں چھپاتے ہیں۔ اور اس کے گلے میں بطورِ دستورِ عرب ایک دوشالہ باندھتے ہیں اور ایک آدمی آگے سے باگ ڈور اس کی پکڑتا ہے۔ اور سب شیعہ اس کے آگے سر ننگے ہو کر ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ خوانی بھی ہوتی ہے۔ عجیب درد کا وقت ہوتا ہے۔ اگر ہندو دیکھتا ہے تو وہ بھی رو پڑتا ہے“[4]۔

سیاہ لباس

ترمیم

” اور اکثر شیعہ اور بعضے سنی لوگ بطور ماتم داری سیاہ پوش رہتے ہیں۔ اور تیسرے، اکیسویں، تیسویں، چالیسویں دن فاتحہ دلاتے ہیں“[5]۔

امام باڑے

ترمیم

”الغرض شیعہ لوگ گھوڑے کو امام باڑے میں لے جاتے ہیں اور وہاں جا کر خوب ماتم کرتے ہیں۔ اور بطورِ نیاز وہاں کھانا کھلاتے ہیں۔ اور گھوڑے کا اسباب اتارتے ہیں۔ شہرِ لاہور میں امام باڑہ  بھاٹی دروازے کے باہر متصل برف خانے کے ہے اور وہاں مدت سے گامے شاہ نام شخصِ فقیر اب تک رہتا ہے“[6]۔

مولوی غلام حسین صاحب

ترمیم

”اور دہم صفر کو شہرِ لاہور میں محلہٴ چابک سواراں ، مسجد چینی میں عرسِ مبارک جناب مولوی غلام حسین صاحب چشتی کا  ہوتا ہے۔ یہ مولوی صاحب بڑے معارف آگاہ اور صاحبِ عبادت و ریاضت تھے۔ پچیس برس حضرت نے استراحت نہیں فرمائی اور مسکینی میں سید السالکین اور فنا فی الحسین تھے۔ صاحبِ رقت ایسے تھے کہ اگر کہیں نامِ سرورِ دو جہاںؐ یا حسینؑ آ جاتا تھا تو عالمِ گریہ میں بے ہوش ہو جاتے تھے۔ اور کرامات ان کی ہزارہا مشہور، سب روٴسائے  پنجاب ان کو قبلہ و کعبہ جانتے ہیں۔

اس عرس میں نان حلوہ تقسیم ہوتا ہے اور چراغاں خوب روشنی سے ہوتی ہے۔ روٴسا، فقراء سب حاضر ہوتے ہیں اور اس روز نذریں بھی چڑھتی ہیں اور گھنٹہ دو گھنٹہ مرثیہ خوانی بھی وہاں ہوتی ہے“[7]۔

فرقہ وارانہ فسادات

ترمیم

قرون وسطیٰ میں شیعہ اور سنی مل کر محرم مناتے تھے۔ اگرچہ عزاداری کے آداب و رسوم میں کچھ اختلاف پایاجاتا تھا لیکن اس کی بنیاد پر تصادم نہیں ہوتا تھا۔ اپریل 1802ء میں نجد سے جانے والے وہابی لشکر نے کربلا کو تاراج کیا، مزارات تباہ کیے اور پانچ ہزار کے قریب شیعہ قتل کر کے ان کے مال و اسباب کو لوٹا۔ اس سانحے نے برصغیر میں شاہ ولی الله کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی حوصلہ افزائی کی۔  ان لوگوں نے 1818ء سے 1820ء کے سالوں میں اودھ، بہار اور بنگال میں سینکڑوں امام بارگاہوں پر حملے کیے۔ باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:

” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“[8]۔

یہیں سے عزاداری کی تقریبات پر حملوں اور دنگا فساد کا آغاز ہوا جس کے اثرات انیسویں صدی کے لاہور میں محسوس کیے جانے لگے۔

کنہیا لال نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ میں لکھا ہے:

”1849ء میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذو الجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب دپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی“[9]۔

یادگار چشتی کے ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت کے زوال کے بعد سید احمد بریلوی کے پیروکار، جنھیں اس زمانے میں وہابی کہا جاتا تھا،  تقیہ کی حالت سے نکل کر عزاداری پر حملے کرنے لگ گئے تھے:

”اہلِ اسلام میں اب ایک اور فرقہ نکلا ہے اور اس کو وہابیہ فرقہ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں دیکھتا ہوں کہ اکثر عالم لوگ اس طرف متوجہ ہیں۔ العیاذ باللہ! خدا ان کے عقائد کو درست کرے“[10]۔

”اور ہر بازار میں لوگ واسطے دیکھنے کے جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف سے گلاب کا عرق اس (ذو الجناح) پر چھڑکا جاتا ہے مگر بعض تعصب سے اس کو ہنسی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو ”مدد چار یار“ کہتے ہیں اور اکثر اس پر کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب میجر کر کر صاحب بہادر لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے، تب سنی شیعہ میں بہت فساد ہوا اور بہت لوگ مجروح ہوئے۔ تب سے اب ہمیشہ شہر لاہور میں ڈپٹی کمشنر صاحب اور کوتوال اور تحصیل دار اور سب تھانے دار لوگ اور ایک دو کمپنی پلٹن کی اور ایک ملٹری صاحب اور ایک رسالہ، شیعہ لوگوں کی محافظت کے واسطے گھوڑے کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ کوئی سنی دست درازی نہ کر سکے۔ مگر تو بھی وہ لوگ باز نہیں آتے“[6]۔

تاریخ

ترمیم

قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[11]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔

لاہور میں عزاداری کے واضح اور مستند شواہد حضرت داتا گنج بخش اور بیبیاں پاکدامناں کے علاوہ شاہ حسین زنجانی اور حضرت میاں میر کے عہد میں بھی ملتے ہیں اور پھر ملا احمد ٹھٹھوی اور قاضی نور اللہ شوشتری کے عہد میں بھی عزاداری پورے اہتمام سے تھی۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا،لکھتا ہے:

”سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے،تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریبا 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے“[12]۔

لاہورمیں پرانے شہر میں اندرون موچی دروازے کا علاقہ اہمیت کا حامل ہے، جہاں کا محلہ شیعاں دنیا بھر میں عزاداری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ موچی دروازے ہی کی نثار حویلی بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے جہاں قزلباش خاندان نے 1800 کے اوائل میں محرم کی مجالس کرنا شروع کیں اور اب ماڈل ٹاؤن کے جامعہ المنتظر اور اس سے آگے راۓ ونڈ روڈ تک پھیلی نئی آبادیوں میں قائم عزا خانوں میں سینکڑوں کی تعداد میں علم اور ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ سر نوازش علی خان قزلباش کا انتقال 1890ء میں ہوا اور عزاداری کا کام ان کے چھوٹے بھائی نواب ناصر علی کے ذمے آیا جو 1898ء میں انتقال کر گئے، جس کے بعد یہ انتظام نواب فتح علی کے ذمے تھا۔ آج بھی لاہور میں نثار حویلی کا جلوس وقت کے اعتبار سے طویل ترین جلوس ہے جو 24 گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہنے کے بعد بھاٹی دروازے میں کربلا گامے شاہ پر ختم ہوتا ہے۔ گامے شاہ اور مائی گاماں دراصل دونوں مجذوب تھے، جو عاشور کے دن سر پر گتے کا تعزیہ رکھ کر کرشن نگر سے داتا دربار تک آتے تھے جہاں اس وقت دریائے راوی بہتا تھا اور یہاں تعزیہ ٹھنڈا کر دیتے تھے۔ یہ امام باڑہ یوں بنا کہ سنہ 1805 میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے ایک سال تعزیہ نکالنے شہر میں تعصباً تعصباً موقوف کر کے منادی کرادی کہ کرادی کہ جو کوئی تعزیہ نکالے گا سخت سزا یاب ہو گا۔ تب سید گامے شاہ نے یہاں تعزیہ بنوایا اور ماتم کرایا۔ جب رتن سنگھ گرجاکھیہ نے جو عدالتی شہر لاہور کا تھا، سنا تو اس نے اس کو گرفتار کر منگوایا اور ضرب و شلاق کرائی۔ کہتے ہیں کہ بوقت شب کو کچھ خوف آیا اور اس باعث سے اس نے اس سید کو کچھ نذر دے کر رہا کر دیا تب سے یہ مکان مشہور ہوا۔ بابا گامے کا انتقال ہوا تو اسے داتا دربار کے عقب میں دفن کیا گیا اور اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ پڑ گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نواب ناصر علی خان کے علاوہ اردو ادیب اور اردو صحافت کے پہلے شہید آزادی علامہ محمد باقر دہلوی کے فرزند شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا بھی مزار موجود ہے۔ ان کے علاوہ مفتی جعفر حسین اور علامہ مفتی کفایت حسین اور علامہ سید اظہر حسن زیدی مدفون ہیں۔

لاہور کا دوسرا بڑا تاریخی مرکز وسن پورہ میں ہے جہاں عزاداری کی بنیاد مولانا سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابو القاسم نے ڈالی تھی اور انھیں کے گھر میں بعد ازاں پہلا جامعہ المنتظر کھلا تھا جو بعد میں ماڈل ٹاؤن منتقل ہو گیا۔ پرانے دریائے راوی کے کنارے سے کچھ دور آباد ہونے والی اس بستی میں لاہور کی اہل تشیع کی پہلی جامع مسجد علامہ سید علی الحائری کے والد شمس العلماء مولانا ابو القاسم نے تعمیر کروائی تھی۔ علامہ سید علی الحائری کا خاندان عشروں تک یہاں رہا ہے۔ [13]۔[14]. [15]


ایک زمانہ تھا جب لاہور میں واحد ذوالجناح نوابین کا تھا لیکن پھر الف شاہیوں اور آغا شاہ زمان نے بھی ذوالجناح رکھنے شروع کیے اور 2008ء میں لاہور میں 60 سے زیادہ ذوالجناح تھے اور شہر میں 7 محرم کو 7 ذوالجناح نکلنے کی روایت بدستور قائم ہے۔ لاہور شہر کے طول و عرض میں 1000 سے زیادہ مقامات پر مجالس امام حسین کا سلسلہ محرم کی پہلی شب سے شروع ہو کر چہلم امام تک جاری رہتا ہے اور اسی طرح لاہور میں کربلا گامے شاہ بھی محرم کی مجالس کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔ موچی دروازہ میں مبارک اور نثار حویلی اور وسن پورہ کی مسجد علامہ حائری کے علاوہ ہزاروں عزاء خانوں میں سے چند نام اس طرح ہیں۔ رباط حیدریہ موچی دروازہ، حسینہ حال جس کا پرانا نام امام باڑہ تکیہ نتھے شاہ تھا، امام باڑہ ارسطو جاہ رجب، امام باڑہ سید واجد شاہ، امام باڑہ کشمیریاں، امام باڑہ شیر گڑھیاں، امام باڑہ غلام علی اور ڈپٹی غلام حسن، امام باڑہ رضا شاہ صفوی، امام باڑہ ایوب شاہ، امام باڑہ لال حویلی، امام باڑہ خواجگان نارووالی، امام باڑہ جعفر علی میر، امام باڑہ قصر سکندر، امام باڑہ غریب نینوا، امام باڑہ امیر پہلوان اور اکبر شاہ، امام باڑہ سیدے شاہ اور خواجہ علی محمد، امام باڑہ بازار حکیماں اور تکیہ میراثیاں، امام باڑہ مائی عیداں، حسین منزل، مبارک بیگم، کاشانہ رضویہ، گامے شاہ، ایرانیاں، حسینیہ پاک نگر، مرزا نتھا، ڈاکٹر ریاض علی شاہ (جہاں لاہور میں صبح کی سب سے پہلی مجلس ہوتی ہے) امام باڑہ علی مسجد، قصر حسن، مسجد نور، رشی بھون، شیخ سعادت علی، سید اظہر حسن زیدی، عطیہ اہلبیت، دربار حسینی، بھوگیوال، ریلوے بیرکس، بی بی پاک دامناں، قصر زہرہ، آغا شاہ زمان، امام باڑہ مظفر علی شمسی، حافظ کفایت حسین، کرنل فدا حسین، سجادیہ، خواجہ ذو الفقار علی، امامیہ ہال، خیمہ سادات، بیت السادات، باغ گل بیگم، قصر بتول، سید شوکت حسین رضوی، سادات منزل، گلستان زہرا، خانہ زینبیہ، نجف منزل، شاہ نجف گلبرگ، اسد بخاری، میڈم نور جہان، مراتب علی شاہ، علی رضا آباد، کلسی ہاؤس، زیدی ہاؤس، پانڈو اسٹریٹ، بلاک سیداں، بلتستانیہ، جامعۃ المنتظر، سیٹھ نوازش علی، کوٹھے پنڈ، مرزا محمد عباس، مومن پورہ، باٹاپور، سید حسن عباس زیدی، وجاہت عطرے، عالم شاہ، سیدن شاہ، جیا موسٰی، کٹرہ ولی شاہ، الف شاہ دلی دروازہ، سوڈیوال، شاہ خراسان، محلہ داراشکوہ، حویلی میاں خان، لال پُل مغلپورہ اور کاشانہ شیخ دولت علی۔

لاہور میں اردو مجالس کے علاوہ فارسی، عربی، پنجابی اور کشمیری مجالس کا بھی رواج رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ختم ہو چکا ہے یا پھر شاید کسی ایک جگہ پر جاری ہو۔ کشمیری مجالس کا رواج تو ابھی ستر کے عشرے کے آواخر تک خوب تھا اور کشمیری ذاکرین میں موسیٰ شاہ اور احمد علی کو بہت مقبولیت تھی۔ اسی طرح لاہور میں جن علماء نے اپنے علم و فضل کے چراغ روشن کیے ان میں مہدی خطائی، ملا ابراہیم، ملا معصوم، ملا فقیر اللہ، عماد الدین، راجو بن حامد، ابو القاسم حائری، سید علی الحائری، شیخ عبد العلی ہروی تہرانی، آغائے بارھوی، ارسطو جاہ سبزواری، شمس العلماء سید سردار حسن، علامہ ابن حسن نو نہروی، علامہ ہندی، سید کلب حسین، ضمیر الحسن نجفی، حافظ کفایت حسین اور لکھنؤ کے علامہ نقی عرف نقن میاں، حافظ ذو الفقار علی، مولانا اظہر حسن زیدی، فاتح ٹیکسلا مولانا بشیر، ابن حسن نجفی، مرزا یوسف حسین اور ضامن حسین، مولانا ظفر مہدی، حافظ سیف اللہ، اسماعیل دیوبندی، مرتضیٰ حسین فاضل، نصیر الاجتہادی، مفتی جعفر حسین، مولانا اختر عباس، علامہ طیب الجزائری، مولانا اکبر عباس اور افسر عباس، سید محمد جعفر زیدی، محبوب ہمدانی اور سید ظفر حسین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی فہرست میں ایک نام غلام الحسنین ‘‘پنڈت نیک رام‘‘ کا ہے جو ہندو سے شیعہ ہوئے تھے اور پھر انھوں نے اپنی ساری زندگی فضائل و مصائب آل محمد بیان کرنے میں گزار دی۔

اسی طرح سے لاہور میں، ذاکرین، مرثیہ نگاروں، شعرائے اہلبیت، سلام ،سوز اور نوحہ خوانوں کی بھی ایک نہایت طویل فہرست ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منظور حسین برا، ریاض حسین موچھ، سائیں اختر حسین، حامد علی بیلا، بشیر علی ماہی، رجب علی، سید ناصر جہان، نذر حسین، پرویز مہدی، میر ناظم حیسن ناظم، شکور بیدل، اداکار محمد علی، منظور جھلا، سید نازش رضوی، آفتاب حسین لکھنوی، فیروز علی کربلائی، مشیر کاظمی، فیروز علی کربلائی، ظہور حیدر جارچوی، کاظمی برادران، سہیل بنارسی، سید جرار حسین، سید محسن علی، امانت علی، فتح علی، پیارے خان، حسین بخش گلو، چھوٹے غلام علی، شوکت علی، غلام علی، ڈاکٹر صفدر حسین، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حکیم احمد شجاع، قیصر بارھوی، وحید الحسن ہاشمی، پروفیسر مسعود رضا خاکی، میر ناظم حسین ناظم، سیف زلفی، ظفر شارب، جعفر طاہر، جوش ملیح آبادی، وغیرہ۔[16].[17]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Azadari | Four Californian Lectures | Books on Islam and Muslims"۔ Al-Islam.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2014 
  2. ^ ا ب مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  3. ^ ا ب پ ت مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 230 ۔ 233، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  4. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 236، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  5. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 238، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  6. ^ ا ب مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 237، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  7. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 246 ۔ 247، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  8. B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press .(1982).
  9. کنہیا لال، ”تاریخ لاہور“، صفحہ 305، وکٹوریہ پریس لاہور، (1884)۔
  10. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 152، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور۔
  11. ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاهرہ في ملوك مصر و القاہرہ ج 4، ص 126.
  12. محمد بلخی، بحر الاسرار، مرتبہ ریاض الاسلام، کراچی،1980،ص 7-10
  13. https://www.islamtimes.org/ur/article/318912/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%A7%D9%88%D9%84
  14. اسلام ٹائمز، تحریر: سید صفدر ہمدانی، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر
  15. https://www.aalmiakhbar.com/archive/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=2800
  16. https://www.islamtimes.org/ur/article/318927/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DB%8C-%D8%B9%D8%B2%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%AD%D8%B5%DB%81-%D8%B3%D9%88%D8%A6%D9%85
  17. اسلام ٹائمز، تحریر: سید صفدر ہمدانی، ترتیب و اضافہ: سردار تنویر حیدر