"نواب واجد علی شاہ کی گوپیاں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
واجد علی شاہ کی گوپیاں
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 21:51، 28 اکتوبر 2019ء

جب کوئی قوم ذوال پزیر ہوتی ہے تو اس کے رنگ ڈھنگ اور شوق کتنے بدل جاتے ہیں۔ برصغیر میں عہد ذوال میں لکھنو کے شاہان صرف نام کے بادشاہ رہے تھے۔ وہ رزم ہٹ کر بزم میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے یہ شوق و انداز جو انہوں نے اپنائے یہ ذوال پزیری نشانیاں ہیں مگر یہ جذبات کے اظہار کا راستہ ہیں۔ یہاں آخری تاجدار نواب واجد علی جان علم عرف رنگیلے کی بیگمات کا مختصر سے تذکرہ ہے۔

تعداد

لکھنو میں جان عالم کی بیویوں کی تعداد تین سو زائد تھی۔ جو کہ لکھنو کے قیصر باغ میں مقیم تھیں۔ جان عالم کے محبانہ خطوط جو انہوں نے بعض بیگمات کو لکھے تھے اپنی رنگینی بیان معنی آفرینی سے دنیائے ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں۔ کلکتہ میں ان کی نکاحی بیویوں کے علاوہ متاعی بیویوں کی تعداد ڈھائی سو تھی۔ انہیں آٹھ درجوں میں تقسیم کرکے ڈیڑھ سو سے پندرہ سو روپے گزارے کے لیے دیئے جاتے تھے۔ بعض کو یکمشت رقم دے کر رخصت کردیا گیا تھا۔ ان کی متاعی بیویوں کو تین حصوں محلات، بیگمیں اور خلوقیان میں تقسیم کیا ہے       ۔

خطابات

محلات

یہ وہ بیویاں جو صاھب اولاد تھیں۔ مثلاً فخر محل، نازک محل، الفت محل اور ممتاز محل وغیرہ۔

بیگمیں

یہ وہ بیویاں تھیں جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ مثلاً افضل بیگم چندری بیگم، مہر بیگم چمن بیگم وغیرہ۔

خلوقیان

ان سے متعہ کرلیا گیا تھا مگر یہ بعض ادنیٰ خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔ مثلاً مصفا بیگم، آبرساں بیگم، آبدار جان بیگم، امانی بیگم وغیرہ۔

اسیری

کلکتہ میں جب فورٹ ولیم میں اودھ کے کنھیا کو نذر بند کردیا گیا تو واجد علی شاہ اپنی گوپیوں یا بیگمات سے زندگی میں پہلی بار جدا ہوئے۔ جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا اور تنہائی سے گھبرا کر معزول شاہ اپنی محبوب بیگمات سے ان کی نشانیاں طلب فرماتے اور اپنے زخمی دل کو تسکین پہنچاتے۔ جو بیگمات ان کی فرمائش پوری کردیتیں وہ ان سے خوش ہوجاتے اور جو شوخ مزاجی سے ٹال جاتیں ان سے انہیں گلے شکوے رہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دلدار محل سے مسی، صغرا بیگم سے ڈوپٹہ، قیصر بیگم سے پاؤں کا چھلا، معشوق محل سے کٹے ناخن اور اختر محل سے ذلفوں کے بال، دلدار محل نے اپنی مسی، اختر محل نے اپنے بال بھیجے۔ واجد علی شاہ ہمشہ انہیں اپنی نگھاؤں کے سامنے رکھتے اور بار بار سونگھتے۔ بعض نے کچھ نہیں بھیجا تھا۔ اختر محل کے یہاں سے روزانہ ایک خوان کھانے کا اور پانچ گلوریاں پان کی آتی تھیں۔ واجد علی شاہ نے قید ہونے کے باوجود انہیں تیس ہزار روپیہ نقد عطا کیے۔ اس بارے میں خود ہی لکھتے ہیں۔

منظوم

نہ بھیجی کسی نے مجھے کوئی چیز

کسی نے نہ کی دوستی کی تمیز

مگر ہاں اک اختر محل ہے لٰیئق

وہ زندہ میں میری ہوئی ہے رفیق

رکھے موئے سر اپنے دل کے قریں

یہ سمجھا کہ دل میں ہے وہ مہ جبیں

وہ پہنچاتی ہے مجھ کو خوان طعام

تو آتا ہے ہر روز اے نیک نام

عجب اس میں کیا کس کی دختر ہے وہ

وہ اختر ہے مہر منور ہے وہ

اسی دن کو ہیں ذی حسب کا کے

اس دن کو ہیں خوش نسب کام کے

ان بیویوں میں مشہور نواب حضرت محل صاحبہ، نواب عالم آرا بیگم بیاہتا بیوی تھیں، نواب اختر محل صاحبہ، رونق آرا بیگم، نواب اشتیاق محل۔ نواب سلیماں محل صاحبہ، نواب امیر محل صاحبہ، پری محل، عاشق محل نواب انجم النساء بیگم صاحبہ، نواب معشوق محل صاحبہ، سکندر محل، سرفراز محل، نواب سلطان جہاں محل، چتر محل اور ممتاز محل ثالث زیادہ مشہور ہیں۔

ماخذ

شیخ تصدیو حسن۔ بیگمات اود