"صارف:Syedalinaqinaqvi/ریتخانہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1:
== قیام امام حسین میں صحابہ و تابعین کا کردار ==
'''قیام امام حسین''' میں [[صحابہ کی فہرست|صحابہ کرام]] اور [[تابعین کی فہرست|تابعین]] کا بہت ہی زیادہ کردار رہا ہے۔ جو تین طرح کا تھا۔
 
* موافق
* معتدل
* مخالف
== قیام امام حسین ==
امام حسین علیہ السلام کا قیام اسلام کی نجات، توحید کی سربلندی اورانسانیت کی آزادی کاپیغام لایا تھا لیکن افسوس کہ اس قیام سے پوری امت اسلامیہ نے وہ فائدہ حاصل نہ کیا جس کے امام حسین علیہ السلام خواہشمند تھے۔اس کی ایک وجہ دشمن کی جانب سے اس مقدس قیام کے خلاف مذموم الزام تراشیاں ہیں جن کے ذریعے مقاصدواہداف امام حسینؑ کوغلط رنگ دے کرسادہ لوح مسلمانوں کواس نورالٰہی سے دوررکھنے کی ناجائزکوشش کی گئی۔بنی امیہ کے حامیوں اورظالم حکومتوں کے آلۂ کار افراد نے قیام حسینؑ پرغیرآئینی اقدام کاالزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کی نوعیت خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت اورلشکرکشی کی ہے چنانچہ [[شوکانی]] کہتے ہیں:کچھ علماء حد سے گذرگئے اوروہ فرزند رسولؐ حضرت امام حسینؑ کے اقدام کوشرابی، نشے باز اورحرمت شریعت مطہرہ کی ہتک کرنے والے یزید بن معاویہ(ان پرخدا کی لعنت ہو) کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں!!''<ref>نیل الاوطار، ج7، ص127 از ثورۃ العین ص32۔</ref>
 
اس الزام کاایک جواب یہ ہے کہ یہ بات سلف صالح کی روش کے متضاد ہے چنانچہ تاریخ شاہدہے کہ ا س وقت کے علماء، صحابہ، تابعین اورسیاست دان سب اس بات پرمتفق تھے کہ حضرت امام حسین ؑ حق پرہیں انھوں نے یزید کے اس غیرانسانی اقدام کی مذمت کی اورکسی نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقدام کوخلیفہ المسلمین کے خلاف بغاوت نہیں سمجھا چنانچہ مولانا مودودی لکھتے ہیں:اگرچہ ان(حسین ؑ) کی زندگی میں اوران کے بعد بھی صحابہ وتابعین میں سے کسی ایک شخص کابھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ آپؑ کاخروج ناجائز تھااوروہ ایک فعل حرام کاارتکاب کرنے جارہے تھے۔<ref>خلافت وملوکیت، ص 179۔</ref>
 
== صحابی اور تابعی کی تعریف ==
'''صحابی'''
 
البتہ '' صحابی'' کی تعریف میں اختلاف نظر ہے ایک رائے یہ ہے کہ صحابی رسول کے مفہوم میں وسعت ہے چنانچہ اس نظریہ کے حامی افراد میں ہم صرف ابن حجرعسقلانی کی عبارت کونقل کرتے ہیں:
 
''واصحُّ ما وقفت علیہ من ذالک انّ الصحابی من لقی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومناً بہ ومات علی الاسلام، فیدخل فی من لقیہ من طالت مجالستہ اوقصرت، ومن رویٰ عنہ اولم یرْو، ومن غزا معہ اولم یغر ومن رأہُ رویۃً ولو لم یجالسہ ومن لم یرٰہ لعارضٍ کالعمی۔۔۔''
 
صحیح ترین تعریف یہ ہے کہ حالت ایمان میں پیغمبر ؐ کی زیارت کرنے والے اوراسلام کی حالت پرفوت ہونے والے کوصحابی کہتے ہیں اس تعریف کے مطابق ہروہ شخص صحابی ہوگا جوطولانی مدت یاکم مدت پیغمبرؐ کی صحبت میں رہا، جنگ میں شریک ہوا یانہ، باقاعدہ زیارت کی یاکسی مجبوری (جیسے نابینا ہونے)کی وجہ سے زیارت سے محروم رہا۔
 
اسی تعریف کے مطابق شہداء کربلا صحابہ میں بعض ایسے افراد کوبھی ذکرکیاگیا ہے جو''صحابہ ادراکی'' ہیں یعنی زیادہ مدت پیغمبرؐ کی خدمت میں موجود نہ تھے گرچہ بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جورسول اللہؐ کے ساتھ غزوات میں شریک ہونے کے باوجود شہادت سے محروم رہے پھر 61 ھ میں نواسۂ رسولؐ کا ساتھ دے کرشہادت کی آرزو تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
 
'''تابعی'''
 
یہ اصطلاح [[محمد بن عبد اللہ|رسول اکرمؐ]] کی کلام مبارک سے ماخوذ ہے جہاں پر آپؐ [[اویس قرنی|اویس قَرَنی]] کے بارے میں فرماتے ہیں: {{حدیث1|"اِنَّ خیرَ التابعینَ رَجلٌ یقالُ لَهُ اویس|ترجمہ=بہترین تابعی اویس نامی مرد ہے}}؛<ref>مسلم بن حجاج، ج2، ص1968</ref> اس کے بعد بتدریج تابعین ان تمام افراد کو کہا جانے لگا جنہوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھے بغیر شرعی احکام اور مسائل آپ کے اصحاب سے اخذ کیے ہیں۔
 
== موافق صحابہ و تابعین ==
 
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ وتابعین کا مخالفت کرنا توکجا کثیرتعداد میں صحابہ کرام اورتابعین نے قیام حسینؑ کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں بعض مادہ پرست لوگوں نے اس واقعہ کودوخاندانوں کی جنگ قرار دینے کی مذموم کوشش کی اوربعض افراد نے امام حسینؑ کے مقصد کو''حکومت طلبی'' سے تعبیر کیاان اعتراضات کے جواب مدلل انداز میں مفصل کتب میں پیش کئے گئے ہیں اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ ان پاکیزہ اذہان جنہیں ''حقائق'' کی تلاش رہتی ہے پرایک خاص زاویہ سے قیام امام حسینؑ کے مقدس ہونے اور یزید کی اسلام دشمنی کوواضح کیاجائے۔
 
امام حسین علیہ السلام ایک فرد نہیں تھے جنہوں نے یزید بن معاویہ کی باطل حکومت کے خلاف قیام کیا بلکہ آپؑ اس مقدس تحریک کے عظیم راہبر تھے جواس وقت کی باطل، اسلام دشمنی اورناجائز حکومت کے خلاف وجود میں آئی امام حسینؑ کوپیغمبر اسلام {{درود}} نے ''ہدایت کاچراغ'' قرار دیا تھا: ( ''انّ الحسینؑ مصباح الھدی وسفینۃ النجاۃ '') اس وقت جب امت گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوب رہی تھی امام حسینؑ ہادی وراہنما بن کرایسی تحریک کاآغاز کرتے ہیں جس کا ہراسلام خواہ، غیرت منداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت ومحبت رکھنے والے شخص نے ساتھ دیا۔
 
ہاں البتہ اس تحریک کی حمایت کرنے والوں کی نوعیت مختلف تھی بعض نے زبانی کلامی حمایت کی اوربعض افراد جن میں اصحاب رسولؐ کی ایک خاص تعداد تھی نے اپنی جان کی بازی لگا کراس انقلاب کوپائیدار کرنے میں مدد کی۔
 
=== ساتھی صحابہ ===
 
صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے قربانیاں پیش کی ہیں بعض اصحاب کربلا میں پہنچ کرعلی الاعلان یزید کے باطل نظریات کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے بعض کربلا سے قبل کوفہ یادیگر مقامات پرامام حسین علیہ السلام کی حمایت کے جرم میں یزیدی کارندوں کے ہاتھوں شہید کردیئے گئے نیز بعض اصحاب جوکچھ وجوہات کی بناپرواقعہ کربلا میں شریک نہ ہوسکے تھے نےامام حسینؑ کی شہادت کے بعد یزیدکے مظالم کے خلاف اورامام حسینؑ کی حمایت میں قیام کیا اورجانیں قربان کرکے ثابت کیا کہ اس راہ میں موت شہادت وسعادت کی موت ہے۔
 
'''شہدائے کربلا و کوفہ'''
 
{{ستون آ|4}}
 
# [[میثم تمار]]
# [[مسلم بن کثیر ازدی]] یا (اسلم بن کثیر)
# [[انس بن حارث کاہلی]]
# [[بکر بن حی تیمی]]
# [[جابر بن عروہ| جابر بن عروہ غفاری]]
# [[جنادہ بن کعب انصاری]]
# [[جندب بن حجیر خولانی]] کوفی
# [[حارث بن نبہان]]
# [[حبیب بن مظاہر اسدی]]
# [[زاہر بن عمرو کندی]] اسلمی
# [[زیاد بن عریب صادی]] ابوعمرو
# [[سعد بن حارث خزاعی|سعد بن حارث مولی امیرالمؤمنینؑ]]
# [[شبیب بن عبد اللہ نہشلی]] مولیٰ الحرث
# [[شوذب|شوذب بن عبداللہ الہمدانی الشاکری]]
# [[عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی]]
# [[عبد الرحمان بن عبد رب انصاری|عبدالرحمٰن بن عبدربہ الخزرجی]]
# [[عبد اللہ بن ابو سفیان| عبداللہ بن حارث بن عبد المطلب]]
# [[عبد اللہ بن یقطر]]
# [[عقبہ بن صلت جہنی]]
# [[عمار بن ابی سلامہ ہمدانی]]
# [[عمرو بن ضبیعہ ضعبی]]
# [[عون بن جعفر]] طیار
# [[کنانہ بن عتیق تغلبی]]
# [[مجمع بن زیاد جہنی]]
# [[محمد اصغر بن جعفر بن ابی طالب]]
# [[مسلم بن عوسجہ اسدی]]
# [[نعیم بن عجلان انصاری]]
# [[حارث بن نبہان]]
 
{{ستون خ|}}
'''قیام کے دیگر حامی و ناصر صحابہ'''
{{ستون آ|4}}
# [[عبد اللہ بن جعفر]]
# [[جابر بن عبد اللہ|جابر بن عبد اللہ انصاری]]
# [[ابو برزہ اسلمی]]
# [[سہل بن سعد|سہل بن سعد ساعدی]]
# [[عامر بن واثلہ]]
{{ستون خ|}}
==== اسلم بن کثیر الازدی(یامسلم بن کثیر) ====
[[اسلم بن کثیر]] صحابی تھے [[زیارت ناحیہ]] میں ان کانام ''اسلم'' ذکرہوا ہے جبکہ کتب رجال میں بجائے''اسلم'' کے '' [[مسلم بن کثیر ازدی|مسلم بن کثیر الازدی الاعرج]]'' بیان ہوا ہے زیارت ناحیہ کے جملات یوں ہیں:''السلام علیٰ اسلم بن کثیر الازدی الاعرج۔۔۔'' <ref>اقبال الاعمال، ج 3، ص 79</ref> مرحوم زنجانی نقل کرتے ہیں کہ یہ صحابی رسولؐ تھے <ref>وسیلۃ الدارین، ص106</ref>۔مرحوم شیخ طوسیؒ اورمامقانی اپنی کتب رجال میں نقل کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں تیرلگنے سے پاؤں زخمی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے''اعرج'' (ایک پاؤں سے اپاہج) ہوگئے انھوں نے صحبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودرک کیاتھا۔
 
عسقلانی لکھتے ہیں:'' مسلم بن کثیر بن قلیب الصدفی الازدی الاعرج۔۔۔الکوفی لہ ادراک للنبیؐ '' مزید اضافہ کرتے ہیں فتح مصر میں بھی یہ صحابی رسولؐ حاضرتھے طبری اورابن شہرآشوب نے ان کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کربلا میں حملۂ اولیٰ میں شہید ہوئے۔ <ref>فرسان الہیجاء، ذبیح اللہ محلاتی، ص36</ref>
 
مسلم بن کثیر'' ازد'' قبیلہ کے فرد تھے جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت کی توان دنوں یہ صحابی رسولؐ کوفہ میں قیام پزیر تھے یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کوکوفہ میں آنے کی دعوت دینے والوں میں یہ شامل ہیں پھرحضرت مسلم بن عقیل ؑ جب کوفہ میں سفیرحسینؑ بن کرپہنچے توانھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کی لیکن حضرت مسلمؑ کی شہادت کے بعد کوفہ کوترک کیااورکربلا کے نزدیک حضرت امام حسین علیہ السلام سے جاملے اورپہلے حملہ میں جان بحق نوش کیا۔ <ref>شہدائے کربلا، گروہ مصنفین، ص358</ref>
 
حضرت رسول اکرمؐ نے اپنے اس صحابی کے متعلق جوایک جنگ میں ''اعرج''ہونے کے باوجود شریک ہوئے اوراپنی جان کی قربانی پیش کی فرمایا:''والذی نفسی بیدہ لقد رأیت عمروبن الجموح یطأُ فی الجنہ بعرجتہ۔۔۔'' یعنی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبض ۂ قدرت میں میری جان ہے دیکھ رہا ہوں عمرو بن الجموح کو کہ لنگڑا ہوکربھی جنت میں ٹہل رہا ہے اس بنا پرحضرت مسلم بن کثیر کابھی وہی مقام ہے کہ اگرچہ قرآن فرماتا ہے:(لیس علی الاعمی خرج ولا علی الاعرج حرج) <ref>سورۂ فتح، آیت 17</ref>۔یعنی جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اندھے پرکوئی حرج نہیں اورنہ ہی لنگڑے پرکوئی مؤاخذہ ہے لیکن اس فداکاراسلام نے نواسہ رسولؐ کی حمایت میں اپنی اس اپاہج حالت کے باوجود جان قربان کرکے ثابت کیا کہ اسلام کے تحفظ کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے یہی وجہ ہے''صاحب تنقیح المقال '' کے یہ جملے ہیں:''شہیدالطف غنی عن التوثیق'' فرماتے ہیں چونکہ کربلا کے شہداء میں شامل لہذا وثاقت کی بحث سے بے نیاز ہیں۔
 
==== انس بن حارث ====
 
[[انس بن حارث کاہلی]] حضرت پیغمبر ؐ کے صحابی تھے جنگ بدروحنین میں شرکت بھی کی۔ <ref>تنقیح المقال، مامقانی، ج1، ص154</ref>
مرحوم مامقانی فرماتے ہیں:''(انس) بن حارث صحابی نال بالطف الشہادۃ ''<ref>مقتل الحسین، مقرم، ج2ص253</ref>
(صحابی رسولؐ تھے اورکربلا میں شہادت کے مقام پرفائز ہوئے)ابن عبدالبراپنی کتاب الاستیعاب میں یوں رقمطراز ہیں ''انس بن حارث رویٰ عنہ والد اشعث بن سلیم عن النبیؐ فی قتل الحسین وقتل مع الحسین رضی اللہ عنہما''<ref>الاستعیاب، ابن عبدالبر، ج1، ص112</ref>
 
''انس بن حارث کے واسطہ سے اشعث بن سلیم کے والد نے نبی اکرمؐ سے امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ یہ (انس بن حارث) حضرت حسینؑ کے ہمراہ شہیدہوئے۔''
 
الاستیعاب نے جس روایت کاذکر کیا ہے وہ یوں ہے کہ حضرت انس بن حارث نے رسول خدا(ص) سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا:''میرابیٹا(حسین) کربلا کی سرزمین پرقتل کیاجائے گا جوشخص اس وقت زندہ ہواس کے لئے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مددونصرت کوپہنچے۔'' روای کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبرؐ کے اس فرمان پرلبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اورامام حسینؑ کے قدموں پراپنی جان نچھاور کردی۔<ref>یہ مطلب درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے:اسد الغابہ، ابن اثیر، ج1، ص122۔تاریخ الکبیر، بخاری، ج2، ص30۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر العسقلانی، ج1، ص270</ref>۔
 
اس حدیث نبوی ؐ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کردیا جائے:''سعد(سعید) بن عبدالملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول: سمعت رسول اللہؐ یقول:ان ابنی ہذا(یعنی الحسین) یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شہد منکم فلینصرہ۔''
 
قال(العسقلانی): ''فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔''
 
صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :''وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبیؐ وسمع حدیثہ وذکرہ عبدالرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفۃ۔۔۔''<ref>فرسان الہیجاء، محلاتی، ص37</ref>
 
''ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن الحرث ان عظیم اصحاب رسولؐ میں سے تھے جنہیں حضرت پیغمبرؐ کی زیارت نصیب ہوئی انہوں نے آپؐ سے حدیث بھی سنی تھی عبدالرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے۔''
 
بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پرامام حسینؑ اورعبیداللہ بن حرجعفی کے درمیان میں ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسینؑ کی خدمت حاضرہوئے اورقسم کھانے کے بعد عرض کی ''کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کاساتھ نہ دوں گا (نہ امامؑ کانہ دشمن کا) یعنی جنگ سے اجتناب کرونگا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپؑ کی مدد ونصرت کرنے کومیرے دل میں ڈال دیا اورمجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپؑ کاساتھ دوں۔''حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں ہدایت اورسلامتی ایمان کی نوید سنائی اورانہیں اپنے ساتھ لے لیا۔<ref>انساب الاشراف، بلاذری، ج3، ص175 (دارالتعارف)</ref>
 
یہ صحابی رسولؐ نواسۂ رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود ہیں حضرت امام حسینؑ نے اپنے اس وفادار ساتھی کویہ ذمہ داری سونپی کہ عمربن سعد کوحضرت ؑ کاپیغام پہنچائے اوراس ملعون کونصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے اورقتل حسینؑ سے باز رہے جب حضرت انس، عمربن سعد کے پاس پہنچے تواس کوسلام نہ کیا عمربن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیاتومجھے کافراورمنکر خدا سمجھتا ہے؟حضرت انس نے فرمایا:''توکیسے منکر خداورسولؐ نہ ہوجبکہ توفرزندرسولؐ کے خون بہانے کاعزم کرچکا ہے!''یہ جملہ سن کرعمربن سعد سرنیچے کرلیتا ہے اورپھرکہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ(گروہ حسینؑ ) کاقاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔<ref>فرسان الہیجاء، ص37</ref>
 
ابتدائے ملاقات سے حضرت انس تکلیف دہ حالات اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین علیہ السلام کی طرح حضرت امام ؑ سے اجازت طلب کرکے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھا گوایمان جوان تھا نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ سن پیری(بڑھاپے) کی وجہ سے خمیدہ (جھکی ہوئی)کمر کوشال(رومال) سے باندھ کرسیدھا کرتے ہیں، سفیدابرو، آنکھوں پرپڑرہے تھے، رومال پیشانی پرباندھ کراپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں۔حضرت امام حسینؑ نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کودیکھا توحضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورفرمایا:''خدا تجھ سے یہ قربانی قبول کرے اے پیرمرد۔''<ref>حیاۃ الامام الحسینؑ، ج3، ص234</ref>
 
ہرمجاہد جنگ کرتے وقت رجز(مجاہدانہ اشعار)پڑھا کرتا تھا جورجز حضرت انس نے پڑھا ہے نہایت پرمعنی تھا پہلے اپنا تعارف کرایا پھرکہا:
 
''واستقلبوا لقوم بغرٍالآن آل علی شیعۃ الرحمٰن، وآل حرب شیعۃ الشیطان'' <ref>الفتوح، ج5، ص196</ref>
 
کاہل ودان نسب جانتے ہیں کہ میراقبیلہ دشمن کو نابود کرنے والا ہے اے میری قوم شیرغراں کی طرح دشمن کے مقابلے میں جنگ کرو کیونکہ آل علیؑ رحمان کے پیروکارجبکہ آل حرب(بنوسفیان)شیطان کے پیروکار ہیں۔بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی 12 یا18 دشمنوں کوقتل کرنے کے بعد جان بحق نوش کیا زیارت ناحیہ کے جملات یہ ہیں:''السلام علی ٰ انس بن الکاہل الاسدی''<ref>الاقبال، ج3، ص344</ref>
 
==== بکربن حی تیمی ====
 
علامہ سماوی نے اپنی کتاب ابصارالعین میں حدایق الوردیہ سے نقل کیا ہے کہ ''[[بکر بن حی تیمی]]'' کوفہ سے عمربن سعد کے لشکر میں شامل ہوکرکربلا پہنچے لیکن جب جنگ شروع ہونے لگی توحضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکرعمربن سعد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پہلے حملے میں شہیدہوگئے منتہی الآمال میں ان کاذکر ان شہداء میں موجود ہے جوحملہ اولیٰ میں شہیدہوئے۔<ref>منتہی الآمال، ج1، ص</ref>
تنقیح المقال نے ''بکربن حی'' کوشہدائے کربلا میں شمار کیاہے عبارت یوں ہے:''بکربن حی من شھدالطف بحکم الوثاقۃ'' ابن حجر عسقلانی نے'' بکربن حی'' کے ترجمہ میں لکھا ہے:''بکربن حی بن علی تمیم بن ثعلبہ بن شھاب بن لام الطائی۔۔۔۔۔۔لہ ادراک ولولدہ مسعود ذکربالکوفہ فی زمان الحجاج وکان فارساً شجاعاً۔۔۔۔۔۔''<ref>الاصابہ، ج1، ص349</ref>
 
(بکربن حی۔۔۔نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کودرک کیا اوران کے بیٹے مسعود کے بارے میں ملتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں کوفہ میں مقیم تھا۔)
 
''الاصابہ''میں'' بکربن حی'' کے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی ملتی ہے گوبیان نہیں کیا کہ یہ صحابی کربلا میں شہید ہوئے یانہ؟لیکن دیگر منابع رجال ومقاتل میں انھیں شہدائے کربلا میں شمار کیاگیاہے۔
 
==== جابر بن عروہ غفاری ====
 
کتاب ''شہدائے کربلا'' میں بیان ہوا ہے کہ متاخرین کے نزدیک [[جابر بن عروہ|جابر بن عروہ غفاری]] صحابی رسول خداؐ تھے جوکربلا میں شہید ہوئے جنگ بدر اوردیگر غزوات میں رسول اکرمؐ کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے ابرؤوں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا:اے بزرگ!خداتجھے اجردے۔<ref>الاصابہ، ج1، ص118</ref>
 
ذبیح اللہ محلاتی نے مقتل خوارزمی سے درج ذیل عبارت نقل کی ہے:''ثم یرز جابر بن عروۃ الغفاری وکان شیخاً کبیراً وقد شہد مع رسول اللہ بدراً او حنیناً وجعل یشد وسطہ بعمامعتہ ثم شدحاجبیہ بعصابتہ حتی رفعہما عن عینیہ والحسین ؑ ینظر الیہ وہویقول شکراللہ سعیک یاشیخ فحمل فلم یزل یقاتل حتی قتل ستین رجلاً ثم استثہد رضی اللہ عنہ''۔<ref>فرسان الہیجاء، ص54</ref>
 
بعض کتب جیسے تنقیح المقال، مقتل ابی مخنف اوروسیلۃ الدارین میں صحابی رسولؐ اورشہیدکربلا کے عنوان سے بیان ہوا ہے البتہ دیگر معتبر منابع میں ان کاذکر موجود نہیں اس وجہ سے بعض محققین ان کے بارے میں مردد ہیں۔''تنقیح ''کے جملات یہ ہیں ''جابر بن عمیر الانصاری، صحابی مجہول ''۔<ref>تنقیح المقال، ج1، ص198</ref>
جبکہ وسیلۃ الدارین کی عبارت کے مطابق یہ صحابی رسول تھے اور جنگ بدر کے علاوہ دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے۔
 
''انّ جابر بن عروہ کان اصحاب رسول اللہؐ یوم بدر وغیرھا۔۔۔''۔<ref>وسیلۃ الدارین، زنجانی، ص112</ref>
جب دشمن کے مقابلہ میں آئے تویہ رجز پڑھا:
 
قد علمت حقاً بنوغفار وخندف ثم بنو نزار
 
ینصرنا لاحمدمختار یاقوم حاموا عن بنی الاطہار
 
الطیبین السادۃ الاخیار صلی علیہم خالق الابرار
 
''یہ بنوغفار وخندف نزا ر قبائل جانتے ہیں کہ ہم یاور محمدمصطفٰی ؐ ہیں اے لوگو آل اطہارؑ جوسیدوسردار ہیں ان کی حمایت کرو کیونکہ خالق ابرار نے بھی ان پردرودوسلام بھیجا ہے۔''
 
ان الفاظ کے ساتھ دشمن پرآخری حجت تمام کرتے ہوئے چندافراد کوواصل جہنم کرنے کے بعد جان بحق نوش کیا۔<ref>مقتل الحسینؑ، ابی مخنف، ص115، 116</ref>
 
==== جنادۃ بن کعب الانصاری ====
 
[[جنادہ بن کعب انصاری]] وہ صحابی رسولؐ ہیں جوحضرت امام حسینؑ کی نصرت کے لئے کربلا میں اپنی صحابیہ زوجہ اورکم سن فرزند کے ساتھ شریک ہوئے خود کواپنے بیٹے سمیت نواسۂ رسولؐ کے قدموں پرقربان کردیا علامہ رسولی محلاتی نقل کرتے ہیں جنادہ صحابی رسول خداؐ اورحضرت علی علیہ السلام کے مخلص شیعہ تھے جنگ صفین میں حضرت علی ؑ کے ساتھ شریک ہوئے۔<ref>زندگانی امام حسینؑ، رسول محلاتی، ص252</ref>
اورکوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کے لئے بیعت لینے والوں میں شامل تھے حالات خراب ہونے کی وجہ سے کوفہ کوترک کیااورامام حسینؑ سے جاملے۔
 
تنقیح المقال نے جنادہ کے ترجمہ کواس طرح بیان کیا ہے: ''جنادۃ بن (کعب) بن الحرث السلمانی الازدی الانصاری الخزرجی من شہداء الطف۔۔۔و قد ذکر اہل السیرانہ کان من اصحاب رسول اللہؐ۔۔۔''۔<ref>تنقیح المقال، مامقانی، ج1، ص234(تین مجلد)</ref>
 
صاحب کتاب فرسان نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے:ابن مسعود روایت کرتے ہیں'' حضرت پیغمبر اکرمؐ نے جنادۃ بن الحارث کوایک مکتوب میں بیان فرمایا کہ یہ مکتوب محمدرسول اللہؐ کی جانب سے جنادہ اوراس کی قوم نیز ہراس شخص کے لئے ہے جوا س کی پیروی کرے گا کہ نماز قائم کریں اورزکوۃٰ ادا کریں اورخداورسول ؐ کی اطاعت کریں جواس حکم پرعمل کرے گا خداورسولؐ کی حفظ وامان میں رہے گا۔''۔<ref>فرسان الہیجاء، ص76</ref>
اس فداکارصحابی رسولؐ نے اپنے راہبر کے حکم پرعمل کرکے نہ فقط مال کی زکوۃٰ ادا کی بلکہ اپنی جان اوراولاد کی زکوۃٰ بھی دیتے ہوئے دنیاوآخرت کی سعادت حاصل کرلی حضرت جنادہ کی زوجہ ''مسعود خزرجی'' کی بیٹی اوربڑی شجاع وفداکار خاتون تھی جب جنادہ شہیدہوچکے تواس مجاہدہ عورت نے اپنے خوردسال بیٹے عمروبن جنادہ کو(جوگیارہ یانوسال <ref>تنقیح المقال، ج2، ص327</ref>
کی عمرمیں تھا)کوحکم دیا کہ جاؤ جہاد کرو یہ باادب بچہ ماں کی اجازت کے باوجود اپنے مولاوآقا حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں آیا اوربڑے احترام سے عرض کی مجھے جہاد کی اجازت عطافرمائیں۔حضرت ؑ نے اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ شاید تیری ماں راضی نہ ہو (کیونکہ تیرا سن چھوٹاہے اورتیری ماں بوڑھی ہے) یہ جملات سننے تھے کہ اس ننھے مجاہد نے عرض کی کہ''انّ امّی قدامرتنی''(میری ماں تومجھے اجازت دے چکی ہیں)میری ماں نے نہ فقط اجازت دی ہے بلکہ مجھے لباس جنگ اس نے خود پہنایا ہے اورحکم دیا ہے آپؑ پرجان قربان کردوں امام حسینؑ نے جب اس کاجذبۂ جہاد دیکھا تواجازت دی میدان جنگ میں آکر صحابی رسولؐ کے اس کمسن فرزند نے اپناتعارف بڑے نرالے انداز میں کرایاخلاف معمول اپنانام یاوالد اورقبیلہ کاذکر نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس کمسن بچے کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ یہ کس کافرزند ہے بعض کتب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ ''خرج شباب قتل ابوہ فی المعرکہ''۔<ref>حماسہ حسینی، استاد شہید مطہری ؒ ج2، ص327</ref>
دشمن کوللکار کرکہتا ہے:
 
امیری حسینٌ ونعم الامیر سرور فواد البشیرالنذیر
 
علیٌ وفاطمہ والداہ فھل تعلمون لہ من نظیر
 
لہ طلعۃ مثل شمس الضحیٰ لہ غُرّہ مثل بدرالمنیر <ref>شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص282</ref>
 
''میرے آقا وسردار اوربہترین سردار حسینؑ ہیں بشیرالنذیر(پیغمبراکرمؐ)کے دل کاچین ہیں علی ؑ وفاطمہؑ جس کے والدین ہوں کیا اس کی مثال(دنیا میں) کہیں مل سکتی ہے؟چمکتے سورج کی مانند نورافشانی کرنے والا اورچودھویں کے چاند کی مانند (تاریکیوں میں) روشنی دینے والا راہنماامام ہیں۔''
 
میدان جنگ میں شہید ہوجانے کے بعد دشمن نے سرجدا کرکے ماں کی طرف پھینکا ماں نے سراٹھا کرکہا:''مرحبا'اے نورعین''اورپھر دشمن کودے مارااورعمودخیمہ اٹھا کردشمن کی فوج پرحملہ کرناچاہا لیکن حضرت امام حسینؑ نے واپس بلالیااوراس باوفا خاتون کے حق میں دعافرمائی۔حضرت جنادہ کانام بعض منابع میں ''جابر''<ref>تاریخ طبری، ج 5، ص226</ref>۔یا''جبار''یا''جیاد'' درج ہوا ہے ان کے والد کے نام کوبھی بعض نے ''حارث'' <ref>تاریخ طبری، ج 5، ص226</ref> اوربعض نے ''حرث'' <ref>انساب الاشراف، البلاذری، ج3، ص198</ref> ذکرکیا جبکہ قاموس <ref>قاموس الرجال، ج2، ص724</ref> میں ''جنادہ'' کے نام سے موجود ہے ان کے قبیلہ کانام''سلمانی'' <ref>الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، ج4، 74</ref> یا''سلمانی ازدی''<ref>تنقیح المقال، ج1، ص234</ref>بیان ہوا ہے یہ صحابی رسولؐ ''عذیب الہجانات''کے مقام پرامام حسینؑ کے حضورشرفیاب ہوئے اسی دوران''حر''امام حسینؑ کاراستہ روک کرانہیں گرفتار کرناچاہتا تھا جبکہ امامؑ کی شدیدمخالفت کی وجہ سے اس کام سے باز رہا امام علیہ السلام ان تازہ شامل ہونے والے افراد (جیسے جنادہ بن حارث)کے ذریعے کوفہ کے حالات سے مطلع ہوئے اس وقت سے لے کر روزعاشور تک ساتھ رہے صبح عاشور جنادہ بعض دیگر افراد کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لے کردشمن کے لشکر پرحملہ آور ہوئے دشمن کے نرغہ میں جانے کی وجہ سے تمام افراد ایک مقام پردرجۂ شہادت پرفائز ہوئے۔<ref>شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص115</ref> زیارت رجبیہ وناحیہ میں ان پر''سلام ' ' ذکرہوا ہے۔
 
==== جندب بن حجیر الخولانی الکوفی ====
 
''[[جندب بن حجیر خولانی|جندب بن حجیر کندی خولانی]] ''یا ''جندب بن حجر''(42)اقبال الاعمال، ج3، ص78۔(42) پیغمبر اکرم ؐ کے عظیم صحابی اوراہل کوفہ میں سے تھے یہ ان افراد میں سے ہیں جنھیں حضرت عثمان نے کوفہ سے شام بھیجا تھا جنگ صفین میں بھی شرکت کی اورحضرت علی علیہ السلام کی طرف سے قبیلہ'' کندہ اورازد'' کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے اورواقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے ہمرکاب جنگ کرتے ہوئے شہیدہوئے۔<ref>شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص136</ref>
 
صاحب وسیلۃ الدارین لکھتے ہیں:''قال ابن عساکر فی تاریخہ ھوجندب بن حجیر بن جندب بن زھیر بن الحارث بن کثیر بن جثم بن حجیر الکندی الخولانی الکوفی یقال لہ صحبۃ مع رسول اللہ وھو من اھل الکوفہ وشھد مع النبیؐ۔۔۔۔۔۔وقال علماء السیر ومنہم الطبری:انہ قاتل جندب بن حجیربین یدیہ الحسینؑ حتی قتل فی اول القتال۔۔۔۔۔۔'' <ref>وسیلۃ الدارین، ص 114</ref>
 
مندرجہ بالا ترجمہ کے مطابق یہ صحابی رسولؐ اورشہدائے کربلا میں سے تھے۔
 
جندب بن حجیر کے صحابی رسولؐ ہونے میں اتفاق ہے لیکن مقام شہادت میں اختلاف ہے ابن عساکر انھیں جنگ صفین کے شہداء میں ذکرکرتے ہیں۔<ref>تاریخ اسلام، ابن عساکر، ج11، ص303</ref>لیکن بعض دیگر معتبر منابع انھیں شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں تنقیح المقال میں ان کاترجمہ اس طرح ہے:''۔۔۔شھد الطف۔۔۔وعدہ الشیخ من رجالا من اصحاب الحسینؑ واقول ھوجندب بن حجیرالکندی الخولانی الکوفی وذکراھل السیر انّ لہ صحبۃ و۔۔۔''<ref>تنقیح المقال، ج1، ص236</ref>
 
نیز رجال طوسی ''اقبال''اور''اعیان الشیعہ''میں بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیاگیا ہے۔<ref>رجال، شیخ طوسی ؒ، ص72، اقبال، ج3، ص346</ref>
 
جندب کوفہ کے نامداراورمعروف شیعہ افراد سے تعلق رکھتے تھے کوفہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل پڑے عراق میں حرکالشکر پہنچنے سے قبل حضرت امام حسینؑ سے مقام ''حاجر''میں ملاقات کی اورامام ؑ کے ہمراہ وارد کربلا ہوئے جب روز عاشور(عمرسعد کی طرف سے)جنگ شروع ہوئی یہ دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے پہلے حملہ میں مقام شہادت پرفائز ہوئے۔<ref>شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص136</ref>
 
==== حبیب بن مظاہر الاسدی ====
 
[[حبیب بن مظاہر اسدی]] خاندان بنی اسد کے معروف فرد حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اور امام علی، امام حسن وامام حسین علیہم السلام کے وفادار ساتھی تھے۔ <ref>رجال، شیخ طوسی ؒ، ص38، 68</ref>عسقلانی ان کاترجمہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ''[[حبیب بن مظاہر]] بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمرحتی قتل مع الحسینؑ یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور''۔ <ref>الاصابہ، حرف ''حا'' (حبیب بن مظاہر )</ref>
 
معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اورکربلا میں جہاد کاذکر مفصل ملتا ہے حبیب بن مظاہر حضرت علی علیہ السلام کے شاگردخاص اوروفادار صحابی تھے اپنے مولاعلیؑ کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی بہت سے علوم پردسترس تھی زہدوتقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔<ref>سفینۃ البحار، ج2، ص26</ref>
 
صاحب رجا ل کشی (اختیار معرفۃ الرجال)، فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اورمیثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کونقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کوآگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ تربیت شدہ شاگرد''علم باطن''اور''علم بلایا ومنایا''(آئندہ آنے والی مشکلات ومصائب) پرکس قدر تسلط رکھتے تھے۔ <ref>تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو۔ ''رجال کشی ص78''</ref>
 
حضرت حبیب بن مظاہر کاشمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے روایت میں ہے کہ حبیب ایک مرتبہ امام حسینؑ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدمؑ کس صورت میں تھے؟حضرت امام حسینؑ نے فرمایا:''ہم نورکی مانند تھے اورعرش الٰہی کے گردطواف کررہے تھے اورفرشتوں کوتسبیح وتمحید وتھلیل سکھاتے تھے۔<ref>بحارالانوار، مجلسی، ج40، ص311۔(تسبیح یعنی سبحان اللہ'تمحید یعنی الحمداللہ، اورتہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا)</ref>
 
حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ کوکوفہ آنے کی دعوت دی۔<ref>تاریخ الطبری، ج5، ص352</ref>پھرجب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے توسب سے پہلاشخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اوروفاداری کااعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے اس کے بعد حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے:''خدا تم پررحم کرے کہ تونے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کاحال بیان کردیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پرپختہ یقین رکھتا ہوں جیسے عابس نے بیان کیا ہے۔<ref>تاریخ الطبری، ج5، ص355</ref>
 
اس طرح حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اورمسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کرحضرت مسلم بن عقیل کے لئے لوگوں سے بیعت لیتے تھ<ref>ابصارالعین، سماوی، ص78</ref>لیکن جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعداہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں(حبیب اورمسلم بن عوسجہ)کو مخفی کردیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کوامام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تورات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت ؑ سے جاملے حالت یہ تھی کہ دن کومخفی ہوجاتے اوررات کوسفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کوپالیا۔<ref>اعیان الشیعہ، ج2، ص554</ref>
 
اگرچہ بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ کوجب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی توآپؑ نے حبیب بن مظاہر کوخط لکھ کر بلایا۔
<ref>اسرار الشہادہ، ص396</ref>لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی روسے ثابت نہیں۔ <ref>شہدائے کربلا، ص134</ref>
 
کربلا پہنچنے کے بعد جب عمرسعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا توامام ؑ سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ ''بنی اسد'' کے پاس گئے اورمفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسینؑ کی مدد ونصرت کے لئے درخواست کی جس کاخلاصہ ملاحظہ فرمائیے:''۔۔۔میں تمہارے لئے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسولؐ کی مدد کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔۔نواسۂ رسولؐ آج عمرسعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پرتوجہ کریں تاکہ دنیا وآخرت کی سعادت تمہیں نصیب ہوسکے خدا کی قسم تم میں سے جوبھی فرزند رسول خداؐ کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پرحضرت رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا۔<ref>الفتوح، ج5، ص159</ref>حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پرلبیک کہا اورحضرت امام حسین علیہ السلام کاساتھ دینے کے لئے آمادہ وتیارہوگئے لیکن ''ارزق بن حرب صیدادی'' ملعون نے چارہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پرحملہ کرکے انھیں منتشر کردیا حبیب نے یہ اطلاع حضرت امامؑ کوپہنچائی جب حضرت امام حسینؑ اپنے خدا سے رازونیاز کرنے کے لئے عصرتاسوعا(نہم محرم)کودشمن سے مہلت طلب کی تواس دوران میں ''حبیب '' نے لشکر عمرسعد کوموعظہ ونصیحت کرتے ہوئے کہا:''خدا کی قسم!کتنی بری قوم ہوگی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبرؐ کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسولؐ کے نواسہ اور ان کے یاروانصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔''
 
شہادت کی موت سے محبت کایہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ ''یزید بن حصین ''سے مزاح کرتے ہیں تویزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کاجبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اورہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں توحبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کونسا خوشی کاوقت ہوگا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوکربہشت میں پہنچنے والے ہیں۔<ref>اخیارالرجال، الکشی، ص79</ref>
 
ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کوبتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں توآپ تمام اصحاب کوجمع کرکے درخیمہ پرلائے اورحضرت زینب ؑ کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیااوراپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کادوبارہ عہد کیاتاکہ حضرت زینبؑ کی یہ پریشانی ختم ہوسکے۔<ref>الدّمعۃ الساکبہ، ج4، ص274</ref>
 
صبح روز عاشور حضرت امام حسینؑ نے اپنے لشکر کومنظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اوربائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس ؑ کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکرمبارزہ طلب کرتے ہیں توحبیب مقابلہ کے لئے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام ؑ نے روک لیا اس طرح ظہرعاشور جب امام ؑ نے لشکر عمرسعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لئے کہا توایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کیا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی(نعوذباللہ)اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اورفوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے ''اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبرؐ کی نماز قبول نہیں؟! اورتمہاری نماز قبول ہے؟!!''اس طرح دونوں کامقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کوزمین پرگرادیا پھرباقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کوواصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کاوار کیاجس کی تاب نہ لاکرآپ شہید ہوگئے اس نے آپ کے سرکوجداکرلیااسی سرکوبعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کرکوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کانامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہاتھا دیکھو یہ سرآل رسولؐ کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا<ref>شہدائے کربلا، ص135</ref>السلام علیک یاحبیب بن مظاہرالاسدی۔
 
==== زاہر بن عمروالاسلمی ====
 
''[[زاہر بن عمرو کندی]]'' شجاع اوربہادر شخص تھے صحابی رسولؐ اوراصحاب شجرہ میں سے تھے اورمحبین اہل بیت علیہم السلام میں ان کا شمار ہوتا ہے حضرت رسول خداؐ کے ہمراہ غزوہ حدیبیہ اورجنگ خیبرمیں شریک ہوئے۔
 
ذبیح اللہ محلاتی وسیلۃ الدارین کی عبار نقل کرتے ہیں:''قال العسقلانی فی الاصابہ ہوزاہر بن عمرو بن الاسود بن حجاج بن قیس الاسدی الکندی من اصحاب الشجرۃ وسکن الکوفہ وروی عن النبیؐ وشہدالحدیبیہ وخیبر۔۔۔۔۔۔''
<ref>فرسان الہیجاء ص138 از وسیلۃ الدارین، ص137۔</ref>
 
''۔۔۔زاہر درحقیقت زاہر بن عمرو۔۔۔الکندی ہیں جواصحاب شجرہ میں سے تھے کوفہ میں مقیم تھے اورحضرت رسول خداؐ سے روایت بھی نقل کی ہے حدیبیہ اورخیبر میں شریک تھے۔''
 
ان کے بیٹے ''مجزأۃ''نے اپنے باپ کے واسطہ سے پیغمبر اکرمؐ سے روایت بیان کی ہے فوق الذکر مطلب مختصر فرق کے ساتھ دیگر منابع میں بھی موجو د ہے<ref>اسد الغابہ، ابن اثیرعلی بن محمد، ج2، ص192، الاصابہ، ج1، ص542</ref> لیکن بعض محققین کے خیال میں زاہر اورزاہر اسلمی دوالگ الگ افراد ہیں۔<ref>قاموس الرجال، شوشتری، ج2، ص402، 406</ref>
 
البتہ تنقیح کی عبارت میں انہیں اصحاب شجرہ اورشہدائے کربلا میں شمار کیاگیا ہے'' زاہر اسلمی والدمجزأۃ من اصحاب الشجرہ'' نیز فرماتے ہیں:''زاھر صاحب عمرو بن الحمق شہید الطف فوق الوثاقہ وعدہ الشیخ فی رجالا من اصحاب ابی عبداللہ واقول ہو زاہر بن عمروالاسلمی الکندی من اصحاب الشجرہ روی عن النبیؐ وشہد الحدیبیہ وخیبر وکان من اصحاب عمربن الحمق الخزاعی کمانص علی ذالک اہل السیرو۔۔۔''<ref>تنقیح المقال، ج1، ص438</ref>
 
مذکورہ بالا عبارت سے ظاہرہوتا ہے کہ ''زاہر''نام کے دواشخاص ہیں لیکن مرحوم مامقانی کی نظرمیں زاہر بن عمرواسلمی کاشمار اصحاب شجرہ اورشہدائے کربلا میں ہونا ثابت ہے نیز بیان کرتے ہیں کہ یہ محب اہل بیتؑ تھے بہت بڑاتجربہ کارپہلوان اوربہادرشخص تھا امام علیؑ کی شہادت کے بعد ''عمربن حمق''کے ساتھ مل کر معاویہ کی ظالمانہ حکومت اورابن زیاد کے خلاف برسرپیکار رہا جب معاویہ نے ان کی گرفتاری اورقتل کاحکم صادر کیاتویہ دونوں شہرسے فرار کرگئے پہاڑوں اورجنگلوں میں زندگی بسرکرنے لگے یہاں تک کہ ''عمروبن حمق''حکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعدشہید کردیاگیا لیکن زاھر زند ہ رہا آخرکار 60 ؁ ھ میں حج کے موقع پرامام حسینؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا اورآپؑ کے ساتھ مل کرکربلا کی جنگ میں شرکت کی عاشورا کے دن پہلے حملے میں جان بحق نوش کیا۔<ref>شہدائے کربلا، ص164، ازتنقیح، ج1، ص437 تاریخ مدینہ دمشق، ج25، ص502</ref>
 
زیارت ناحیہ اوررجبیہ میں سلام ان الفاظ میں ذکرہوا السلام علی زاہر مولیٰ عمروبن حمق<ref>اقبال، ص79</ref>
 
==== زیاد بن عریب ابوعمرو ====
 
قدیم محققین نے [[زیاد بن عریب صادی|زیاد بن عریب صائدی]] سے متعلق کوئی مطلب بیان نہیں کیا لیکن بعض معاصر نے ان کاترجمہ اس طرح درج کیا ہے:''زیاد بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبداللہ بن کعب الصائدبن ہمدان'' <ref>جمہرۃ انساب العرب، ص395</ref>ابوعمروزیاد بن عریب نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کودرک کیا ان کے والدبزرگوار بھی صحابی رسول تھے ابوعمروشجاع، عابد وزاھداورشب زندہ دار شخص تھے زیادہ نمازگزار تھے زہدوتقویٰ کی وجہ سے عزت دینی نے آرام سے نہ بیٹھنے دیالہذا واقعہ کربلا میں اپنا کردار اداکرنے کی غرض سے حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے اوردشمن کے خلاف جہادومبارزہ کرنے کے بعد درج ۂ شہادت پرفائز ہوئے۔<ref>ابصارالعین، سماوی، ص134، عنصرشجاعت، ج2، ص94</ref>
 
==== سعد بن الحارث مولی امیرالمؤمنینؑ ====
 
[[سعد بن حارث خزاعی]](غلام امام علی) کے نام سے معروف ہیں قدیم منابع میں ان کانام شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکرنہیں لیکن بعض متاخرین نے شہیدکربلا کے عنوان سے ان کے حالات زندگی قلمبندکیے ہیں سعد بن حرث خزاعی نے محضر پیغمبراکرمؐ کودرک کیااس لحاظ سے صحابی رسولؐ ہیں پھرامیرالمؤمنینؑ کے ہمراہ رہے حضرت نے انھیں کچھ عرصہ کے لئے سپاہ کوفہ کی ریاست سونپی تھی نیز کچھ مدت کے لئے انھیں آذربائیجان کاگورنر بھی منصوب کیا صاحب فرسان نے'' حدایق الوردیہ''، '' ابصارالعین''، '' تنقیح المقال'' اور''الاصابہ'' جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔ <ref>فرسان الہیجاء، ص154</ref> نیز الاصابہ سے سعد کاترجمہ یوں نقل کیا ہے لیکن الاصابہ میں مراجع کرنے سے یہ مطلب نہیں ملا۔
 
''سعید بن حارث بدل سعد بن الحارث بن شاربہ بن مرۃ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی مولیٰ علی بن ابی طالبؑ لہ ادراک وکان علی شرطۃٍ علی ؑ فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان۔۔۔۔۔۔'' <ref>فرسان الہیجاء، ص154</ref>
 
وسیلۃ الدارین نے بھی ص128 پر صحابی اورشہیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے:
 
''[[سعد بن حارث خزاعی|سعد بن الحارث]] الخزاعی مولیٰ امیرالمؤمنین صحابی امامی شہید الطف ثقہ'' مزید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک الصحبۃ النبیؐ وکان علی شرطۃ امیرالمؤمنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔ <ref>تنقیح المقال، ج2، ص12</ref>
 
مزید تفصیلات ان کتب میں موجو د نہیں البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ'' سعد'' امیرالمؤمنین ؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن وامام حسین ؑ کاہرمیدان میں یارومددگار رہے جب حضرت امام حسینؑ نے قیام کیاتو ابتداء میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جاملے پھرمکہ سے کربلا آئے اورروزعاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ <ref>شہدائے کربلا، ص 180</ref>
 
اس بات کاذکرضروری ہے کہ'' مرحوم محقق شوشتری'' نے اپنی کتاب میں ان کے صحابی ہونے پرتنقید کی ہے اس دلیل کی بنا پرکہ اگرصحابی ہوتے توقدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا <ref>قاموس الرجال، شوشتری، ج5، ص27، 28</ref>لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کاذکر صحابی رسولؐ ہونے کے عنوان سے آجانا ہمارے مطلب کے اثبات کے لئے کافی ہے۔
 
==== شبیب بن عبداللہ مولیٰ الحرث ====
 
[[شبیب بن عبد اللہ نہشلی|شبیب بن عبداللہ بن شکل بن حی بن جدیہ]] ''حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اورکوفہ کی معروف ومشہور شخصیت اوربڑے بافضیلت انسان تھے <ref>وسیلۃ الدارین، ص155 نقل از الاصابہ، ج3، ص305</ref> جہاں بھی ظلم وستم دیکھا اس کے خاتمہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی اورحضرت علیؑ کے وفادار یارومددگار رہے <ref>فرسان الہیجاء، ص167</ref>
 
مختلف معتبرمنابع میں ان کاذکر موجود ہے جیسے'' رجال طوسی''، '' استرآبادی''، '' تنقیح''، '' مقتل ابی مخنف''، '' تاریخ طبری'' وغیرہ۔''تنقیح'' میں ان کاترجمہ اس طرح درج ہے:
 
''شبیب بن عبداللہ مولی الحرث صحابی شہیدالطف، فوق الوثاقہ ''شبیب سیف بن حارث اورمالک بن عبداللہ کے ہمراہ کربلا پہنچے اوراپنے مولااما م حسینؑ کی اطاعت میں جنگ کرتے ہوئے جان بحق نوش کیا۔کتاب روضۃ الشھداء میں ان پرسلام نقل ہوا ہے :السلام علی شبیب بن عبداللہ مولیٰ بن سریع۔<ref>کتاب روضۃ الشھداء ص295</ref>
 
==== شوذب بن عبداللہ الہمدانی الشاکری ====
 
جناب [[شوذب]] صحابی رسول اورحضرت علیؑ کے باوفا ساتھی تھے مرحوم'' زنجانی'' نے علامہ'' مامقانی'' سے ان کاترجمہ نقل کیا ہے :''ذکرالعلامہ مامقانی فی رجالا شوذب بن عبداللہ الہمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل لہ ترجمہ تخیل انّہ شوذب مولی عابس والحال ان مقامہ اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیرالمؤمنینؑ۔۔۔'' <ref>وسیلۃ الدارین، ص154</ref>
 
شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلندپایہ شخصیت تھے کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لئے حضرت امیرالمومنین ؑ کی احادیث نقل کرتے تھے امام علیؑ کے ساتھ تینوں جنگوں میں شریک رہے۔
 
جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے توان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسینؑ تک اہل کوفہ کے مذید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔نہایت مخلص اورعابد وزاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہوگئے توعابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیاخیال ہے ؟کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خداؐ کی نصرت کے لئے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کامقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام ؑ کے پاس جاکر اجازت طلب کروحضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکراجازت جہاد حاصل کی اورواردجنگ ہوئے چند دشمنوں کوواصل جہنم کیا آخر میں شہید ہوگئے۔ <ref>شہدائے کربلا، ص198</ref> ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اورزیارت ناحیہ میں ان پرسلام بھیجا گیاہے السلام علی شوذب مولی شاکر<ref>اقبال، ص346</ref>
 
قابل توجہ امریہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ'' شوذب ''، ''عابس شاکر ''کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ'' ہم پیمان'' کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب مقام علمی ومعنوی کے اعتبار سے عابس پربرتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے بلکہ عابس اوراس کے قبیلہ کے ہم پیمان وہم عہد تھے <ref>عنصرشجاعت، ج1، ص130</ref> یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔
 
==== عبدالرحمٰن الارحبی ====
 
[[عبد الرحمن ارحبی]] حضرت رسول اکرمؐ کے بزرگ صحابی تھے تمام معتبرمنابع میں ان کاذکرموجود ہے جیسے ''رجال شیخ طوسی''، '' رجال استرآبادی''، '' مامقانی''، نیز ''الاستیعاب''، '' الاصابہ'' اور''وسیلۃ الدارین'' نے بھی نقل کیاہے تاریخ طبری اورالفتوح میں ان کے بعض واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔
 
''الاستیعاب'' کی عبارت اس طرح ہے:''۔۔۔ہوعبدالرحمن بن عبداللہ بن الکدن الارحبی۔۔۔۔۔۔''انہ کان من اصحاب النبیؐ لہ ہجرۃ۔۔۔
 
[[معاویہ بن ابی سفیان]] کی وفات کی خبر جب کوفہ پہنچی توکچھ لوگ'' [[سلیمان بن صرد خزاعی]]'' کے گھرجمع ہوئے تاکہ اجتماعی طور پرحضرت امام حسین ؑ کوخط لکھ کردعوت دیں اورخلافت کوان کے سپرد کریں نیز کوفہ کے گورنر [[نعمان بن بشیر]] کوکوفہ سے باہرنکال دیں ان خطوط کو''[[قیس بن مسہر صیداوی]]''، [[عبد الرحمن ارحبی]] اورعمارہ بن عبداللہ السلولی لے کرحضرت امام حسینؑ کی خدمت میں ہوئے اس طرح یہ گروہ دوم تھا جوحضرت ؑ کودعوت دینے کے لئے آیا کیونکہ پہلا گروہ [[عبداللہ بن سمیع]] کی قیادت میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا تھا۔
 
عبدالرحمٰن ارحبی شجاع تجربہ کار فاصل اورفصیح وبلیغ صحابی تھے <ref>یاران پائیدار، ص97</ref> 50 یا 53۔ <ref>تاریخ الطبری، ج5، ص352</ref>ددعوت نامے لے کر12 رمضان المبارک 60 ھ کومکہ کی طرف روانہ ہوئے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن ارحبی 150 افراد پرمشتمل ایک وفد کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت اقدس میں پہنچے۔ <ref>الفتوح، ج5، ص48</ref>
 
مکہ میں حضرت امام ؑ کواپنی وفاداری کایقین دلایا پھر حضرت کے نمائندہ خاص جناب امیرمسلم کے لئے کوفہ میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول رہے کوفہ میں حالات خراب ہونے کے بعد کربلا میں دشمنان دین کے خلاف جنگ میں شرکت کی جب عمربن سعد نے امام حسینؑ کے قتل کاپختہ ارادہ کرلیا تواس صحابی رسولؐ نے اپنی جان کی بازی لگاکربھی اپنے مولا وآقا کی حمایت کااعلان کیا اپنی شجاعت کے کارنامے دکھا نے کے علاوہ فصاحت وبلاغت کے ذریعے بھی حسین ابن علیؑ کی حقانیت اوربنوامیہ کے بطلان کواپنے اشعارمیں واضح کیا تاریخ میں اس وفادار صحابی کے جورجز بیان ہوئے ہیں اس زمانہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کیونکہ بنوامیہ نے اسلام کے نام پراسلام کی نابودی کاتہیہ کررکھا تھااس لئے وہ اصحاب کرام جواب پیغمبر اکرمؐ کے قول وفعل کے ذریعے حقیقی اسلام کے راہبر کی شناخت کرچکے تھے آج دشمنان دین کواسلام کے حقیقی راہبر کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف دعوت دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں عبدالرحمٰن کے رجز کاایک مصرع یوں ہے:
 
انی لمن ینکرنی ابن الکدن انی علی دین حسین وحسن <ref>انساب الاشراف، ج 3، ص196</ref>
اس طرح امام حسینؑ کو''دین حق'' کاعلمبردار سمجھتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنی جان کانذرانہ پیش کرتے ہیں اس شہید باوفا پرزیارت ناحیہ میں ان الفاظ میں سلام پیش کیاگیا ہے:السلام علی عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کدرالارحبی <ref>الاقبال، ج3، ص79</ref>
 
==== عبدالرحمٰن بن عبدربہ الخزرجی ====
 
مختلف منابع نے [[عبد الرحمان بن عبد رب انصاری]] کے لئے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی دی ہے انھیں بعض نے انصاری بھی لکھا ہے اصل میں مدینہ میں مقیم تھے جب پیغمبراسلامؐ نے مدینہ میں ہجرت فرمائی تواوس وخزرج قبائل نے اسلام قبول کیااس وقت سے ان سب کوانصاری کہاجاتا تھا صاحب قاموس الرجال نقل کرتے ہیں کہ ''عبدالرحمٰن بن عبدربہ الانصاری الخزرجی کان صحابیاً لہ ترجمۃ ورویۃ وکان من مخلص اصحاب امیرالمؤمنین علیہ السلام'' (صحابی رسولؐ تھے جن سے روایت بھی نقل ہوئی ہے اورحضرت امیرعلیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے)
 
جس روایت کاتذکرہ کیاگیا ہے یہ درحقیقت ''غدیرخم'' کے مقام پرپیغمبراسلامؐ کی جانب سے ولایت علیؑ کاواضح اعلان کرنا ہے پھرجب وفات پیغمبر ؐ کے بعد اکثر افراد جن میں بعض نے دنیاوی مقاصد اوربعض نے خوف کی وجہ سے علی علیہ السلام خلیفۂ بلافصل تسلیم نہ کیا توایک مرتبہ [[رحبہ]] کے مقام حضرت علیؑ نے لوگوں کوقسم دے کر پوچھا کہ جس نے پیغمبرؐ سے میرے بارے میں کوئی حدیث فضیلت سنی ہوتوبلند ہوکربیان کرے اسی اثنا میں عبدالرحمٰن خاموش نہ بیٹھ سکے اوراٹھ کرکہا کہ میں نے غدیر خم کے مقام پررسول خداؐ کویہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ فرمایا:''من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ''(جس جس کامیں مولا وسردار ہوں اس کایہ علیؑ مولاوسردار ہے۔)
 
مناسب ہوگا کہ الاصابہ فی تمییز الصحابہ کی عبارت نقل کی جائے العسقلانی یوں رقمطراز ہیں:
 
''عبدالرحمٰن بن عبدرب الانصاری ذکرہ ابن عقدہ فی کتاب المولاۃفی من روی حدیث:من کنت مولاہ فعلیٌّّ مولاہ وساق من طریق الاصبغ بن نباتہ قال لما نشدعلیٌّ الناس فی الرحبہ من سمع النبی ؐ یقول یوم غدیر خم ماقال الاقام، ولایقوم الامن سمع، فقام بضعۃ عشررجلاً منہم :''ابوایوب''، '' ابوزینب'' و''عبدالرحمٰن بن عبدرب'' فقالوا نشہد انا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ''ان اللہ ولی وانا ولی المومنین ؛فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ'' <ref>الاصابہ، ج2، ص328</ref>
 
اس عظیم محقق کی عبارت کے مطابق دس سے زیادہ افراد کھڑے ہوئے اورگواہی دی کہ ہم نے سنا تھا کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:بے شک اللہ ولی ہے میں بھی مومنین کاولی ہوں پس جس کامیں مولا ہوں اس کاعلیٰ ؑ مولا ہے۔
 
ابصارالعین نے بھی بیان کیا ہے کہ ''کان ھذا صحابیاً وعلمہ امیرالمؤمنین القرآن ورباہ وہواحدرواۃ حدیث من کنت مولاہ۔۔۔حین طلب علیہ السلام۔۔۔''
 
یعنی یہ صحابی پیغمبرؐ تھے حضرت علیؑ نے ان کی تربیت کی اورانہیں قرآن مجید کی تعلیم دی اورمن کنت مولاہ کی حدیث کو اس صحابی نے اس وقت بیان کیا جب حضرت علیؑ نے گواہی طلب کی تھی۔ <ref>ابصارالعین فی انصارالحسینؑ، ص92</ref>
 
پیغمبرؐ کی وفات کے بعدکوفہ میں سکونت اختیار کرلی اورکوفہ کی معروف شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں امام حسینؑ کے لئے لوگوں سے بیعت طلب کرتے تھے لیکن جب کوفہ میں امام حسینؑ کے لئے راہ ہموار کرنے میں ناکام ہوئے تو کربلا میں امام ؑ سے ملحق ہوکردشمن کےخلاف جنگ لڑتے ہوئے پہلے حملہ میں یابعداز ظہر <ref>ذخیرۃ الدارین، ص270</ref> شہید ہوگئے۔
 
==== عبداللہ بن ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ====
 
کتاب'' شہدائے کربلا ''نے درج ذیل عبارت'' الاصابہ'' سے نقل کی ہے:''ابو الہیاج عبداللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بن ھاشم الھاشمی(90) شہدائے کربلا، ص228 نقل از الاصابہ، ج7، ص151۔(90) لیکن جب کچھ معاصر نے مراجع کیاتو موجود'' الاصابہ'' کی عبارت اس طرح تھی: ''[[عبد اللہ بن حارث بن عبد المطلب|عبد اللہ بن الحارث]] بن [[عبد المطلب]] بن [[ہاشم بن عبد مناف|ہاشم]] الہاشمی ابن عم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وکان اسمہ عبدشمس فغیرہ النبیؐ''۔ <ref>الاصابہ، ج4، ص27</ref> حالانکہ وہ اس عبداللہ کے چچا بنتے ہیں۔لگتا ہے یہ چچا کے ساتھ تشابہ اسمی کی وجہ سے غلطی ہوئی ہے۔
 
[[عبداللہ بن ابوسفیان]] کے والد [[ابو سفیان بن حارث]] [[محمد بن عبد اللہ|حضرت رسول اکرمؐ]] کے عموزاد اوربرادررضاعی تھے۔ عبد اللہ صحابی رسولؐ ؐ، عظیم شاعربھی تھے اورانہوں نے پیغمبرؐ سے روایت بھی نقل کی ہے۔ اپنے بعض اشعار میں حضرت علیؑ کی مدح وثنا بھی بیان کی ہے۔
 
حضرت رسول اکرمؐ کی وفات کے بعدامام علیؑ کے ساتھ رہے انہیں کے ہمرکاب مختلف جنگوں میں شرکت کی ایک مرتبہ جب حضرت عبداللہ کوعلم ہواکہ [[عمرو ابن عاص|عمروعاص]] نے بنی ہاشم پرطعن وتشنیع اورعیب جوئی کی ہے تو عمرو بن عاص پرسخت غصہ ہوئے اوراسے موردعتاب قرار دیا آخر تک اہل بیتؑ کے ہمراہ رہے کربلا میں جب حضرت امام حسینؑ کامعلوم ہواتو ان کی خدمت میں پہنچ کراپنی وفاداری کاعملی ثبوت دیا۔اس طرح عاشور کے دن رسول خداؐ کے نواسہ کی حمایت کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ <ref>شہدائے کربلا، ص229</ref>
 
==== عبد اللہ بن یقطر ====
[[عبد اللہ بن یقطر]] صحابی رسول تھے۔
==== عقبہ بن صلت ====
[[عقبہ بن صلت جہنی]] صحابی رسول تھے۔
 
==== عمار بن ابی سلامہ ہمدانی ====
[[عمار بن ابی سلامہ ہمدانی]] صحابی رسول تھے۔
 
==== عمرو بن ضبیعۃ ====
 
مختلف منابع رجال ومقاتل میں ذکر ہوا ہے کہ [[عمرو بن ضبیعہ ضعبی]] صحابی پیغمبرؐ تھے اورکربلا میں حضرت امام حسینؑ کے ہمرکاب شہادت پائی۔کتاب فرسان الہیجاء میں الاصابہ سے نقل کیاگیا ہے کہ ''ھوعمروبن ضیبعۃ بن قیس بن ثعلبہ الضبعی التمیمی لہ ذکرفی المغازی۔۔۔''نیز''رجال استرآبادی'' سے بھی نقل کرتے ہوئے یوں بیان ہوا ہے:''قال المحقق استرآبادی فی رجالا ھوعمروبن ضبیعہ۔۔۔وکان فارساً شجاعاً لہ ادراک۔<ref>فرسان الہیجاء، ج2، ص7</ref>
 
جناب مامقانی نے بھی انھیں صحابی ادراکی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تجربہ کار اورماہر جنگجو شخص تھا کئی ایک جنگوں میں شرکت کی نیز شجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔ <ref>تنقیح المقال، ج2، ص332</ref>
 
ابتدا میں عمرسعد کے لشکر کے ساتھ وارد کربلا ہوالیکن جب دیکھا کہ عمرسعد نواسہ رسولؐ کے قتل کاارادہ رکھتا ہے توفوراً حضرت امام حسینؑ کے ساتھ ملحق ہوگئے حملہ اولیٰ میں شہادت پائی زیارت ناحیہ میں عمر کے نام سے ذکرہوا ہے:السلام علی عمربن ضبیعہ الضجی۔ <ref>الاقبال، ج3، ص78</ref>
 
==== عون بن جعفر طیار ====
 
[[عون بن جعفر|عون بن جعفر طیار]] کی کنیت ابوالقاسم ہے حضرت [[جعفر ابن ابی طالب]] کے بیٹے ہیں اگرچہ سن ولادت واضح بیان نہیں ہوا لیکن چونکہ [[واقعہ کربلا]] میں 54 یا 57 سال کے تھے لہذا امکان ہے کہ 4 ھ یا 7 ھ کو[[حبشہ]] میں ولادت ہوئی ہوگی۔
 
[[یعقوبی]] کے نقل کے مطابق حضرت رسول اکرمؐ نے [[جنگ موتہ]] میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد سال ہشتم ہجری میں عون اوران کے بھائی [[عبد اللہ بن جعفر|عبداللہ]] اور [[محمد بن جعفر بن ابی طالب|محمد]] کواپنی گود میں بٹھایا اورپیارکرتے رہے۔ <ref>تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 65</ref> ایک روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے حضرت جعفرطیار کے بیٹوں کوبلایا اورنائی کو بلاکر کہا کہ ان بچوں کے سر کی اصلاح کرے اورپھرفرمایا:عون خلقت اوراخلاق میں میری شبیہ ہے۔ <ref>الاصابہ، ج 4، ص 74 ، نمبرشمار 6111۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔</ref>
 
جناب عون کا شمار حضرت علی ؑ کے یار و انصار میں ہوتا ہے حضرت علیؑ کے ہمراہ جنگوں میں بھی شریک رہے حضرت [[ام کلثوم بنت علی]] (حضرت زینب صغری) کاعقد حضرت علی ؑ نے عون سے کیاتھا۔ <ref>تنقیح المقال، ج 2، ص 355</ref>
 
حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد ہمیشہ [[حسن بن علی|امام حسن]] و[[حسین ابن علی|حسین]] علیہماالسلام کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب حضرت امام حسینؑ علیہ السلام [[یزید بن معاویہ]] کے مظالم کی وجہ سے [[مدینہ]] سے روانہ ہوئے تو حضرت عون بھی اپنی زوجہ محترمہ (ام کلثوم) کے ہمراہ اپنے مولا کے ساتھ اس جہاد میں شریک رہے اور [[عاشورا|روز عاشور]] حضرت علی اکبرؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام ؑکی اجازت سے وارد میدان ہوئے 30 سوار اور 18 پیادے واصل جہنم کیے لیکن زید رقاد جہنمی نے آپ کے گھوڑے کوزخمی کردیا جس کی وجہ سے آپ گھوڑے پرنہ سنبھل سکے پھر اس ملعون نے تلوار کاوار کرکے شہیدکردیا۔
 
ان کے رجز کوتاریخ نے یوں نقل کیا ہے:
 
ان تنکرونی فانا بن جعفر شہید صدق فی الجنان ازہر
 
یطیر فیہا بجناح اخضر کفی بہذٰا شرفاً فی المحشر <ref>مقتل الحسینؑ، خوارزمی، ج 2، ص 31</ref>
 
==== کنانہ بن عتیق ====
 
جناب [[کنانہ بن عتیق تغلبی]] کوفہ کے شجاع اورمتقی وپرہیزگار افراد میں سے تھے اوران کاشمار قاریان کوفہ میں ہوتا ہے۔<ref>ابصارالعین، ص199</ref>
 
جناب کنانہ اوران کاباپ عتیق حضرت رسول اکرمؐ کے ہمرکاب جنگ احدمیں شریک ہوئے۔(101) تنقیح المقال، ج2، ص42۔(101)وسیلۃ الدارین نے کنانہ کے ترجمہ کورجال ابوعلی سے یوں نقل کیا ہے :''قال ابوعلی فی رجالا کنانۃ بن عتیق الثعلبی من اصحاب الحسینؑ قتل معہ بکربلا وقال العسقلانی فی الاصابہ ھوکنانۃ بن عتیق بن معاویہ بن الصامت بن قیس الثعلبی الکوفی شہداء احداً ہووابوہ عتیق فارس رسول اللہ(ص) وقدذکرہ ابن منذہ فی تاریخہ۔'' <ref>وسیلۃ الدارین، ص184</ref>
 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ''جناب کنانہ'' بھی ان اصحاب رسول خداؐ میں سے ہیں جوحضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد ونصرت کے لئے کربلا تشریف لائے اوراپنی جانوں کونواسہ رسولؐ کے قدموں میں نچھاور کیا زیارت رجبیہ اورناحیہ میں ان پرسلام پیش کیاگیاہے:السلام علی کنانۃ بن عتیق۔ <ref>الاقبال، ص78</ref>
 
==== مجمّع بن زیاد جہنّی ====
 
[[مجمع بن زیاد جہنی]] حضرت رسول اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھے جنگ بدرواحد میں شریک رہے مختلف منابع نے ان کوصحابی رسولؐ اورشھیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے جیسے ذخیرۃ الدارین، حدایق، ابصارالعین، تنقیح المقال، اوروسیلۃ الدارین وغیرہ
 
کتاب'' الدوافع الذایتہ'' نے ''الاستعیاب ''سے عبارت نقل کی ہے کہ'' ھومجمّع بن زیاد بن عمروبن عدی بن عمروبن رفاعہ بن کلب بن مودعۃ الجھنی شھدا بدراً واحد
 
اس کے عبارت کے نقل کرنے کے بعدخود تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اَی انّہ صحابیٌ جلیل بناءً علی ذالک۔۔۔
 
تنقیح المقال نے بھی الاصابہ اورالاستعیاب سے اس طرح کی عبارت نقل کی ہے کہ یہ صحابی رسولؐ تھے بدرواحدمیں شریک بھی رہے لیکن ہمارے ہاں موجود الاصابہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔
 
بہرحال جناب مجمع نے کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کی سب لوگ حضرت مسلم کوچھوڑ گئے لیکن حضرت مجمع ان افراد میں سے تھے جوڈٹے رہے اورکوفہ میں حالات سازگار نہ ہونے کیوجہ سے کربلا میں حضرت امام حسینؑ سے ملحق ہوکریزیدی ارادوں کوخاک میں ملانے کی خاطر حضرت امام حسینؑ کاساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی دشمن کربلا میں اس مجاہد کوآسانی سے شکست نہ دے سکا توان کامحاصرہ کرلیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہیدہوجاتے ہیں۔ <ref>ابصارالعین، ص201</ref>
 
مجمع خود جہینہ ([[مدینہ منورہ]] کے قریب ایک علاقہ) کے مقامی تھے جب امام یہاں سے گزرنے لگے تو مجمع دو صحابی [[عقبہ بن صلت جہنی]] اور [[عباد بن مہاجر جہنی]] اور چند دیگر افراد کے امام سے ملحق ہوئے اور آخر تک تا بوقت شہادت امام کے ساتھ تھے۔<ref>مرضیہ محمدزادہ، شهیدان جاوید، نشر بصیرت، ص 303-304۔</ref>
 
منزل زبالہ پر باقی افراد ساتھ چھوڑ گئے مگر یہ تین افراد ساتھ رہے اور پہلے حملے میں خوب دفاع کیا اور لڑےاور تیروں سے چھلنی ہو کر تینوں نے شہادت پائی۔<ref>تنقیح المقال فی احوال الرجال، مامقانی، شیخ عبداللہ، نجف: المطبعہ الحیریہ، 1352 ﻫ ق۔، ج2، ص53؛ ابصار العین فی انصار الحسین (ع)، سماوی، محمد بن طاہر، تحقیق محمد جعفر طبنسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لحرس الثورہ۔، ص201؛ الحدائق الوردیہ، محلی شہید، حمیدالدین احمد بن محمد علی، دمشق: دار اسامہ۔، ص122؛ فرسان الہیجاء، محلاتی، ذبیح اللہ، مرکز نشر کتاب، 1390 ہ ق۔، ج1، ص186؛ ذخیرة الدارین، حائری شیرازی، سید عبدالحمید، نجف: مطبعہ المرتضویہ، 1345 ﻫ ق۔، ص259؛ وسیلۃ الدارین فی انصار الحسین، موسوی زنجانی، بیروت: مؤسسہ اعلمی، 1402 ﻫ ق۔ ص192۔</ref>
 
==== محمد اصغر بن جعفر بن ابی طالب ====
کچھ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ یعنی صحابی رسول [[عون بن جعفر ]] کے علاوہ محمد اصغر بن جعفر بھی شہید ہوئے۔<ref>عمدۃ الطالب صفحہ 36</ref>
 
==== مسلم بن عوسجہ ====
 
[[مسلم بن عوسجہ اسدی]] کا ذکر شیعہ وسنی کے تمام معتبر ترین منابع جیسے الاستعیاب، الاصابہ، طبقات بن سعد، تنقیح، تاریخ طبری وغیرہ میں موجود ہے کہ یہ صحابی رسول خداؐ تھے اورصدراسلام کے بزرگ اعراب میں شمار ہوتے تھے ابتدائے اسلام کی بہت سی جنگوں میں شریک رہے غزوہ آذربائیجان اورجنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی حضرت علیؑ کے باوفا یارومددگار تھے۔ <ref>فرسان الہیجاء، ج2، ص116</ref> نیز مختلف صفات کے مالک بھی تھے شجاع وبہادر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری قرآن، عالم علوم اورمتقی وپرہیزگار، باوفا اورشریف انسان تھے۔<ref>تنقیح المقال، ج3، ص214</ref>
 
حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ وارد ہوتے ہی ان کی مددونصرت میں پیش پیش تھے اوران کی حمایت میں لوگوں سے بیعت لیتے تھے نیز مجاہدین کے لئے اسلحہ کی فراہمی اوردیگر امدادی کاروائیوں میں مصروف رہے۔<ref>الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 3</ref>
 
حضرت مسلم وجناب ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد مخفی طورپررات کے وقت اپنی صحابیہ زوجہ کوساتھ لے کر حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے سات یاآٹھ محرم کومسلم کوفہ سے کربلا پہنچ گئے اورسپاہ یزید کے خلاف ہرمقام پرپیش پیش رہے۔جب امام ؑ نے حکم دیا کہ خیمہ کے اطراف میں آگ روشن کی جائے توشمرملعون نے آکر توہین آمیز جملات کہے جس پرمسلم بن عوسجہ نے حضرت امام حسینؑ سے عرض کی کہ اگراجازت دیں تواسے ایک تیرسے ڈھیر کردوں لیکن حضرتؑ نے فرمایا نہیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہماری طرف سے جنگ کاآغاز ہو۔ <ref>تاریخ الطبری، ج5، ص424</ref>
 
شب عاشور جس وقت امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کوچلے جانے کی اجازت دی توجہاں بعض دیگر اصحاب امام ؑ نے اپنی وفاداری کایقین دلایا وہاں حضرت مسلم بن عوسجہ نے جوتاثرات بیان کئے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں عرض کی:''خدا کی قسم!ہرگز نہیں چھوڑ کے جاؤں گا یہاں تک کہ اپنے نیزہ کو دشمن کے سینہ میں توڑ نہ دوں'خدا کی قسم اگرستر بار مجھے قتل کردیاجائے پھرجلاکر راکھ کر دیاجائے اور ذرہ ذرہ ہوجاؤں پھراگر زندہ کیاجاؤں توبھی آپؑ سے جدانہیں ہوں گا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ ہربار آپؑ پراپنی جان قربان کروں گا اس لئے کہ جان توایک ہی جائے گی لیکن عزت ابدی مل جائے گی۔'' <ref>تاریخ الطبری، ج5، ص419</ref>
 
حضرت مسلم بن عوسجہ عظیم صحابی رسول ؐوامامؑ ہیں کہ جن کوحضرت امام حسینؑ نے ایک آیت قرآنی کا مصداق قرار دیا جب مسلم بن عوسجہ پچاس دشمنوں کوہلاک کرنے کے بعد شہید ہوگئے توحضرت امامؑ فوراً ان کی لاش پر پہنچے اورفرمایا:''خداتم پررحمت کرے اے مسلم''پھر اس آیت کی تلاوت کی : (فمنہم من قضٰی نحبہ ومنہم من ینتظر ومابدلواتبدیلاً)<ref>سورۂ احزاب آیت 23</ref> اس طرح امام ؑ نے اپنے نانا رسول اللہؐ کے صحابی کوالوداع کہا :السلام علی مسلم بن عوسجہ الاسدی۔۔۔وکنت اول من اشتری نفسہ واول شہید شہداللہ
 
==== نعیم بن عجلان ====
 
ایک روایت کے مطابق نعیم اوران کے دوبھائیوں نظرونعمان نے حضرت رسول اکرمؐ کودرک کیا اس طرح یہ صحابی ادرکی ہیں خزرج قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے حضرت رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ صفین میں حضرت کاساتھ دیاحضرت علیؑ نے ان کے بھائی نعمان کوبحرین کے علاقے کاوالی بنایا۔<ref>تنقیح المقال، ج 3، ص 274</ref>
 
نعیم کے دونوں بھائی حضرت امام حسن ؑ کے زمانہ میں انتقال کرگئے جبکہ نعیم کوفہ میں زندگی بسرکررہے تھے کہ مطلع ہوئے کہ حضرت امام حسینؑ عراق میں وار د ہوچکے ہیں کوفہ کوترک کرتے ہیں اورحضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر غیرت دینی کاعملی ثبوت پیش کرتے ہیں اورنواسۂ رسولؐ کے ساتھ اپنی وفاداری کااعلان کرتے ہوئے سپاہ یزید کے خلاف جنگ میں اپنے خون کاآخری قطرہ بھی قربان کردیتے ہیں۔<ref>تنقیح المقال، ج 3، ص 274</ref>کتاب مناقب کے مطابق روزعاشوراولین حملہ میں جان بحق نوش کیا۔<ref>مناقب آل ابی طالبؑ، ج4، ص122</ref> زیارت ناحیہ اوررجبیہ میں ان پرسلام ذکرہواہے:السلام علی نعیم بن العجلان الانصاری۔ <ref>الاقبال، ج3، ص77</ref>
 
==== [[حارث بن نبہان]] ====
 
[[حارث بن نبہان]] صحابی رسول تھے۔کربلا میں شہید ہوئے۔
 
===== کربلا میں نہیں تھے =====
 
# [[عبد اللہ بن جعفر]]
# [[مختار بن ابی عبیدهٔ ثقفی]] بعد میں قیام کیا کچھ بدلے لیے اور [[مصعب بن زبیر]] تابعی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
# [[جابر بن عبد اللہ|جابر بن عبد اللہ انصاری]]
# [[ابو برزہ اسلمی]]64 ھ وفات پائی۔ اصحاب علی میں سے تھے۔ یزید کو [[راس الحسین]] پر چھڑی مارنے اور شراب پھینکنے پر ٹوکا تھا۔یزید نے دربار سے نکال دیا تھا۔
# [[سہل بن سعد|سہل بن سعد ساعدی]] آخری مدنی صحابی ہیں۔ 91ھ میں 96 سال کی عمر میں وفات پائی۔
پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔ اور چھٹے امام [[جعفر صادق]] کا بچپن دیکھا تھا۔ پیغمبر اسلام اور حضرت علی سے روایات نقل کی ہیں۔ اس نے شام میں کربلا کے قیدیوں کے قافلے سے بھی زیارت کی اور شیعوں کے چوتھے امام سجاد کی مدد کی۔
 
وہ [[واقعہ غدیر]] کے ساتھ ساتھ کربلا اور اس کے بعد کے واقعات کے راوی ہیں۔ انہوں نے بازار شام میں کربلا کے قیدیوں کی آمد کے بارے میں بیان کیا:
میں [[بیت المقدس]] جا رہا تھا۔ جب میں [[شام]] کے قریب پہنچا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ شہر کو سجا رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا شامیوں کی آج کوئی عید ہے جس کے بارے میں میں نہیں جانتا؟ میں نے جواب سنا: اے بوڑھے! کیا آپ صحرا سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: میں سہل ابن سعد ہوں اور میں نے رسول خدا کو دیکھا ہے۔ کہنے لگے: یہ حیرت کی بات ہے کہ آسمان خون نہیں بہاتا اور زمین اپنے لوگوں کو نگلتی نہیں! میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہنے لگے: یہ نیزے پر جو سر ہے[[حسین بن علی]] نواسہ رسول کا سر ہے جو عراق سے تحفہ لائے ہیں! میں آگے بڑھا اور نیزوں پر سر دیکھے۔ ایک سر سب سے زیادہ پیغمبر اسلام سے ملتا جلتا تھا اور اس کے پیچھے عورتیں اونٹوں پر سوار تھیں۔ میں قریب گیا۔ میں نے پہلی خاتون سے پوچھا: وہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سکینہ ہوں، حسین کی بیٹی ہوں۔ میں نے کہا: میں سہل بن سعد ہوں، تیرے جد محمد کے ساتھیوں میں سے ہوں، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں اسے فراہم کروں گا! اس نے کہا: نیزوں پر سر اٹھانے والے سے کہو کہ آگے بڑھے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور ان کی نظریں پیغمبر کی آل و عترت پر نہ پڑیں! سہل کہتے ہیں: میں نیزہ بردار کے پاس گیا اور اسے کچھ رقم دی اور کہا: اپنا سر والا نیزہ عورتوں کے آگے رکھو۔ اور اس نے قبول کر لیا۔ <ref>شیخ عباس قمی، نفس المہموم، صفحہ 205</ref>
 
# [[عامر بن واثلہ]] آخری صحابی تھے۔
 
===== صحابیات =====
# [[زینب بنت علی]]
# [[ام کلثوم بنت علی]]
# ام امومنین [[ام سلمہ]] ہند بنت ابی امیہ
# [[اسما بنت ابی بکر]]
 
=== ساتھی تابعین ===
[[واقعہ کربلا]] میں [[واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے افراد|شہید ہونے والے تمام افراد]] یا صحابہ تھے یا تابعی تھے۔ [[صحابہ]] کے علاوہ دیگر تمام شہداء و اور اسراء [[تابعین]] میں سے تھے۔ بہت سے تابعین کربلا نہیں پہنچ سکے مگر بعد میں انہوں اس عظیم قیام کی حمایت یا پاسداری کی۔
====شہدائے کربلا و کوفہ====
[[بنو ہاشم]] کے 17 سے 42 افراد جو کربلا میں شہید ہوئے ان کے علاوہ دیگر غیر ہاشمی شہید ہونے والے افراد کے نام تواریخ میں ڈھونڈنے سے مندرجہ ذیل ملے ہیں۔
 
عاشورہ کے دن امام حسین کے اصحاب کی تعداد کے بارے میں تاریخی اطلاعات متضاد ہیں۔ بعض مورخین نے بتایا ہے کہ ان کی تعداد 89 تھی۔ [[یعقوبی]] نے بیان کیا کہ ان کی تعداد 62 یا 72 مرد تھی۔ اور [[ابن شہر آشوب]] نے بیان کیا کہ کربلا میں ان کی تعداد 82 مردوں کی تھی۔ اور ابن ابار البلنسی نے بیان کیا کہ وہ 70 افراد سے زیادہ تھے۔ کچھ کتابوں میں دیگر تعداد کا بھی ذکر ہے ، جیسے: 87 افراد ، 100 افراد ، 145 افراد ، اور ... دیگر۔ اقوال میں سےمشہور یہ ہے کہ وہ 72 شہید ہیں ، اس قول کی قدمت ، اس کے ذرائع کا معتبر ہونا، اور اس کی روایت کرنے والوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ قول ترجیح رکھتا ہے۔<ref>معہد سید الشہداء، [https://books.almaaref.org/view.php?id=420 نہضة عاشوراء]، جمعیة المعارف الإسلامیة الثقافیة، صفحة: 120-128. {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20200108224631/http://books.almaaref.org/view.php?id=420 |date=8 ینایر 2020}}</ref>
لیکن امام حسین کے شہید ساتھیوں کی جو تعداد [[زیارت ناحیہ مقدسہ]] اور پرانے منابع جیسا کہ رجال [[شیخ طوسی]] اور رجال طبری میں 82 ہے۔<ref>خلیل زامل العصامی، [http://ar.lib.eshia.ir/86691/1/46 تعریب موسوعة عاشوراء]، الجزء : 1 صفحة : 46. {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20190925122606/http://ar.lib.eshia.ir/86691/1/46 |date=25 سبتمبر 2019}}</ref>
<div class="references" style="-moz-column-count:3; column-count:3;">
# [[حبیب بن مظاہر اسدی]]
# [[اسلم ترکی|اسلم تركی مولى حسین بن علی]]
# [[انس بن حارث کاہلی]]
# [[انیس بن معقل اصبحی]]
#[[بریر بن خضیر ہمدانی]]
# [[بشیر بن عمرو حضرمی]]
# [[جابر بن حارث سلمانی]]
# [[جبلہ بن علی شیبانی]]
# [[جنادہ بن کعب انصاری]]
# [[عمرو بن جنادہ انصاری]]
# [[جندب بن حجیر خولانی]]
# [[جون بن حوی|جون مولى ابی ذر غفاری]]
# [[جوین بن مالک ضبعی]] تمیمی
# [[حجاج بن مسروق جعفی]]
# [[حر بن یزید ریاحی]]
# [[حلاس بن عمرو راسبی]] یا [[حلاس بن عمرو ازدی]]
# [[حجاج بن یزید سعدی]]
# [[حیان بن حارث ازدی]]
# [[نعمان بن عمرو ازدی|نعمان بن عمرو راسبی]]
# [[حنظلہ بن اسعد شبامی]]
# [[عمرو بن خالد|عمرو بن خالد ازدی]]
# [[خالد بن عمرو|خالد بن عمرو بن خالد ازدی]]
# [[زاہر مولی عمرو بن حمق]] خزاعی
# [[زہیر بن بشر خثعمی]]
# [[زہیر بن القین|زہیر بن القین البجلی]]
# [[زید بن معقل الجعفی]]
# [[سالم مولى بنی مدینہ]] كلبی
# [[سالم مولى عامر بن مسلم]] عبدی
# [[شوذب مولى شاكر|شوذب]] مولى عابس الشاكری
# [[قارب مولى حسین]]
# [[منجح مولى حسین]]
# [[سلیمان بن رزین]] مولى حسین
# [[سعد بن حنظلہ]] تمیمی
# [[سعید بن عبد اللہ حنفی]]
# [[سوار بن منعم حابس ہمدانی]]
# [[سوید بن عمرو بن ابی مطاع|سوید بن عمرو خثعمی]]
# سیف بن الحارث بن سریع الجابری
# مالك بن عبد اللہ بن سریع الجابری
# سیف بن مالك العبدی
# [[حبیب بن عبد اللہ النہشلی]]
# ضرغامة بن مالك التغلبی
# [[عابس بن أبی شبیب الشاكری]]
# [[عمار بن حسان الطائی]]
# عامر بن مسلم العبدی
# عبد الرحمن بن عبد اللہ الارحبی
# عبد الرحمن بن عبد ربہ الانصاری
# یزید بن ثبیط العبدی
# عبید اللہ بن یزید العبدی
# عبد اللہ بن یزید العبدی
# عبد الرحمن بن عبد اللّہ العبدی
# عمر بن جندب الحضرمی
# عمران بن كعب الأشجعی
# عمار بن أبی سلامة الہمدانی
# عمر بن خالد الصیداوی
# عمرو بن عبد اللہ الجندعی
# عمرو بن ضبیعة الضبعی
# عمرو بن قرظة الأنصاری
# [[أبو ثمامة الصائدی|عمر بن عبد اللّہ أبو ثمامة الصائدی]]
# عمرو بن المطاع الجعفی
# عمیر بن عبد اللہ المذحجی
# [[قاسط بن زہیر التغلبی]]
# [[كردوس بن زہیر التغلبی]]
# كنانة بن عتیق التغلبی
# [[القاسم بن حبیب الأزدی]]
# قرة بن أبی قرة الغفاری
# قعنب بن عمرو النمری
# مجمع بن عبد اللہ العائذی
# عائذ بن مجمع العائذی
# مسعود بن الحجاج التمیمی
# عبد الرحمن بن مسعود التمیمی
# [[عبد الرحمن بن عروة الغفاری]]
# [[عبد اللہ بن عروة الغفاری]]
# [[مسلم بن عوسجة|مسلم بن عوسجة الأسدی]]
# مسلم بن كثیر الأزدی
# [[نافع بن ہلال|نافع بن ہلال الجملی]]
# نعیم بن عجلان الأنصاری
# [[یحیى بن سلیم المازنی]]
# یزید بن حصین الہمدانی
# یزید بن زیاد الكندی
# [[عبد اللہ بن عمیر الكلبی]]
# أم وہب زوجة عبد اللہ ابن عمیر الكلبی
# سعید مولى عمر بن خالد الصیداوی
<ol style="list-style-type:square">
</div>
[[زیارت رجبیہ]] ، [[مناقب ابن شہر آشوب]]، [[مثیر الاحزان]] ، [[اللہوف علی قتلی الطفوف (کتاب)|اللہوف]] اور [[اعیان الشیعہ]] میں کچھ دیگار نام بھی ہیں۔<ref>الأمین، السید محسن، [http://ar.lib.eshia.ir/71735/1/607 أعیان الشیعة]، الجزء : 1 صفحة : 607. {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20190925130255/http://ar.lib.eshia.ir/71735/1/607 |date=25 سبتمبر 2019}}</ref> ان میں سے جو مشہور ہوئے وہ یہ ہیں۔<ref name="معجم">[https://almenbar.org/books/contentsimages/htmlfiles/mutoon/moojam_karbalaa/page/lesson2.htm#498 معجم كربلاء]، جمعیة المعارف الإسلامیة الثقافیة، صفحة: 142. {{Webarchive|url=https://web.archive.org/web/20191217023254/http://almenbar.org/books/contentsimages/htmlfiles/mutoon/moojam_karbalaa/page/lesson2.htm |date=17 دیسمبر 2019}}</ref>
<div class="references" style="-moz-column-count:3; column-count:3;">
# الحارث بن امرئ القیس الكندی
# أبو الحتوف بن الحارث الأنصاری
# الأدہم بن أمیة العبدی
# أمیة بن سعد الطائی
# الحارث بن نبہان مولى حمزة
# الحباب بن الحارث
# الحباب بن عامر الشعبی
# [[حبشی بن قیس النہمی]]
# رافع مولى مسلم الأزدی
# بكر بن حی التیمی
# جابر بن الحجاج التیمی
# زیاد بن عریب الصائدی
# سعد بن الحارث الأنصاری
# سعد مولى علی بن أبی طالب
# شبیب مولى الحارث الجابری
# عباد بن المہاجر الجہنی
# [[عبداللہ بن عفیف ازدی]]
# عبد اللہ بن بشر الخثعمی
# عقبة بن سمعان
# عقبة بن الصلت الجہنی
# عمار بن سلامة الدالانی
# محمد بن بشیر الحضرمی
# مقسط بن زہیر التغلبی
# نصر مولى علی
# واضح الرومی مولى الحارث السلمانی
# وہب بن حباب الكلبی
# یزید بن مغفل الجعفی
# زہیر بن سلیم الأزدی
# [[سلمان بن مضارب البجلی]]
# عبد اللہ بن أبی بكر
# نعمان بن عمرو
# الحجاج بن بدر السعدی
# مجمع بن زیاد الجہنی
# [[الہفہاف بن المہند الراسبی]]
# [[إبراہیم بن الحصین البارقی الأزدی]] <ref name="معجم" />
# جابر بن عروة الغفاری <ref name="معجم" />
# عبد الرحمن ابن عبد اللہ الیزنی <ref name="معجم" />
# حمّاد بن حمّاد الخزاعی المرادی <ref name="معجم" />
# [[حنظلة بن عمرو شیبانی|حنظلة بن عمرو الشیبانی]] <ref name="معجم" />
# مالك بن ذودان<ref name="معجم" />
<ol style="list-style-type:square">
</div>
 
====ابنائے صحابہ====
* [[امام سجاد]]
* [[امام محمد باقر]]
* [[مختار بن ابی عبیدہ ثقفی]]
* [[سلیم بن قیس]]
* [[کمیل ابن زیاد نخعی]]
 
== معتدل صحابہ و تابعین ==
 
=== خاموش صحابہ ===
# [[ابوسعید خدری]] 64 ھ وفات پائی۔
# [[اسماء بن حارثہ]] 66ھ وفات پائی۔
# [[انس بن مالک]] خادم نبی اکرم تھے۔ [[رحبہ]] کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی تھی۔یہ آخری بصری (اہل بصرہ) صحابی تھے۔ یزید نے امام حسین کے حسن پر بات کی انس نے ٹوکا اور کہا حسین رسول اکرم کے مشابہ ہیں۔ 93 ھ میں وفات پائی۔
# [[براء بن عازب]] رحبہ کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی تھی۔
# [[بریدہ بن حصیب]]۔[[مرو]] [[خراسان]] میں تھے۔62 ھ وفات ہوئی۔ یہ آخری خراسانی صحابی ہیں۔
# [[جبر بن عتیک]] بن قیس۔ جبیر بن عتیک بھی نقل ہوا ہے۔ آخری بدری صحابی ہیں۔ 61 ھ وفات ہوئی ہے۔<ref>أبو عبد الله‏:‏ شهد بدرًا والمشاهد كلها مع رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم وكانت معہ راية بني معاوية يوم الفتح‏۔وتوفي في هذہ السنة وهو ابن إحدى وسبعين سنة‏۔‏ 61 ھ</ref>
# [[رافع بن خدیج]] 73 ھ یا 74 ھ میں وفات پائی۔ جنگ صفین میں مولا علی کے ساتھ تھے۔
# [[ربیعہ بن کعب|ربيعہ بن كعب اسلمی]] 63 ھ میں وفات ہوئی۔
# [[زید بن ارقم]] سورہ منافقون میں ایک آیت ان کی تصدیق میں نازل ہوئی جب کسی نے انہیں جھوٹا کہا تھا۔ مولا علی کے ساتھ صفین میں تھے۔ابن زیاد کو [[راس الحسین]] پر چھڑی مارنے پر ٹوکا تھا۔ 68 ھ میں وفات پائی۔ رحبہ کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی تھی۔
# [[سائب بن یزید ہذلی]] 81 ھ وفات پائی۔
# [[صدی بن عجلان|ابو امامہ صدی بن عجلان بن وہب]] 86 ھ میں وفات ہوئی۔شام میں تھے۔اصحاب علی میں سے تھے۔
# [[عبد اللہ ابن زبیر]] یزید کو خلع خلافت کر کے مکہ میں خود خلافت قائم کی۔
# [[عبد اللہ بن عمر]] 72 ھ وفات پائی۔ مولا علی کی بیعت نہیں کی تھی مگر معاویہ، یزید اور حجاج کی بیعت کر لی تھی۔
# [[عبد اللہ بن حنظلہ]] مدینہ میں یزید کے خلاف قیام کیا اور [[واقعۂ حرہ]] میں لشکر یزید جس کی سربراہی [[مسلم بن عقبہ]] نے کی تھی کے حکم پر شہید ہوئے۔
# [[عبد اللہ بن عباس]] طائف جا کر چھپ گئے۔نابینا ہو گیے تھے۔
# [[عبد اللہ بن ابی اوفی]] خوارج کے خلاف مولا علی کے ساتھ تھے۔نابینا ہو گئے تھے۔86 ھ یا 87 ھ میں وفات پائی۔ آخری کوفی صحابی تھے۔
# [[عبداللہ بن یزید خطمی]] عاشورا کے علاوہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔
# [[عبداللہ بن بسر]] آخری شامی صحابی تھے۔ 88 ھ یا 96 ھ میں وفات پائی۔
# [[عبد اللہ بن حارث زبیدی]] یہ آخری مصری صحابی تھے۔ 86 ھ میں وفات ہوئی۔
# [[عبد اللہ بن عمرو بن العاص]] 64 ھ وفات ہوئی۔ نابینا ہو گیا تھا۔
# [[عبد المطلب بن ربیعة بن حارث]] شام میں تھے۔ موت سے پہلے اپنا وصی یزید کو بنایا تھا۔ 61 ھ وفات پائی۔
# [[عدی بن حاتم]] حاتم طائی کے بیٹے 67 ھ میں 120 سال کی عمر میں وفات پائی۔ عثمان کے خلاف تھے۔ مولا علی کے جاں نثار ساتھیوں میں سے تھے۔
# [[عروہ بارقی|عروہ بن جعد بارقی]] 61 ھ وفات پائی۔
# [[عمر بن ابی سلمہ]] ربیب نبی تھے۔ 83 ھ وفات پائی۔
# [[محمود بن ربیع]] ابو نعیم 99ھ وفات پائی۔
# [[مسلمہ بن مخلد الانصاری]] معاویہ کی طرف سے والی مصر تھا۔ 61 ھ
# [[مسور بن مخرمہ]] 64 ھ وفات پائی۔ معاویہ پر درود و سلام بھیجتا تھا۔
# [[معقل بن سنان]] اشجعی۔ [[واقعہ حرہ]]، میں یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
# [[ولید بن عقبہ]] قرآن نے اسے فاسق کہا ہے [[عثمان بن عفان]] کا ماں شریک بھائی تھا مولا علی کے خلاف جنگ لڑی۔ صفین کے پانچویں دن ابن عباس سے جنگ کی۔
# [[ہرماس بن زیاد باہلی]] 91ھ یمامہ میں وفات پائی یمامہ میں آخری صحابی تھے۔ ابوجدیر یا ابوحدیر کنیت تھی۔
 
=== خاموش تابعین ===
ہزاروں تابعی اس واقعے سے بے خبر تھے اور خاموش کہلائے لیکن یہاں خاموش سے مراد وہ ہیں جنہیں واقعہ کا علم ہوا اور خاموش رہے۔ یا کچھ نہ کر سکے۔
==== رشتہ دار ====
* [[محمد بن حنفیہ]]
* [[ہلال ابن علی|محمد ہلال بن علی]] بن ابی طالب
* [[عون بن علی]] بن ابی طالب دونوں بھائی [[طائف]] میں تھے کہ [[واقعہ کربلا]] کی خبر ملی تو ایران چلے گئے۔
 
==== ابنائے صحابہ ====
* [[مصعب بن زبیر]]
* [[عروہ بن زبیر]]۔ <ref>عبداللہ بن حسن کا بیان ہے کہ علی بن حسین (زین العابدین) اور عروہ روزانہ بعد عشاء مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں بیٹھتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، ایک دن گفتگو میں بنی اُمیہ کے مظالم کا تذکرہ آیا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جب کسی میں ان مظالم کو روکنے کی طاقت نہیں ہے تو ان ظالموں کے ساتھ رہنا کہاں تک مناسب ہے، خدا ان مظالم کی سزا میں ایک نہ ایک دن ان پر عذاب نازل کرے گا، عروہ نے علی بن حسین سے کہا کہ جو شخص ظالموں سے علیحدہ رہے گا اور خدا اُس کی بیزاری سے واقف ہوگا، تو امید ہے کہ جب خدا اُن کو کسی مصیبت میں مبتلا کرےگا تو ظالموں سے علیحدہ رہنے والا شخص خواہ ان سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہواس مصیبت سے محفوظ رہے گا، اس گفتگو کے بعد عروہ مدینہ چھوڑ کر عقیق چلے گئے، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ان کی مسجدیں لہو ولعب اوران کے بازار لغویات کا گہوارہ ہیں اوران کے راستوں میں بے حیائی کی گرم بازاری ہے۔ (مختصر صفوۃ الصفوہ:32)</ref>
 
* [[ام سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف]] و دیگر ابنائے آن
 
==== دیگران ====
* [[ربيع بن خثيم]] تابعی تھے۔<ref>روى الربيع عن عبد اللہ۔ قال هُبيرة بن حَزِيمة: لما قُتل الحُسين أتيتُ الربيع بن خثيم، فأخبرتہ، فقرأ هذہ الآية: {الَّلهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَاْلأرْضِ عَالِمَ اْلغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ} [سورة الزمر: 46]۔ ومات الربيع بن خثيم بالكوفة في ولاية عبيد اللہ بن زياد عليها۔</ref> شیعہ روایات کے مطابق مشہد میں دفن خواجہ ربیع یہی ہیں اور [[فضل بن شاذان]] کے بقول [[زہاد ثمانیہ]] میں سے تھے۔خبر کربلا پر صرف استرجاع (انا لللہ) پڑھا اور بعد میں اس پر بھی توبہ کی۔
 
== مخالف صحابہ و تابعین ==
اہل تشیع کے مطابق یہ سب صحابہ یا تابعی کی تعریف پر پورے نہیں اترتے اور جہنمی ہیں اگر [[عبد اللہ بن خطل]] کی طرح خانہ کعبہ سے لپٹ کر بھی معافی مانگیں توان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔اہل سنت کی اکثریت بھی یزید اور اس کے ماننے والوں کو صحابی یا تابعی نہیں کہتے بلکہ تابعی صرف اس کو کہتے ہیں جو صحابہ کی پیروی کرے۔انہیں صحابی و تابعی بعض یزیدی سوچ کے اہل سنت کے نظریے کے مطابق لکھا گیا ہے۔
=== دشمن صحابہ ===
* [[نعمان بن بشیر]] کوفہ کا حاکم رہا [[مختار ثقفی]] کا سسر تھا عمرہ بنت نعمان مختار کی بیوہ کو [[مصعب بن زبیر]] نے مختار کے بعد قتل کر دیا تھا۔
* [[ضحاک بن قيس الفہری]] دشمن علی تھا۔ معاویہ کا جنازہ پڑھایا اور یزید کا ساتھ دیا۔
 
=== دشمن تابعین ===
* [[ہشام بن ہبیرہ]] الضبی بصرہ میں قاضی تھا۔
* [[قاضی شریح بن حارث]] بن قیس بن جہم، قاضی شریح کوفہ میں قاضی تھا اس وقت۔
* [[مروان بن حکم]] حضور (ص) نے اس کو اور اس کے بیٹے مروان کو اس وجہ سے شہر بدر کر دیا تھا کہ وہ اپنی محفلوں میں ان کی نقلیں اتارتے تھے۔ [[عثمان بن عفان|حضرت عثمان]] نے اسے اور مروان کو واپس بلا لیا تھا۔<ref>خلافت و ملوکیت۔ مولانا مودودی</ref> حضرت عثمان نے حکم کے بیٹے مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ حضرت عثمان کو اس پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے مہر [[خلافت]] بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ جب آپ کے خلاف لوگوں نے اسی مروان کی وجہ سے شورش پیدا کی تو حاکم مصر کے نام منسوب خط وغیرہ کی جعلسازی کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ شہادت عثمان کے بعد [[مدینہ منورہ|مدینہ]] چھوڑ کر بھاگ نکلا اور [[معاویہ بن ابو سفیان]] کے ساتھ ہو گیا۔[[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] میں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] کے خلاف لڑا۔ [[طلحہ بن عبید اللہ|طلحہ]] کی موت بھی اس کے ہاتھوں ہوئی جو اسی کی فوج کے سربراہ تھے اور معزول گورنر شام [[معاویہ بن ابو سفیان]] کی طرف سے خلیفہ مسلمین امیر المومنین [[علی ابن ابی طالب]] سے لڑ رہے تھے۔ امیر معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔[[یزید بن عبدالملک|یزید]] کی موت کے وقت یہ مدینہ ہی میں مقیم تھا۔ جبیر ابن مطعم سے روایت ہے کہ ہم لوگ پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ادھر سے حکم (مروان کا باپ) گذرا۔ اسے دیکھ کر رسول اکرم {{درود}} نے فرمایا کہ اس کے صلب میں جو بچہ ہے اس سے میری امت عذاب اور پریشانی میں مبتلا ہوگی۔<ref>الآصابہ جلد 1 صفحہ 340</ref>
حضرت عبد الرحمان بن عوف سے روایت ہے کہ جب مروان پیدا ہوا تو مدینہ کے اس وقت کے رواج کے مطابق اسے حضور {{درود}} کی خدمت میں لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ملعون ابن ملعون ہے۔۔۔<ref>صواعق المحرقہ صفحہ 108</ref> ابن سعد کے مطابق یہ صحابی نہیں تھا اور اور اس کی پیدائش کےبعد اس کے باپ حکم کو نبی پاک کی نقلیں اتارنے پر مدینہ بدر کر دیا گیا تھا اور حکم اپنی فیملی کو لے کر طائف چلا گیا اوراس کا سارا بچپن اور جوانی طائف میں گزری ہے۔ عہد عثمانی مدینہ پلٹا ہے۔
* [[عمرو بن حریث]] تابعی تھا [[حجر بن عدی]]، [[مسلم بن عقیل]] اور [[میثم تمار]] کی شہادت میں اس کا ہاتھ تھا۔اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے۔<ref>وقال ابن حجر العسقلاني: الصحبة مختلف فيها، وقد قالہ صالح بن أحمد بن حَنْبل في "المسائل"، قلت: لأبي عمرو بن حُريث الكوفي، هو الذي يحدِّثُ عنہ أهل الشام؟ قال: "لا، هو غيرہ"، وأخرج أَبُو يَعْلَى عن عمرو بن حُريث، قال: إنّ رسولَ اللہ صَلَّى اللہ عليہ وسلم قال: "ما خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمَكَ مِنْ عَمَلِهِ كَانَ لَكَ أَجْرًا فِي مَوَازِينِكَ"(*)، ومقتضاہ أن يكونَ لعمرو صحبة، وقد أنكر ذلك البخاري، فقال: "عمرو بن حُريث روَى عنہ حُميد بن هانئ مرسلًا، وروى ابْنُ وهب بإسنادہ إلى عَمرو بن حريث، سمع أبا هريرة"، وقال ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، عن أبيہ: حديثہ مرسل، وقال ابن أبي خيثمة، عن ابن معين: تابعي، وحديثہ مرسل، واللہ أعلم، وأخرج ابْنُ المُبَارَكِ في "الزُّهْدِ" عَن حَيْوَة بن شريح، عن أبي هانئ: سمعت عَمرو بن حريث وغيرہ يقولان: إنما نزلت هذہ الآية في أهل الصُّفَّة: {وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ} [الشورى/ 27]؛ وذلك أنهم قالوا: لو أنَّ لنا الدنيا؟ فتمنَّوْا الدنيا، فنزلت، وقال ابْنُ صَاعِدٍ ــ عقب روايتہ في كتاب "الزهد": عَمْرو هذا من أهل مِصْر ليست لہ صحبة، وهو غَيْرُ المخزومي۔</ref>
* [[شبث بن ربعی]] بہت سی کتابوں میں اس کا ذکر ہے:
 
وہ [[سجاح بنت حارث]] کا موذن تھا، جو اس کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا، اور پھر توبہ کی۔
وہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کیا اور پھر توبہ کی۔
وہ معاویہ سے لڑتے ہوئے علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو گیا۔
وہ علی بن ابی طالب کے خارجیوں کے ساتھ نکلا اور پھر واپس آگیا۔
امام حسین نے اسے [[شبث بن ربعی]]، [[حجار بن ابجر]] اور [[قیس بن اشعث]] و دیگر کو خطاب کر کے کہا کہ تم لوگوں نے مجھے خط لکھا تھا۔
وہ اس فوج میں تھا جسے عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین سے لڑنے کے لیے بھیجا تھا، چنانچہ انہوں نے حسین کو قتل کر دیا۔
وہ مختار بن ابی عبید الثقفی کا پیروکار بن گیا اور پھر پیچھے ہٹ گیا۔
وہ بعد میں مختار الثقفی سے لڑنے والوں میں سے ایک بن گیا۔
[[مصعب بن زبیر]] کے ساتھ مل کر مختار الثقفی کا مقابلہ کیا۔
 
==== ابنائے صحابہ ====
{{ستون آ|4}}
* [[یزید بن معاویہ]]
* [[عمر بن سعد]]
* [[عبیداللہ بن زیاد]]
* [[شمر بن ذی الجوشن]]
* [[حرملہ بن كاهل|حرملہ بن كاہل]]
* [[حصین بن نمیر]]
* [[مسلم بن عقبہ]]
{{ستون خ|}}
 
==== قاتلین شہدائے کربلا ====
{{ستون آ|5}}
# ابو الجنوب عبدالرحمن‌ بن زیاد جعفی
# ابو زرعہ
# ابو مرہم ازدی
# اخنس‌ بن‌ مرثد بن علقمہ حضرمی
# ازرق‌ بن‌ حرث‌ صیداوی
# اسحق‌ بن‌ حیوہ حضرمی
# اسماء بن خارجہ فزاری
# اسود بن‌ خالد
# اسید بن ‌مالک حضرمی
# ایوب‌ بن‌ مشرح خیوانی
# بجدل‌ بن‌ سلیم‌ کلبی
# بحر بن‌ کعب‌ تمیمی
# بدیل‌ بن‌ صریم‌ تمیمی
# بشر بن حویط قانصی
# بشر بن خوط ہمدانی
# بشر بن سوط ہمدانی
# بکیر بن حمران احمری
# حجار بن‌ ابجر عجلی
# حرملہ بن کاہل اسدی
# حسان‌ بن بکر حنظلی
# حصین‌ بن نمیر تمیمی
# حصین‌ بن‌ تمیم تمیمی
# حفص بن عمر بن سعد
# حمل‌ بن مالک محاربی
# حمید بن مسلم ازدی
# حکیم‌ بن‌ طفیل‌ سنبسی
# خالد بن طلحہ
# خولی‌ بن یزید اصبحی
# درید
# رجاء بن‌ منقذ عبدی
# رحیل‌ بن‌ خیثمہ
# رستم غلام شمر بن ذی‌ الجوشن
# زبیر بن اروج تمیمی
# زبیر بن‌ قرظہ بن کعب انصاری
# زحر بن بدر نخعی
# زحر بن‌ قیس جعفی
# زرعہ بن شریک تمیمی
# زیاد بن مالک ضبعی
# زید بن دفاف
# زید بن‌ رقاد جنبی
# سالم بن‌ خثیمہ‌ جعفی
# سرجون
# سنان‌ بن انس نخعی
# شبث‌ بن ربعی تمیمی یربوعی ریاحی
# شرحبیل‌ بن ذی‌ الکلاع حمیری
# شریح قاضى
# شمر بن ذی الجوشن
# صالح بن سیار
# صالح‌ بن وہب یزنی
# عامر بن صعصعہ
# عامر بن‌ نہشل‌ تمیمی
# عبدالرحمن بن صلخت
# عبدالرحمن‌ بن ابی‌ ا‌سبرہ جعفی
# عبدالرحمن‌ بن ابی‌ خشکارہ بجلی
# عبداللہ بجلی
# عبداللہ بن اسید جہنی
# عبداللہ بن حصین ازدی
# عبداللہ بن حوزہ
# عبداللہ بن زہیر بن سلیم ازدی
# عبداللہ بن صلخت
# عبداللہ بن عقبہ غنوی
# عبداللہ بن قیس خولانی
# عبداللہ بن‌ حوزہ
# عبداللہ بن‌ قطبہ طایی
# ‌‌عبداللہ بن وہب ہمدانی
# عبید اللہ بن زیاد
# عثمان بن‌ خالد جہنی
# عروہ بن بکار تغلبی
# عروہ بن عبداللہ خثعمی
# عزرہ بن‌ قیس احمسی
# عمر بن خالد بن اسد جہنی
# عمر بن سعد
# عمران‌ بن خالد قشیری
# عمرو بن سعد بن نفیل ازدی
# عمرو بن سعید بن عاص
# عمرو بن طلحہ جعفی
# عمرو بن‌ حجاج‌ زبیدی
# عمرو بن‌ صبیح‌ صیداوی
# عیہمہ بن زہیر
# فلافس‌ نہشلی
# قشعم بن عمرو جعفی
# قعقاع‌ بن‌ شور ذہلی
# قیس بن عبداللہ صائدی
# قیس‌ بن اشعث
# کثیر بن عبداللہ شعبی
# کثیر بن‌ شہاب‌ بن حصین مذحجی
# کعب‌ بن جابر بن عمرو ازدی
# کعب‌ بن طلحہ
# لقیط‌ بن ناشر جہنی
# مالک بن نسیر کندی
# مالک‌ بن بشیر البدی
# محفر بن ثعلبہ عائذی
# محمد بن اشعث
# مرہ بن‌ منقذ بن نعمان عبدی
# مروان بن حکم
# مسروق بن وائل حضرمى
# مسعود بن خالد
# مسلم‌ بن عبداللہ ضبابی
# مضایر بن رہینہ مازنی
# مہاجر بن‌ اوس تمیمی
# نصر بن حرثہ
# ہانی ‌بن‌ ثبیت ‌حضرمی
# ہانی‌ بن ابی‌ حیہ ہمدانی
# ہلال بن نافع
# ہلال‌ بن اعور
# واحظ‌ بن‌ ناعم
# ولید بن عمرو
# یزید بن حارث‌ بن رویم شیبانی
# یزید بن رکاب کلبی
# یزید بن معقل بن عمیر بن ربیعہ
# یسار غلام‌ زیاد بن ابی‌سفیان
‌{{ستون خ}}
==== دیگران ====
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|}}
 
 
 
==تحقیقی دستاویز==