"استوپا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار:تبدیلی ربط V3.4
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 30:
[[فائل:General View of Shingardar Stupa - From Eastern Side.JPG|تصغیر|شنگردر اسٹوپا، وادی سوات۔]]
 
مشرقی ہند میںکے قدیمرہائشی قبریںاپنے گولمذہبی ہوتیپیشواؤں تھیںکی اسٹیو کو سنبھال کر رکھتے تھے اور عقیدت کے لیے انہیں مربی دس گاؤں کے درمیان مقبرے میں دفنایا جاتا اس کا ذکر سب سے پہلے موریا خاندان میں ملتا ہے۔جس نے بدھ مذہب کے متعدد پیشواؤں کی ہنستی ہو پر جو یادگار بنایا انہیں ،سٹوپا کا نام دیا گیا استوپ کہلاتی تھیں ۔ [[گوتم بدھ]] سے پہلے قبروں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ مگر گوتم کے مرنے کے بعد اس کی راکھ کے مدفن کی حثیت سے استوپ کو اہمیت اور مذہبی علامت دی جانے لگی اور اس کو اتنی زیادہ دینی حثیت حاصل ہو گئی کہ گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کےلیے استوپ بنانا بڑے ثواب کا کام سمجھا جانے لگا ۔ عموماً ہر استوپ کے ساتھ بھکشووَں کے رہنے کےلیے دھار ( خانقاء ) اور ان کے اجتماع کےلیے ایک چیتا ( عبادت گاہ ) بنوائی جاتی تھی ۔ شروع میں استوپ نیم دائرے کی شکل کا ٹھوس گنبد ہوتا تھا ، جو قبر کی طرح بغیر کرسی کے بنایا جاتا تھا اور اس کے بیچ میں تابوت کی جگہ وہ آثار رکھے جاتے تھے جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی ۔ استوپ کی چوٹی پر ایک چوکور جنگلہ ہوتا تھا اور اس کے اوپر ایک چتر ۔ چونکہ بدھوں میں جس چیز کا احترام کیا جاتا تھا اس کے گرد طواف کیا جاتا تھا اس لیے استوپ کے گرد ایک گول چبوترا بنادیا جاتا تھا ۔ بعد میں استوپ کے مزید احترام کے خیال سے ایک جنگلے کے ذریعے اس کی احاطہ بندی کی جانے لگی ۔ اس جنگلے کے چاروں طرف سمتوں کے لحاظ سے دروازے ہوتے تھے ۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو استوپوں کا ہوتا تھا ۔ یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں ۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کےلیے لان رکھا گیا تھا ۔
 
اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے ۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی ۔ اشوک ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کرا کر انہیں دفن کیا جائے ۔ یوں یہ خاک چوراسی ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی ۔ چنانچہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیے گئے ۔ چنانچہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا ۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے ۔ زائرین اسٹوپے کے گرد طواف کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسٹوپے کی گولائی پر نظر رکھتے تھے اور اس پر آویزاں مجسموں کو دیکھتے جاتے تھے ، جن میں مہاتمہ بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار بیان کیے جاتے تھے ۔ یہ اسٹوپے مہاتمہ بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے ۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں ۔ اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا ۔ اس نے بدھ مت قبول کر لیا تھا اور اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر بڑے اسٹوپے تعمیر کرائے تھے اور ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھورے تھورے تبرکات محفوظ کیے تھے ۔ ٹیکسلہ کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا ۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بھشکو مقرر تھے ۔ ان کے رہنے کے لیے دہار بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس کے لیے وقف کردی گئی ۔<br />پہلے ان اسٹوپوں پر گوتم بدھ کی مورتیاں کندہ ہوتی تھیں ۔ یونانیوں نے جب بدمت قبول کیا تو وہ مے کے پیالوں کی جگہ کنول کے پھول تراشے اور ان میں یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم کی مورتیاں بنائیں اور رفتہ رفتہ اناسٹوپوں پر گوتم کی زندگی واقعات کو بیان کیا جانے لگا ۔ عموماََ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات خاص کر کپل وستو کی زندگی کے واقعات کی منظرکشی کی جاتی تھی ۔ مثلاََ ایک جگہ گوتم بدھ کی کپل وستو سے اپنے خادم کے ہمراہ روانگی کا منظر ۔ دوسری جگہ گوتم بدھکا گھوڑا اکن نہکا آقا سے رخصت ہوتے وقت جھک کر ان کے قدم چوم رہا ہے اور بدھ کے تین چیلے دائیں بائیں کھڑے ہیں ۔ کشنوں کے دور میں سنگ تراشی کی جگہ مٹی اور چونے کی ابھرواں موتیاں اور نقش و نگار بنانے لگے ۔ چنانچہ گندھارا آرٹ کا سب سے حسین شاہکار گوتم بدھ کی وہ مورتی ہے جو کالواں اسٹوپا سے دریافت ہوئی تھی ، اس منظر میں گوتم اپنے منڈوا میں پالتی مارے بیٹھا ہے دو چیلے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں ۔ یہ کچی مٹی کے ہیں لیکن سر پکی مٹی کا ہے اور دھر کچی مٹی کا بنا ہوا ہے ۔ جب ہنوں ے اس اسٹوپا کو آگ لگائی تو سر پک گیا تھا ۔
سطر 47:
 
قدیم مشرق ۔ ڈاکٹر معین الدین
 
 
== نگار خانہ ==