نو نہال سنگھ
مہاراجا نو نہال سنگھ (پنجابی زبان: ਨੌਨਿਹਾਲ ਸਿੰਘ) سکھ سلطنت کا تیسرا حکمران تھا۔ 8اکتوبر 1839ء میں اپنے باپ کھڑک سنگھ کو معزول کرکے تخت نشیں ہوا وہ ہرلحاظ سے ناتجربہ کارانسان تھا اسے دھیان سنگھ اورگلاب سنگھ نے یقین دلایاکہ اگر کھڑک سنگھ کی حکومت قاٸم رہی تو پنجاب انگریزوں کے قبضہ میں چلاجاٸے گا اس لٸے ضروری ہے کہ کھڑک سنگھ کی حکومت کا خاتمہ کیاجاٸے اس مقصدکے لٸے ڈوگروں نے نونہال سنگھ کے دل میں باپ کے خلاف نفرت بٹھادی مہارانی چاندکوربھی ان کاساتھ دے رہی تھی نونہال سنگھ اور چاندکورنے ڈوگروں سے عہد لیا کہ کھڑک سنگھ کومعزولی کے بعد زندہ رکھاجاٸے گا جبکہ اس کے رفیق خاص چیت سنگھ کو مع اہل و عیال ختم کردیاجاٸے گا
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | 11 فروری 1820ء لاہور |
|||
وفات | 6 نومبر 1840ء (19 سال) لاہور |
|||
مذہب | سکھ | |||
والد | کھڑک سنگھ | |||
والدہ | چاند کور | |||
مناصب | ||||
مہاراجہ | ||||
برسر عہدہ 8 اکتوبر 1839 – 6 نومبر 1840 |
||||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | مقتدر اعلیٰ | |||
درستی - ترمیم |
اور 6 نومبر 1840ء کو قلعہ لاہور کی دیوار گر جانے کے باعث معمولی سا زخمی ہوا،اسے قلعہ کے اندرونی حصہ میں منتقل کیاگیاکسی کو مہاراجا سے ملنے کی اجازت نہ دی گٸی تیسرے دن اس کی موت کی خبر پھیلادی گٸی کہ وہ زخموں کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکا اور فوت ہو گیا اس کی موت کا معاملہ متنازع ہے کیونکہ دروازہ اوردیوار کا اچانک اس وقت گرنا جب مہاراجا اور اس کے رفقا وہاں سے گذ رہے تھے نونہال سنگھ ایک سیدھا سادھا انسان تھا حکومت کے اصل اختیارات وزیر اعظم دھیان سنگھ ڈوگرہ کے پاس تھے مہاراجا کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی ڈوگرہ پریوار سکھ حکومت کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے تھے انھیں کسی قسم کا کوٸی خطرہ نہ تھا
عہد حکومت
ترمیم1837ء میں نونہال سنگھ کی شادی شیام سنگھ اٹاری والا کی بیٹی صاحب کور عرف بی بی نانکی سے ہوئی۔ مہاراجا کھڑک سنگھ کی نااہلی کی وجہ سے سکھ امرا اس کے خلاف ہو گئے اس مخالفت کو ڈوگرہ پریوار نے مزید ہوا دی سکھوں کو انگریزوں کی غلامی سے خوف زدہ کیا اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کھڑک سنگھ کو معزول کیاجائے ا ورا س کی جگہ اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو تخت نشن کیا جائے کھڑک سنگھ کی بیوی مہارانی چاندکور اور بیٹے نونہال سنگھ نے وزیرا عظم دھیان سنگھ سے عہد لیا کہ کھڑک سنگھ پر آنچ نہیں آئے گی۔ چنانچہ 5اکتوبر 1839ء کو رات کے وقت وزیر اعظم دھیان سنگھ،اس کے بھائی سوچیت سنگھ اور گلاب سنگھ،اس کا بیٹا ہیرا سنگھ ،دھیان سنگھ کا رفیق خاص لال سنگھ اور دیگر رفقا کے ہمراہ کھڑک سنگھ کی خواب گاہ (متصل شیش محل)میں داخل ہوئے۔ کھڑک سنگھ نے حالات کو سمجھتے ہوئے ڈوگروں کے خلاف مزاحمت کی مگر مہارانی چاندکور،نونہال سنگھ نے کنیزوں کے ساتھ مل کر اسے بے بس کر دیا۔ مہاراجا کھڑک سنگھ کو معزول کرکے اس کی حویلی (موجودہ نسبت روڈ لاہور)میں نظر بند کر دیا گیا۔ کھڑک سنگھ کا مقرب خاص چیت سنگھ دھیان سنگھ کے ہاتھوں قتل ہواجبکہ اس کے اہل و عیال اور دوست موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اگلے دن نونہال سنگھ کی حکومت کا اعلان کیا گیا۔ حکومت کے اختیارات ملتے ہی مہاراجا نونہال سنگھ نے دربار میں نجومی اور جوتشی بلوائے جنھوں نے اپنے حساب کتاب اور ستاروں کے علم اور زائچوں کی مدد سے اسے خوشخبری دی کہ وہ اپنے آنجہانی دادا رنجیت سنگھ کی طرح عظیم الشان حکمران ثابت ہوگا اس کی سلطنت کی حدود میں دہلی اور بنارس بھی شامل ہوں گے یہ سن کر مہاراجا نونہال سنگھ بہت خوش ہوااس نے ان نجومیوں اور جوتشیوں کو انعام واکرام سے نوازا۔ حکومت کے اصل اختیارات وزیر اعظم دھیان سنگھ کے ہاتھ میں تھے نونہال سنگھ صرف ایک کٹھ پتلی کی طرح تھانونہال سنگھ نااہل حکمران تھا سیاسی تدبر اور صلاحیت کا فقدان تھا کیونکہ اس کی سیاسی تربیت کمی تھی۔ اسے سیر وشکار کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں تھی۔ نومبر1840ء کے ابتدائی ایام میں وہ اپنے باپ کھڑک سنگھ کے بار بار بلانے پر نونہال سنگھ صرف ایک بار اسے ملنے آیا مگر اس نے گستاخی، بدتمیزی اور درشت رویہ سے اپنے باپ سے گفتگوکی اس نے اپنے باپ کو سکھ قوم کا غدار کہا اورانگریز وں کا وفادار کہا ۔ کھڑک سنگھ معزول ہونے کے بعد 10ماہ تک زندہ رہا۔ اس کی حویلی (موجودہ نسبت روڈ لاہور) میں اور ایک روایت کے مطابق اندرون لاہور ایک حویلی میں نظربند رکھا گیا۔ وہاں جوالہ سنگھ نام کا ایک حکیم مقرر کیا گیا، جو دھیان سنگھ کا ایک خاص آدمی تھا۔ اس نے معزول مہاراجا کو زہر خوانی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی، جس کے نتیجہ میں مہاراجا کھڑک سنگھ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر 5 نومبر 1839ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مہاراجا کی وفات کی خبر کا باقاعدہ اعلان قلعہ لاہور میں توپیں چلا کر کیا گیا۔ مہاراجا کھڑک سنگھ کی چتا میں دو بیواؤں اور سات کنیزوں نے ستی ہونا قبول کیا۔ جب یہ عورتیں چتا میں بٹھائی گئیں تو وزیر اعظم دھیان سنگھ نے ان سے کہا کہ نوجوان راجا (نونہال سنگھ) کے لیے خیروبرکت کی دعائیں کریں، مگر وہ چپ رہیں۔
مشہور سکھ مصنف ہربنس سنگھ نے اپنی کتاب Death of Prince Nau Nihal Singhمیں تحریرکیا ہے کہ ابھی کھڑک سنگھ کی لاش کو جلے ہوئے تھوڑاسا وقت ہوا تو مہاراجا نونہال سنگھ نے امرا کے ہمراہ قلعہ کی واپسی کا قصد کیا کیونکہ وہ چتا کی سخت گرمی کو برداشت نہیں کرپا رہا تھا اس نے دریائے راوی کے کنارے بنائے گئے تالاب میں غسل کیا اور قلعہ کی جانب چل پڑا۔ وہ اپنے دوستوں اور رفقا کے ہمراہ چل رہاتھا کہ روشنائی دروازہ کی پرانی اور بوسیدہ عمارت اس پر آن گری جس کے نیچے دب کر نونہال سنگھ اور ادھم سنگھ (گلاب سنگھ کا بیٹا) دونوں زخمی ہو گئے۔ ادھم سنگھ موقع پر ہلاک ہو گیا مگر نونہال سنگھ زندہ تھا وہ نیم بے ہوش تھا وزیر اعظم دھیان سنگھ نے پالکی کے ذریعے مہاراجا کو قلعہ منتقل کیا حکیموں اور ویدوں نے اس کا سرتوڑ علاج کیا مگراہالیان لاہورنے تیسرے دن مہاراجا کی موت کی خبر سنی۔ اس واقعہ کو مؤرخین نے اتفاقی حادثہ کانام دیا مگر (Encyclopedia of Sikhism, Vol. III, p. 212). کے مطابق یہ ایک سازش تھی جسے وزیر اعظم دھیان سنگھ نے تشکیل دیاتھا مگر بغور جائزہ لیاجائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کو اس کٹھ پتلی مہاراجا سے کسی قسم کی کوئی شکائت نہ تھی تمام اختیارات وزیر اعظم دھیان سنگھ کے پاس تھے۔ تاہم یورپی مصنفین کانن گھم (Cunningham)،(گارڈنرGardner)سمتھ،(سٹین بیکSteinback)بھی اس نقطہ کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ ایک سازش تھی جس کا خالق وزیر اعظم دھیان سنگھ تھا۔
ایک اور نقطہ قابل غور ہے کہ جن پالکی برداروں نے مہاراجا نونہال سنگھ کو روشنائی دروازے سے زخمی حالت میں اٹھا کر اس کی خواب گاہ تک پہنچایا تھا ان میں سے دو پالکی بردار وحشیانہ انداز میں قتل کر دیے گئے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کرگلے کاٹے گئے تھے جبکہ دو پالکی بردار منظر سے غائب ہو گئے وہ کہا ں گئے انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ ہو سکتا ہے کہ پالکی بردار مہاراجا کی موت کے واقعات و حقائق سے آگاہ ہو چکے تھے ان کے افشا ہونے سے کئی اعلیٰ عہدے دار بے نقاب ہو سکتے ہوں اس لیے انھیں منظر عام سے ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا گیا۔
نونہال سنگھ لا ولد تھا۔ اس کی ماں چاندکور نے افواہ پھیلا دی کہ اس کی بہو صاحب کور عرف بی بی نانکی امید سے ہے اس لیے چاند کور نے اس آنے والے بچے کے نام پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور ملکہ مقدس کا خطاب اختیار کیا۔
قلعہ اکال گڑھ سے قلعہ اقبال گڑھ تک ---------------------------- خود کو اور اپنی افواج کو محفوظ بنانے، اسلحہ اور دیگر سامان حرب کو ذخیرہ کرنے اور جنگجوئوں کی تربیت و کسرت کی خاطر قلعہ جات تعمیر کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی میں فاتحین جس علاقے کو بھی فتح کرتے، ان کی فتح کا حتمی اعلان مخالف بادشاہ یا متوازی مسند نشین کے قلعے پر قبضہ کر لینے ہی کی صورت میں منظر عام پر آتا۔ اسی طرح اگر کوئی فاتح کسی ایسے علاقے کو فتح کرتا کہ جہاں قلعہ جیسی محفوظ عمارت موجود نہ ہوتی تو وہ خود سے اپنے لیے قلعہ تعمیر کرواتا جبکہ اگر اسے اپنے مفتوحہ علاقہ جات میں کوئی مقام اپنے فطری ذوق یا حربی ضرورت کے مطابق پسند آ جاتا تو وہ وہاں بھی قلعہ تعمیر کر دیتا۔ برصغیر میں جنگوں کی تاریخ جتنی طویل ہے ، اسی قدر قلعہ جات بھی اس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے چونکہ نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے تو ماضی میں بھی اسی اہمیت کے تناظر میں مختلف حملہ آور وں نے نا صرف یہاں سے گذر کیا بلکہ ان میں سے کچھ نے اپنی ضروت کے تحت قلعے بھی تعمیر کیے۔ انہی قلعہ جات میں سے ایک قلعہ اکال گڑھ کے نام سے ڈیرہ اسماعیل خان میں تعمیر کیا گیا جسے ان دنوں قلعہ اقبال گڑھ کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ شہر کے گردا گرد سرکلر روڈ سے شمال مغربی سمت چند قدم کے فاصلے پر واقع اس قلعہ کا رقبہ کئی سو کنال تک پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ایک سکھ نوجوان کنول نونہال سنگھ نے 1835میں محض ڈھائی سے تین ماہ کی مدت میں تعمیر کروایا تھا۔ نونہال سنگھ کون تھا؟ نونہال سنگھ، مہاراجا رنجیت سنگھ کا پوتا اور کھڑک سنگھ کا بیٹا تھا سے اس کے باپ نے نہایت کم عمری میں مختلف قسم کی مہمات کی سپہ سالاری سونپ رکھی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب کھڑک سنگھ کو ڈوگروں اور خود سکھوں کے کچھ دھڑوں کی جانب سے شدید مشکلات کا سامنا تھا، انہی دنوں 1834میں کھڑک سنگھ نے اپنے بیٹے کنول نونہال سنگھ کو پشاور فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔ سکھ1818میں ملتان فتح کر چکے تھے اور دیرہ جات و ٹانک والی منکیرہ کے زیر نگیں تھے جبکہ مقامی طور پر ان علاقہ جات کا انتظام و انصرام نوابین کے ہاتھ میں تھا اور مزکورہ عرصہ میں یہاں نواب صمد خان والی ڈیرہ کہلاتے تھے تاہم جب کنول نونہال سنگھ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا تو اس وقت نواب شیر محمد خان والی ڈیرہ تھے۔
پشاور فتح کرنے کے بعد نونہال سنگھ ابھی پشاور اور اٹک میں اپنے والی تعینات کر رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ ٹانک اور دیرہ جات میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔وہ اپنی فوج کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا اور یہاں پر ایک قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ چونکہ دریا برد ہونے کے بعد 1824میں دوبارہ آباد ہوا تھا اس لیے قلعہ کا موجودہ مقام اس وقت کے ڈیرہ شہر سے تقریباایک چوتھائی میل کے فاصلے پر بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بنیادی طور پر پختہ اینٹوں سے سے تعمیر کیا گیا تھا تاہم مٹی کے پشتوں کو اس قدر بلندی تک لے جایا گیا کہ پہلی نظر میں یہ مٹی سے بنا معلوم ہوتا۔ روایات میں ہے کہ قلعہ کی تعمیر کے وقت یہ مقام باقی شہر سے کافی بلندی پر واقع تھا۔وسیع و اریض دالان ، جا بجا گھاس کے قطعات، دربار کے لیے کھلا اور ہوادار بڑا سا ہال، فوجیوں کے لیے بیرکیں، اسلحہ کے لیے گودام اور گھوڑوں کے اصطبل کے لیے مخصوص کمروں اور کھلے میدانوں کا حامل یہ قلعہ دراصل نونہال سنگھ کی ڈیرہ کے مقام پر مستقل رہائش اور اپنی مہمات کو مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے تاہم وہ اس قلعہ میں محض چند ماہ تک ٹھہر سکا اور اسے واپس لاہور بلا لیا گیا جہاں 1837میں اس کی شادی شام سنگھ اٹاریوالہ کی بیٹی نانکی کے ساتھ کر دی گئی۔اپنے جانے سے قبل کنول نونہال سنگھ نے دولت رائے، جو ڈیرہ اسماعیل خان کی موجودہ تحصیل درابن سے تھا، کو والی منکیرہ بنایاجو نواب شیر محمد خان کے منشی لکی مل کے فرزند تھے اور اپنی تعلیمی استعداد کی بدولت اپنے والد لکی مل کی جگہ نواب شیر محمد خان کے اکائونٹینٹ یا منشی گیری کے فرائض انجام دیتے چلے آ رہے تھے۔ نونہال سنگھ نے مقامی نوابین کے وظیفے مقرر کیے اور لاہور روانہ ہو گیا۔5نومبر 1840کو کھڑک سنگھ انتقال کر گیا جبکہ اس سے ٹھیک تین بعد کنول نونہال سنگھ بھی حضوری باغ کے گرنے والے ایک چھجے کے نیچے زخمی ہونے کے بعد فوت ہو گیا۔
دسمبر 1845میں انگریز فوج نے لاہور پر حملہ قبضہ کر لیا جبکہ 16دسمبر 1846 کو ایک نئے معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی روسے ایک کونسل آف ریجنسی مقرر کی گئی اور برطانوی ریذیڈنٹ پورے صوبے کا حقیقی حکمران بن گیا۔ قلعہ لاہورمیں برطانوی فوج تعینات کر دی گئی اور بنگلے تعمیر کر دیے گئے۔ آگے چل کر پنجاب بھر اور اسی حوالے سے دیرہ جات میں بھی انگریز راج کا آغاز ہوا اور انگریز نے والی منکیرہ دولت رائے کو خاص اہمیت دیتے ہوئے اسی اس مسند پر قائم رکھا۔ اکال گڑھ کے قلعہ میں بھی انگریز فوج آ براجمان ہوئی جس نے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یہاں پر چاند ماری کی تعمیر کی جہاں انگریز فوج اور مقامی افراد پر مشتمل فوج نشانہ بازی کی مشق کرتے۔ انگریز نے زمانہ امن میں اس قلعہ کو جیل یا قید خانہ کے طور پر بھی استعمال کیا جبکہ کسی معرکے کی صورت میں یہ قلعہ حفاظت اور عسکری منصوبہ بندیوں کا مرکز رہا۔ تاہم تاریخ اس قلعہ کو باقائدہ فوجی مرکز یا اسلحہ کا گودام ثابت نہیں کرتی۔ تقسیم کے نتیجے میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور برطانوی راج کا خاتمہ ہوا تو پاک فوج نے اکال گڑھ قلعہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور تب سے اسے اکال قلعہ کی بجائے اقبال گڑھ قلعہ کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے۔ آج بھی اس قلعہ کو پاک فوج چھائونی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔عسکری حکام نے گو کہ اس قلعہ میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تزئین و آرائش اور سہولیات کی حد تک تبدیلی ضرور شامل کی ہے تاہم قلعہ کا بنیادی ڈھانچہ اور چاند ماری سمیت تمام عمارات اپنی اصل شکل میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہتر دیکھ بھال کی بدولت محفوظ بھی ہیں۔ اکال پنجابی کا لفظ ہے جو سکھ فاتح فتح کا سلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کا ایک مطلب ابدی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس قلعہ کو اقبال کے نام سے موسوم کرنے کے پیچھے جہاں ڈاکٹر علامہ اقبال سے اسے منصوب کرنا خیال کیا جاتا ہے وہیں لفظ کے اقبال کے لفظی مطالب یعنی بخت بلند بھی اس قلعہ کے نئے نام کی توجیہ ہو سکتی ہے۔
ماقبل | مہاراجہ سکھ سلطنت 8 اکتوبر 1839ء– 6 نومبر 1840ء |
مابعد |