"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏حوالہ جات: اضافہ سانچہ/سانچہ جات
سطر 50:
اس آیت سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کی اصل جگہ کہاں ہے؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ یوں تو یہ ہر سورہ کے شروع میں، سوائے سورۂ توبہ کے، ایک مستقل آیت کی حیثیت سے لکھی جاتی ہے لیکن کسی سورہ میں بھی، ماسوائے سورۂ نمل کے، بظاہر اس کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ شامل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ کسی خاص سورہ کا حصہ بھی ہے یا ہر سورہ کے اوپر یہ صرف بطور ایک متبرک آغاز اور ایک علامت امتیار کے ثبت ہے۔ مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء اور فقہا کی رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کی سورتوں میں سے کسی سورہ کی  بھی، بشمول سورۂ فاتحہ، آیت نہیں ہے بلکہ ہر سورہ کے شروع میں اس کو محض تبرک اور ایک علامت فصل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس سے ایک سورہ دوسری سے ممتاز بھی ہوتی ہے اور قاری جب اس سے کسی سورہ کا افتتاح کرتا ہے تو اس سے برکت بھی حاصل کرتا ہے۔ یہی مذہب [[امام ابو حنیفہ]] رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
 
اس کے برعکس مکہ اور کوفہ کے فقہا نیز اہل تشیع علماء اور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے اور دوسری سورتوں کی بھی ایک آیت ہے۔ یہ مذہب [[امام شافعی]] رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔
 
استاذ امام مولانا [[حمید الدین فراہی]] رحمۃ اللہ علیہ اس کو سورۂ فاتحہ کی ایک آیت اور دوسری سورتوں کے لیے بمنزلہ فاتحہ مانتے ہیں۔ مجھے قوی مذہب قرائے مدینہ کا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب تمام تر وحی الہٰی کی رہنمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے تحت عمل میں آئی ہے اور بسم اللہ کی کتابت بھی اسی ترتیب کا ایک حصہ ہے۔ اس ترتیب میں جہاں تک بسم اللہ کے لکھے جانے کی نوعیت کا تعلق ہے سورۂ فاتحہ اور غیر سورۂ فاتحہ میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر سورہ کے آغاز میں اس کو ایک ہی طرح درج کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت سورہ سے الگ ایک مستقل آیت کی نظر آتی ہے۔