"فرخ سہیل گوئندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
«{{Infobox writer | name = فرخ سہیل گوئندی | image =https://en.m.wikipedia.org/wiki/File:Farrukh_Sohail_Goindi.jpg | caption...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 06:03، 11 فروری 2021ء


فرخ سہیل گوئندی پاکستان کے نامور ادیب، دانش و ر اور تجزیہ کار اور ایک پولٹیکل اور سوشل ایکٹویسٹ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی
پیدائش (1960-08-23) اگست 23, 1960 (عمر 63 برس)ء
سرگودھا، پاکستان
قلمی نامفرخ سہیل گوئندی
پیشہادب، صحافت
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے (پولیٹکل سائنس )
مادر علمیپنجاب یونیورسٹی
اصنافصحافت ، تنقید ، تحقیق، ناول نگاری ، ترجمہ نگاری
نمایاں کاممیرا لہو، ذوالفقار علی بھٹو، سیاست و شہادت، 1986،

ترکی ہی ترکی، 2014

غازی مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک کی تصنیف ’’نطق‘‘ کا اردو ترجمہ

سرمائے کے آقا، عالمی بینکاروں کی دہشت گردی،2011

ابتدائی زندگی

فرخ سہیل گوئندی 23اگست 1960 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ وہ تجزیہ نگار، مصنف اور ایکٹوسٹ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹکل سائنس کیا اور پھر 2002میں امریکہ سے پیس بلڈنگ پروگرام کے تحت Conflict Resolution میں ڈگری لی۔

فرخ گوئندی بحیثیت سیاسی کارکن

فرخ سہیل گوئندی کے تعارف کے کئی پہلو ہیں، چڑھتی جوانی سے سیاسی جدوجہد، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور سیاست کے عروج پر پہنچنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت سے باقاعدہ علیحدگی تک ان کی شناخت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ وہ پاکستان کے ان دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تحریر و تقریر سے اپنے منطقی دلائل کی بنیاد پر مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

==فرخ گوئندی بحیثیت صحافی و قلم کار

فرخ سہیل گوئندی نہایت کم عمری میں لکھنے لکھانے کی جانب راغب ہوئے اور پاکستان کے قومی اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ ساتھ ہی تحقیقی کتب بھی ان کے کریڈٹ میں ہیں۔ گوئندی مختلف موضوعات پر اب تک دس کتابیں بھی تحریر کرچکے ہیں، جن میں سے چند کا شمار پاکستان کی مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔

اشاعتیں

  1. میرا لہو، ذوالفقار علی بھٹو، سیاست و شہادت، 1986،[1]
  2. پنجاب کا مسئلہ ، 1988
  3. چوتھا مارشل لا 1989
  4. "Garrison Democracy (English), 1990
  5. "Dynamics of Democracy in Developing countries (English), 1998
  6. بھٹو کا قتل کیسے ہوا، 2011[2]
  7. سرمائے کے آقا، عالمی بینکاروں کی دہشت گردی،2011[3]
  8. ترکی ہی ترکی، 2014[4]
  9. بکھرتا سماج، 2016
  10. لوگ در لوگ، 2019
  11. وارث میر، حریتِ فکر کا مجاہد[5]

تراجم

  1. غازی مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک کی تصنیف ’’نطق‘‘ کا اردو ترجمہ
  2. پیٹرک کنراس کی اتاترک کی تحریر کردہ سوانح حیات Ataturk: The Rebirth of a Nationکا اردو ترجمہ


اُن کی آئندہ شائع ہونے والی دیگر کتابوں میں سے تین ترکی کے موضوع پر ہیں، جن میں ترکی کے دو سفر نامے اور 1923ء سے تاحال جدید ترکی کی تاریخ پر ایک کتاب شامل ہے۔

فرخ گوئندی بحیثیت نظریاتی لکھاری

بحیثیت لکھاری وہ ترقی پسند نظریات کے مبلغ ہیں  اور مختلف رسائل و جرائد میں ان کے سینکڑوں کی تعداد میں مضامین، مقالے اور کالم تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان کے ایک قومی اخبار روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات، عالمی سیاست، مشرقِ وسطیٰ، قومی سیاست اور ترکی ہیں۔ وہ پاکستان میں ترکی و ترک شناسی کے حوالے سے سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان کے باہر علمی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ان کی ترکی کے بارے میں رائے کو بڑا معتبر سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے بھی ان کی ترکی کے مختلف موضوعات پر رائے کو مستند مانتے ہیں۔ جیسا کہ ترقی کے شاعر، دانشور اور سابق وزیراعظم جناب بلندایجوت کا کہنا ہے کہ ’’فرخ سہیل گوئندی، ترکی کی تاریخ، تہذیب، سیاست اور سماج پر کسی ترک دانشور سے کم گرفت نہیں رکھتے۔‘‘


فرخ گوئندی بحیثیت ایک متحرک دانشور

پاکستان میں ایک متحرک دانشور کے طور پر وہ پاکستان-ترکی تعلقات کی شناخت رکھتے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے پچھلی چار دہائیوں سے قلم اور عمل سے کوشاں ہیں۔ وہ ترک تاریخ، تہذیب، سماج اور نظام کو جاننے اور تحقیق کی خاطر پچاس سے زائد مرتبہ ترکی کا سفر کرچکے ہیں۔

پاک ترک تعلقات میں گوئندی کی قلمی خدمات

پاکستان ترکی تعلقات میں اُن کی علمی وتحقیقی نظر کو پاکستان کے سفارتی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین موجود گہرے تاریخی رشتوں کو مزید گہرا کرنے کی خاطر کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سرفہرست ترک ادب کا پاکستان کی قومی زبان اردو میں ترجمہ ہے۔

ترکی پر اُن کی رائے کو پاکستان کے عوامی، علمی، تحقیقی، سفارتی، سیاسی حلقوں اور پالیسی ساز اداروں میں حتمی رائے کے طور پر مانا جاتا ہے۔ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی اپنی اسی شناخت سے جانے جاتے ہیں اور وہاں بھی ان کے نقطہ نظر کو سند مانا جاتا ہے۔ پاکستان ترکی کے روزِاوّل سے جو گہرے تعلقات ہیں، ان میں جناب فرخ سہیل گوئندی نے اپنے عمل وقلم سے چار دہائیوں میں جو بے لوث کردار ادا کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ریاستوں اور ان میں بسنے والے عوام کو ایک دوسرے سے علم اور دانش کے رشتوں میں جوڑ دیا جائے۔ وہ پاکستان اور عالمی سیاست کے مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن ترکی کے حوالے سے وہ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی اُن کی تحریریں تسلسل سے پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ترکی کے موضوع پر اُن کی دو کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں اور پاکستان کے سیاسی، صحافتی، حکومتی اور پالیسی ساز حلقوں میں انہوں نے بے پناہ مقبولیت پائی۔ ترکی کے حوالے سے اُن کی رائے کو پاکستان کے عوامی حلقوں ، مختلف سیاسی نظریاتی حلقوں سے لے کر حکومتی اور پالیسی ساز اداروں تک سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ تحقیق کے حوالے سے ترکی اور ترکوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ کا گہرا اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ، اس حوالے سے اُن کے تحقیقی مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی ترک دوستی ان کی اشاعت کاری میں بھی جھلکتی ہے کہ انہوں نے اپنے ادارے سے ترکی کے متعدد مصنفوں کی بائیس سے زیادہ کتب شائع کرکے پاکستان میں ترک ادب کو متعارف کروانے میں ایک شاندار Contribution کی ہے ۔اس کے علاوہ ترکی سے متعلق گیارہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر اور امریکہ سے Conflict Resolution (Peace Studies) میں تعلیم حاصل کی ہے۔ 1998ء میں اقوامِ متحدہ نے انہیں اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ’’لیڈر شپ ٹریننگ پروگرام‘‘ میں منتخب کیا گیا۔ دنیا کے معروف دانشوروں اور رہنماؤں سے ذاتی دوستی کو وہ اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں جس میں ترکی کے شاعر، دانشور اور سابق وزیراعظم بلندایجوت بھی شامل ہیں۔ وہ پاکستان اور بیرونی دنیا کی مختلف علمی، فکری اور امن کی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں انہوں نے پاکستان اور ترکی جیسے دوست ممالک کو قریب لانے میں بڑے خلوص سے اپنا حصہ ڈالا ہے اور وہ اس حوالے سے قائم پاک ترک دوستی فورم (Pak-Türk Dostluğu Forum)کے روحِ رواں بھی ہیں۔


فرخ گوئندی بحیثیت اشاعت کار

تحریر و تحقیق کے علاوہ انہوں نے پاکستان کی اشاعت کاری کے حوالے سے پاکستان میں اپنا نمایاں ترین مقام حاصل کیا ہے اور اپنے پبلشنگ ادارے ’’جمہوری پبلیکیشنز‘‘ کے زیراہتمام پاکستان اور دنیا کے نامور ترین مصنفین، قائدین اور محققین کی کتب شائع کی ہیں۔[6] فرخ سہیل گوئندی نے جُمہوری پبلیکیشنز کے مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے پچھلے دس برسوں میں ترک ادب کی اسّی سے زائد کتابوں کا اردو ترجمہ شائع کرکے پاکستان ترکی تعلقات کو Intellectualسطح پر مضبوط کیا ہے۔ وہ ترک ادب سے مصنفین اور کتابوں کا انتخاب اور بطور ایڈیٹر ان کی ادارت کرتے ہیں۔جن میں ان کے ذاتی دو تراجم کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کی مکمل تاریخ پر مبنی ڈاکٹر محمد عزیر کی کتاب بھی شائع کرچکے ہیں۔

الیکٹانک میڈیا پر خدمات

فرخ سہیل گوئندی 6 سال تک (2007-2013ء) پاکستان ٹیلی ویژن میں ’’تناظر‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کے میزبان بھی رہے ہیں جس میں وہ پاکستان کے چوٹی کے رہنمائوں، دانشوروں اور محققین کا ون آن ون انٹرویو کرتے تھے۔[7]آج کل وہ NeoTv سے سوموار سے جمعرات تک ’’دستک‘‘ کے نام سے نشر ہونے والے کرنٹ افیئرز کے پروگرام کے میزبان ہیں۔

سفر و سیاحت برائے سیمینار و کانفرنسز

فرخ سہیل گوئندی دنیا کے اڑتالیس سے زائد ممالک کا سفر کرچکے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں منعقدہ مذاکروں میں شرکت کی ہے جن میں سٹیٹ آف دی ورلڈ فورم (امریکہ) سے لے کر امریکی کانگریس میں منعقدہ سیمینارز میں ان کی بحیثیت مقرر شمولیت بھی شامل ہے۔



حوالہ جات