"پریم چند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: درستی املا ← رفقا، لیے، گذرا، ہو گئی، اور؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 22:
'''منشی پریم چند''' اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام '''دھنپت رائے''' ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
 
== منشی پریم چند کا ابتدائی سوانحی خاکہ ==
 
منشی پریم چند جس کا اصل نام دحنپت رائے سریوستوا تھا 31 جولائی 1880 ء میں بنارس کے قریب گاؤں لامہا میں، جہاں ان کا والد پوسٹ آفس میں ایک کلرک تھا۔ پریم چند کے والدین نوجوان مر گئے-اس کی ماں جب وہ چودہ تھا اور اس کے والد اب بھی ایک طالب علم تھے۔ پریم چند اپنے سوتیلی ماں اور اس کے قدم بہن بھائیوں کے لئےلیے ذمہ دار چھوڑ دیا گیا تھا۔
 
زندگی کے ابتدائی دور میں پریم چند نے بہت زیادہ غربت کا سامنا کیا۔ انہوں نے ایک وکیل کے بچے کو ایک ماہ کے لیے پانچ روپے کمایا۔ وہ پندرہ سال کی ابتدائی عمر میں شادی شدہ تھی لیکن اس کی شادی ناکام ہوگئی،ہو گئی، بعد میں اس نے دوبارہ شادی کر لی، شاورانا دیوی کے لئے،لیے، ایک بالاوادہاوا (بچے بیوہ)، اور کئی بچے تھے۔ اس نے زندگی کی جدوجہد کے ذریعے ان کی حمایت کی۔
 
پریم چند نے اپنے میٹرک امتحان کو 1898 میں بڑی کوشش کے ساتھ منظور کیا اور 1899 میں نے اٹھارہ روپے کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھاسکول کی تعلیم کا کام لیا۔ 1919 میں انہوں نے اپنے B.A. کو انگریزی، فارسی اور تاریخ سے گزرا۔گذرا۔ بعد میں، پریم چند نے ڈپٹی ذیلی انسپکٹر آف اسکولوں کے طور پر کام کیا۔
 
پریم چند مالی جدوجہد کی زندگی بسر کی۔ ایک بار جب اس نے کچھ کپڑے خریدنے کے لئےلیے دو اور نصف روپے کا قرض لیا۔ اسے واپس ادا کرنے کے لئےلیے تین سال کے لئےلیے جدوجہد کرنا پڑا۔
 
جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھتا ہے، تو اس نے جواب دیا: "میرے پاس کیا عظمت ہے کہ میں کسی کو بتانا چاہتا ہوں ؟ میں اس ملک میں لاکھوں لوگوں کی طرح رہتا ہوں۔ میں عام ہوں۔ میری زندگی بھی عام ہے۔ میں نے ایک غریب اسکول کے استاد خاندان ٹراوایلس میں مبتلا ہوں۔ میری پوری زندگی کے دوران میں، میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے دکھوں سے آزاد ہو سکتی ہوں۔ لیکن میں اپنے آپ کو دکھ سے آزاد کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس زندگی کے بارے میں کیا خاص بات ہے جو کسی کو بتایا جائے ؟ "۔
 
پچھلے برسوں کے دوران میں وہ بہت ہی بیمار ہو گئے۔ پیسے اس کی بیوی کو ان کے علاج کے لئےلیے دینے کے لئےلیے استعمال کیا جاتا تھا ان کی پریس "سرسوتی" چلانے میں استعمال کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک کتاب بھی لکھ رہا تھا "مانالسترا" جو کبھی نہیں مکمل ہو جائے گا۔ یہ سب اس کی صحت پر اس کی ابتدائی موت کی قیادت پر سنگین اثر تھا 8 اکتوبر 1936, کی عمر میں 56.
 
== منشی پریم چند کی ابتدائی ادبی زندگی ==
 
آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر 1903ء کو شائع ہوا۔ 1907ء میں دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔ اس کے بعد 5 افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں آپ نے آزادی، حریت، غلامی اور بغاوت کے موضوعات کو چھیڑا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے اس کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔ پریم چند نے ان افسانوں میں ’’نواب رائے‘‘ کے قلمی نام سے لکھا۔ بعد میں پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔
 
== منشی پریم چند کا افسانہ نگار ی میں مقام ==
 
اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح آپ نے پیار، محبت، عشق، ہیرو، ہیروئن جیسے سطحی موضوعات کو اپنے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت پسندی کی طرف اپنے ذہن و قلم کا رُخ جمایا۔ آپ کے قلم سے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ آپ کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 
== منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کے ادوار ==
 
ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اپنے مضمون ’’پریم چند کی افسانہ نگاری کے دور ‘‘ میں ان کی افسانہ نگاری کے چار ادوار بتائے ہیں۔
سطر 58:
پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔ اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا۔ 19ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا۔ جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ پریم چند بھی اسی نیم سیاسی دور سے متاثر ہوئے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ اسی دور کا اظہار ہے۔
 
ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا۔ اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1957ء کے بعد سر سید اور ان کے رفقاءرفقا کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔ آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہاہے۔ پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصور فن کو تباہ کر دیتا ہے۔
 
بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
سطر 64:
بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘
 
== موضوعاتی اعتبار سے تقسیم ==
 
موضوعاتی اعتبار سے منشی پریم چند کے افسانوں کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
سطر 74:
# - ۔جب انھوں نے انسانی نفسیات کا مطالعہ طبقاتی جبر کے حوالے سے کیا۔
 
== پریم چند کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج ==
 
زندگی کے خارجی معاملات اور معاشرے کی صحیح عکاسی حقیقت نگاری کہلاتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی پہلو اور وجدانی معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رومانیت میں تخیل کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘
سطر 86:
ماضی پسندی، الم پسندی اور اضطراب و جستجو کو پریم چند کی رومانیت کے بنیادی عناصر قرار دیا جا سکتاہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح وہ آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے بلکہ سماجی رویوں کے حوالے سے پہچان کراتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی بلندی ضروری ہے مگر ان کے پاؤں اپنے سماج اور زمین سے اوپر نہیں اٹھتے۔ آپ اپنا ایک نظریہ حیات رکھتے ہیں۔ وہ ماضی کے تسلسل میں حال کی پہچان کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں انقلاب اوررومان کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی بنیاد مثالیت، انسان دوستی اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں پر بھی ہے۔
 
== پریم چند کے کردار ==
 
پریم چند کے کردار اکثر معاشرے کے ستائے ہوئے عام لوگ ہیں۔ انھوں نے ان ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوم لوگوں خصوصاً دیہاتوں میں جاگیرداروں اور مہاجنوں کے ظلم کے مارے ہوئے لوگوں کو زبان دی۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا اور ایک نئی دنیا تعمیر کی اور طبقات سے آزاد معاشرے کا وجود ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ مثالیت اور حقیقت کے امتزاج سے اپنی افسانوی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔
سطر 92:
بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔
 
== پریم چند کااسلوب ==
 
آپ نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی۔ آپ نے سنسکرت کے الفاظ کا کم استعمال کیا۔ آپ نے اکثر کرداروں کے مکالمے ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کے مطابق لکھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے مکالمے ان کے لہجے اور تلفظ میں تخلیق کیے۔ جو آپ کے زبردست مشاہدے کا غماز ہے۔ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔ اُس وقت جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔
سطر 98:
==پریم چند کے منتخب افسانوں پر تبصرہ===
 
=== کفن ===
 
کفن افسانہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں<ref>{{Cite web|url=https://sirfurdu.com/archives/9479/|title=کفن افسانہ|date=https://sirfurdu.com/archives/9479/|accessdate=https://sirfurdu.com/archives/9479/|website=|publisher=|last=بھٹی|first=مدثر}}</ref>
سطر 116:
بنیادی طور پر کفن کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے حصے میں کرداروں کا تعارف، دوسرا حصہ بہو کی موت اور اثرات، تیسرا حصہ
 
==== غربت و افلا س کے میں پیدا ہونے والی بے حسی کا اظہار ====
 
پریم چند نے اردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکرکو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زادیوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جن کی نظر حیات انسانیت کے انبوہ میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔
سطر 122:
نوٹ: پریم چند کے دو افسانے ’’کفن اور سبحان بھگت‘‘ پریم چند خود یکجا نہ کر سکے جو بعد میں جعلی ایڈیشن کے ناموں سے شائع ہوئے۔
 
=== حج اکبر ===
 
بڑھیا ان کے یہاں تین سال سے نوکر تھی۔ اس نے ان کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اسے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کھچڑ نکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔ مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایا ہم کو لوٹے لیتی ہے۔ جب دایا بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیز میں چھپی رہتی کہ دیکھوں اٹا چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی چیز کو گھنٹوں دیکھتی، پچھتاتی، بار بار پوچھتی اتنا ہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اتنا مہنگا ہو گیا؟ دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی۔ لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں، تو ہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔ قسمیں کھاتی، صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ تردید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اور روز یہ ڈراما دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ دایہ کا اتنی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آب ریزی کرتا تھا۔ اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبہ کا اہل نہیں سمجھتی تھی۔[https://www.rekhta.org/stories/haj-e-akbar-premchand-stories?lang=ur]
سطر 128:
 
 
== خط زمانی ==
1880ء : پیدائش، اصل نام دھنپت رائے، چچا نے نام رکھا
 
سطر 145:
1902ء : پہلا ناول اسرارِ مابعد۔
 
1904ء : دوسرا ناول کشانا، جونیئر انگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا،
 
ہیڈ ماسٹر بنے۔
سطر 173:
1936ء : اکتوبر میں انتقال۔<ref>'''[https://www.rekhta.org/stories/haj-e-akbar-premchand-stories?lang=ur پریم چند سنین کے آئینہ میں]'''</ref>
 
== افسانوں کے مجموعے ==
 
( 1 )سوزِوطن(1908ء)، (2)پریم دلچسپی اول (1915ء)، (3)پریم دلچسپی دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1920ء)، (6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)، (8)پریم چالیسی(1930ء)، (9) آخر تحفہ(1934ء)، (10) زادِ راہ(1936ء )، <ref>{{Cite web|url=https://sirfurdu.com/archives/9625|title=منشی پریم چند فن اور شخصیت|date=https://sirfurdu.com/archives/9625|accessdate=https://sirfurdu.com/archives/9625|website=منشی پریم چند فن اور شخصیت|publisher=https://sirfurdu.com/archives/9625|last=Bhatti|first=Mudassir}}</ref>
سطر 350:
{{اردو افسانہ نگار|state=expanded}}{{Authority control}}
 
[[زمرہ:پریم چند| ]]
[[زمرہ:1880ء کی پیدائشیں]]
[[زمرہ:1936ء کی وفیات]]