"نو نہال سنگھ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 30:
نونہال سنگھ لا ولد تھا۔ اس کی ماں چاندکور نے افواہ پھیلا دی کہ اس کی بہو صاحب کور عرف بی بی نانکی امید سے ہے اس لیے چاند کور نے اس آنے والے بچے کے نام پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور ملکہ مقدس کا خطاب اختیار کیا۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
'''قلعہ اکال گڑھ سے قلعہ اقبال گڑھ تک
 
'''----------------------------
قلعہ اکال گڑھ سے قلعہ اقبال گڑھ تک
خود کو اور اپنی افواج کو محفوظ بنانے، اسلحہ اور دیگر سامان حرب کو ذخیرہ کرنے اور جنگجوئوں کی تربیت و کسرت کی خاطر قلعہ جات تعمیر کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی میں فاتحین جس علاقے کو بھی فتح کرتے، ان کی فتح کا حتمی اعلان مخالف بادشاہ یا متوازی مسند نشین کے قلعے پر قبضہ کر لینے ہی کی صورت میں منظر عام پر آتا۔ اسی طرح اگر کوئی فاتح کسی ایسے علاقے کو فتح کرتا کہ جہاں قلعہ جیسی محفوظ عمارت موجود نہ ہوتی تو وہ خود سے اپنے لئے قلعہ تعمیر کرواتا جبکہ اگر اسے اپنے مفتوحہ علاقہ جات میں کوئی مقام اپنے فطری ذوق یا حربی ضرورت کے مطابق پسند آ جاتا تو وہ وہاں بھی قلعہ تعمیر کر دیتا۔ برصغیر میں جنگوں کی تاریخ جتنی طویل ہے ، اسی قدر قلعہ جات بھی اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے چونکہ نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے تو ماضی میں بھی اسی اہمیت کے تناظر میں مختلف حملہ آور وں نے نا صرف یہاں سے گزر کیا بلکہ ان میں سے کچھ نے اپنی ضروت کے تحت قلعے بھی تعمیر کئے۔ انہی قلعہ جات میں سے ایک قلعہ ''اکال گڑھ'' کے نام سے ڈیرہ اسماعیل خان میں تعمیر کیا گیا جسے ان دنوں ''قلعہ اقبال گڑھ کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ شہر کے گردا گرد سرکلر روڈ سے شمال مغربی سمت چند قدم کے فاصلے پر واقع اس قلعہ کا رقبہ کئی سو کنال تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک سکھ نوجوان کنول نونہال سنگھ نے 1835میں محض ڈھائی سے تین ماہ کی مدت میں تعمیر کروایا تھا۔
نونہال سنگھ کون تھا؟ نونہال سنگھ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کا پوتا اور کھڑک سنگھ کا بیٹا تھا سے اس کے باپ نے نہایت کم عمری میں مختلف قسم کی مہمات کی سپہ سالاری سونپ رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب کھڑک سنگھ کو ڈوگروں اور خود سکھوں کے کچھ دھڑوں کی جانب سے شدید مشکلات کا سامنا تھا، انہی دنوں 1834میں کھڑک سنگھ نے اپنے بیٹے کنول نونہال سنگھ کو پشاور فتح کرنے کے لئے روانہ کیا۔ سکھ1818میں ملتان فتح کر چکے تھے اور دیرہ جات و ٹانک والی منکیرہ کے زیر نگیں تھے جبکہ مقامی طور پر ان علاقہ جات کا انتظام و انصرام نوابین کے ہاتھ میں تھا اور مزکورہ عرصہ میں یہاں نواب صمد خان والی ڈیرہ کہلاتے تھے تاہم جب کنول نونہال سنگھ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا تو اس وقت نواب شیر محمد خان والی ڈیرہ تھے۔