"سنوسی تحریک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
سطر 26:
فرانس سے جنگ کا ابھی خاتمہ ہی نہیں ہوا تھا کہ سنوسیوں کا تصادم [[اطالیہ|اٹلی]] سے ہو گیا۔ یہ حملہ شمال کی سمت سے لیبیا پر ہوا تھا۔ سنوسی اگرچہ لیبیا کی صحرائی زندگی پر چھائے ہوئے تھے لیکن لیبیا انتظامی لحاظ سے [[سلطنت عثمانیہ|عثمانی سلطنت]] کا ایک حصہ تھا اور ساحلی علاقوں اور شہروں میں ترکی حکومت مستحکم تھی۔ اطالوی باشندے کچھ سے ساحلی علاقوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور انہوں نے کاروباری دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ اٹلی نے اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنے کے لیے انہی اطالوی باشندوں کی جان و مال کی حفاظت کے بہانے سے لیبیا میں مداخلت شروع کردی۔ یہ وہی طریقہ تھا جس پر برطانوی حکومت مصر میں اور فرانسیسی حکومت شمالی افریقہ میں عمل کرچکی تھی۔ اٹلی نے [[26 ستمبر]] 1911ء کو ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور [[5 اکتوبر]] کو طرابلس پر قبضہ کر لیا۔
 
ترکوں کے لیے لیبیا سے جنگ جاری رکھنا بہت مشکل تھا کیونکہ [[بلقان]] کی صورت حال نازک تھی اور بحری راستے سے کمک بھی نہیں بھیجی جاسکتی تھی۔ اس لیے ترکوں نے اکتوبر 1912ء میں اطالویوں سے صلح کرلی اور لیبیا سے تمام فوجیں واپس بلانے کا وعدہ لیا۔ اس دوران سید احمد شریف کفرہ سے جغبوب آئے اور وہاں ترک رہنما [[اسماعیل انور پاشا|انور پاشا]] سے ملاقات کی جو بھیس بدل کے مصر کے راستے لیبیا پہنچے تھے۔ اٹلی کو امید تھی کہ عربوں اور ترکوں کی نسلی کشمکش کی وجہ سے لیبیا کے عرب اطالویوں کا خیرمقدم کریں گے لیکن لیبیا کے حالات [[شام]]، [[عراق]] اور [[حجاز]] سے مختلف تھے، یہاں سنوسی تحریک نے اسلامی اخوت کا رشتہ اتنا مضبوط کر دیا تھا کہ نسلی اور علاقائی مفادات اور تعصبات اس کو نہیں توڑ سکتے تھے۔ لیبیا کے باشندوں سےنے سنوسی قیادت میں ترکوں کی بھرپور مدد کی اور قدم قدم پر اٹلی کا مقابلہ کیا۔
 
1914ء کے شروع تک بیشتر ترک فوجیں لیبیا سے واپس چلی گئیں اس لیے اٹلی سے جنگ کا سارا بوجھ سنوسیوں کے کاندھوں پر آپڑا۔ اس جنگ میں جو اب لیبیا کی آزادی کی جنگ بن چکی تھی، سید احمد شریف کی قیادت میں سنوسیوں نے 1912ء سے 1918ء تک اٹلی سے جنگ کی۔ 1915ء میں اٹلی اتحادیوں کی طرف سے [[جنگ عظیم]] میں شامل ہو گیا جس کی وجہ سے سنوسی مجاہدوں کا برطانیہ سے بھی ٹکراؤ ہو گیا اور فروری 1916ء میں برطانوی افواج نے حریت پسندوں کو شکست دے دی۔ سید احمد شریف اب لیبیا سے نکل کر نخلستان{{زیر}} داخلہ (مصر) میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے جہاں سے ستمبر 1918ء میں وہ [[ترکی]] چلے گئے۔ یہ وہی سید احمد سنوسی ہیں جو عرب قوم پرستوں کے مقابلے میں برابر ترکی خلافت کی تائید کرتے رہے۔